عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: کَانَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنَانِ: بِلَالٌ وَابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ الْأَعْمٰی.
حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے: بلال (رضی اللہ عنہ) اور ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ) اور یہ نابینا تھے۔
عَنْ عَاءِشَۃَ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا) قَالَتْ: کَانَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُوْمٍ یُؤَذِّنُ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ أَعْمٰی.
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اذان دیا کرتے تھے اور یہ نابینا تھے۔
’ابن ام مکتوم‘: ان کا نام عمرو بن قیس تھا۔ یہ مکہ میں اسلام قبول کرنے والوں میں سے تھے۔ غزوات کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر گئے تو متعدد مواقع پر انھیں اپنا نائب مقرر کیا۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں جس نابینا کا ذکر ہوا ہے، وہ یہی تھے۔ انھوں نے قادسیہ کے دن وفات پائی۔
امام مسلم نے اس روایت پر ’’ایک مسجد کے لیے دو مؤذن مقرر کرنے کا استحباب‘‘ کا عنوان لگایا ہے۔ گویا ان کے نزدیک اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسجد کے لیے ایک سے زیادہ مؤذن مقرر کیے جا سکتے ہیں اور یہ بھی کہ ایسا کرنا پسندیدہ ہے۔ بعض شارحین نے اسی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے چار مؤذن مقرر کرنے تک کو موزوں قرار دیا ہے۔
اس روایت سے اصلاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اذان دینے کی سعادت حاصل تھی۔ باقی رہا یہ سوال کہ ایک مسجد میں کتنے لوگ مؤذن ہو سکتے ہیں؟ تو اس کا تعلق تدبیر سے ہے۔ ہر مسجد کا مقام و محل اور ضروریات ہی طے کریں گی کہ یہاں ہونے والے مختلف کاموں کے لیے کتنے آدمی درکار ہیں۔ ہمارے دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ تدبیر سے متعلق امور کو بالعموم زیر بحث نہیں لاتا اور اس معاملے میں وہ عمل کرنے والوں کے عقل وفہم پر اعتماد کرتا ہے۔ اذان دینے کے اہتمام سے متعلق بھی دین میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اگر دین میں اس حوالے سے کوئی تحدید مطلوب ہوتی تو وہ بات صریح اسلوب میں بیان کر دی جاتی۔ اس حوالے سے جتنی روایات میری نظر سے گزری ہیں، ان سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان دینے کا معاملہ ایک تدبیری معاملہ ہی تھا اور جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اسی حیثیت سے وقوع پذیر ہوا۔
فقہ وحدیث کی کتابوں میں اس طرح کی مثالیں عام ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے زمانے کے اس نوع کے واقعات سے اسی نوع کے دینی مفاہیم اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کا ایک خاص سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ صحابۂ کرام کا عمومی مزاج تعمیل کا تھا اور وہیں رکنے کو ترجیح دیتے تھے، جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمل وفکر میں انھیں چھوڑ کر گئے تھے۔ یہی چیز بعد میں تابعین اور تبع تابعین میں بھی جھلکتی نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحابہ کے ہاں تدبیر اور شریعت کا فرق نہیں تھا۔ اصل یہ ہے کہ امتثال امر کے جذبے کے تحت وہ اس طرح ڈھل گئے تھے کہ وہ عمل میں زیادہ سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ وعادت کے قریب رہیں۔ ہمارے نزدیک یہ جذبہ ہر لحاظ سے لائق تحسین ہے، لیکن دین کا فہم اور احکام کی صحیح نوعیت کو طے کرنا ایک علمی کام ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ حکم کی صحیح نوعیت واضح کر دی جائے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک یہ روایت محض حضور کے زمانے کے عمل کو بیان کرتی ہے، اس سے کوئی دینی حکم مستنبط نہیں ہوتا۔
دوسری روایت پر ’’اندھے کی اذان کا جواز، جبکہ اس کے ساتھ بینا بھی ہو‘‘ کا عنوان قائم کیا گیا ہے۔ اذان دینے کی دو ضرورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ آدمی بلند آواز ہو اور دوسرے یہ کہ وہ وقت کی تعیین کر سکتا ہو۔ نابینا آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ یہ طے کر سکے۔غالباً اسی وجہ سے بینا کے ساتھ ہونے کی شرط عائد کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ مسئلہ بھی محض تدبیر کا ہے۔ تدبیر ہی کا تقاضا ہے کہ آدمی خوش آواز اور بلند آہنگ ہو۔ اذان چونکہ متعین وقت پر دی جاتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اذان دینے والا خود وقت کی پہچان کر سکتا ہو یا اسے صحیح وقت بتادیا جائے۔ اس مسئلے میں اتنا حصہ تو دینی ہے کہ اذان صحیح وقت پر دی جائے، لیکن مؤذن صحیح وقت کیسے معلوم کرے، یہ محض تدبیر ہے اور اس کی کوئی بھی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں اندھوں کے لیے گھڑیاں ایجاد ہو چکی ہیں۔ چنانچہ وہ اگر گھڑی سے وقت معلوم کر کے اذان دے دے اور کوئی بینا اس کے ساتھ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
اس روایت کے بیان ہونے کا محرک کیا ہے؟ اس سوال کے دو تین جواب ممکن ہیں: ایک یہ کہ سیرت کا ایک پہلو بیان کرنا مقصود ہے۔ دوسرے یہ کہ، جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے، کسی فقہی اشکال کے ضمن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے عمل کو بطور شاہد پیش کیا گیا ہے۔ تیسرے یہ کہ حضور کے کسی ارشاد کے پس منظر کو واضح کرنے کے لیے یہ بات کہی گئی ہے۔ اس روایت کے متون کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملہ سحری سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تمہید ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ جب بلال اذان دیں تو کھانا پینا بند نہ کیا کرو۔ البتہ اگر ابن ام مکتوم اذان دیں تو کھانا پینا بند کر دیا کرو۔ اس کی وجہ بھی بعض روایتوں میں مذکور ہے کہ ابن ام مکتوم اس وقت اذان دیتے تھے جب لوگ انھیں کہتے تھے کہ صبح طلوع ہو گئی ہے، جبکہ حضرت بلال ذرا اندھیرے میں اذان دیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے حضور کے اس ارشاد کی تمہید میں بعض رواۃ کو یہ بتانا ضروری معلوم ہوا کہ آپ کے زمانے میں مسجد نبوی میں دو لوگ اذان دیا کرتے تھے۔ابن خزیمہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ نے یہ پوری بات اس سوال کے جواب میں فرمائی تھی کہ آپ وتر کب پڑھتی ہیں۔
اس روایت کے اس تفصیلی متن میں جو بات بیان ہوئی ہے، اس کو سمجھنے میں کچھ مشکلات ہیں۔ آگے ’’کتاب الصوم‘‘ میں روایت کا یہ حصہ زیر بحث آئے گا، وہاں ان شاء اللہ اس پر تفصیل سے بحث ہوگی۔
پہلی روایت میں حضور کے دو مؤذنوں کا ذکر ہے۔ کچھ راویوں کو حضرت ابو محذورہ کے نظر انداز ہونے کا اندیشہ ہوا ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں تین مؤذن ہونے کا ذکر بھی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مسجد قبا اور بعض دوسری مساجد میں بھی حضور کے زمانے میں لوگ اذان دیتے رہے ہیں۔ چنانچہ اس طرح کی کوئی روایت محض تکلف ہے۔
پہلی روایت میں دو مؤذن مقرر ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ دوسری روایت میں حضرت ابن ام مکتوم کے مقرر ہونے کا ذکر ہے۔ یہ بات ان روایتوں کے مختلف متون میں مترادف اسالیب میں بیان ہوئی ہے۔
موطا، رقم۱۶۱؛ بخاری، رقم۵۹۲؛ مسلم، رقم۳۸۰۔ ۳۸۱؛ ابوداؤد، رقم۵۳۵؛ نسائی، رقم۶۳۷۔ ۶۴۰؛ ترمذی، رقم۳۰۲؛ احمد، رقم۲۵۵۶۱؛ ابن حبان، رقم۳۴۶۹؛ ابن خزیمہ، رقم۷۰۴؛ دارمی، رقم۱۱۹۱؛ بیہقی، رقم۱۶۶۵۔ ۱۶۶۶، ۱۸۵۴، ۱۸۶۲۔ ۱۸۶۳؛ عبدالرزاق، رقم۷۶۱۱، ۱۸۰۱، ۱۸۱۹۔ ۱۸۲۰، ۱۸۸۴، ۱۸۸۶؛ ابویعلیٰ، رقم۵۴۳۲، ۵۴۹۲، ۵۵۴۱؛ مسند الشامیین، رقم۳۱۴۱؛ سنن کبریٰ، رقم۱۶۰۱۔ ۱۶۰۴؛ طیالسی، رقم۱۶۶۱؛ اسحاق بن راہویہ، رقم۹۳۴، ۱۵۲۲۔ ۱۵۲۳؛ المعجم الکبیر، رقم۴۸۱؛ ابن ابی شیبہ، رقم۲۳۱۰۔
_________________