بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ، وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ{۳۵} اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَہُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ، وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ{۳۶} یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَا، وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ{۳۷}
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا، جَزَآئً بِمَا کَسَبَا، نَکَالًا مِّنَ اﷲِ، وَاﷲُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ{۳۸} فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ، فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ، اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۳۹} اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اﷲَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ وَ یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ، وَاﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ{۴۰}
(یہ خدا کی شریعت ہے)۔ ایمان والو، (اِس کے بارے میں) اللہ سے ڈرتے رہو، اُس کا تقرب ڈھونڈو اور (اِس کے لیے) اُس کی راہ میں برابر جدوجہد کرتے رہو۹۳کہ فلاح پاؤ۔ رہے وہ لوگ جو (پیغمبر کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود اِس کے) منکر ہیں تو اُنھیں اگر زمین کی ساری دولت حاصل ہوجائے اور اُس کے ساتھ اتنی ہی اور بھی، اِس لیے کہ اُسے فدیے میں دے کر وہ اپنے آپ کو روز قیامت کے عذاب سے چھڑالیں تو اُن سے وہ قبول نہیں کی جائے گی اور اُنھیں دردناک سزا مل کر رہے گی۔ وہ اُس سے نکلنا چاہیں گے، مگر کبھی نکل نہ سکیں گے۔ اُن کے لیے (وہاں) دائمی عذاب ہے۔ ۳۵-۳۷
(یہ خدا کی شریعت ہے، اِسے مضبوطی سے پکڑو) اور چور مرد ہو یا عورت، اُن کے ہاتھ کاٹ دو ،۹۴ اُن کے عمل کی پاداش میں اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا کے طور پر ۹۵ اور (یاد رکھو کہ) اللہ (سب پر) غالب ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ ۹۶ پھر جس نے اپنے اِس ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلی تو اللہ اُس پر عنایت کی نظر کرے گا۔ ۹۷ بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ کیا تم نہیں جانتے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے؟ وہ جس کو چاہے گا سزا دے گا اور جس کو چاہے گا، (اپنے قانون اور اپنی حکمت کے مطابق) بخش دے گا، وہ ہرچیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ۹۸ ۳۸-۴۰
۹۳؎ اِس لیے کہ خدا سے قربت کا واسطہ یہی جدوجہد ہے۔ اِس کے سوا کسی دوسرے ذریعے سے یہ چیز حاصل نہیں ہوسکتی۔ اِس کے لیے اصل میں ’جَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اِن میں لفظ جہاد اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے اور اِس سے مراد ہر وہ سعی وجہد ہے جو خدا کے احکام کی پابندی، اُس کے دین کی اقامت، شریعت کی حفاظت اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کی جائے۔
۹۴؎ اصل الفاظ ہیں:’فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا‘ ۔ لفظ ’ید‘ کے قطعی اطلاق کی بنا پر ہاتھ ہمیشہ پونچے سے کاٹا جائے گا اور عمل اور پاداش عمل کی مناسبت سے دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا، اِس لیے کہ انسانوں میں آلۂ کسب کی حیثیت اصلاً اِسی کو حاصل ہے۔ اِس سزا کے بارے میں یہ بات، البتہ واضح رہنی چاہیے کہ یہ چورمرد اور چور عورت کی سزا ہے۔ قرآن نے اِس کے لیے ’سارق‘ اور ’سارقۃ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ عربی زبان کے اسالیب بلاغت سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ یہ صفت کے صیغے ہیں جو وقوع فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا اِن کا اطلاق فعل سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پر کیا جاسکتا ہے جس کے ارتکاب کو چوری اور جس کے مرتکب کو چور قرار دیا جاسکے۔ چنانچہ اگر کوئی بچہ اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے، کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدر و قیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیاں توڑ لیتا ہے یا بغیر کسی حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتا ہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یا بھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پراِس فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک، یہ سب ناشایستہ افعال ہیں اور اِن پر اُسے تادیب وتنبیہ بھی ہونی چاہیے، لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم اِن آیات میں بیان ہوا ہے۔ لہٰذایہ انتہائی سزا ہے اور صرف اُسی صورت میں دی جائے گی جب مجرم اپنے جرم کی نوعیت اور اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کا مستحق نہ رہاہو۔
۹۵؎ یہ اِس سزا کا مقصد ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔(اِس)میں قطع ید کے دو سبب بیان ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ مجرم کے جرم کی سزا ہے، دوسرا یہ کہ یہ ’نکال‘ ہے۔ ’نکال‘ کے معنی کسی کو ایسی سزا دینے کے ہیں جس سے دوسرے عبرت پکڑیں۔ اِن دونوں کے درمیان حرف عطف کا نہ ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں باتیں اِس سزا میں بہ یک وقت مطلوب ہیں۔ یعنی یہ پاداش عمل بھی ہے اور دوسروں کے لیے سامان عبرت بھی۔ جو لوگ اِس کے اِن دونوں ہی پہلوؤں پر بہ یک وقت نظر نہیں ڈالتے، وہ بسا اوقات اِس خلجان میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ جرم کے اعتبار سے سزا زیادہ سخت ہے۔ حالانکہ اِس سزا میں متعین اِس جرم ہی کی سزا نہیں ہے جو مجرم سے واقع ہوا، بلکہ اُن بہت سے جرائم کی روک تھام بھی اِس میں شامل ہے جن کا وہ اپنے فعل سے محرک بن سکتا ہے، اگر اُس کو ایسی سزا نہ دی جائے جو دوسروں کے حوصلے پست کردے۔ جنس کی طرح مال کی بھوک بھی انسان کے اندر بڑی ہی شدید ہے۔ اگراِس حرص کو ذرا ڈھیل مل جائے تو پھر اِس کے نتائج کیا کچھ نکل سکتے ہیں، اِس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ زمانے کے حالات میں کافی سامان بصیرت موجود ہے، بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں موجود ہوں۔ اِس زمانے کے کسی متمدن سے متمدن ملک کے صرف ایک سال کے وہ ہول ناک جرائم جمع کرلیے جائیں جو محض چوری کی وجہ سے پیش آئے تو وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں، لیکن تہذیب جدید کے مارے ہوئے انسان کی پیشانی یہ سن کر تو عرق آلود ہوجاتی ہے کہ چوری پر کسی کا ہاتھ کٹ جائے، لیکن اُن ہزاروں دل ہلا دینے والے واقعات سے اُس کا دل نہیں پسیجتا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ چوری کی راہ سے ظہور میں آتے ہیں۔چوری کوئی مفرد جرم نہیں ہے، بلکہ یہ مجموعۂ جرائم ہے جس سے طرح طرح کے ہول ناک جرائم ظہور میں آتے ہیں۔ اگر چوری کی راہ مسدود ہوجائے تو یہ یا تو بالکل ہی ناپید ہوجائیں گے یا کم از کم یہ کہ انتہائی حد تک کم ہوجائیں گے۔ چنانچہ تجربہ گواہ ہے کہ چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا سے نہ صرف چوری کے واقعات انتہائی حد تک کم ہوگئے،بلکہ دوسرے جرائم میں بھی انتہائی کمی ہوگئی۔ پھر اگر چند ہاتھ کٹ جانے سے ہزاروں سر، ہزاروں گھر، ہزاروں آبروئیں محفوظ ہوجائیں؛ ظلم و شقاوت اور حرث و نسل کی بربادی کے بہت سے ابواب کا خاتمہ ہوجائے تو عقل سلیم تو یہی کہتی ہے کہ یہ مہنگا سودا نہیں ہے، بلکہ نہایت بابرکت سودا ہے، لیکن موجودہ زمانے کے دانش فروشوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۱۲)
۹۶؎ مطلب یہ ہے کہ وہ غالب ہے، اِ س لیے حق رکھتا ہے کہ جس کو چاہے، حکم دے اور حکیم ہے، اِس لیے اُس کا کوئی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوسکتا۔
۹۷؎ اِس سے واضح ہے کہ اصلاح توبہ کے لیے ایک لازمی شرط کی حیثیت رکھتی ہے۔ اِسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ آخرت میں نجات توبہ اور اصلاح ہی سے ہوسکتی ہے۔ دنیوی سزا نہ توبہ کا بدل ہے اور نہ توبہ اِس کے لیے بدل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ توبہ واصلاح کے باوجود حکومت یہ سزا لازماً نافذ کرے گی اور دنیا میں یہ سزا پالینے کے باوجود آخرت کا معاملہ توبہ اور اصلاح ہی سے درست ہوگا۔
۹۸؎ یہ خطاب عام ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ عام خطاب کے ساتھ تنبیہ ہے کہ آسمان و زمین میں سارا اختیار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے، وہی جس کو چاہے سزا دے گا، جس کو چاہے بخشے گا،کسی دوسرے کے لیے اِس میں کسی چون و چرا اور کسی مداخلت کی کوئی گنجایش نہیں ہوگی۔ اِس وجہ سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے قانون کے تابع اور اُس کے حوالے کرے۔ نہ کوئی اُس سے بھاگنے کی کوشش کرے، نہ کوئی اُس سے دوسروں کو بچانے کی تدبیریں سوچے اور نہ کسی کے زور و اثراور کسی کی سعی و سفارش پر بھروسا کرکے خدا اور اُس کی شریعت سے بے پرواہو۔ یہ تنبیہ اِس وجہ سے ضروری تھی کہ درحقیقت یہ سارے احکام جو قتل، قصاص، راہزنی اور چوری وغیرہ سے متعلق اِس سورہ میں بیان ہو رہے ہیں، یہ سب دوسری امتوں کے لیے مزلۂ قدم ثابت ہوئے۔ اُنھوں نے اِن سے بچنے کے لیے بہت سے چور دروازے نکال لیے، یہاں تک کہ یہ تمام قوانین بالکل بے اثر ہوکر رہ گئے۔ اگر اِس کی علت کا سراغ لگایا جائے تو یہ بات صاف نظر آئے گی کہ اِن قوموں نے توحید کی وہ حقیقت مستحضر نہیں رکھی جس کی اِس آیت میں یاددہانی کی گئی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۱۴)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ