بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ، اِذْ قَرَّ بَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ، قَالَ: لَاَ قْتُلَنَّکَ۔ قَالَ: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ{۲۷} لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ، مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ، اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ{۲۸} اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓاَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ، وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ{۲۹}
فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ، فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ{۳۰} فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَہٗ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْئَ ۃَ اَخِیْہِ، قَالَ: یٰوَیْلَتٰٓی اَعَجَزْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِثْلَ ھٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْئَ ۃَ اَخِیْ، فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ{۳۱}
(تمھاری مخالفت میں اب یہ آمادۂ فساد ہیں، اے پیغمبر)، اِنھیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ سناؤ،۷۳ جس طرح کہ وہ فی الواقع ہوا،۷۴ جب اُن دونوں نے قربانی پیش کی تو اُن میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔۷۵ (پھر جس کی قربانی قبول نہیں کی گئی)، اُس نے کہا: میں تجھے قتل کر دوں گا۔۷۶ دوسرے نے جواب دیا: اللہ تو اپنے اُنھی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے جو اُس سے ڈرنے والے ہوں۔۷۷ تم مجھے قتل کرنے کے لیے مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ گے تو (تم سے پہل کر کے) میں تمھارے قتل کے لیے تم پر ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں، میں اللہ رب العٰلمین سے ڈرتا ہوں۔ ۷۸ میں چاہتا ہوں کہ (تم نے میرے قتل کا ارادہ کر لیا ہے تو) اپنے اور میرے گناہ کا بار تمھی لے جاؤ۷۹ اور دوزخی بن کر رہو۔ اِس طرح کے ظالموں کی یہی سزا ہے۔ ۲۷-۲۹
(اِس پر بھی وہ باز نہیں آیا اور ) اُس کے نفس نے بالآخر اپنے بھائی کے قتل پر اُس کو آمادہ کر لیا ۸۰ اور اُسے مار کر وہ اُن لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔۸۱ پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُس کو بتائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کس طرح چھپائے۔۸۲ یہ دیکھ کر وہ بولا: ہاے میری کم بختی، میں اِس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش ہی چھپا لیتا۔ سو (اِس پر) وہ بے حد شرمندہ ہوا۔۸۳ ۳۰-۳۱
۷۳؎ اصل میں لفظ ’نَبَاَ‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ کسی اہم واقعے یا حادثے کی خبر کے لیے آتا ہے۔ خدا کی زمین پر ایک حق پرست کے خون ناحق کا یہ پہلا واقعہ ہے، اِس لیے قرآن نے اِس کو اِس لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
۷۴؎ یعنی بے کم و کاست اور ٹھیک اُن حقائق کے مطابق جو اُس سے متعلق ہیں۔
۷۵؎ اصل میں لفظ ’قربان‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ صدقہ اور قربانی، دونوں کے لیے آتا ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے جو چیز بھی اُس کے حضور میں پیش کی جائے، وہ قربان ہے۔ یہاں قرآن نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ہابیل اور قابیل کو قربانی کی قبولیت یا عدم قبولیت کا پتا کس طرح چلا۔ اِس کی ایک صورت قرآن مجید نے سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۱۸۳ میں یہ بیان فرمائی ہے کہ آسمان سے ایک آگ اترتی اور قبولیت کی علامت کے طور پر قربانی کو کھا لیتی تھی۔ بائیبل کا بیان، البتہ مختلف ہے، اُس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی خبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی:
’’۔۔۔اور خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیے کو منظور کیا، پر قائن کو اور اُس کے ہدیے کو منظور نہ کیا، اِس لیے قائن نہایت غضب ناک ہوا اور اُس کا منہ بگڑا۔ اور خداوند نے قائن سے کہا: تو کیوں غضب ناک ہوا، اور تیرا منہ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ اگر تو بھلا کرے تو کیا تو مقبول نہ ہوگا؟ اور اگر تو بھلا نہ کرے تو گناہ دروازے پر دبکا بیٹھا ہے اور تیرا مشتاق ہے۔ پر تو اُس پر غالب آ۔‘‘ (پیدایش ۴: ۴-۷)
۷۶؎ یعنی بجاے اِس کے کہ وہ اپنی نیت کے کھوٹ کی طرف متوجہ ہوتا اور توبہ و اصلاح کے جذبے سے اپنے پروردگار کی طرف لوٹتا، اُس پر حسد کا دورہ پڑا اور اِس غصے میں کہ اُس کی قربانی قبول نہیں ہوئی، ہابیل کے درپے انتقام ہو گیا، دراں حالیکہ اُس کے قبول نہ ہونے میں ہابیل کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ بعینہٖ وہی ذہنیت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہود کی طرف سے ظاہر ہوئی۔ اپنے جرائم کی طرف متوجہ ہونے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرنے کے بجاے کہ نبوت کا منصب اُن سے لے کر بنی اسمٰعیل کو کیوں دیا گیا ہے، وہ اپنے اِن بھائیوں کے درپے آزار ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے قتل کے منصوبے بنانے لگے۔ قرآن نے یہ سرگزشت اِسی بنا پر اُن کو سنانے کے لیے کہا ہے۔
۷۷؎ ہابیل نے یہ بات اپنے بھائی کو اصل حقیقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے کہی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ تم اِس غصے میں کہ تمھاری قربانی قبول نہیں ہوئی، میرے قتل کے درپے ہوگئے ہو، حالاں کہ اِس میں نہ قصور میرا ہے نہ خداوند کا ہے، بلکہ سراسر قصور تمھارا اور تمھاری قربانی کا ہے۔ خداوند کے ہاں قربانی درخور قبول وہ ٹھہرتی ہے جو خدا سے ڈرنے والے بندے قربانی کے آداب و شرائط کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ یہ ضابطہ جس طرح تمھارے لیے ہے، اِسی طرح میرے لیے بھی ہے تو قربانی رد ہونے کا غم و غصہ ہے تو فکر تقویٰ کی کرو، نہ کہ میرے قتل کرنے کی۔ میرے قتل کرنے سے تمھاری قربانی کی قبولیت کی راہ کس طرح کھلے گی۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۹۷)
۷۸؎ یعنی میں یہ جان لینے کے باوجود کہ تم میرے قتل کے درپے ہو، تمھارے قتل کے لیے پہل نہیں کروں گا، اِس لیے کہ میں اُس خدا سے ڈرتا ہوں جو کائنات کا پروردگار ہے اور جس نے انسان کے جان ومال اور آبرو کو حرمت عطا فرمائی ہے۔
۷۹؎ اصل میں ’اَنْ تَبُوْٓاَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ عربیت کی رو سے دونوں میں مضاف محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اِسے کھول دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے اگر کوئی نقصان تمھیں پہنچ جائے تو اِس کا گناہ بھی تمھارے سر ہی ہوگا، اِس لیے کہ اِس کا سبب میں نہیں، بلکہ تمھی ہو گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یہ اُس اصول عدل کی طرف اشارہ ہے جو ایک حدیث میں ’فعلی البادی مالم یعتد المظلوم‘ * کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ یعنی اگر مظلوم نے کوئی زیادتی نہیں کی ہے تو جو کچھ اُسے اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کرنا پڑے، اُس کا بارگناہ پہل کرنے والے پر ہے۔ ’باثمی‘ کے ساتھ ’باثمک‘ مماثلت کے اُس اصول پر فرمایا ہے جو عربی زبان میں نہایت معروف ہے۔ مثلاً ’دناہم کما دانوا‘ یا ’جزاء سیئۃ سئیۃ مثلہا‘۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۹۸)
۸۰؎ اِس جملے سے قرآن نے اُس اندرونی کشمکش کو نمایاں کر دیا ہے جو اول اول اِس ارادۂ قتل سے قابیل کے اندر پیدا ہوئی۔
۸۱؎ یعنی خیرو شر کی اِس کشمکش میں شر فتح مند رہا اور وہ خود اُس سے مغلوب ہو کر ہمیشہ کے لیے نامراد ہو گیا۔
۸۲؎ اللہ تعالیٰ کی طرف کوا بھیجنے کی یہ نسبت درحقیقت اُس سنت الہٰی کی نسبت ہے جس کے تحت خدا کی یاد سے غافل ہو جانے والے اِسی طرح شیطان کے حوالے کر دیے جاتے اور کووں سے الہام پاتے ہیں۔
۸۳؎ ہابیل و قابیل کی اِس سرگزشت سے واضح ہے کہ دین و اخلاق کے بنیادی تصورات تک انسان کسی ارتقا کے ذریعے سے نہیں پہنچا، بلکہ یہ ابتدا ہی سے اُس کو تعلیم کر دیے گئے تھے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
* مسلم، رقم۶۶۸۳۔