(گذشتہ سے پیوستہ)
دین کے جس پیغام کو ہم نے اوپر بیان کیا ہے وہ انسانوں میں اضطراب پیدا کرتا ہے۔ وہ ان کو غفلت کی گہری نیند سے بیدار کرتا اور سطحی اور عارضی مسائل سے اٹھاکر ایک ختم نہ ہونے والے مسئلے سے خبردار کرتا ہے۔پھر اس کے بعد انہیں وہ راستہ بتاتا ہے جو نہ صرف آخرت کے مسئلے سے انسان کو نجات دلانے والا ہے بلکہ دنیا کے ہر مسئلے کا حل بھی ہے۔ یہ راستہ پروردگار عالم کی بندگی کا راستہ ہے۔قرآن کے مطابق اس دنیا میں انسان کا مقصدِ تخلیق خدا کی بندگی ہے، (ذاریات 56:51)۔یہی ہر پیغمبر کی دعوت بھی رہی ہے،(آل عمران79:3،نحل36:16)۔ یہی وہ راستہ ہے جو دنیا و آخرت کے ہر مسئلے کا حل ہے۔
بندگی کی یہ دعوت جب خارج میں اپنا ظہور کرتی ہے تو وہ دینِ کامل جنم لیتا ہے جس کا نام اسلام ہے۔ اس دین کو پورے شعور کے ساتھ اختیار کرنے سے ایک خاص قسم کا انسان جنم لیتا ہے۔ ذیل میں ہم اس بندۂ مومن کے خدو خال بیان کررہے ہیں جو بندگی کی اس دعوت سے پیدا ہوتا ہے۔اس کے بعد ہم یہ بتائیں گے کہ بندگی کی یہ دعوت کس طرح انسان کے روحانی، عقلی اور جذباتی مسائل کو حل کرتی ہے اور آخر میں ہم عملی تربیت کا وہ نظام بیان کریں گے جو حقیقی بندۂ مومن کو جنم دے کر اس کے لیے اخروی کامیابی اور دنیوی سکون کا راستہ کھول دیتا ہے اور جس کا قائم کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔
قرآن کریم اور سیرت طیبہ کے مطالعے سے ہمیںیہ معلوم ہوسکتاہے کہ دین کی دعوت کس طرح کے انسان پیدا کرنا چاہتی ہے۔اس انسان کی بنیادی صفات درج ذیل ہیں۔
اس دنیا کی ہر دعوت لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ان کے اندرونی وجود کو اپیل کرتی ہے اورپھر اسی طرح کے لوگ اس کے ساتھ آتے ہیں۔یہ اپیل جذبات، تعصبات، خواہشات ، معقولیت وغیرہ میں سے کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے۔دعوت کی بنیاد اگر جذبات و تعصبات ہے تو اس کے گرد جذباتی اور متعصب لوگ ہی جمع ہوتے ہیں اور پھر یہ دعوت ان کا تعصب بڑھاتی چلی جاتی ہے۔ اسلام اپنی بنیاد عقل و بصیرت پر رکھتا ہے، اس کو قبول کرنے والے لوگ بھی ایسے ہی ہوتے ہیں اور ان کی یہی صلاحیت پھر بڑھتی چلی جاتی ہے۔یہ بات دین کے اعتبار سے بنیادی نہیں، لیکن ہم اس چیز کو آغاز میں اور تفصیل کے ساتھ اس لیے بیان کررہے ہیں کہ ہماری آج کی مذہبی دعوت، حکمت و بصیرت دونوں سے عاری ہے اور اس کے پیدا کردہ مذہبی لوگ جذبات و تعصبات کا نمونہ ہیں۔
حکمت عقل کا ثمرہ اور بصیرت انسان کے فہم کی طاقت کا اظہار ہے۔عقل و فہم انسان کا سب سے بنیادی وصف ہے جس کی بنا پرانسان قرآنِ کریم کا مخاطب ہونے کامستحق قرار پاتا ہے۔اسی صلاحیت کی بنیاد پر انسان حواس کے دائرے سے باہرکی چیزوں کو سمجھنے کی منفرد صلاحیت اور جذبات و خواہشات سے بلند ہوکر حقیقت کا ادراک کرنے کا غیر معمولی ملکہ رکھتا ہے۔ اسی عقل کی بنیاد پر انسان اس دھرتی کے تمام جانداروں سے قوت و طاقت میں کم ہونے کے باجود زمین کا حکمران ہے۔ اسی کی بنیاد پر اس نے پتھر سے تمدن کو جنم دیا اور بحر و بر کو مسخر کرلیا ہے۔انسان روز اپنے گھر، دفتر اور کاروبار کے معاملات صرف اسی عقل کی بنیاد پر بہترین طریقے سے چلاتے ہیں۔ مسائل کو حل کرنے کی جتنی صلاحیت عقل میں ہے کسی اور ذریعہ میں نہیں۔
اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں انسا ن کے اسی شرف کو بنیاد بناکر اس سے کلام کرتے ہیں۔ بلکہ قرآن کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ توحید و آخرت کی دعوت کو ثابت کرنے کے لیے ان کے تما م تر دلائل عقلی ہوتے ہیں۔ وہ اس سطح پر آکر انسانوں سے گفتگو کرتے ہیں جس سطح سے ایک انسان دوسرے انسان کو بات سمجھاتا ہے۔ جو لوگ قرآن کریم کی بات نہیں مانتے، قرآن ان کے بارے میں بار بار یہ کہتا ہے کہ یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، سوچتے نہیں، دلائل پر غورنہیں کرتے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ شعوری طور پر قرآن کریم کی بنیاد پر دین سمجھتے ہیں یا وہ جذبات اور خواہشات سے بلند ہوکر خالص عقلی بنیادوں پر معاملات کو دیکھنے کی استعداد رکھتے ہیں، قرآن کریم ان کی اس استعداد کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ یہ عقلی استعداد دو پہلوؤں سے ان کی مددگار بن جاتی ہے۔ ایک یہ کہ ان کی یہ عقلی صلاحیت انہیں خدا کے قرب اور معرفت کی نت نئی بلندیوں سے نوازتی ہے۔ وہ انفس و آفاق اور اپنے احوال پر لمحہ لمحہ غور کرکے خدا کی عظمت اور اس کی عنایات کے نت نئے نشان تلاش کرلیتے ہیں۔دوسری طرف وہ دنیوی مسائل کے حل میں اس عقل کا بہترین استعمال کرکے اپنے دنیوی معاملات کو بہت بہتر بنالیتے ہیں۔ ان کی عقل زندگی کے ہر مسئلے کا ایک ایسا حل فراہم کرتی ہے جو بیشتر حالات میں بہت موثر ہوتا ہے۔جب اجتماعی طور پر یہ سوچ بروئے کار آتی ہے تو ایسے انسان بحر و بر کومسخر کرلیتے ہیں۔
سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں باتوں کا بہترین نمونہ ہے۔ آپ کی دعائیں اور اذکار یہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صبح و شام ، لمحہ بہ لمحہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کی کیسی اعلیٰ جہتیں تلاش کرلیتے تھے اور پھر کس طرح وہ حضور کے بے مثل الفاظ میں ڈھل جاتی تھیں۔اسی طرح عملی زندگی میں حضور نے حکمت اور دانائی کا استعمال کرکے پورے عرب کوفتح کرلیا۔اس کی بہت کچھ تفصیل سیر ت کی کتابوں میں ملتی ہے، جو یہ بتاتی ہے کہ حضور کی اپنی ذات عقل و فہم کے اعتبار سے ایک معجزہ بن چکی تھی جس کا کوئی جواب حضور کے مخالفین کے پاس نہیں رہا تھا۔ ہم اختصار کے پیش نظر حالت جنگ اور حالت امن کی ایک ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کریں گے۔
جنگِ احزاب کے موقع پر قریش نے پورے عرب کی طاقت کو جمع کیا اورکم و بیش دس ہزار (بعض روایا ت کے مطابق چوبیس ہزار )کا ناقابل شکست لشکر لے کر مدینے پر حملہ آور ہوئے۔ کھلے میدان میں اس لشکر کا مقابلہ ناممکن تھا۔ حضور نے اس موقع پر حضرت سلمان فارسی کا مشورہ قبول کیا۔چنانچہ مدینے کے دفاع کے لیے ایک بڑی خندق کھودی گئی ۔یہ چیز اہل عرب کے لیے قطعی نامانوس تھی۔چنانچہ ان کی عددی اکثریت قطعاً غیر موثر ہوگئی اور آخر کار انہیں نامراد ہوکر لوٹنا پڑا۔
حالت امن میں اس صلاحیت کی ایک مثال حضور کی شادیاں ہیں۔ بحیثیت رسول یہ مقدر تھا کہ عرب پر حضور کا غلبہ ہوجائے۔ یہ غلبہ اگر قتل و غارت گری کے بعد ہوتا تواہل عرب کی نفسیات میں اسلام کی محبت پیدا ہوتی اور نہ وہ اسلام کے دست و بازو بنتے۔چنانچہ حضورنے شادیوں کا وہ راستہ اختیار کیا جو عرب کے حالات میں بہت موثر طریقہ تھا۔عرب ایک قبائلی سماج تھا۔ قبائلی زندگی میں رشتہ داریاں نصرت و حمایت کی سب سے بڑی وجہ تھیں۔خاص کر داماد اور سسرالی رشتہ کا احترام وہاں کی روایات میں واجب تھا۔چنانچہ حضور نے کئی اہم قبیلوں کے سرداروں کی بیٹیوں سے شادی کی ۔ان خواتین میں قریش کے سردار ابوسفیان کی بیٹی حضرت ام حبیبہ ، قبیلۂ بنی مصطلق کے سردار کی بیٹی حضرت جویریہ،خیبر کے یہودیوں کے سردار کی بیٹی حضرت صفیہ اور قریش کے سردار حضرت عباس کی سالی حضرت میمونہ جو خود بھی بڑے خاندان سے تھیں، قابل ذکر ہیں۔اس طریقے نے اسلام کے بدترین دشمنوں کو بغیر جنگ اسلام کا حمایتی بنادیا۔
قرآن کریم کا مرکزی خیال خالقِ کائنات کو انسان سے متعارف کرانا ہے۔ یہ کام قرآن کریم پروردگار کی صفات کے بیان سے کرتا ہے۔پھر اس کے ساتھ قرآن کریم انفس و آفاق کی نشانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ ایک معقول انسان جیسے ہی ان صفات اور نشانیوں پر غور کرتا ہے ، اس کا پورا وجود خدا کی عظمت کے احساس میں ڈوب جاتا ہے۔اس کے بعد اس کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ انسانوں کی عظمت میں جیے، ان کے کے ترانے پڑھے اور ان کی حمد کے نغمے گائے۔
بندۂ مومن کی زندگی کا مقصود خدا کی یاد میں جینا ہوتا ہے۔اس کے سارے جذبات کا رخ اصل میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے۔ ہر خوشی و نعمت میں رب کی حمد کرتا اور ہر مصیبت کے موقع پر اس سے رجوع کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ خدا خدا ہے، بت نہیں ہے۔قرآن کے اپنے الفاظ میں اسے پکارنا کنویں پر کھڑے ہوکر پانی کو آواز لگانا نہیں ہے ۔ کنواں اپنا پانی خود لوگوں کو نہیں دے سکتا۔ مگرخدا، جس کے ہاتھ میں سارا نفع و نقصان ہے، ایک زندہ ہستی ہے۔جس طرح ایک انسان دوسرے کی بات سن کر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے ،اسی طرح خدا بندے کی بات کا جواب دیتا ہے۔اس پر اپنی بہترین رحمتیں اور عنایتیں نازل کرتا ہے۔ اسے بندۂ مومن کی زندگی میں اپنے ظہور کے لیے قیامت کے انتظار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ حالات و اسباب کی شکل میں اپنا ظہور کرتا ہے اور بندے کو ہر لمحہ اپنی موجودگی اور اپنی مدد و نصرت کا احساس دلاتا ہے۔
اس کا نتیجہ بالکل ظاہر ہے بندۂ مومن کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا غم نہیںآسکتا جو اسے توڑ ڈالے، اس کی زندگی میں کوئی مایوسی نہیں آسکتی، کوئی حزن نہیں آسکتا، کوئی پچھتاوا نہیں آسکتا، کوئی جذباتی بحران نہیں آسکتا۔ اوراس کی زندگی سراپا سکون و اطمینان بن جاتی ہے۔
بندۂ مومن یہ بات جانتا ہے کہ اصل زندگی یہ نہیں جو ابھی موجود ہے۔یہ تو امتحان ہے۔ اصل زندگی تو موت کے بعد آنے والی آخرت میں شروع ہوگی۔اس کے بعد بندۂ مومن کا وجود سراپا اضطراب بن جاتا ہے کہ اسے آخرت میں کامیابی حاصل کرنی ہے۔ وہ غفلت و بے نیازی کے بجائے احتساب کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔وہ رب کی اطاعت کا راستہ اختیار کرتا ، خیر و شر کے تقاضوں کو پورا کرتا اور دنیا کے اچھے برے حالات میں کبھی اعتدال و توازن نہیں کھوتا ہے۔ اس کا اصل کنسرن اور مقصد دنیا کا کھونا اور پانا نہیں بلکہ آخرت کا کھونا اور پانا ہوتا ہے۔ وہ جنت کے خیالوں میں جیتا اور جہنم کے اندیشے سے لرزتا ہے۔ ایسے انسان کا سکون نہ دنیا کا دکھ درد چھین سکتا ہے اور نہ اس کی ذات سے دوسرے انسانو ں کو کسی ظلم و زیادتی کا اندیشہ ہوتا ہے۔
دین کی اصل اور بے آمیز دعوت بندۂ مومن پر یہ حقیقت بالکل واضح کردیتی ہے کہ بندۂ مومن کا امتحان اصل میں اخلاقی میدان میں ہورہا ہے۔ اسے اپنے اندر کے خیر و شر کے شعور کو کبھی مردہ نہیں ہونے دینا، اس کی صدا کو سننا ہے اور اپنے جذبات، خواہشات، مفادات اور تعصبات کو اس کے تابع کرنا ہے۔ یہ چونکہ بے حد مشکل امتحان ہے اور انسان بار بار پھسلتا ہے اس لیے قرآنِ کریم بھی ان اخلاقی مطالبات کو انداز بدل بدل کر دہراتا ہے۔ یہ اخلاقی رویے جس معاشرے میں عام ہوجائیں وہ معاشرہ دھرتی پر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے۔ایساہی ایک معاشرہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کیا تھاجہاں بہترین اخلاق کے لوگوں نے کمترین وسائل کے ساتھ ایک فلاحی انسانی معاشرے کا بہترین نمونہ قائم کیا تھا۔
مندرجہ بالا چاروں صفات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بندۂ مومن کی شخصیت ہر لمحہ اور ہر روز ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ وہ ہر دن خدا سے تعلق کی کوئی نئی جہت دریافت کرتا،اس پر اپنے اعتماد میں اضافہ کرتا، اپنی اخلاقی کمزوری کو دور کرتا، اپنے عمل کو بہتر بناتا اور اپنی شخصیت میں پختہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ یہ پختگی زندگی کے ہر مسئلے کو حل کردیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات دیگر پہلوؤں کی طرح اس اعتبار سے بھی ایک بہترین نمونہ ہے۔ غزوۂ حنین کے موقع پر آپ کی شخصی مضبوطی کے جو مظاہر سامنے آئے ا ن کی نظیر ملنا بہت مشکل ہے۔ اس جنگ میں پہلی دفعہ مسلمانوں کا لشکر بارہ ہزار کی ایک بہت بڑی تعداد میں تھا۔مگر مسلمانوں کا یہ عظیم لشکر دشمنوں کی اچانک تیر اندازی سے منتشر ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں چند لوگوں کے ہمراہ تنہا رہ گئے۔دشمنوں کے نرغے میں ہونے باجود آپ گھبرائے بغیر میدان میں کھڑے رہے اوررجزیہ اشعار پڑھ کر مسلمانوں کو اپنی طرف بلاتے رہے۔آپ کے پکارنے پر مسلمان لوٹے اور جنگ کا نقشہ بدل گیا۔
اس سے زیادہ بڑا واقعہ یہ ہوا کہ اس جنگ کے بعد جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو آپ نے مکہ کے نو مسلموں کو تالیفِ قلب کے لیے بہت کچھ مال دیا۔ جس پر کچھ انصار ناراض ہوگئے۔ اس موقع پر آپ نے انصار کو اکٹھا کرکے جو تقریرکی اس سے زیادہ موثر تقریر شاید کبھی کسی لیڈر نے نہیں کی ہوگی۔اس تقریر میں آپ نے پہلے انصار کو اپنے احسان یاد دلائے ۔ ہر احسان کے جواب میں انہوں نے آپ کی تصدیق کی۔ پھرآپ نے فرمایا کہ نہیں اے انصار تم کہہ سکتے ہو کہ ساری دنیا نے تم کو جھٹلایا ہم نے تمھاری تصدیق کی، سب نے تمھیں چھوڑدیا ہم نے پناہ دی، تم محتاج تھے ہم نے تمھاری مدد کی ۔ تم یہ کہو تو میں تمھاری سب باتوں کی تصدیق کروں گا۔لیکن دیکھو میں نے یہ بھیڑ بکریاں نئے ایمان لانے والوں کو ان کے حق کے طو رپر نہیں، بلکہ تالیفِ قلب کے لیے دی ہیں ۔ کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ لوگ بھیڑ بکریاں لے جائیں اور تم محمد کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔یہ الفاظ سنتے ہی انصار رو پڑے اور روتے روتے ان کی داڑھیاں تر ہوگئیں۔ یو ں دلوں میں دوریاں پیدا کرنے والا ایک مسئلہ محبت میں اضافے کے ساتھ ختم ہوگیا۔
اپنے اور غیروں کے ساتھ زندگی کے ہر معاملے میں یہی مضبوط شخصیت ہر مسئلے اور مشکل کو حل کرتی اور ہر صورت حال سے نکلنے کا ایک راستہ دیتی ہے۔
بندگی کی آسمانی دعوت جس بندۂ مومن کو پیدا کرتی ہے ، اس کی مطلوب صفات کو سمجھنے لینے کے بعد یہ جاننا بھی اہم ہے کہ بندگی کی یہ دعوت کس طرح اس انسانی شخصیت پر اثر کرتی ہے جس کا تجزیہ ہم شروع میں کرچکے ہیں۔انسانی شخصیت کی اُس بحث میں ہم نے یہ بیان کیا تھا کہ انسان کا اصل وجود اس کاوہ نفسی یا روحانی وجود ہے جو خدا کی اپنی پھونکی ہوئی روح سے پیدا ہوا ہے، (ص 72:38،سجدہ9:32)۔ اس پھونک کے نتیجے میں انسان کا وجود قرب الٰہی کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔ لیکن دنیا میں آنے کے بعدیہ مہک حیوانی وجود کی کثافت سے اس طرح مغلوب ہوجاتی ہے کہ انسان اس خوشبو کی یاد بھول جاتا ہے۔مگر جیسے ہی اسلام کی دعوتِ عبادتِ رب سامنے آتی ہے انسان کے قلب میں جاگزیں پرانی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔انسانی عقل اور ارادہ مفادات، تعصبات اور خواہشات کے ڈھیر کو پرے ہٹانے میں کامیاب ہوجائے تو انسان کبھی دھوکہ نہیں کھاسکتا کہ جس بوئے معطر سے اس کا وجود روز ازل مہکا تھا، وہی خوشبو آج پھر اس کے قریب مہک رہی ہے۔ روح انسان پر اس کا یہی وہ اثر ہے جس کے نتیجے میں دل اللہ کی یاد سے سکون و اطمینان پاتے ہیں، (رعد28:13)۔ اور جس کے بعد انسان ساری زندگی قرب خداوندی کی روحانی مہک کے سہار ے گزاردیتا ہے۔
اسلام معروف معنو ں میں کوئی روحانی مذہب نہیں۔یہ گرچہ انسا ن کے روحانی تقاضوں کی مکمل اور بھرپور تسکین کرتا ہے، مگر اس کا راستہ عقل و شعور کا راستہ ہے نہ کہ عقل کو معطل کرکے مراقبہ و مشاہدۂ حق کی کوششوں کے ذریعے قرب الٰہی کا۔ ہم نے انسان کے وجود کا جو تجزیہ کیا ہے اس میں یہ بات واضح ہے کہ انسان کا اصل شرف اور قوت اس کی عقل ہے۔دین اس کو مخاطب کرتا ہے اور اسی کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی بات کو پرکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ دعوت جب قبول کرلی جاتی ہے تودین اسی عقلی وجود کی صلاحیتوں یعنی یاد داشت، تجزیہ و تحلیل ،غور وفکر ،تصور و تخیل کو استعمال کرکے خدا سے قربت پیدا کرتا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ انہی صلاحیتوں کو استعمال کرکے زندگی کے ہر سرد و گرم اور صبح و شا م خدا کو یاد رکھو اورحیات و کائنات کے ہر گوشے پر نظر ڈال کر خدا کی صناعی پر غور کرو۔
زمانۂ قدیم میں شاید اس بات کی اہمیت نمایاں نہیں ہوتی، مگر دور جدید میں جب انھی عقلی صلاحیتوں کی بنیاد پر انسانوں نے بن دیکھے ایک نیا عالم دریافت کرلیا ہے تواندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پردۂ غیب میں مستور خالق کو دریافت کرنے کی کتنی جہتیں اس کے دائرہ امکان میں ہوں گی۔ انسان اپنے فہم و ادراک اور عقل و تصور کی بنیاد پر اپنے رب سے ایک انتہائی گہرا اور زندہ تعلق پیدا کرسکتا ہے اور ان صلاحیتوں سے حاصل ہونے والی معرفت بے حد اعلیٰ اور اس سے پیدا ہونے والی محبت بے حد شدید ہوتی ہے۔ یہ تعلق، محبت اور معرفت اس عقلیت سے عبارت ہے جوکائنات پر غور و فکر کرکے خدا، جنت اور جہنم کے غیبی حقائق کی معرفت سے حاصل ہوتی ہے، (آل عمران191:3)۔ یہ بن دیکھے صرف عقلی بنیادپر خد ا کو مان لیناہے(بقرہ 3:2) ۔زندگی کو اس کی بندگی کے رنگ میں رنگ لینا ہے (بقرہ138:2)۔ اٹھتے، بیٹھتے اور کروٹوں پر اسے یاد کرنا ہے (آل عمران191:3)۔ اس کی یاد کو دل کا چین بنالینا ہے، (رعد28:13)۔ یہ قطرے کا سمندر میں گرنا نہیں بلکہ بندے کا سجدے میں رب کا قرب حاصل کرنا ہے۔ (علق19:96)۔ یہ مصائب میں کسی بزرگ سے فریاد کرنانہیں،بلکہ گڑگڑاکراورچپکے چپکے اپنے رب کو پکارناہے (اعراف:۵۵)۔ خیر و شر کی جدو جہدسے بے نیازی کا نام نہیں،خدا کی طرف بلانے اور اس راہ میں صبر اور اعلیٰ اخلاق پر جمے رہنے کے آہنی عزم کا نام ہے ، (فصلت33-35:41)۔ اور سب سے بڑھ کر یہ اپنی شخصیت کو سیرتِ حبیب کے اسوۂ حسنہ میں ڈھال لینے کا نام ہے۔
عقل پر مبنی اس روحانیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے عبادات کا وہ نظام بھی عطا فرمایا ہے جو انسان کو ذاتی سطح پراللہ تعالیٰ سے جوڑ دیتی ہیں۔دعا، ذکر، معرفت اورعبادت پر مبنی یہ ذاتی تعلق اس بے کس اور کمزور انسان کا سب سے بڑا سہارا ہے جسے اس زندگی میں قدم قدم پر مایوسیوں اور ناکامیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایک روحانی انسان خدا سے اتنا زیادہ قریب ہوکر جیتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی دکھ اس کا سکون درہم برہم نہیں کرپاتا۔ اور کبھی وہ خود ٹوٹنے لگے تو رب العالمین بکھرنے سے پہلے ہی اسے سمیٹ لیتا ہے۔
اسلام گرچہ ایک مکمل روحانی اور عقلی پیکج ہے جو انسان کی روحانی طلب اورعقلی تقاضوں دونوں کا بھرپور جواب ہے، لیکن اس واقعہ سے اس حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسان پر عام حالات میں اس کے حیوانی تقاضے ہی غالب رہتے ہیں۔ انسان کا حیوانی شعور اس کے ذوقِ جمال اور ضمیر کے ساتھ مل کر خوشی اورراحت کی ایک ایسی دنیا کی تعمیر چاہتے ہیں جہاں ہر محرومی اور مایوسی سے بچ کر انسان کو روحانی سر شار ی کے ساتھ مادی عیش و راحت اور ضمیر کی مکمل تسکین بھی میسر ہو۔یہی وہ جنت ہے جسے انسان اس دنیا میں تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس جنت میں بار بار محرومی، مایوسی، اکتاہٹ، دکھ اور غم کا سانپ داخل ہوتا ہے اور انسان کو ڈس لیتا ہے۔یا پھر ، جیسا کہ پیچھے ہم نے بیان کیا ہے کہ اس سانپ کو مارنے کی کوشش میں انسا ن اپنے ضمیر کو بھی مارڈالتا ہے۔ہر دو کا نتیجہ جذباتی عدم تسکین اور روحانی اضطراب ہے۔
اسلام کا کمال یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا ایک مکمل حل دیتا ہے۔اسلام اپنے پیرووں کواس دنیا کے بجاے آنے والی دنیا میں جنت کی تعمیر کا نصب العین دیتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انسان کو دنیا میں تزکیہ کا مشن دیا گیا ہے۔ یعنی دنیا کی آالائشوں میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو پاک رکھنا۔ وہ انسا ن کو بتاتا ہے کہ اس کے کسی حیوانی تقاضے اور ذوق جمال پر کوئی پابندی نہیں، (اعراف31-32:7)۔سواے اخلاق وشریعت کی ان فطری پابندیوں کے جو بظاہر حیوانی وجود کو کچھ لگام ڈالتی ہیں، مگر درحقیقت وہ کئی پہلوؤں سے انسان کی تسکین کا اہتمام کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ ا ن پابندیوں کی وجہ سے انسان اس مادی دوڑ سے الگ ہونے کی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے جس میں کودنے کا نتیجہ مایوسی اور اکتاہٹ کے سوا کچھ نہیں۔ یوں انسان ایک تکلیف دہ مرحلے سے بچ جاتا ہے۔دوسرے یہ پابندیاں انسان کے نفس کا تزکیہ کرکے اس کے روحانی وجود کی غذا بن جاتیں اور اس کی قوت و طاقت کا سبب بنتی ہیں۔پھر انہیں نفس انسانی کے ضمیر کی بھرپور حمایت حاصل ہوتی ہے اور ان پر عمل کے بعد ملنے والی روحانی طمانیت اپنی ذات میں بہت بڑ ی نعمت ہے۔ تیسرے یہ کہ ان پابندیوں سے انسان میں وہ احساسِ عبدیت پیدا ہوتاہے جو اسے یاد دلاتا ہے کہ دنیا میں وہ ایک عاجز بندہ ہے ۔ یہ عجز کا احساس زندگی میں پیش آنے والے ناگزیر مصائب و آلام کے باوجود جینے کا حوصلہ دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کردین کی یہ یقین دہانی اس کے پاس ہوتی ہے کہ پابندیوں اور مصائب پر صبر کا نتیجہ ختم نہ ہونے والی وہ ابدی بادشاہی ہے جو انسان کو ماضی کے ہرپچھتاوے اور مستقبل کے ہر اندیشے سے بے نیاز کردے گی۔
اس پوری بات پر غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بندۂ مومن دنیا کی ہر راحت سے استفادہ کرتا ہے اور غیر ضرور ی طور پر ان کے پیچھے بھاگنے کی کلفت سے بھی محفوظ رہتا ہے۔ محرومی اور دکھ کے ہر جذباتی صدمے کے وقت ایک طرف خدا کی یاد اس کے ساتھ ہوتی ہے اور دوسر ی طرف یہ یقین کہ بہت جلد اس کے سینے میں لگی ہر پھانس کھینچ لی جائے گی اور اس چبھن کے بدلے میں آنکھوں کو ٹھنڈا کردینے والی وہ نعمتیں ملیں گیں جن کا تصور بھی روح و قلب کو سرشار کردینے کے لیے بہت ہے۔ بندۂ مومن اس یقین کے سہارے جذبات کے ہر بحران سے سرخرو ہوکر نکلتا ہے۔
ہماری یہ گفتگو بڑ ی حد تک مکمل ہوگئی ہے۔مگر اس کا وہ آخری جز باقی ہے جس کے لیے یہ پوری گفتگو کی گئی ہے۔ یعنی انسانوں میں مطلوبہ تبدیلیاں کیسے لائی جائیں۔اس کے لیے تعلیم و تربیت کا کیا نظام تشکیل دیا جائے ۔ ہمارے نزدیک اس نظام کے تین اجزا ہیں۔ایک فرد کی شخصیت میں تبدیلی کو نشانہ بنا یا جائے، دوسرے صحیح علم کی ترویج اور تیسرے اسے اس کے اپنے ماحول سے نکال کر فطری ماحول میں رکھ کر عملی تربیت دی جائے۔
دورِ جدید میں یہ بڑی بدقسمتی ہوئی ہے کہ لوگوں نے یا تو حکومتی سطح پر تبدیلی کو اسلام کی دعوت بنا کر پیش کیا ہے یا پھر فرد کے ظاہر ی وجود میں تبدیلی کو دین کا مطلوب قرار دیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔اسلام کا اصل نشانہ فرد کے مائنڈ سیٹ(Mindset) یعنی اس طرز فکر میں تبدیلی ہے جو اس کے عمل کو متعین کرتا ہے۔ قرآن کریم سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ دین کا مخاطب فرد ہے اور قرآن اسے مخاطب بناکر اس کے مائنڈ سیٹ کو بدلنا چاہتا ہے۔اس کے بعد انسان کا عمل بدلتا ہے اور اس کے ظاہر میں بھی مطلوبہ تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ یہی اسلام کا طریقہ ہے ، خارج سے چیزیں ٹھونسنا اسلا م کا طریقہ نہیں۔
اجتماعی تبدیلیوں کا راستہ بھی یہی ہے۔ افراد جب ملتے ہیں تو معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ جب ایک ایک فرد کی اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے تو آخر کار پورے معاشرے میں مجموعی طور پر خیر غالب ہوجاتا ہے۔یہی اسلام میں اجتماعی تبدیلی کا اصول ہے جو اپنے منتہائے کمال کو پہنچ کر معاشرے کو سکون وامن سے بھردیتی ہے۔زمین اپنے خزانے انڈیل دیتی اور آسمان رزق کی بارش کردیتا ہے۔ مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اس کا نقطۂ آغاز فرد میں تبدیلی ہے۔
فرد کو نشانہ بنانے کے بعد ضروری ہے کہ اس کا علم بدلا جائے ۔ اس معاشرے میں اکثرلوگ بنیادی دینی تعلیم نہیں رکھتے۔ جو لوگ دین کا علم رکھتے ہیں وہ زیادہ تر سنی سنائی باتیں، توہمات اور لوگوں کے اپنے خود ساختہ نظریات ہیں۔جو لوگ بہتر علم رکھتے ہیں وہ عام طور پر دین کی ترجیحات کا ایک غلط تصور رکھتے ہیں۔ ان سب چیزوں کا علاج یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنت کو بنیاد بناکر دین کا صحیح علم صحیح توازن کے ساتھ انہیں دیا جائے۔ ہم نے اس سلسلے میں جو نصاب بنایا ہے ، اس کی اہم خصوصیات درج ذیل ہیں۔
۱ ۔ قرآن کریم کے طرز استدلال سے واقفیت
ہمارے ہاں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے کا رواج نہیں۔ اس لیے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں کیا لکھا ہے اور قرآن کا طریقۂ استدلال کیا ہے۔ہم چاہتے ہیں لوگ اس بات سے ضرور واقف ہوں کہ دین کی یہ بنیادی کتاب اپنی دعوت کو کس طرح پیش کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہمارے پیش نظر قرآنِ کریم کی بنیادی دعوت یعنی توحید، آخرت اور رسالت کو دلائل کے ساتھ ثابت کرنے والی آیات کے ایک منتخب نصاب کا مطالعہ ہے۔جن سے یہ بات بالکل واضح ہوجائے گی کہ قرآن کریم تعصبات و جذبات پر نہیں بلکہ عقل و بصیرت کی بنیاد پر لوگوں کو مخاطب کرتا ہے۔
۲ ۔ توحید اورسزا وجزا سے متعلق آیات
قرآنِ کریم کے حوالے سے دوسری چیز قرآنِ کریم کے ان بیانات سے لوگوں کو روشناس کراناہے جن کا تعلق توحید و آخرت سے ہے۔ یہ چیزیں اس لیے ضروری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور آخرت کی زندگی کا ایک بھرپور نقشہ لوگوں کی نظر کے سامنے آجائے۔
۳ ۔ قرآن کا مطلوب انسان
قرآن کریم کے حوالے سے تیسری چیز قرآن کے ان مقامات کا مطالعہ ہے جن میں وہ یہ بتاتا ہے کہ اسے کن صفات کے حامل لوگ مطلوب ہیں۔ یہ کم و بیش 23مقامات ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دین انسان سے کیا چاہتا ہے اور کس نوعیت کی اخلاقی صفات ان میں دیکھنا چاہتا ہے۔
۴۔ بنیادی شریعت کی تعلیم
ایک فرد کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کیا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ مطالبات دین کا وہ حصہ ہے جسے بطور شریعت فرض کیا گیا ہے۔ ان میں عبادات اور معاشرت وغیرہ کے حوالے سے دین کے مطلوبہ اعمال کی تعلیم شامل ہے۔
۵۔ احادیث کی روشنی میں حضور کی سیرت کا مطالعہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت دین کا بہترین عملی نمونہ ہے۔ اس کا ریکارڈ احادیث کے ذخیرے میں ہمارے پاس موجود ہے۔ چنانچہ حضور کی سیرت و شخصیت کے وہ پہلو جن میںآپ کاخالق و مخلوق کے ساتھ تعلق واضح ہوتا ہے ان کی تعلیم بھی اس نصاب کا ایک حصہ ہے۔
۶۔ شخصی اصلاح
انسانی شخصیت کے بیان میں ہم نے یہ بات بیا ن کی ہے کہ انسان کے ہوش سنبھالنے سے قبل خارجی عوامل یعنی وراثت، ماحول اور تربیت اس کی شخصیت پر اپنا اثر ڈال چکے ہوتے ہیں۔ پھر زندگی بھر انسان جس ماحول میں جیتا ہے،وہ بھی اس کو متاثر کرتا رہتا ہے۔ اس سب کی بنا پر انسانی شخصیت میں بعض بنیادی کمزوریاں آجاتی ہیں۔یہ کمزوریاں اپنی ذات میں کوئی ایمانی یا اخلاقی خرابی نہیں ہوتیں، لیکن ا ن کی طرف لے جانے یا بہت سی اخلاقی خوبیوں سے محروم کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ دنیوی اعتبار سے انسان کو بہت سے نقصانات پہنچاتی ہیں۔یہی سبب ہے کہ دور جدید کی مینجمنٹ سائنس نے اسے اپنا موضوع بنالیا ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر بہت سے لوگ جو دینی تعلیم سے واقف اور اصلاح کے خواہشمند ہوتے ہیں، ان کے اخلاقی رویے بھی بہتر نہیں ہوپاتے اور دنیا میں بھی وہ بار بار نقصان اٹھاتے ہیں۔ ہم چونکہ دین و دنیا دونوں میں بہتری کے خواہشمند ہیں اس لیے افراد کی شخصی تربیت کرکے ان خامیوں کی اصلاح بھی ہمارے پیش نظر ہے۔
۷۔ معلمین و معلمات کی تیاری
ہمارے پیش نظر فرد کی تربیت ہے۔ یہ کام بڑے پیمانے پر اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس عمل کو سر انجام دینے والے لوگ ایک بڑی تعداد میں نہ پیدا ہوجائیں۔اس مقصد کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایسے خواتین و حضرات کو تیار کیا جائے جو مندرجہ بالا نصاب کی بنیاد پر دوسروں کو تربیت دیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے انہیں درج بالا چیزوں کے علاوہ کچھ مزید چیزوں کی تعلیم کی ضرورت ہوگی۔ اس کا ہم خصوصی طور پر انہی لوگوں کے لیے اہتمام کریں گے۔
آج کی مادی زندگی بے حد تیز رفتار اور اس کے مطالبات اور دلچسپیاں ان گنت ہیں۔ پھر جس انفارمیشن ایج میں ہم جی رہے ہیں وہاں ہر لمحے میڈیا وغیرہ کے ذریعے سے انسان پر معلومات کی بمباری ہورہی ہوتی ہے۔ حالات و واقعات خواہ اس سے متعلق ہوں یا نہیں ہمہ وقت اسے متوجہ کیے رہتے ہیں۔ یہ صور ت حال اسے یکسو نہیں رہنے دیتی۔ اس کے ساتھ زندگی کی تیز رفتاری میں کسی کے پاس شاید اتنا وقت نہیں کہ وہ بیٹھے اور اپنی شخصیت اور مسائل کا تجزیہ کرے اور حیات و کائنات کی گہری حقیقتوں پر غور و فکر کرسکے۔ انسان اگر یہ کر بھی لے اور دین سیکھنے کے لیے کچھ وقت نکال بھی لے تب بھی وہ جیسے ہی اپنے ماحول میں لوٹتا ہے ، وہ سب بھو ل جاتا ہے اور ہر تعلیم غیر مؤثر ہوجاتی ہے۔
اس پس منظر میں یہ ایک ضرورت ہے کہ لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے ان کے ماحول سے کاٹ کر نکالا جائے اور وہاں ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جائے۔فطرت کے ماحول میں رکھ کر اور زندگی کی تیزی سے کچھ عرصے دور رکھ کر ان کو حیات وکائنات کی حقیقتوں سے نہ صرف آگاہ کیا جائے بلکہ ان کے شعور کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ خود ان پر غور کرنے کے قابل ہوسکیں۔اس طرح کہ یہ حقائق ان کی اپنی دریافت بن جائیں اور پھر اس روشنی میں وہ اپنی زندگی، معمولات، ترجیحات اور شخصیت کا جائزہ لینے پر آماد ہوجائیں۔ وہ اپنے مقاصد زندگی کو از سر نو متعین کرنے، اپنی شخصیت کی اصلاح کرنے، اپنے اخلاق کو بہتربنانے، اپنے علم میں اضافہ کرنے اور اپنے حالات میں تبدیلی لانے کا عزم کرلیں۔
انسانی شعور کی یہ تربیت اور فکر میں یہ تبدیلی قرآنِ کریم کے پیغام، نبی کریم کے اسوۂ حسنہ ، شریعتِ مطہرہ کی حدود انسانی فطرت کے تقاضوں اور انسانی شخصیت کے اس تجزیے کی روشنی میں کی جائے گی جس کا کچھ ذکر پیچھے کیا جاچکا، ہے۔ اس جگہ کو ہم قدیم تصوف کے طرز پر خانقاہ سے تعبیر کرتے ہیں گو اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک تربیت گاہ ہے۔
خانقاہ کا ذکر آگیا اور بحث کا اختتام بھی ہورہا ہے، ایسے میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے طرز تربیت اور تصوف سے پیدا ہونے والے نتائج کا فرق واضح کردیاجائے۔ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ تصوف کے مابعد الطبیعاتی اور فلسفیانہ پہلو سے قطع نظر، اس کی اخلاقی روایت، نفس انسانی کی تربیت اور خاص کر انسانی شخصیت کے عقدے سلجھانے کی اس کی صلاحیت واقعتا ایک قابل تقلید چیزہے۔ ہمیں اصولی طور پر اس پہلو سے اس پرکوئی اعتراض نہیں۔ قدیم زمانے میں خانقاہی ماحول یہی کام کیا کرتا تھا، اس لیے ہم نے اس کو لے لیا ہے۔ تاہم بعض بنیادی فرق کی بنا پر دونوں سے نکلنے والے نتائج میں بہت فرق ہے۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ قرآنی تصور:ہم جس تصور بندگی کی طرف بلارہے ہیں اس کانام، مقصد، مقصد کے حصول کے ذرائع سب کچھ قرآنِ کریم سے ماخوذ ہیں۔ یہ رب کے بندوں کو اس کی اطاعت و محبت کے حصار میں لا ڈالنے کا نام ہے۔یہ عبد و معبود کے تعلق کا نام ہے جو اس دنیا میں اس کی یاد میں اور آنے والی دنیا میں اس کے قرب میں جینے کا نام ہے۔ برخلاف تصوف کے جو قطرے کو سمندراور جز کو کل سے ملانے کا نام ہے اور جس کا مقصود عاشق و معشوق کا وصال ہے۔پہلا سرتا سر ایک قرآنی تصور ہے اور دووسرے کے ذکر سے خدا کا کلام اوراس کے نبی کی سیرت خالی ہے۔قرآن اور نبی کو چھو ڑ کر یہ راستہ اختیار کرناایک بہت خطرناک بات ہے، جس کے نتائج سے تصوف کی تاریخ بھری پڑی ہے۔
۲۔عقل و دل :تصوف اور ربانیت دونوں ایک نوعیت سے روحانی سکون دیتے ہیں لیکن پہلا تصورِ روحانیت ریاضت و مجاہدات، مراقبہ و مشاہدات اور خاص طرح کے اذکار و وظائف سے قلب کی بیداری پر مبنی ہے۔ اس طریقے میں انسانی وجود کی اصل طاقت یعنی عقلی استعداد و بصیرت کو پہلے ہی مرحلے پر ذبح کردیا جاتا ہے۔ جبکہ بندگی کی دعوت جیسا کہ ہم نے پیچھے واضح کیا، اپنا مخاطب عقل کو بناتی، اسی کو بیدار کرتی، اسی کے قویٰ کو استعمال کرکے خدا کے قرب (نہ کہ مشاہدۂ ذاتِ حق) کے احساس میں زندہ رکھتی ہے۔ انسان کی عقل کی یہ بیداری ایک طرف اسے خدا سے ہمہ وقت زندہ تعلق پیدا کرکے سچی روحانیت سے ہمکنار کرتی ہے اور دوسری طرف یہ انسان کو مسائلِ زندگی کو بھی عقلی بنیادوں پر حل کرنے کا درس دیتی ہے جو تصوف کے طریقۂ وظائف کی بہ نسبت مسائل و مشکلات کے گرداب سے انسان کو نکالنے میں کہیں زیادہ مؤثر ہے۔
۳۔ سکون و اضطراب : عملی زندگی کی جدو جہد اور عقلی سوالات سے نجات پاکر جو سکو ن حاصل کیا جائے، وہ بظاہر ایک بہت اچھی اور مطلوب چیزلگتی ہے۔ مگر اس دنیا میں انسان جن قوانین کے تحت موجود ہے، ان میں ایک قانون یہ ہے کہ یہاں اضطراب زندگی کی اوراس طرح کا سکون موت کی علامت ہے۔ انسان کی ہر ترقی، کامرانی اور کامیابی اضطراب سے پیدا ہوتی ہے۔ تصوف انسان کو سکون دینے کا وہ راستہ اختیار کرتا ہے جو اکثر عقل اورعمل دونوں سے دور ی پیدا کرتا ہے۔ یہ سکون بتدریج فرد اور معاشرے کے اعضاو قویٰ کو مضمحل کردیتا ہے۔اس کا نتیجہ فرد کی سطح پر بے عملی اور اجتماعی سطح پر معاشرتی زوال ہے۔جبکہ اسلام کی دعوت ایک اضطراب سے شروع ہوتی ہے۔ یہ اضطراب آخرت میں خدا کے حضور پیشی کے اندیشے اور جنت کی وادی میں بسنے کی شدید خواہش سے پیدا ہوتا ہے۔خدا پرستی کی راہ جذباتی، عقلی اور روحانی اضطرا ب سے نجات دلاکر قلب کو اطمینان اور ذہن کو سکون بخشتی ہے، مگر اس اضطراب کو کبھی ختم نہیں کرتی۔ یہ اضطراب کوئی تکلیف دہ شے نہیں ،بلکہ عمل پر آمادہ کرنے والی ایک چیز ہے جودنیا وآخرت میں ترقی، کامیابی اور حسنات کے حصول کا ضامن بن جاتا ہے۔
۴۔ مرشد و معلم کا فرق :تصوف کا راستہ شیخ اور مرشد کی رہنمائی میں طے کیا جا تا ہے۔ شیخ کی ہستی وہ اتھارٹی رکھتی ہے جو ناقابل چیلنج ہے۔ شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر انسان محسوس پرستی کے مادی دروازے سے روحانیت کے حرم میں داخل ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ انسان کی خوگر پیکر محسوس طبیعت کو اس طریقے سے بڑی مناسبت ہے۔ پھر اس طریقے میں انسان جذباتی طور پر بہت سکون محسوس کرتا ہے۔کیونکہ شیخ کا وجود انسان کے آنسوؤ ں کے لیے ایک تکیہ، سر ٹکاکر رونے کے لیے ایک کندھا، مادی کثافت اور جذباتی ابال کے نکاس کے لیے ایک کھلا راستہ فراہم کرتا ہے۔ مگر اس مؤثر طریقے میں اتنی ہی خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ،لیکن تاریخ میں شخصیت پرستی سے لے کر نفس پرستی تک کے سارے دروازے اسی راستے سے کھلتے نظر آتے ہیں۔
اس کے برعکس ربانیت، مبنی بر معلم طریقہ ہے جس میں انسان ایک استاد کی رہنمائی میں دین کی سمجھ اور تعلیم و تربیت حاصل کرکے خدا سے قریب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ منصب بیان کیا ہے کہ آپ لوگوں کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے کر ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔ صرف یہی ایک بات اس طریقے کی موزونیت واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ معلمہ اور معلم شیخ کی نہیں، بلکہ ماں اور باپ کی جگہ سے معاملہ کرتے ہیں۔یہ وہ ماں باپ ہیں جو اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ان کا مقصد انسان کو اپنی ذات کے بجائے پروردگار سے جوڑنا ہوتا ہے۔ یہ صرف رہنمائی کرتے ہیں، سکھاتے ہیں اور سمجھاتے ہیں۔ سوالو ں کے جواب دیتے، الجھنوں کو رفع کرتے، شبہات کو دور کرتے اور مسائل کی گرہ کھولتے ہیں۔ ان سے انسان کو فطری طور پر انس تو ہوسکتا ہے، مگر وہ انہیں قابل اصلاح بھی سمجھتا ہے اور قابل تنقید بھی۔ان سے محبت تو ہوسکتی ہے، مگر انہیں محبوب نہیں بنایا جاسکتا۔ ا ن کی بات تو مانی جاسکتی ہے، مگر انہیں اطاعت کا مرجع نہیں بنایا جاسکتا۔
ربانی معلم کی انگلی پکڑ کر چلنے والے کی منزل رب کی عبادت، اس کا شوق، اس کی محبت اور اسی کا قرب ہوتی ہے۔ معلم اور متعلم دونوں رب کی عظمت میں جینے والے ، اسے سہار ا بنانے والے اور اسی کی محبت میں سرشار رہنے والے ہوتے ہیں۔ان کے آنسوؤ ں کے لیے تکیہ، سر ٹکاکر رونے کے لیے کندھا، مادی کثافت اور جذباتی ابال کے نکاس کے لیے راستہ خدا ہی کی ذات اور اس کی یاد ہوتی ہے۔ربانی انسان خدا کی عظمت میں جینے کے ایسے عادی ہوتے ہیں کہ غیر کی عظمت کے تصور سے ا ن کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ ا ن کا گنج بخش، فیض رساں کوئی مظہر نورِ خدا نہیں، خود نورِ خداوندی ہوتا ہے۔ وہی ناقصوں کا پیر کامل اور کاملوں کا رہنما ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دو تصورات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
آج کا انسان سکو ن چاہتا ہے۔ اس نے اپنے سکون کے کچھ طریقے بھی ڈھونڈ لیے ہیں۔ مگر وہ یہ بات نہیں جانتا کہ حشر کا ہنگامہ بپا ہونے کو ہے۔ اصل سکون وہ ہے جو اس روز حاصل ہوجائے۔ کیونکہ اس کے بعد انسان کی زندگی میں کوئی غم، دکھ ، پچھتاوا نہیںآئے گا۔اس روز یہ سکون صرف اسی شخص کو ملے گا جس نے بن دیکھے خدا کومانا، بن چھوئے اسے محسوس کیا، بن سنے اس سے کلام کا شرف حاصل کرلیا۔یہ مقصد صرف قرآن مجید اور بنی کریم کی رہنمائی اور قرآن کے پیغام بندگی کے راستے پر چلنے سے حاصل ہوتا ہے۔خدا پرستی کے اس شعور اور بندگی کی راہ پر چل کر اخروی زندگی میں نعمت و اطمینا ن کا حصول ہی بندۂ مومن کی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس دنیا کا سارا سکون بھی اسی راستے میں پوشیدہ ہے۔انسان کی روح، اس کی انا، اس کے جذبات، اس کی ضروریات، اس کی خواہشات کی یکساں تسکین اگر اس دنیا میں کسی راستے پر چل کر مل سکتی ہے تو و ہ یہی بندگی کا راستہ ہے۔ یہی راستہ انسان کے قلب کو قلبِ سلیم بناتا ہے،(شعرا89:26،صافات84:37)۔ یہ قلب سلیم علم واخلاق اورسیرت و شخصیت کی ہر کمزوری اور بیماری سے پاک وہ قلب ہوتاہے جو دنیا میں خدا کی یاد سے سکون پاتا (رعد28:13) اور آخرت میں نفس مطأنہ (فجر 27:89)بن کر ہر غم وفکر سے ابدی طور پر آزاد ہوجاتا ہے۔
ان دیکھی چیزوں کو دیکھ لینا عقل انسانی کا خاص وصف ہے۔جو شخص اپنے عقل و شعور کو اتنا بلند کرلے کہ ان دیکھے خدا کو دیکھ سکے ،وہی ربانی انسان اور وہی اللہ کا سچا بندہ ہے۔ وہی اس بات کا حق دارہے کہ دنیا و آخرت کا سکون اس کی جھولی میں ڈال دیا جائے۔
_______________