HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔]


میقات حرم اور ان کی تعداد

سوال:میقات سے کیا مراد ہے؟ یہ تعداد میں کتنے ہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ پاکستانی حجاج کرام اپنے احرام کس جگہ سے باندھتے ہیں؟(ذوالفقار شافی)

جواب:حج وعمرہ کی غرض سے آنے والوں کے لیے حدود حرم سے کچھ فاصلے پر بعض جگہیں متعین کردی گئی ہیں جن سے آگے وہ احرام کے بغیر نہیں جاسکتے۔ ان پر یاان کے برابر کسی بھی جگہ پر پہنچ کر ضروری ہے کہ احرام باندھ لیا جائے۔ اصطلاح میں انھیں میقات کہا جاتا ہے۔ یہ جگہیں پانچ ہیں: مدینہ سے آنے والوں کے لیے ذوالحلیفہ، یمن سے آنے والوں کے لیے یلملم، مصرو شام سے آنے والوں کے لیے جحفہ، نجد سے آنے والوں کے لیے قرن اور مشرق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق۔

پاکستانی حجاج جب پاکستان سے سعودی عرب کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو وہ میقات کے اوپر سے گزرتے ہوئے حدود حرم میں داخل ہو جاتے ہیں ، ضروری ہے کہ وہ جب حدود حرم میں داخل ہوں تو احرام باندھے ہوئے ہوں، لہٰذا انھیں ابتداے سفر یعنی کراچی ایئر پورٹ ہی سے احرام باندھنا پڑتا ہے۔ آج کل حج کرانے والی کمپنیاں حاجیوں کی باقاعدہ رہنمائی کے لیے پورا پورا اہتمام کرتی ہیں، اس لیے آپ بے فکر رہیں، وہ اس مسئلے میں آپ کی پوری پوری رہنمائی کریں گی اور آپ کو ویسا ہی کرنا چاہیے جیسا وہ گائیڈ کریں۔


استخارہ اور خیر کی طلب

سوال: استخارہ کرنے کی صورت میں جو جواب آئے، اس کی مخالفت کرنا درست ہے یا نہیں؟(اعظم)

جواب :ایسا نہیں کہ دعاے استخارہ سے ہمارا خدا کے ساتھ رابطہ ہو جاتا ہے اور ہم اپنے مسئلے میں خدا کی بات یقینی صورت میں معلوم کر لیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو پھر ظاہر ہے کہ اس کی مخالفت صریحاً غلطی ہوتی۔

دعاے استخارہ دراصل، خدا سے خیر طلب کرنے کی دعا ہے۔ یہ دعا درج ذیل ہے:

’’ اے اللہ، میں تیرے علم کے واسطے سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطے سے قدرت طلب کرتا ہوں، اور تجھ سے تیرے فضل عظیم کا سوال کرتا ہوں، اس لیے کہ تو قدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا، اور تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا اور تو علام الغیوب ہے۔ اے اللہ، اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین اور میری زندگانی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کردے اور آسان بنا دے ، پھر اس میں برکت پیدا کر دے اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے دین اور میری زندگانی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے۔ (پروردگار)، میرے لیے خیر کو مقدر فرما، وہ جہاں کہیں بھی ہو، پھر مجھے اس سے راضی کر دے۔‘‘

اس میں ہم اللہ سے اس کے علم کے مطابق جو چیز بہتر ہو ،وہ طلب کرتے ہیں۔ جب یہ دعا قبول ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اشارے کے ذریعے سے خدا ہمیں اپنا کوئی فیصلہ سنا دیتا ہے، بلکہ دعا کی قبولیت کی صورت میں وہ اس چیز کو جو ہمارے لیے بہتر ہو ،اسے ہمارے مقدر میں لکھ دیتا ہے، اس کے بارے میں ہمارا تردد ختم کر دیتا ہے، وہی ہماری پسند اور ہماری راے بن جاتی ہے، لہٰذا جو بات خواب وغیرہ میں ہم دیکھیں، اگر اس پر ہمارا دل نہیں جم رہا اور وہ ہمیں صحیح محسوس نہیں ہو رہی تو پھر اسے نہیں ماننا چاہیے۔ البتہ، اگر وہ ہمارے علم و عقل کے مطابق ہمیں بہتر محسوس ہو تب اس پر عمل کر لینا چاہیے، کیونکہ دعا کی قبولیت کی صورت میں خدا کے نزدیک جو بات بہتر ہے، اس نے مقدر ہو جاناہے۔خدا سے دعا مانگنے کے لیے دل کا اخلاص ضروری ہے۔ انسان کا پہلے سے بہت نیک ہونا لازم نہیں ہے۔


زرعی بنک سے سود پر قرض

سوال:کیا ٹریکٹر خریدنے کے لیے زرعی بنک سے سود پر قرض لیا جا سکتا ہے؟ (جمال تارو)

جواب:سود لینے اور سود دینے میں فرق ہے۔ سود لینا حرام ہے، لیکن سود پر قرض لینا حرام نہیں ہے۔چنانچہ غامدی صاحب کی راے کے مطابق آپ ٹریکٹر خریدنے کے لیے زرعی بنک سے سود پر قرض لے سکتے ہیں۔


غیر مسلم ریاست میں ملازمت

سوال: کیا کسی مسلمان کے لیے دین میں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی غیر مسلم ریاست میں اپنی ملازمت یا اپنے کاروبار کے لیے مستقل اقامت اختیار کرے؟(فیاض احمد)

جواب:ہمارے نزدیک دینی اعتبار سے اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ اپنی ملازمت یا اپنے کاروبار کے لیے کسی غیرمسلم ریاست میں مستقل طور پر قیام پذیر ہوں، سوائے اس کے کہ آپ کے لیے وہاں اپنے دین پر قائم رہنا ہی مشکل ہو جائے۔

غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’دین حق‘‘ میں اسی مسئلے کو اس طرح سے بیان کیا ہے:

’’بندۂ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے، اُسے دین کے لیے ستایا جائے ، یہاں تک کہ اپنے اسلام کو ظاہر کرناہی اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو اُس کا یہ ایمان اُس سے تقاضا کرتا ہے کہ اُس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہو جائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن اِسے ’’ہجرت‘‘ کہتا ہے۔ زمانۂ رسالت میں جب اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے براہ راست اِس کی دعوت دی گئی تو اِس سے گریز کرنے والوں کوقرآن نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔‘‘


زندگی کا مقصد اور بیعت

سوال: مجھے اپنے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ میں غلط راستے پر چل رہا ہوں، مجھے اپنی زندگی کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا، میں ایک اچھا انسان بننا چاہتا ہوں، لیکن میں کیسے بنوں؟ کسی کے لیے ایک اچھا انسان بننے کا کیا راستہ ہے، کیا اس کے لیے کسی کی بیعت کرنی چاہیے؟(شعیب اللہ)

جواب:اپنے بارے میں آپ کا یہ احساس بتاتا ہے کہ آپ کے اندر زندگی موجود ہے۔ داخل کی یہ زندگی خدا کا بڑا فضل ہوتی ہے۔انسان اس دنیا میں ایک مسافر ہے۔ راہ، ہم سفر اور منزل، یہ تینوں چیزیں طے کرنے کے بعد ہی خدا نے انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے۔ہماری راہ، صراط مستقیم ہے۔ چنانچہ فرمایا:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ
((اے اللہ) تو ہمیں سیدھی راہ پر چلا)۔

ہمارے ہم سفر خدا کے نبی اور صالحین ہیں۔ چنانچہ فرمایا: ’وَالْحِقْنِی بِالصَّالِحِیْنَ‘ (اور تو مجھے نیک لوگوں سے جوڑ دے (دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی)۔ اور ہماری منزل خدا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’فَمَنْ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ مَاٰبَا‘ (پس جس کا جی چاہتا ہے، وہ اپنے رب کی طرف اپنا ٹھکانا بنا لے)، اور فرمایا: ’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘ (بے شک، ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں)۔

ہم اپنے اندر جیسی تبدیلی چاہتے ہیں، اسی کے مطابق ہمیں ماحول اپنانا چاہیے۔ میں آپ سے دو گزارشات کرنا چاہوں گا: ایک یہ کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا اور ترجمے کے ساتھ اسے پڑھنا اپنا شغل بنا لیجیے اور دوسرا صالحین کی صحبت کو لازماً اپنائیے۔ اپنے قریبی ماحول میں جو سمجھ دار نیک آدمی آپ کو نظر آئے، اس کے ساتھ اس کی نیکی کے پہلو سے متعلق ہو جائیے۔ اگر کسی استاد یا بزرگ کی صحبت میسر آ جائے تو اسے ضرور اپنائیے اور ان کی نصیحت کو دل کی آمادگی سے قبول کیجیے۔ہمارے خیال میں اصل چیز صالحین سے تعلق ہے۔ روایتی بیعت وغیرہ کو باقاعدہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔


شادی سے پہلے جنسی تعلقات

سوال:کیا شادی سے پہلے آدمی کا اپنی ہونے والی بیوی سے جنسی تعلق قائم کرنا ناقابل معافی جرم یعنی گناہ کبیرہ ہے۔(جوناتھن سٹو)

جواب:شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی سے بھی جنسی تعلق قائم کرنا زناہی ہے اور بے شک یہ گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ:

’’اور جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو سوائے حق کے ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جو کوئی یہ کام کرے گا، وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اُس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ سوائے اس کے کہ کوئی(ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔‘‘(الفرقان۲۵: ۶۸۔۷۰)

ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ بے شک زنا گناہ کبیرہ ہے اور اس کی سزا جہنم کا ابدی عذاب ہو سکتی ہے، لیکن اگر اللہ چاہے تو یہ سچی توبہ اور اصلاح سے بالکل معاف بھی ہو سکتا ہے۔


گناہ کبیرہ اور معافی

سوال: اگر کسی آدمی سے زنا ہو جائے تو آخرت میں اس جرم کی معافی کے لیے اسے دنیا میں کیا کرنا چاہیے؟(جوناتھن سٹو)

جواب: آخرت میں اس کی معافی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ دنیا میں آدمی لازماً سزا پا چکا ہو، بلکہ محض سچی توبہ اور اصلاح سے بھی یہ آخرت میں معاف ہو سکتا ہے۔


سزا کا نفاذ

سوال: جرم کی سزا پانے کے لیے آدمی کس سے رابطہ کرے تاکہ وہ اس پر سزا نافذ کر دے؟ (جوناتھن سٹو)

جواب: اگر انسان کے کسی گناہ پر اللہ تعالیٰ پردہ ڈال دیتا ہے تو خود انسان کو بھی چاہیے کہ وہ اسے مشہور نہ کرے اور بس اللہ سے سچی توبہ کرے اور آیندہ کے لیے اپنی اصلاح کر لے۔ چنانچہ اسے نہ کسی شخص کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار کرنے کی کوئی ضرورت ہے اور نہ اپنے اوپر لازماً سزا نافذ کرانے ہی کی کوئی ضرورت ہے۔


کالے جادو کی شرعی حیثیت

سوال:کیا کسی مسلمان کو سفلی علوم (جادو ٹونے ) کے ماہر سے اپنی بیماری یا مصیبت کا علاج کرانا چاہیے؟(آصف حسین)

جواب:سفلی علوم (جادو ٹونے ) کے عاملوں سے لازماً بچنا چاہیے، کیونکہ یہ لوگ شیاطین کو خوش کرنے کے لیے کئی طرح کے مشرکانہ اور کافرانہ عمل کرتے ہیں۔ جو لوگ ان سے اپنا کوئی کام کراتے ہیں، وہ دراصل خدا کو چھوڑ کر ان کے شیاطین کی مدد سے اپنا کام کراتے ہیں۔رہی ان لوگوں کی یہ بات کہ ہم تو اپنا عمل کرتے ہیں ، شفا تو اللہ ہی دیتا ہے تو یہ بس ان کے منہ کی بات ہے جو شاید یہ مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے ہیں، ورنہ جادو کرنا کرانا تو صریح کفر ہے۔ ان کے اس قول کی مثال یہ ہے کہ کوئی چور بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ میں تو بس چوری کرتا ہوں ، رزق تو مجھے اللہ ہی دیتا ہے۔یقیناًچور اللہ کے اذن ہی سے چوری پر قادر ہوتا اور جادو کرنے والا اللہ کے اذن ہی سے جادو کر پاتا ہے اور اس کا جادو اللہ کے اذن ہی سے کامیاب ہوتا ہے، لیکن اللہ کی رضا اچھے کام کرنے میں ہے اور ناراضی برے کام کرنے میں ہے گو برے کام بھی اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہو سکتے۔چنانچہ آپ ان کے اس جملے سے دھوکا نہ کھائیں۔


سورۂ نور کی آیت ۲۶ کا مفہوم

سوال: سورۂ نور کی آیت ۲۶ ’’ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہوں گے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہو ں گے‘‘ اس آیت کے مطابق اس شخص کا کیا معاملہ ہو گا جس نے شادی سے پہلے کسی لڑکی سے محبت کی اور اس کے ساتھ جنسی عمل کے سوا اظہار محبت کے کئی طریقوں کو اختیار کیا۔ کیا ایسا شخص خبیث مردوں ہی کی صف میں آئے گا اور کیا اس کے مقدر میں خبیث عورت ہی ہو گی؟(عبدالرحمن)

جواب:اس میں کوئی شک نہیں کہ جس خاتون سے انسان بہت محبت رکھتا ہو، اس کے ساتھ بہت مخلص ہو اور بڑے سچے جذبے سے اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہو ، اس کو بھی کسی نسوانی اور جنسی پہلو سے دیکھتے رہنا ، چھونا، اس سے اسی نوعیت کی گفتگو کرنا اور اس کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ، یہ سب دینی اعتبار سے بالکل ناجائز ہے۔البتہ جس آیت کا آپ نے حوالہ دیا ہے، وہ آخرت سے متعلق ہے، اس کا دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہاں پر ہو سکتا ہے کسی کو اس کے کیے کی کوئی سزا دی جائے یا نہ دی جائے،لہٰذا آپ جہاں شادی کرنا چاہتے ہیں، وہاں خواہ مخواہ کوئی شک نہ کریں۔ اپنی معلومات کے مطابق تسلی رکھیں اور وہم میں نہ پڑیں۔


استمنا بالید کی شرعی حیثیت

سوال: استمنا بالید(masturbation) کے جواز و عدم جواز کے بارے میں آپ کی کیا راے ہے؟ (اسفند یار یوسف)

جواب:یہ مکروہ عمل ہے اور تزکیہ اور پاکیزگی حاصل کرنے کی ذہنیت کے خلاف ہے۔ اس سے بچنے ہی کی کوشش کرنی چاہیے۔ البتہ، کسی خاص صورت حال میں اس شخص کے لیے یہ عمل جائز ہو گا جو کسی بڑے گناہ سے بچنے کے لیے اسے اختیار کرتا ہے۔ شریعت میں چونکہ اس کی حرمت کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ہم اسے حرام قرار نہیں دے سکتے۔


حدود آرڈی نینس

سوال: غامدی صاحب کے نزدیک حدود آرڈی نینس کا نیا بل شرعاً صحیح ہے یا نہیں؟ (عاقب خلیل خان)

جواب:غامدی صاحب اس بل سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک اس بل میں شریعت کی رہنمائی سے شدید انحراف موجود ہے۔ وہ اس بل میں موجود جن باتوں کو شریعت کی رہنمائی سے مختلف محسوس کرتے ہیں، ان میں چند درج ذیل ہیں:

۱۔ اس بل میں مسلم اور غیر مسلم کی گواہی میں اور مرد و عورت کی گواہی میں فرق کیا گیا ہے، ان کے خیال میں یہ چیز شریعت سے ثابت نہیں ہے۔

۲۔ اس بل کے مطابق زنا کی سزا سو کوڑے اور زنا بالجبر کی سزا موت ہے، جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک جرم کی دو نوعیتیں ہیں: ایک اس کی سادہ شکل ہے، جیسے زنا یا چوری اور دوسری وہ شکل ہے جس میں مجرم قانون کے خلاف قوت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس صورت میں زنا، زنا بالجبر کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور چوری، ڈاکے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک زنا بالجبر کی صورت میں مجرم کو دو سزائیں دی جائیں گی:ایک زنا کی سزا سو کوڑے اور دوسری حرابہ کی سزا جو سورۂ مائدہ کی آیت ۳۳۔ ۳۴ کے تحت اسے دی جائے گی۔

۳۔ غامدی صاحب کے نزدیک زنا کا مقدمہ رجسٹر کرنے کے لیے چار گواہوں کی شرط لازم ہے ، جبکہ اس بل کے مطابق دو گواہوں کے ملنے پر بھی مقدمہ رجسٹر کر لیا جائے گا۔ایسے کچھ اور اختلافات بھی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے آپ غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب’’حدود و تعزیرات‘‘ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔


جائداد پر زکوٰۃ

سوال:میں اپنی جائداد پر واجب زکوٰۃ کیسے طے کروں۔ مزید براں کیا مجھے اپنے مکانوں پر زکوٰۃ دینا ہو گی اور میری بیوی کو اپنے مکان اور اپنے زیورات پر بھی زکوٰۃ دینا ہو گی؟(افتخار صدیقی)

جواب:اگر میاں کی جائداد بھی ہے اور بیوی کی بھی تو دونوں کو اپنی اپنی جائداد پر زکوٰۃ دینا ہو گی۔

غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کے مطابق اسلام نے ہم پر درج ذیل شرح سے زکوٰۃ عائد کی ہے:

’’ پیداوار ،تجارت اورکاروبار کے ذرائع ، ذاتی استعمال کی چیزوں اور حد نصاب سے کم سرمایے کے سوا کوئی چیزبھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہرمال ، ہر قسم کے مواشی اور ہر نوعیت کی پیداوارپر عائد ہوگی اور ہر سال ریاست کے ہر مسلمان شہر ی سے لازماً وصول کی جائے گی ۔
اس کی شرح یہ ہے :
مال میں ۲ /۱ ۲ فی صدی سالانہ (اگر وہ مال ۶۴۲گرام چاندی کی مالیت سے زیادہ ہے)۔
پیداوار میں اگر وہ اصلاً محنت یا اصلاً سرمایے سے وجود میں آئے تو ہر پیداوارکے موقع پراُس کا ۱۰فی صدی ، اور اگر محنت اورسرمایہ ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو۵ فی صدی ، اور دونوں کے بغیر محض عطےۂ خداوندی کے طور پر حاصل ہو جائے تو ۲۰ فی صدی ۔‘‘(میزان ۳۵۰)

اس اصول کے مطابق آپ کو ان مکانوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں دینا جن میں آپ رہ رہے ہیں یا وہ آپ کے زیر استعمال ہیں۔ جو مکان کرایے پر اٹھے ہیں تو ان کے کرایے کا دس فی صد دینا ہو گا اور اگر وہ محض جائداد کی صورت میں قیمت بڑھنے پر بیچنے کے لیے روکے ہوئے ہیں تو پھر ہر سال ان کی حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد دینا ہو گا۔

زیورات پر مال کی زکوٰۃ (حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد) لگے گی۔اپنے کاروبار سے (جس میں آپ کا سرمایہ اور آپ کی محنت، دونوں صرف ہوتے ہیں اس سے) ہونے والی آمدنی اگر آپ کی حقیقی ضروریات کے بقدر رقم سے زیادہ ہے تو پھر کل آمدنی کا پانچ فی صد آپ کو دینا ہو گا۔


یوسف علیہ السلام اور حکومت مصر

سوال: یوسف علیہ السلام اپنے زمانۂ حکومت میں کیا حکومت مصر کے ملازم تھے یا وہ ملک چلانے کے لیے پورے اختیارات رکھتے تھے؟(عبدالحمید)

جواب:یوسف علیہ السلام کو مصر میں ملک چلانے کے پورے اختیارات حاصل تھے ۔ اس کی دلیل درج ذیل آیات ہیں:

’’اور بادشاہ نے کہا، اُس کو میرے پاس لاؤ، میں اُس کو اپنا معتمد خاص بناؤں گا۔ پھر جب اُس سے بات چیت کی تو کہا: اب تم ہمارے ہاں بااقتدار اور معتمد ہوئے۔ اس نے کہا: مجھے ملک کے ذرائع آمدنی پر مامور کیجیے، میں متدین بھی ہوں اور با خبر بھی۔ اور اِس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں اقتدار بخشا، وہ اُس میں جہاں چاہے متمکن ہو۔‘‘(سورۂ یوسف۱۲:۵۴۔۵۶)

ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ وہ مصری حکومت کے ملازم نہیں، بلکہ مصر کے با اقتدار فرماں روا تھے۔


غیر مسلم ممالک میں ملازمت

سوال:کیا کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز ہے کہ وہ کسی غیر مسلم حکومت کے تحت کام کرے ۔ اگر کسی غیر مسلم حکومت کے تحت کام کرناجائز ہے تو پھر اس کی حدود کیا ہیں اور اس میں کیا پابندیاں اختیار کرنا ہوں گی؟(عبدالحمید)

جواب:مسلمان کے لیے غیرمسلم حکومت کے تحت کام کرنا بالکل جائز ہے۔اس صورت میں ظاہر ہے، وہ دین و شریعت کے خلاف کوئی کام نہیں کرے گا یا ان کا کوئی ایسا حکم نہیں مانے گا جس سے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو، لیکن اگر اس کے لیے غیرمسلم حکومت کے تحت بحیثیت مسلمان رہنا ممکن نہ رہے تو پھر اسے لازماً وہاں سے نکل آنا چاہیے۔اس پہلو کو غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘کے باب ’’دین حق‘‘ میں اس طرح سے بیان فرمایا ہے:

’’بندۂ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے، اُسے دین کے لیے ستایا جائے ، یہاں تک کہ اپنے اسلام کو ظاہر کرناہی اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو اُس کا یہ ایمان اُس سے تقاضا کرتا ہے کہ اُس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہو جائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن اِسے ’’ہجرت‘‘ کہتا ہے۔ زمانۂ رسالت میں جب اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے براہ راست اِس کی دعوت دی گئی تو اِس سے گریز کرنے والوں کوقرآن نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ ‘‘(میزان۷۵)


آسمانی کتابوں کا نزول

سوال: تورات الواح کی شکل میں نازل ہوئی تھی اور قرآن بتدیج نازل ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ انجیل کیسے نازل ہوئی تھی۔(منور حسین اصغر)

جواب:تورات کا کچھ حصہ الواح کی شکل میں نازل ہوا تھا، باقی تورات قرآن ہی کی طرح بتدریج نازل ہوئی تھی۔ قرآ ن مجید میں تورات، انجیل اور خود قرآن تینوں کے لیے نازل کرنے کا لفظ بولا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:

’’اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تیری طرف اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا۔‘‘(البقرہ۲:۴)
’’ اس نے تم پر کتاب اتاری حق کے ساتھ، مصداق اس کی جو اُس کے آگے موجود ہے اور اُس نے تورات اور انجیل اتاری اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور پھر فرقان اتارا۔‘‘(آل عمران۳: ۳۔۴)

یہ آسمانی کتب اصلاً فرشتوں کے ذریعے سے نازل کی گئی ہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی سورۂ نحل میں ارشاد فرمایا:

’’اپنے بندوں میں سے وہ جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے کہ لوگوں کو خبر دار کرو کہ میرے سوا کوئی الٰہ نہیں، اِس لیے تم مجھی سے ڈرو۔‘‘ (۱۶: ۲)

________________

B