[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال: مغرب کے بعض ممالک میں حلال گوشت بیچنے والے اداروں میں ذبح کرنے کے طریقے میں دو مسائل سامنے آئے ہیں، ان پر آپ اپنی راے دیں۔
۱۔ مرغیوں کو ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا دیتے ہیں تاکہ وہ زیادہ بھاگ نہ سکیں، بعض اوقات کچھ جانور اس جھٹکے سے مر بھی جاتے ہیں۔
۲۔ جب انھیں ذبح کیا جاتا ہے تو اس وقت مذبح خانے میں تکبیر کے الفاظ پر مشتمل کیسٹ چلائی جاتی ہے۔ کیا ایسے اداروں کا تیار کردہ گوشت حلال ہے؟(نثار احمد)
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ اگر واقعۃً بجلی کے جھٹکے سے مر جانے والے جانوروں کو ذبح ہونے والے جانوروں سے الگ نہیں کیا جاتا، بلکہ انھی میں ڈال دیا جاتا ہے تو پھر اس ادارے کا تیار کردہ گوشت استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
جہاں تک مذبح خانے میں ذبح کے وقت تکبیر کی کیسٹ چلانے کا تعلق ہے تو یہ کوئی صحیح بات تو نہیں ہے، لیکن ذبح کرنے والا ادارہ چونکہ جانور کو اسی ذات کے نام پر ذبح کر رہا ہے جس کے نام پر اسے ذبح ہونا چاہیے، لہٰذا جانور کو ذبیحہ قرار دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ، اگر مسلمانوں کا کوئی گروہ یہ طریقہ اختیار کرتا ہے تو اسے اس سے منع کرنا چاہیے۔
سوال: قرآن مجید میں اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ کیا آج کل کے اہل کتاب جو مشرکانہ عقائد رکھتے ہیں، ان کا ذبیحہ بھی مسلمانوں کے لیے جائز ہے؟(نثار احمد)
جواب:اہل کتاب آج جس شرک میں مبتلا ہیں، اس میں وہ نزول قرآن کے زمانے میں بھی تھے۔
ارشاد باری ہے:
وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ.(التوبہ۹: ۳۰)
’’یہود نے کہا :عزیر اللہ کا بیٹا ہے، اور نصاریٰ نے کہا : مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ سب ان کے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘
اہل کتاب اپنے دین کو دین توحید ہی کی حیثیت سے پیش کرتے اور اپنے شرک کی توجیہ کرتے ہیں، لہٰذا قرآن نے انھیں عرب کے ان مشرکین کی صف میں کھڑا نہیں کیا جو دین توحید کے بجاے دین شرک کے علم بردار تھے۔لہٰذا، آج بھی اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا صحیح ہو گا بشرطیکہ وہ ذبیحہ ہو۔
سوال: کیا اسلام میں اپنے ایمان کی بنیاد کے بارے میں دلیل ڈھونڈنے کی اجازت ہے، مثلاً یہ کہ ہر چیز کی کوئی ابتدا ہوا کرتی ہے تو اللہ کی ابتدا کیا ہے، یعنی وہ کب سے موجود ہے اور وہ کہاں سے آیا ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ اس طرح کے سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہی کفر ہے۔(سید عمر حسنی)
جواب:خدا پر ایمان عقل و فطرت کی گواہی سے یا ان دونوں کے اطمینان پا جانے کی بنا پر ہوتا ہے۔ لہٰذا، خدا پر ایمان لانے کے حوالے سے دلیل و استدلال کی نفی کرنا درست نہیں ہے۔
البتہ ذات خدا سے متعلق ایسے سوال جیسے آپ نے بیان کیے ہیں کہ ہر چیز کی کوئی ابتدا ہوا کرتی ہے تو اللہ کی ابتدا کیا ہے، وہ کب سے موجود ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرنا آخری درجے کی حماقت اور جہالت ہے، کیونکہ ذات خدا کے بارے میں وہ معلومات ہی ہمارے پاس موجود نہیں جن کی بنیاد پر ایسے سوالوں کے جواب تلاش کرنا ممکن ہو۔
ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کائنات میں موجود نظم و ضبط ، توازن اور اشیا میں ہم آہنگی ہمیں اس بات کی طرف دھکیلتی ہے کہ اس کے پیچھے کوئی عظیم قدرت اور ذہانت موجود ہے جو بامقصد کام کرتی ہے۔
اگر ہم اس قدرت اور ذہانت کی ذات کے بارے میں، جسے ہم اس کائنات کا مقتدر مان رہے ہیں، کچھ جاننا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ جیسے یہ کائنات ایک حد تک ہماری دسترس میں ہے، اسی طرح وہ ذات بھی کسی نہ کسی حدتک ہماری دسترس میں ہو تاکہ جیسے اس کائنات کے مطالعے سے ہم نے یہ بات اخذ کی ہے کہ اس کے پیچھے ایک قدرت اور ذہانت کارفرما ہے، اسی طرح ہم اس ذات کے مطالعے سے یہ طے کریں کہ اس کے پیچھے کون کار فرما ہے اور کب سے کارفرما ہے؟
ان سوالوں کے حوالے سے ہمارے محقق کا مسئلہ بس اس ذات تک پہنچنا ہے، جونہی وہ اس تک پہنچ جائے گا، اگلی تحقیقات آپ سے آپ شروع ہو جائیں گی۔ اگر وہ ذات بھی کائنات ہی کی اشیا کی طرح کی کوئی شے ہوئی تو پھر اسے مادی اصولوں پر پرکھ کر اس کے بارے میں کچھ کہنا ممکن ہو گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خدا کو مخلوقات کی صف میں کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ کیا وہ بھی اسی طرح زمان ومکان کا پابند ہے جیسے اس کائنات کی دوسری چیزیں پابند ہیں؟کیا وہ کائنات کے اندر ہی کا ایک وجود ہے کہ ہم اس تک پہنچنے کی کوشش کریں؟ اگر وہ بھی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے تو پھر اس کے بارے میں ہمارے ایسے سوالات بامعنی ہیں، لیکن اگر وہ مخلوق نہ ہوا تو پھر شاید وہ ہمارے علم و عقل سے بالا وجود ہو اور اسے سمجھ سکنا ہمارے بس میں نہ ہو، کیونکہ ہم صرف مخلوقات ہی سے واقف ہیں۔
ہم اسے اس لیے مانتے ہیں کہ یہ کائنات اور ہمارا اپنا وجود اسے ماننے کی طرف ہمیں دھکیلتا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی اس کائنات کی وہ واحد توجیہ ہے جو ہمارے سب سوالوں کا شافی جواب ہے۔
اب رہا اس کی ذات کا معاملہ کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور کب سے موجود ہے تو یہ معلوم کرنے کے لیے اس کے وجود تک پہنچنا، اس کا مشاہدہ و مطالعہ کرنا اور غور و فکر کے لیے بنیادی مواد حاصل کرنا ضروری ہے۔
بہرحال، حقیقت یہ ہے کہ فی الحال ہم مادے تک رسائی تو رکھتے ہیں، مگر اس کے پیچھے عقلاً محسوس ہونے والیذہن تک ہماری کوئی رسائی نہیں ہے۔
اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اس سوال کے دو جواب ہیں:
ایک یہ ہے کہ جب تک ہم خدا کی ذات کا مطالعہ کرکے اس کے بارے میں یہ نہیں جان لیتے کہ وہ کب سے ہے اور کہاں سے آیا ہے ، اس وقت تک کے لیے ہم کائنات کے پیچھے کسی قدرت اور ذہانت کے کارفرما ہونے اور اس کائنات میں کسی مقصدیت کے موجود ہونے ہی سے انکار کر دیںیا دوسرے لفظوں میں اس وقت تک کے لیے ہم خدا کے وجود پر اس کائنات کی اور اپنے وجود کی صریح گواہی کا انکار کر دیں اور اس پر اپنے ایمان لانے کو اس وقت تک کے لیے موخر کر دیں، جب تک ہمیں یہ نہ پتا چلے کہ آخر وہ آیا کہاں سے ہے اور وہ کب سے ہے ۔
ہمارے اس رویے کی مثال یہ ہو گی کہ جس شخص کے والدین کے بارے میں ہمیں یہ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ کون ہیں، ہم اس شخص کے وجود کے بارے میں اپنے وجود کی ہر گواہی کا انکار کریں گے۔
دوسرا یہ ہے کہ جو کچھ ثابت ہو چکا ہے، اس کو مانا جائے۔ چنانچہ اگر یہ بات ثابت ہے کہ اس کائنات کے پیچھے کوئی قدیر، کوئی حکیم ہے تو اسے مانا جائے، یعنی اس پر ایمان لایا جائے اور اس کی ذات سے متعلق سوالات کا جواب جاننے کے لیے اس تک پہنچنے کا انتظار کیا جائے اور ان سوالوں کو فی الحال معلق رہنے دیا جائے، کیونکہ اس وقت ان پر غور و فکر ہمارے بس ہی میں نہیں ہے۔
ویسے یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا یہ ضروری ہے کہ خدا کی ابتدا ہو؟ خدا کی ابتدا نہ ہونے سے یہی بات ثابت ہو گی کہ وہ ہماری معلوم اشیا کی طرح کی شے نہیں ہے۔ اگر وہ موجود ہے تو اس کے بارے میں یہ بات بھی ممکن ہے کہ وہ کائنات کی اشیا کی طرح کا نہ ہو۔ ہم اس کے بارے میں یہ سوال کہ وہ کب سے ہے اور وہ کہاں سے آیا ہے، آخر کس بل بوتے پر کر رہے ہیں۔
غور و فکر کفر نہیں ہوتا۔ کفر دراصل، اس حق کو نہ ماننا ہے جو آپ پر بالکل واضح ہے، جس کے بارے میں آپ کا دل کہتا ہے کہ آپ کو اسے لازماً قبول کرنا چاہیے، لیکن آپ جان بوجھ کر اسے نہیں مانتے۔
سوال: قرآن مجید حدیث کے بارے میں کیا کہتا ہے؟(خالد احمد خاں)
جواب:قرآن مجید نے حدیث کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ البتہ، اس نے صاحب حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بہت سی باتیں کی ہیں،یعنی یہ کہ آپ کی اطاعت کی جائے، آپ کی اتباع کی جائے اور آپ کے اسوۂ حسنہ کو اپنایا جائے۔
سوال: جرم اور گناہ میں کیا فرق ہے؟ دونوں میں کیا اشتراک ہے اور کیا اختلاف ہے؟(عالیہ انور)
جواب:گناہ خدا کے حکم کو نہ ماننا ہے۔ خواہ یہ حکم کسی کام کو سرانجام دینے کا ہو یا کسی کام سے رکنے کا ہو اور خواہ یہ حکم شریعت سے ثابت ہو یا فطرت سے مثلاً، انکار نبوت ، نماز میں کوتاہی، ماں باپ سے بد سلوکی، وعدہ خلافی اور جھوٹ بولنا وغیرہ۔
جرم کا لفظ جب آخرت کے زاویے سے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کسی گناہ پر ہٹ دھرمی کے ساتھ اصرار و استمرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہنمیوں سے کہا گیا کہ ’اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ‘،’’یقیناًتم مجرم ہو‘‘(المرسلٰت ۷۷: ۴۶) اور ’اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ‘،’’بے شک مجرم گمراہی میں ہیں اور جہنم میں ہوں گے‘‘(القمر۵۴: ۴۷) اور ’ وَکَانُوْا یُصِرُّوْنَ عَلَی الْحِنْثِ الْعَظِیْمِ‘،’’ اور وہ سب سے بڑے گناہ(شرک) پر اصرار کرتے رہے‘‘(الواقعہ۵۶: ۴۶)۔
اور جب قانون و فقہ کے زاویے سے بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ گناہ ہیں جن پر شریعت نے دنیا میں سزا دی ہے، مثلاً قتل، چوری، قذف اور زنا وغیرہ۔
سوال: اگر کوئی شخص اپنی بیوی پر شک کرتے ہوئے یہ الزام لگائے کہ وہ اس کے بعض رشتہ داروں پر جادو کر رہی ہے یا کرا رہی ہے، پھر وہ خاتون قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنی معصومیت کی قسم کھا لے کہ اس نے اس طرح کا کوئی جادو وغیرہ نہیں کیا تو کیا مذکورہ خاوند اپنی بیوی پر جادو کا یہ بہتان لگانے کے بعد اس کے ساتھ رہ سکتا ہے؟(عبداللہ خان)
جواب: کیوں نہیں رہ سکتا، بالکل رہ سکتا ہے۔ جب بیوی سے قسم لے لی ہے تو اس کے بعد خاوند کا اعتماد بحال ہو جانا چاہیے اور میاں بیوی کی باہمی محبت واپس لوٹ آنی چاہیے۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ اس واقعے میں بے شک خاوند نے بیوی پر شک کیا ہے اور اس پر ایک بہتان لگایا ہے، لیکن اس طرح کی کسی بات کا اثر ان کے نکاح پر نہیں پڑتا، لہٰذا اس پہلو سے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔
سوال: کیا جادو یا کالا علم کوئی حقیقت رکھتا ہے ؟ اور کیا اس کا روحانی علاج کرانا درست ہے؟اور کیا ہم عملیات پر یقین رکھ سکتے ہیں؟(ارشد اسلام)
جواب:ارشاد باری ہے:’وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ.‘،’’(یعنی میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) گرہوں میں پھونک مارنے والیوں کے شر سے۔‘‘(الفلق۱۱۳: ۴)
اس آیت سے یہ پتا چلتا ہے کہ جادو کرنے والوں کا ایک شر ہے جس سے بچنے کے لیے ہمیں یہ کلمہ سکھایا گیا ہے۔ اور ارشاد باری ہے:
’’ اور یہ (یہودی) ان چیزوں کے پیچھے پڑ گئے جو سلیمان کے عہد حکومت میں شیاطین پڑھتے پڑھاتے تھے، ... یہی(شیاطین) لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔‘‘(البقرہ۲: ۱۰۲ )
چنانچہ جادو یا کالا علم ایک حقیقت ہے، اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔
عام مشاہدے میں جو چیز آئی ہے ،وہ یہ ہے کہ جس شخص پر کالا جادو کر دیا جائے، وہ شدید توہمات میں گھر جاتا ہے، بعض صورتوں میں وہ سخت بیمار ہو جاتاہے اور اسے عام علاج معالجے سے بھی کوئی شفا نہیں ہوتی۔جادو وغیرہ کے لیے روحانی علاج کرانا درست ہے۔ البتہ، تعویذ گنڈے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکروہ جانا ہے۔ ابو داؤد کی’’ کتاب الخاتم‘‘ میں ایک مفصل حدیث بیان ہوئی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس چیزوں کو مکروہ جانتے تھے ،ان باتوں میں سے ایک تعویذ باندھنا بھی ہے۔
خود دین نے اس کے توڑ کے لیے جو روحانی علاج بتایا ہے، وہ معوذتین کا پڑھنا ہے۔یہ دونوں سورتیں دراصل، جادو اور بعض دوسرے شرور سے خدا کی پناہ حاصل کرنے کی دعا ہیں۔ یہ اگر پورے یقین کے ساتھ پڑھی جائیں تو ان سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہے۔
اس کے علاوہ اگر آپ کسی روحانی عامل سے علاج کرانا چاہیں تو کرا سکتے ہیں، بس یہ دیکھ لیں کہ وہ کوئی شرکیہ عمل اختیار کرنے والا نہ ہو اور دھوکاباز نہ ہو۔
عملیات پر یقین رکھنے کے الفاظ درست نہیں ہیں، کیونکہ اس میں وہ سب کچھ بھی آ جاتا ہے جو انسانوں کی ایجاد ہے۔
البتہ اشیا اور کلمات کے خواص اور ان کی تاثیرات کا علم ایک حقیقت ہے۔ قرآن مجید میں ہاروت و ماروت کے حوالے سے جس علم کا ذکر کیا گیا ہے ، عام طور پر اسے جادو سمجھا گیا ہے، لیکن مولانا امین احسن مرحوم نے واضح کیا ہے کہ وہ اشیا اور کلمات کے خواص اور ان کی تاثیرات کا علم تھا۔
البتہ ہر مسلمان کے لیے یہ یقین رکھنا ضروری ہے کہ جادو ہو یا روحانی علم، ان میں تاثیر اللہ ہی کے اذن سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا کے علاوہ کوئی چیز بھی بذات خود کوئی تاثیر نہیں رکھتی۔
سوال : قرآن میں کس جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں، اگر نہیں دیا گیا تو آپ نے ایسا کیوں کیا؟ (بابا علی)
جواب:یہ بات تو قرآن مجید سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز نہیں پڑھی۔
ارشاد باری ہے:
۱۔ سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَا.(البقرہ۲: ۱۴۲)
’’(ابراہیم کی بنائی ہوئی مسجد کو ، اے پیغمبر ،ہم نے تمھارے لیے قبلہ ٹھہرانے کا فیصلہ کیا ہے تو) اب اِن لوگوں میں سے جو احمق ہیں ، وہ کہیں گے : اِنھیں کس چیز نے اُس قبلے سے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے؟ ‘
۲۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ.(البقرہ۲: ۱۴۳)
’’اور اِس سے پہلے جس قبلے پر تم تھے ، اُسے تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے ٹھہرایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔‘‘
۳۔ قِبْلَۃً تَرْضٰہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.(البقرہ۲: ۱۴۴)
’’(اے پیغمبر) ، سو ہم نے فیصلہ کر لیا کہ تمھیں اُس قبلے کی طرف پھیر دیں جو تم کو پسند ہے، لہٰذا اب اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو۔ ‘‘
آیات نمبر۱ اور ۲ اور ان کے ترجمے میں موجود خط کشیدہ الفاظ میں بیت اللہ کا ذکر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کس قبلے کا ذکر ہے؟
آیت نمبر ۳ میں بیت اللہ کی طرف آپ کا رخ پھیر دینے کا ذکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے رخ کو کدھر سے اِدھر پھیرا جا رہا ہے۔
قرآن کی یہ آیت کہ ’سَیَقُوْلُ السُّفَھَآءُ‘ (عنقریب یہ بے وقوف(یہود) کہیں گے)، بتاتی ہے کہ یہ یہود کا پسندیدہ قبلہ ہے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ یہ بیت المقدس ہی ہے۔ور احادیث بھی بتاتی ہیں کہ وہ بیت المقدس ہی ہے۔
قرآن مجید کے اس مقام کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، البتہ آپ اس بات کا اہتمام ضرور کرتے تھے کہ آپ اس رخ پر کھڑے ہوں جس پر خانہ کعبہ اور بیت المقدس، دو نوں ہی قبلے آپ کے سامنے آ جائیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک اہل کتاب سے مختلف کوئی طریقہ اختیار نہ کیا کرتے تھے، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کا حکم یا اس کی اجازت نہ مل جاتی تھی۔
پھر جب آپ مدینہ میں آئے تو وہاں دونوں قبلوں کو بہ یک وقت سامنے رکھنا ممکن نہ تھا، لہٰذا آپ نے اپنے اصول کے مطابق بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کر دی، لیکن آپ کا جی یہ چاہتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں۔ پھر جیسا کہ درج بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے، کچھ ہی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دے دیا کہ آپ کعبہ ہی کواپنا قبلہ بنائیں۔
سوال: کیا نکاح میں گواہ ہونے ضروری ہیں؟اگر کوئی مرد وعورت کسی ایسی مجبوری میں ہیں کہ وہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح نہیں کر سکتے تو کیا بغیر گواہی کے ان کے ایجاب و قبول سے ان کا نکاح واقع ہو جائے گا؟(مقصود احمد)
جواب: نکاح سے متعلق شریعت کو غامدی صاحب نے اپنی کتاب’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معاشرت‘‘ میں درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’وَاُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ، مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ، فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً، وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.(النساء ۴ : ۲۴)
’’اور اِن کے ماسوا جو عورتیں ہیں ، وہ تمھارے لیے حلال ہیں ، اِس طرح کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے اُنھیں طلب کرو ، اِس شرط کے ساتھ کہ تم پاک دامن رہنے والے ہو، نہ کہ بدکاری کرنے والے ۔ (چنانچہ اِس سے پہلے اگر مہر ادا نہیں کیا) تو جو فائدہ اُن سے اٹھایا ہے ، اُس کے صلے میں اُن کے مہر اُنھیں ادا کر دو، ایک فرض کے طور پر ۔ اِسے فرض ٹھیرانے کے بعد ، البتہ باہمی رضا مندی سے جو کچھ طے کر لو تو اِس میں کوئی حرج نہیں ۔ بے شک ، اللہ علیم و حکیم ہے ۔‘‘
اِس آیت میں نکاح کے لیے جو حدود و شرائط بیان ہوئے ہیں ، اُن کی تفصیل یہ ہے:
پہلی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ نکاح مال یعنی مہر کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ ایک فریضہ کی حیثیت سے یہ نکاح کی ایک لازمی شرط ہے۔
...دوسری بات آیۂ زیر بحث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ نکاح کے لیے پاک دامن ہونا ضروری ہے۔ کوئی زانی یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی عفیفہ سے بیاہ کرے اور نہ کوئی زانیہ یہ حق رکھتی ہے کہ کسی مردعفیف کے نکاح میں آئے ، الاّ یہ کہ معاملہ عدالت میں نہ پہنچا ہو اور وہ توبہ و استغفار کے ذریعے سے اپنے آپ کو اِس گناہ سے پاک کر لیں ۔
... اِسی طرح یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نکاح خاندان کے جس ادارے کو وجود میں لانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اُس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ یہ والدین اور سرپرستوں کو ساتھ لے کر اور اُن کی رضا مندی سے کیا جائے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نکاح میں فیصلہ اصلاً مردو عورت کرتے ہیں اور اُن کے علانیہ ایجاب و قبول سے یہ منعقد ہو جاتا ہے ، لیکن اولیا کا اذن اگر اُس میں شامل نہیں ہے تو اِس کی کوئی معقول وجہ لازماً سامنے آنی چاہیے ۔ یہ نہ ہو تو معاشرے کا نظم اجتماعی یہ حق رکھتا ہے کہ اِس طرح کا نکاح نہ ہونے دے ۔ ’لا نکاح الا بولی‘(سرپرست کے بغیر کوئی نکاح نہیں) اور اس طرح کی دوسری روایتوں میں یہی بات بیان ہوئی ہے ۔ عورت کی بغاوت چونکہ اِس معاملے میں خاندان کے لیے غیر معمولی اختلال کا باعث بن جاتی ہے ، اِس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے اولیا پر واضح کر دیا ہے کہ اُس کے بارے میں وہ کوئی فیصلہ اُس کی اجازت کے بغیر نہ کریں ، ورنہ عورت چاہے گی تو اُن کا یہ فیصلہ رد کر دیا جائے گا ۔ ‘‘(میزان ۴۱۶۔۴۱۹)
درج بالا عبارت میں آپ کے سوال کا جواب موجود ہے۔اس میں خاص آپ سے متعلق بات کو میں نے خط کشیدہ کر دیا ہے، یعنی یہ کہ نکاح کے لیے علانیہ طور پر ایجاب و قبول ضروری ہے۔چوری چھپے کا نکاح کوئی چیز نہیں۔
سوال: کیا اسلام میں متعہ یعنی عارضی شادی کی اجازت ہے؟ اگر اجازت ہے تو پھر اس کا طریقہ کیا ہے؟(ایم احمد)
جواب:اسلام میں عارضی شادی کی کوئی اجازت نہیں ہے۔ نکاح ایک مستقل رفاقت کا عہد ہوتا ہے۔
ارشاد باری ہے:
’’وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ، وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآءِکُمْ ، اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ، وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ، وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ . (النور ۲۴: ۳۲۔۳۳)
’’اور تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمھارے لونڈی غلاموں میں سے جو صلاحیت رکھتے ہوں ، اُن کے نکاح کردو۔ اگر وہ غریب ہوں گے تو اللہ اُن کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا اور اللہ بڑی وسعت اور بڑے علم والا ہے ۔ اور جو نکاح کا موقع نہ پائیں ، اُنھیں چاہیے کہ عفت اختیار کریں ، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے اُن کو غنی کر دے ۔ ‘‘
استاذ محترم غامدی صاحب نے اپنی کتاب’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معاشرت‘‘میں ان آیات کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اِن آیات میں یہ بات پوری قطعیت کے ساتھ واضح کی گئی ہے کہ عورتوں سے جنسی تسکین حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے ، اور وہ نکاح ہے۔ اِس کی مقدرت نہ ہو تو یہ چیز بدکاری کے جواز کے لیے عذر نہیں بن سکتی۔ چنانچہ لوگوں کو تلقین کی گئی ہے کہ اُن میں سے جو بن بیاہے رہ گئے ہوں ، اُن کے نکاح کرائیں۔ علانیہ ایجاب و قبول کے ساتھ یہ مردو عورت کے درمیان مستقل رفاقت کا عہد ہے جو لوگوں کے سامنے اور کسی ذمہ دار شخصیت کی طرف سے اِس موقع پر تذکیر و نصیحت کے بعد پورے اہتمام اور سنجیدگی کے ساتھ باندھا جاتا ہے ۔ الہامی صحیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی آدم میں یہ طریقہ اُن کی پیدایش کے پہلے دن ہی سے جاری کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ قرآن نازل ہوا تو اُس کے لیے کوئی نیا حکم دینے کی ضرورت نہ تھی ۔ ایک قدیم سنت کے طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو اپنی امت میں اِسی طرح باقی رکھا ہے ۔ یہاں اِس کی ترغیب کے ساتھ لوگوں کو مزید یہ بشارت دی گئی ہے کہ وہ اگر غریب بھی ہوں تو اخلاقی مفاسد سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے نکاح کریں۔‘‘(میزان۴۱۰)
آپ کے سوال سے متعلق الفا ظ کو میں نے خط کشیدہ کر دیا ہے۔
سوال: ہسپتال کی زمین خریدنے اور اس پر عمارت بنانے کے لیے ہمیں یہ بات تو واضح ہے کہ صدقے کی مد میں وصول ہونے والی رقم استعمال کی جا سکتی ہے، لیکن زکوٰۃ کی رقم شاید اس کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی؟ اگر یہ بات صحیح ہے تو کیا ہم زمین خریدنے اور عمارت بنانے کے لیے زکوٰۃ کی رقم میں سے بطور قرض کچھ رقم لے سکتے ہیں؟نیز یہ بتائیں کہ کیا ہم زکوٰۃ کی رقم اپنی ’capital cost‘کے لیے استعمال کر سکتے ہیں؟(ناصر مشتاق)
جواب:استاذ محترم غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق دین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔ چنانچہ آپ صدقے کی رقم کی طرح زکوٰۃ کی رقم سے بھی زمین خرید سکتے اور اس پر عمارت بنا سکتے ہیں اور اسے ہسپتال کی چھوٹی بڑی سب ضروریات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
زکوٰۃ کے مصارف یعنی زکوٰۃ خرچ کرنے کی جگہوں کو خود قرآن مجید نے بیان کیا ہے۔ غامدی صاحب نے زکوٰۃ سے متعلق آیت کی شرح کرتے ہوئے قرآن کے بیان کردہ ان مصارف کو درج ذیل الفاظ میں واضح کیا ہے:
’’ زکوٰۃ کے مصارف سے متعلق کوئی ابہام نہ تھا۔یہ ہمیشہ فقراومساکین اور نظم اجتماعی کی ضرورتوں ہی کے لیے خرچ کی جاتی تھی ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب منافقین نے اعتراضات کیے تو قرآن نے انھیں خود پور ی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ۔ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ، وَالْمَسٰکِےْنِ، وَالْعٰمِلِےْنَ عَلَےْھَا، وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ، وَفِی الرِّقَابِ، وَالْغٰرِمِےْنَ، وَفِیْ سَبِےْلِ اللّٰہِ ، وَابْنِ السَّبِےْلِ، فَرِےْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ عَلِےْمٌ حَکِےْمٌ.(التوبہ ۹: ۶۰)
’’ یہ صد قات تو بس فقیروں اورمسکینوں کے لیے ہیں، اور اُن کے لیے جو اِن پر عامل بنائے جائیں ، اوراُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو ، اوراِس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے اور تاوان زدوں کی مد د کرنے میں ، راہ خدا میں اور مسافر وں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے ۔‘‘
اِس آیت میں جو مصارف بیان کیے گئے ہیں، اُن کی تفصیل یہ ہے :
فقرا ومساکین کے لیے ۔
’ العاملین علیھا ‘ ، یعنی ریاست کے تمام ملازمین کی خدمات کے معاوضے میں ۔
’المؤلفۃ قلوبھم ‘، یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مفادمیں تمام سیاسی اخراجات کے لیے ۔
’ فی الرقاب ‘ ، یعنی ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لیے ۔
’ الغارمین‘ ، یعنی کسی نقصان ، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے ۔
’فی سبیل اللّٰہ ‘ ، یعنی دین کی خدمت اورلوگوں کی بہبود کے کاموں میں ۔
’ ابن السبیل‘ ،یعنی مسافروں کی مد داوراُن کے لیے سڑکوں ، پلوں ، سراؤں وغیرہ کی تعمیر کے لیے۔
... زکوٰۃ کے مصارف پر تملیک ذاتی کی جو شرط ہمارے فقہانے عائد کی ہے ، اُس کے لیے کوئی ماخذ قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے ، اِس وجہ سے زکوٰۃ جس طرح فرد کے ہاتھ میں دی جا سکتی، اُسی طرح اُس کی بہبود کے کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے ۔‘‘ (میزان ۳۵۱۔۳۵۲)
غامدی صاحب کی تحریر میں آپ کے سوال سے متعلق حصہ میں نے نشان زد کر دیا ہے۔
سوال: کیا کسی آدمی کی وفات کے بعد اس کی طرف سے ہم اس کی چھوڑی ہوئی نمازوں کے عوض صدقہ دے سکتے ہیں؟(ثمر کاظمی)
جواب : نہیں اس کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ جیسے کوئی بوڑھا آدمی جو روزہ نہ رکھ سکتا ہو، وہ اپنے روزہ چھوڑنے کے عوض فدیہ دے سکتا ہے۔ اس طرح کا کوئی فدیہ چھوڑی ہوئی نماز کے لیے نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ بات دین میں ثابت نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ کسی کے لیے کوئی دوسرا شخص نیک عمل نہیں کر سکتا۔
سوال: مجھے درج ذیل سوالات کی وضاحت مطلوب ہے:
پہلا یہ کہ اگر کسی لڑکے نے کسی شادی شدہ عورت سے زنا کیا ہے تو کیا وہ اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے؟
دوسرا یہ کہ اگر اس لڑکے کا معاملہ اس عورت کے ساتھ زنا کے قریب ،یعنی بوس و کنار وغیرہ تک تو پہنچا ہو، البتہ اس نے زنا نہ کیا ہو تو کیا اس صورت میں وہ اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے؟
تیسرا یہ کہ اگر زنا یا محض بوس و کنار کے زمانے میں وہ لڑکا تو نابالغ ہو اور عورت شادی شدہ ہو تو کیا اس صورت میں وہ اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے؟(محمد عاشق)
جواب:استاذ محترم غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق درج بالا تینوں صورتوں میں وہ لڑکا اس عورت کی بیٹی سے شادی کر سکتا ہے۔
احناف کے نزدیک تینوں صورتوں میں یہ شادی ناجائز ہو گی جبکہ شوافع کے نزدیک تینوں صورتوں میں یہ جائز ہے۔
سوال: کیا نماز سے پہلے ٹخنوں سے اوپر شلوار کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟(عرفان محمود)
جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا کہ لوگ اپنا ازار، یعنی تہ بند متکبرانہ انداز میں ٹخنوں سے نیچے لٹکائے زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں تو آپ نے اپنے صحابہ کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنا تہ بند ٹخنوں سے اوپر رکھا کریں اور یہ بتایا کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہ بند زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتا ہو گا ، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں اور اس کا جو کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو گا، وہ آگ میں ہو گا۔
چنانچہ صحابۂ کرام نے نہ صرف لباس کی اس متکبرانہ صورت کو بالکل ترک کیا، بلکہ تکبر کے ذہن کے بغیر بھی اس صورت کو اختیار کرنے سے مکمل گریز کیا، کیونکہ یہ بہرحال اظہار تکبر ہی کی ایک صورت ہے۔
آج بھی اگر کوئی شخص اپنا تہ بند متکبرانہ انداز میں ٹخنوں سے نیچے لٹکائے زمین پر گھسیٹتا ہوا چلتا ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی وعید کا مخاطب ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آج کل شلوار کا ٹخنوں سے ذرا نیچے رکھا جانا کیا متکبرانہ لباس کی شکل ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ تہ بند کو نیچے لٹکانا اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلنا لباس کی واقعۃً متکبرانہ صورت اور علامت ہے، جبکہ شلوار کی عام رائج صورت کا معاملہ بالکل یہ نہیں۔
چنانچہ ہمارے خیال میں تہ بند لٹکا کر گھسیٹتے ہوئے چلنے سے متعلق حکم شلوار وغیرہ کی عام رائج صورت پر لا گو نہیں ہوتا۔
سوال: کیا کوئی غریب ملازم اپنے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے رشوت لے سکتا ہے؟ اسلام کی رہنمائی کے مطابق اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کیجیے۔ (عبداللہ)
جواب: رشوت کی اجازت دینا قانون کو بیچنے کی اجازت دینا ہے۔ اسلام میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ ہاں، اگر کسی مجبور شخص سے ایسی غلطی ہو جائے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے عذر کو قبول کر کے اسے معاف فرما دیں۔
اس رشوت لینے کو کسی جاں بلب بھوکے شخص کو حرام غذا کھانے کی اجازت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ حرام جانور نہ کھانا خدا کا حق ہے جسے وہ (اللہ) بھوکے شخص کے لیے چھوڑ دیتا ہے، جبکہ رشوت لینا لوگوں کے یا قوم کے حقوق بیچنا ہے۔ اس کی اجازت اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ لوگ یا قوم اجازت نہ دے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ آمدنی بڑھانے کے دوسرے ذرائع اختیار کرنے کی کوشش کرے اور خدا سے برکت کی دعا کرے۔
________________