اقوام عالم کی ہزارہا برس کی تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ قوموں کی تقدیر کا فیصلہ ان کو پیش آنے والے اچھے برے حالات نہیں کرتے، بلکہ وہ فکری قیادت کرتی ہے جو ان کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھاتی اور ان کے لیے راہِ عمل طے کرتی ہے۔کسی قوم کے حالات بہت برے ہوں اور اس کے فکری رہنما بہت مثبت سوچ کے حامل ہوں تو قوم بدترین بحرانوں سے نکل آتی ہے، اس کے برعکس قوم کے حالات اچھے ہوں، مگر اس کے رہنما منفی سوچ سے نہ اٹھ سکیں تو بہترین امکانات کی قوم بھی بربادی کا شکار ہوجاتی ہے۔
تاریخ کے اس سبق کی سب سے نمایاں مثال خود پاکستان ہے۔ ایک صدی قبل اس خطے کے مسلمان غلامی، محرومی، پستی اور ذلت کا شکار تھے۔پورا عالم اسلام ایک ایسی سیاسی، ذہنی اور معاشی غلامی کا شکار تھا جس سے نکلنے کے امکانات دور دور تک نظر نہ آتے تھے۔ مگر ایسے میں سر سید اور علامہ اقبال جیسے عظیم لوگ پیدا ہوئے۔ان دونوں کی مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ بدترین حالات کے باجود انھوں نے امید کے دیے روشن کیے اور اُس وقت کے حالات میں ایک ممکنہ طور پر بہترین لائحہ عمل کی طرف قوم کی رہنمائی کی۔ نتیجہ یہ نکلاکہ صرف نصف صدی میں دنیا کی پانچویں اور مسلمانوں کی سب سے بڑی ریاست ظہور پذیر ہوئی۔
بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد ہم مسلسل ایک تنزل کا شکار ہیں۔ یہ زوال کیوں ظہور پذیر ہوا، سر دست اس کو جانے دیجیے ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ اب ہم اس زوال کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اس زوال کے باجود ہمارے آج کے حالات ایک صدی پہلے کے حالات سے بہت بہتر ہیں۔ بلاشبہ آج ہم ایک بدترین جمہوری دور سے گزررہے ہیں، لیکن ہم نے یہ جان لیا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ سیاسی، معاشی اور قومی سلامتی کے اعتبار سے ہمیں سخت حالات کا سامنا ہے، لیکن ساتھ ہی ہمیں یہ ادراک ہوچکا ہے کہ یہ سب ٹھیک نہیں ہورہا۔ یہ ادراک کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ جس قوم کے اعلیٰ اذہان میں یہ شعورپیدا ہوجائے وہ چند برسوں میں حالات کا رخ اپنے حق میں پھر دیتے ہیں۔
آج پاکستانی قوم اپنی بقا کی آخری جنگ لڑرہی ہے۔اس جنگ میں ہم نے حال ہی میں آمریت کو شکست دی ہے، مگر جمہوری رہنماؤ ں کی عاقبت نااندیشی کے ہاتھوں وقتی شکست کھائی ہے۔ قوموں کی زندگی میں وقتی پسپائی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ہم اس وقت عارضی پسپائی کا سامنا کررہے ہیں۔مگر چند برسو ں کے اندر لازماً ہم بہتری کی طرف جائیں گے۔
اِس وقت کرنے کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم اقبال اور سرسید کی رہنمائی کو زندہ کریں۔ سرسید نے تعلیم کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب سارے امکانات ختم نظر آتے تھے انھوں نے علم کے میدان کو قوم کے سامنے رکھا اور کچھ ہی عرصے میں قوم کے بہترین لوگوں میں تعلیم حاصل کرنے کی لگن پھونک دی۔جس کے نتیجے میں آنے والے چند برسوں میں اعلیٰ ترین رہنماؤ ں کی ایک کھیپ سامنے آگئی۔
اقبال نے مایوسی اور بے یقینی کی شکار قوم میں امید کا دیا چمکایا اور اس کے افراد میں یقین اور اعتماد کی طاقت پیدا کردی تھی۔قوم کے حال پر چھائی شکست کی تلافی کے لیے اقبا ل نے قوم کا تعلق اس کے عظیم ماضی سے جوڑا اور اس کے افراد کو یقین دلادیا کہ وہ اگر حوصلے سے کام لیں تو مستقبل ان کا ہے۔ اس یقین نے قوم میں جرات اور ہمت کی وہ طوفانی لہر پیدا کی جو آنے والے دنوں میں انگریزوں اور ہندوؤں کی طاقت اور مخالفت کو اپنے زور میں بہاکر لے گئی۔
آج بھی قوم کے باشعور لوگوں کے کرنے کا اگر کوئی کام ہے وہ تو یہی ہے کہ قوم میں تعلیم کاصور پھونکیں اور امید و یقین کی شمع روشن رکھیں۔ بہت جلد ہر اندھیرا چھٹ جائے گا۔
_______________