[’’سیر و سوانح’’ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین
کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
۲۷ھ میں فتح افریقہ کے بعد سیدنا عثمانؓ نے عبداﷲ بن نافع بن حصین اور عبداللہ بن نافع بن عبدالقیس نام کے دو جرنیلوں کو بحری راستے سے اندلس روانہ کیا۔آپ نے ان دونوں کو خط تحریر کیاکہ قسطنطینیہ اندلس ہی کی جانب سے فتح ہو گااگر تم فاتح ہوئے تو اجر وثواب میں حصہ دار ہو گے۔ اﷲ نے اس مہم میں جیش اسلامی کو کامیابی دی تاہم اندلس ولید بن عبدالملک کے زمانے میں فتح ہوا۔ابن ابی سرح افریقہ سے رخصت ہوئے توعبداﷲ بن نافع بن عبد القیس وہاں کے عامل مقرر ہوئے۔۲۷ھ میں عثمانؓ بن ابو العاص کے ہاتھوں اصطخر دوبارہ فتح ہو ا اور حضر ت معاویہؓ نے قنسرین پر فوج کشی کی۔
عہد فاروقیؓ میں رومیوں نے سمندر کی جانب سے انطاکیہ پر حملہ کیاتو حضرت معاویہؓ شام کے گورنر تھے ۔ انھوں نے تجویزپیش کی کہ نوزائیدہ اسلامی مملکت سمندری مہمات سر کرنے کے لیے اپنا بحری بیڑا تیار کرے۔حضرت عمرؓاس پر آمادہ نہ ہوئے۔ خلافت عثمانیؓ کی ابتدا میں رومیوں نے دوبارہ بحری حملہ کر کے اسکندریہ کی بندرگاہ اور شہر پر قبضہ کرلیاتوحضرت معاویہؓ نے یہی راے خلیفۂ سوم کے سامنے رکھی ۔ان کی دلیل تھی کہ اسلامی مملکت کی ہزاروں میل لمبی سمندری سرحد کو بحری قوت ہی کے ذریعے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے جزیرۂ قبرص پر فوج کشی کی راے بھی دی جو حمص کے پڑوس میں تھاایک باریک سمندری پٹی ان دونوں شہروں کے بیچ حائل تھی ۔حضرت عثمانؓ کوحضرت معاویہؓ کا مشورہ صائب محسوس ہوالیکن اس وجہ سے متردد تھے کہ حضرت عمرؓ اپنے دور خلافت میں اس مشورے کو رد کر چکے تھے ۔ حضرت معاویہؓ کے اصرار پر انھوں نے اجازت دے دی تاہم شرط رکھی کہ صرف وہی لوگ سمندری فوج میں شامل کیے جائیں جو اپنی مرضی سے آئیں۔حضرت معاویہؓ نے بحری جہاز تیار کرانے شروع کیے تھے کہ عبداﷲ بن سعد بن ابی سرح نے بھی اسکندریہ میں ایک بیڑا کھڑا کر دیا۔
۲۸ھ میں حضرت معاویہ کو توقع سے بڑھ کر رضاکار حاصل ہو گئے تو وہ انھیں لے کر قبرص روانہ ہو گئے۔ان کی اہلیہ فاختہ بنت قرظہ کے علاوہ شام میں مقیم اصحاب رسولﷺ میں سے حضرت ابوذرؓ،حضرت ابو الدرداؓ، حضرتشدادؓ بن اوس، حضرت عبادہؓ بن صامت اور ان کی اہلیہ ام حرامؓ اس لشکر میں شامل تھے۔مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کو ایک بار عبادہؓ کے گھر سوئے ۔ آپ ﷺ بیدار ہوئے توہونٹوں پر تبسم تھاپوچھنے پر فرمایا:میری امت کے کچھ لوگ سینۂ سمندر پریوں سوار ہوکر سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر متمکن ہوتے ہیں۔ ام حرامؓ نے کہا: دعا فرمائیے اﷲ مجھے بھی ان میں شامل کر دے۔ آپ ﷺنے فرمایا: تم آگے آگے ہو گی۔ جزیرۂ قبرص رومی کنٹرول میں تھا لیکن کسی رومی جہاز نے جیش اسلامی کا راستہ نہ روکا۔دشمن کے بے شمار فوجی مارے گئے اور قید ہوئے تو اہل قبرص نے خلافت اسلامی کو ۷ ہزار ۲سو دینار سالانہ جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے صلح کر لی ،اتنی ہی رقم وہ رومیوں کے شر سے بچنے کے لیے ان کو دے رہے تھے۔یہ بلاذری کا بیان ہے ۔طبری اور ابن اثیر کہتے ہیں : جنگ قبرص میں مصر سے ابن ابی سرح کے بیڑے نے بھی شرکت کی ۔مصر سے آنے والے بحری جہازوں کی قیادت عبداﷲ بن قیس جاسی نے کی جب کہ عبداﷲبن سعد شامی بیڑے کے امیر تھے۔عبد اﷲ بن قیس نے اپنی بحری مہمات میں کبھی شکست نہ کھائی تھی ۔ عہد اسلامی کے اس پہلے امیر البحر کو رومیوں نے ایک بار اکیلا پایا تو شہید کر دیا۔سفر قبرص سے واپسی پر ام حرامؓ خچر سے گر کرجان بحق ہوئیں انھیں وہیں دفن کر دیا گیا ۔ ۲۸ھ ہی میں نائلہ بن فرافصہ کلبیہ سے حضرت عثمانؓ کی شادی ہوئی جو عیسائیت چھوڑ کر مسلمان ہوئیں تب ولیدؓ بن عقبہ بنو کلب کے عامل تھے انھوں نے یہ نسبت طے کی۔ دوسری روایت کے مطابق سعیدؓ بن عاص نے رشتہ کرایا نائلہ کی بہن ہند بن فرافصہ ان کے عقد میں تھیں۔حضرت عثمانؓ اس شادی سے بہت خوش تھے۔
۹ ۲ھ میں حضرت عثمانؓ نے ابو موسیٰ اشعریؓ کو ہٹا کرایک ۲۵ سالہ نوجوان عبداﷲبن عامر کوبصرہ کا گورنر مقرر کیا،وہ ان کے ماموں زاد تھے۔ انھوں نے خراسان پر عمیر بن عثمان، اور سجستان پر عبداﷲ بن عمیر لیثی کی تقرریاں کیں ،عبیداﷲ بن معمر کو مکران اور عبدالرحمان بن غبیس کو کرمان کی مہمات پر بھیجا۔ اس سال ایران میں معاہدات صلح کی کئی خلاف ورزیاں ہوئیں۔اہل اصطخرکی عہد شکنی پر عبداﷲبن عامر، ابوبرزہؓ اسلمی ،معقلؓ بن یساراور عمرانؓ بن حصین نے قابو پایا۔ عبداﷲنے دارابجرداور جور کی بغاوتوں کو بھی فرو کیا۔ واقدی کے قول کے مطابق ۲۹ھ ہی میں حبیب بن مسلمہ فہری کے ہاتھوں ارمینیا فتح ہوا۔
ربیع الاول ۲۹ھ میں حضرت عثمانؓ نے مسجد نبو ی کو توسیع دی۔ انھوں نے اس کی تعمیر نومیں منقش پتھر استعمال کرنے کا حکم دیا ستون پتھر اورگچ سے بنوائے اور چھت پر سال (ساگوان) کی لکڑی ڈلوائی۔اس طرح مسجد کی لمبائی ۱۶۰ گز اور چوڑائی ۱۰۰ گز ہو گئی،اس کے ۶ دروازے اسی طرح برقرار رکھے گئے جیسے عہد فاروقی میں تھے ۔خلیفۂ ثالث امسال حج پر گئے توپہلی بار منی میں خیمہ لگوایا۔انھوں نے منی و عرفات میں کامل ۴ رکعتیں ادا کیں۔یہ پہلا موقع تھا کہ ان پر سر عام اعتراض ہوا۔ حضرت علیؓ نے کہا: نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابوبکرؓ و عمرؓ کا عمل آپ کو معلوم ہے، انھوں نے ۲ رکعتیں ہی ادا کیں ۔حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے کہا:کیا آپ نے خود ان حضرات کے ساتھ نماز دوگانہ ادا نہیں کی؟حضرت عثمانؓ کا جواب تھا:مجھے کچھ یمنیوں کے بارے میں پتا چلا وہ ۲ رکعتوں ہی کو اصل نماز سمجھنے لگے ہیں پھر میں نے مکہ میں شادی کر رکھی ہے اور طائف میں میرے مال مویشی ہیں۔ حضرت عبدالرحمانؓ بن عوف نے کہا :اس کے باوجود آپ کے لیے یہ حضر نہیں بلکہ سفر ہے۔آخر کار حضرت عثمانؓ نے کہا: ایک راے تھی جو میں نے اختیار کر لی۔حضرت عبداﷲؓ بن مسعود نے کہا: اختلاف کرنا بری بات ہے میں نے تو اپنے ساتھیوں کو ۴ رکعتیں پڑھادی ہیں۔
۳۰ھ میں حضرت عثمانؓ نے ولیدؓ بن عقبہ بن ابی معیط کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر دیا اور ان کی جگہ سعیدؓ بن عاص کی تقرری کی۔ حضرت ولیدؓ ۵ سال تک عوام کے محبوب گورنر رہے تھے ، کہا جاتا ہے انھوں نے ابن حیسمان خزاعی کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا تو اہل کوفہ ان کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ ان پر الزام لگایا گیاکہ وہ ایک شاعر ابو زبید کے ساتھ مل کر شراب نوشی کرتے ہیں، یہ بھی کہاگیا کہ ا نھوں نے نشے کی حالت میں فجرکی ۴ رکعتیں پڑھا دیں اور پوچھاکیا اور پڑھاؤں؟حضرت ولیدؓ کے بدخواہ حضرت عبداﷲؓ بن مسعود کے پاس گئے تو انھوں نے کہا:جو عیب ہم سے مخفی ہے ،ہمیں اس کا کھوج نہیں لگانا چاہیے۔مدینہ پہنچ کر ابو زینب اور ابو مورع نے ان کے خلاف گواہی دے دی تو حضرت عثمانؓ نے انھیں کوڑے لگانے کا حکم دیا ۔انھوں نے سعیدؓ بن عاص کو نیا گورنر بنایا اور انھیں تلقین کی، اسلام و جہاد کی طرف سبقت کرنے والوں کو ترجیح دو۔
۳۰ھ میں کوفہ کے گورنر سعیدؓ بن عاص نے طبرسان پر فوج کشی کی۔ حضرت حسنؓ و حضرت حسینؓ،عبادلۂ اربعہ (ابن عمرؓ،ابن عباسؓ، ابن عمروؓ بن عاص اور ابن زبیرؓ) اور حذیفہؓ بن یمان ان کے ساتھ تھے۔ قومس سے ہوتے ہوئے وہ جرجان پہنچے اور ۲ لاکھ دینار سالانہ جزیہ کے عوض صلح کی ۔طمیسہ میں انھیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔شدید لڑائی میں جیش اسلامی نے صلاۃ خو ف ادا کی، حضرت حذیفہؓنے راہ نمائی کی۔ آخر کار قلعۂ شہر میں بند دشمن نے امان چاہی تو حضرت سعیدؓنے کہا کہ وہ ایک آدمی قتل نہ کریں گے، جب دروازہ کھلا تو انھوں نے ایک شخص کو چھوڑ کرسب اہل شہر کو قتل کر دیا۔ اہل جرجان معاہدے کے مطابق جزیہ ادانہ کرتے ،ان کی کاروائیوں سے قومس سے خراسان جانے کا راستہ بھی بند ہو گیا۔ یزید بن مہلب آئے تو حضرت سعیدؓ ہی کی شرائط پر ان سے دوبارہ صلح کی۔انھوں نے بحیرہ اور دہستان کے علاقے بھی زیر کیے۔اسی سال یزدگرد جور سے فرار ہو کر کرمان جا رہا تھا کہ حضرت مجاشعؓ بن مسعود نے ایک دستہ لے کر اس کا پیچھا کیا۔اس نے خراسان کا رخ کر لیا حضرت مجاشعؓ اس کے تعاقب میں تھے کہ برفانی طوفان نے آن لیا۔ان کی تمام فوج ماری گئی ان کے علاوہ محض ایک شخص اور ایک باندی بچنے پائے۔
حذیفہؓ بن یمان رے اور آذربیجان کی جنگوں میں شریک رہے۔ایران و شام کے سفروں میں انھوں نے دیکھاکہ حمص، دمشق ، کوفہ اور بصرہ کے مسلمان مختلف طریقوں سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اوراپنی قرآت کو بہتر سمجھتے ہیں۔اہل حمص نے مقدادؓ بن عمروسے قرآن سیکھا (جو اسود بن عبد یغوث کا لے پالک ہونے کی وجہ سے مقدادؓ بن اسود کے نام سے جانے جاتے ہیں)جب کہ کوفہ کے رہنے والے عبداﷲؓ بن مسعود کے شاگرد تھے۔ بصریوں نے ابو موسیٰ اشعریؓ سے پڑھا انھوں نے اپنے مصحف کا نام ’’لباب القلوب ‘‘(دلوں کا جوہر)رکھا ہوا تھا۔اپنی دینی کتاب کے بارے میں مسلمانوں کے اس اختلاف سے حضرت حذیفہ سخت پریشان ہوئے۔ انھوں نے کوفہ میں موجود صحابہؓ کواس کے عواقب سے خبردار کیا ،پھر مدینے کا رخ کیا اور اپنی تشویش سیدناعثمانؓ کے سامنے رکھی۔اس سے قبل عہد صدیقیؓمیں ہونے والی جنگ یمامہ میں کثرت سے حفاظ شہید ہوئے تو حضرت ابو بکرؓ کوفکر لاحق ہوئی کہ قرآن کامتن ضائع نہ ہو جائے ۔ان کے حکم پر حضرت زیدؓ بن ثابت نے آیات کویکجا املا کرکے ایک مصحف کی شکل دے دی۔خلیفۂ اولؓ کی وفات کے بعد یہ مصحف حضرت عمرؓ کے پاس آ گیا۔ وہ شہیدہو ئے تو ام المومنین حفصہؓ بنت عمرؓ کی تحویل میں رہا۔حضرت عثمانؓ نے مصحف ان سے منگوا یا،زیدؓ بن ثابت،عبداﷲؓ بن زبیرؓ،سعیدؓ بن عاص اور عبدالرحمانؓ بن حارث سے اس کی نقلیں تیار کرائیں اور تمام بلاد اسلامیہ بھجوا دیں۔انھوں نے وہ مصاحف ضائع کرنے کا حکم بھی دیا جو اصل مصحف کے موافق نہ تھے۔ان کے اس عمل کی سب نے تحسین کی البتہ عبداﷲؓ بن مسعود اور ان کے شاگردوں نے پسند نہ کیا۔
۳۰ھ ہی میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی انگشتری حضرت عثمانؓ کے ہاتھ سے مدینہ سے ۲ میل(۲،۳ کلو میٹر) دور واقع بئراریس میں گر گئی۔یہ کنواں ایک یہودی اریس کے نام سے منسوب تھا۔ چاندی کی انگوٹھی پر’’ محمد رسول اﷲ‘‘ ۳ سطروں میں نقش تھا۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ اس وقت بنوائی تھی جب اسلام کی سچی دعوت دینے کے لیے جزیرہ نماے عرب سے باہرکے سربراہان مملکت کوخطوط لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ آپ ﷺ کو بتایا گیا تھاکہ ملوک عجم مہر لگا خط ہی وصول کرتے ہیں۔ شیخین ابوبکرؓ و عمرؓ سے ہوتی ہوئی یہ حضرت عثمانؓ کے پاس آئی۔ اپنی خلافت کے چھٹے سال انھوں نے مدینہ کے نواح میں مسجد قبا کے قریب واقع بئر اریس کی صفائی کروائی۔وہ منڈیر پر کھڑے انگوٹھی ہاتھ میں گھما رہے تھے کہ کنویں میں جا پڑی ۔ کنویں کا سارا پانی نکال کر انگوٹھی ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن وہ نہ ملی۔تب امیر المومنینؓ نے چاندی کی ویسی ہی نئی انگوٹھی بنوائی اور اس پر وہی تین سطری عبارت نقش کرائی۔ جب انھیں شہید کیا گیا تو اس انگوٹھی کا بھی سراغ نہ ملا۔
حضرات ابوذرؓ و معاویہؓ میں نزاع بھی امسال ہی پیدا ہوا۔ دونوں اصحابؓ رسول شام میں مقیم تھے۔ابوذرؓ مال جمع کرنے کی وجہ سے عام مسلمانوں پرتنقید کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھاکہ ایک مسلمان کو ایک دن اور رات کے خرچ سے بڑھ کر مال اپنے پاس نہ رکھنا چاہیے زائد مال صدقہ کرنا اس کے لیے واجب ہے۔ دلیل کے طور پر وہ سورۂ توبہ کی یہ آ یت پڑھتے،’’الذین یکنزون الذہب والفضۃ ولا ینفقونہا فی سبیل اﷲ فبشرہم بعذاب الیم‘‘’’جولوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اسے اﷲ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو‘‘(آیت۳۴)۔ان کے خیالات غریب مسلمانوں تک پہنچے تو وہ امرا کی دولت کو اپنا حق سمجھنے لگے ۔حضرت معاویہؓ نے اس صورت حال کی خبر حضرت عثمانؓکو کی۔ انھوں نے حضرت ابوذرؓ کو مدینہ طلب کیا اور کہا:رعایا کو جبراً زاہد بنانا مجھ پر لازم نہیں۔حضرت ابوذرؓ نے کہا:آپ دولت مندوں سے اس وقت تک راضی نہ ہوں جب تک وہ اپنے پڑوسیوں اور اعزہ و اقارب سے حسن سلوک نہ کر لیں۔باتوں باتوں میں وہاں پر موجودکعبؓ احبار سے ان کا جھگڑا ہوگیا ،انھوں نے کعبؓ کا سر پھاڑ ڈالا ۔آخرکارابوذرؓ نے خود کہامجھے مدینہ سے باہر جانے دیجیے کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا تھاکہ’’جب آبادی کوہ سلع تک آ جائے تو تم مدینہ سے چلے جانا۔‘‘ وہ نواحی بستی ربذہ میں آ گئے وہاں ایک مسجد تعمیر کر کے رہنے لگے ۔حضرت عثمانؓ نے روزانہ خرچ مقرر کرنے کے علاوہ انھیں کچھ اونٹ اور خدمت کے لیے دو غلام دیے ۔ یہیں ان کا انتقال ہوا۔
رومی سالاروں کو یقین ہو گیاتھا اگر اسلام کی بحری قوت بڑھتی رہی تو وہ کبھی مصر وشام واپس نہ جا سکیں گے اس لیے انھوں نے یہ نوخیز بحریہ تباہ کرنے کی ٹھانی۔ اپنی بہتر عسکری صلاحیت اور بے شمار جنگی جہازوں پر انھیں بہت بھروسا تھا۔ ۳۱ ھ،۶۵۲ء(یا دوسری روایت کے مطابق۳۴ھ،۶۵۲ء) میں ہرقل کا پوتا کانسٹنز دوم (Constans II) ۵سو سے زائد بحری جہازوں کے بیڑے کی خود قیادت کرتا ہوابحر روم ( mediterranean sea ) کے راستے اسکندریہ روانہ ہوا۔ ادھر گورنرمصر عبدﷲ بن سعد بن ابی سرح ۲ سو جہازوں پر اپنے جنگ آزمودہ سپاہی لے کر نکلے۔اناطولیہ (ترکی)کی قدیم ریاست Lycia کی بندرگاہ فینیکس( Phoenicus ، ترکی کے موجودہ شہر Finike)پر کھلے سمندر میں فوجوں کا سامنا ہوا،رات ہونے کو تھی اور اسلامی بیڑے کے رخ میں تند ہو اچل رہی تھی۔وہ رات رومیوں نے نقارے بجانے اورصیلیب بنانے میں بسرکی جب کہ مسلمان نماز وتلاوت میں مشغول رہے۔ ابن ابی سرح نے کانسٹنز کوزمینی جنگ لڑنے کی پیش کش کی۔ اسے اپنی بحری طاقت پر نازتھا اور وہ اسلامی بیڑا مٹانے کا عزم لے کر آیا تھا اس لیے انکار کر دیا۔ رومی جہازوں کو باندھ کر صف آرا کر دیا گیا۔ مسلمان بھی اپنا بیڑا قریب لا کر لنگرانداز ہوگئے۔سخت جنگ چھڑ گئی سپاہی خنجروں اور تلواروں سے دست و گریباں ہوئے۔دونوں فریقوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ہلاک اور زخمی ہونے والے سپاہی سمندر میں گرتے اور موجیں انھیں ساحل پر لا پھینکتیں اس طرح سمندر خون سے سرخ ہو گیااور ساحل پرلاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ کانسٹنز بھی شدید زخمی ہوا ، بازی ہرتے ہوئے دیکھ کر اس نے بھیس بدلا اور اپنے بچے کچھے فوجیوں اور تباہ حال جہازوں کو لے کر فرار ہوگیا۔ وہ استنبول سے ہوتا ہوا صقلیہ (Sicily) پہنچا تو نصرانی سخت ناراض ہوئے اور اسے حمام میں گھسا کر مار ڈالا۔ مورخین اس معرکے کو جنگ صواری،مستولوں والی جنگ، Battle of the Masts The یا The Battle of Phoenix (Phoenicus)ٍکے نام سے یادکرتے ہیں کیونکہ اس میں بحری جہاز ایک دوسرے سے باندھ دیے گئے تھے حتی کہ یہ جگہ Phoenicusبھی ذات الصواری(مستولوں والی) کے نام سے جانی جانے لگی۔اس جنگ کے بعد رومیوں کی سمندری برتری کا خاتمہ ہو گیا۔انھوں نے پھرمصر و شام پر بحری حملہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ عبداﷲ بن ابی سرح نے شکست خوردہ رومیوں کا پیچھا نہ کیا کچھ روز ذات الصواری(Phoenicus)میں قیام کرنے کے بعد وہ مصر لوٹ گئے ۔فرار ہوتے ہوئے دشمن پر کاری ضرب نہ لگانے کی وجہ سے انھیں اور حضرت عثمانؓ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔محمد بن ابو حذیفہ اور محمد بن ابوبکرؓ اس کام میں پیش پیش تھے۔
آخری ساسانی (Sassanid)بادشاہ یزدگرد عہد عثمانیؓ میں اپنے انجام کوپہنچا۔۳۱ھ میں وہ مرو سے فرار ہو رہا تھا کہ کچھ ترکوں (یا مرویوں)نے اس پر حملہ کر دیا۔اس کے ساتھی مارے گئے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔اس نے بھاگ کر ایک چکی بنانے والے کے ہاں پناہ لی ۔رات کو وہ سو یا تو چکی والے نے اسے مار ڈالا تاج شاہی اور جواہرات پر قبضہ کیا اور نعش دریاے مرغاب میں پھینک دی ۔ ترک(یا مروی) پیچھا کرتے ہوئے آئے چکی والے کو ختم کیا اور تمام مال و اسباب چھین کر چلتے بنے۔مرو کے پادری ایلیانے دریا سے بادشاہ کی لاش نکال کر تابوت میں رکھی پھر اسے اصطخرلے جا کر دفن کیا گیا۔کچھ شاہی زیورات حضرت عثمانؓ کے پاس مدینہ پہنچ گئے۔
۳۱ھ میں عبداﷲ بن عامر گورنر بصرہ کے حکم پر احنف بن قیس نے مرورود کا محاصرہ کیا۔وہاں کے باشندوں نے ۱۲ لاکھ دینارسالانہ جزیہ دینے کا معاہدہ کر کے صلح کر لی تو وہ بلخ (طخارستان) کی طرف بڑھے ۔تھوڑی سی لڑائی کے بعد یہ مفتوح ہوا تو انھوں نے اسید کو وہاں کا عامل مقرر کیا جنھوں نے عہد صلح کی تکمیل کی۔امسال طالقان اورفریاب بھی احنف کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ دوسری طرف اقرعؓ بن حابس نے جوزجان سر کیا ۔کرمان اور خراسان سپریم کمانڈر عبداﷲ بن عامر نے خود فتح کیے۔ نیشاپور ، سرخس اور طوس بھی ان کے ہاتھ زیر ہوئے۔اسود بن کلثوم نے بیہق پر قبضہ کیا۔سجستان عہد فاروقیؓ میں فتح ہو چکا تھا۔ وہاں کے لوگوں نے عہد شکنی کی تو ربیع بن زیاد حارثی آئے اور انھیں پھر سے صلح پر مجبور کیا۔ربیع نے کرکویہ، زرنج اور سنارودکے باشندگان سے بھی معاہدات کیے۔ ۳۱ھ میں فتوح خراسان مکمل ہونے کے بعد عبداﷲ بن عامر نے نیشاپور سے احرام باندھا اورشکرانے کے لیے عمرہ ادا کرنے روانہ ہوئے۔حضرت عثمانؓ سے ملاقات کے لیے گئے تو انھوں نے ملامت کی اور فرمایا:کاش تم اس وقت کا لحاظ بھی کرتے جس میں لوگ تمہاری خدمات سے محروم رہیں گے۔
خلافت راشدہ کے بابرکت دور میں ہونے والی بے شمار فتوحات کے ساتھ ۳۲ھ(۶۵۳ء )میں اہل ایمان کو ترکوں اورخزروں(Khazars) کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔خزر ایک خانہ بدوش قوم تھی جس نے دوسری صدی عیسوی میں جنوبی قفقاز (South Caucasus)یا ماورائے قفقاز ( Transcaucasia)میں جنم لیا اور پھر زیریں علاقے شمالی قفقاز(North Caucasus )میں منتقل ہو گئی۔۷ویں صدی میں اس نے بحر قزوین (Caspian Sea) اور بحر اسود (Black sea)کے شمالی ساحل سے دریاے والگا(Volga) اوردریاے ڈینیپر (Dnieper) تک کے علاقوں پر اپنا تسلط جما لیا۔آج کل کے یوکرائن، قازقستان، جارجیا،کریمیااور آذربائیجا ن کے علاقے بھی اس کی خاقانی سلطنت (Khaganate)میں شامل تھے،کہا جاتا ہے کہ یہ قوم حزر بن یافث بن نوح ؑ کی اولاد تھی۔
ہونے والی جنگوں میں عجمیوں نے بھاری جانی نقصان اٹھایااور سپاہ اسلام بسا اوقات کوئی جان ضائع کیے بغیر غلبہ پاتی رہی۔ مفتوحین کو خیال ہونے لگاشاید فرشتوں کی طرح مسلمانوں کو موت ہی نہیں آتی اس لیے انھوں نے ان پرموت آزمانے کا منصوبہ بنایا،وہ جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھ گئے جب اہل ایمان کا ایک دستہ وہاں سے گزرا تو ان پر تیروں کی بوچھاڑ کر کے انھیں شہید کر ڈالا۔ اب ان کے حوصلے بڑھے ا ور وہ کسی بڑے حملے کی تیاری کرنے لگے ۔ حضرت عثمانؓ ،عبدالرحمانؓ بن ربیعہ کو خط لکھ چکے تھے کہ رعایاخفیہ تدبیریں کر رہی ہے مسلمانوں کو کسی خطرے میں نہ ڈال دینا لیکن انھوں نے اپنی مہمات بے خطرجاری رکھتے ہوئے بلنجر(بلنزر،حضرت ذوالقرنین ؑ کے تعمیر کردہ بند کے قریب واقع خزر خاقانیت کا دارالخلافہ) کی طرف پیش قدمی کی۔یہاں ترکوں اور خزرسے ان کا سخت مقابلہ ہوا۔ دونوں طرف سے منجنیقوں کا استعمال کیا گیا۔اس پہلی عرب خزر جنگ میں عبدالرحمانؓ اور ان کے بے شمار سپاہیوں نے شہادت پائی۔ اسلامی فوج شکست کھا کر دو حصوں میں بٹ گئی ایک حصہ زیریں شہردربند شروان (Derbent، باب الابواب) کی طرف بھاگا اورحضرت عبدالرحمانؓ کے بھائی حضرت سلمانؓ بن ربیعہ کی قیادت میں آنے والی کمک سے جا ملا،ایک گروہ جس میں حضرت سلمانؓفارسی،حضرت ابوہریرہؓ، علقمہ بن قیس اور خالد بن ربیعہ تھے، خزر ، جیلان اور جرجان میں منتشر ہو گیا۔آخرکارحضرت سلمانؓ بن ربیعہ کے جیش نے فتح پائی اور وہی باب (دربند) کے نئے عامل مقر ر ہوئے۔
مطالعۂ مزید:تاریخ الامم والملوک (طبری)،الکامل فی التاریخ(ابن اثیر)،المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی)، البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)،فتوح البلدان(بلاذری)، عثمان بن عفان(محمد حسین ہیکل) ، معجم البلدان (یاقوت حموی)، Wikipedia۔
__________________