بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ: یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ، وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا، وَّاٰتٰکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ{۲۰} یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ، وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ{۲۱} قَالُوْا: یٰمُوْسٰٰٓی اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْھَا، فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ{۲۲} قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمَا، ادْخُلُوْا عَلَیْھِمُ الْبَابَ، فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ، وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ{۲۳} قَالُوْا: یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا، فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ{۲۴}
قَالَ: رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ، فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ{۲۵} قاَلَ: فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ، فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ{۲۶}
(اپنے جرائم کی پاداش سے ڈرو، اے اہل کتاب) اور یاد کرو وہ واقعہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم کے لوگو، اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کا خیال کرو کہ اُس نے تم میں نبی بنائے اور تمھیں بادشاہ ٹھیرایا ہے۶۳ اور وہ کچھ دے دیا ہے جو دنیا والوں میں سے اُس نے کسی کو نہیں دیا ہے۔۶۴ اے میری قوم کے لوگو، (اِس کے لیے) اُس مقدس سرزمین۶۵ میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھ پر الٹے نہ پھرو، ورنہ نامراد ہو جائو گے۔۶۶ اُنھوں نے جواب دیا: موسیٰ، اُس میں بڑے زبردست لوگ رہتے ہیں، ہم اُس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے، جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ ہاں، اگر وہ نکل جائیں تو ہم یقینا داخل ہو جائیں گے۔۶۷ اِن ڈرنے والوں میں دو شخص، البتہ ایسے تھے جن پر خدا کی عنایت تھی،۶۸ اُنھوں نے کہا: تم (اِس شہر کے) لوگوں پر چڑھائی کر کے اِس کے دروازے میں گھس جائو، جب تم گھس جائو گے تو تمھی غالب رہو گے اور اللہ پر بھروسا کرو، اگر تم اُس کے ماننے والے ہو۔۶۹ لیکن اُنھوں نے پھر یہی کہا کہ موسیٰ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں، ہم اُس میں ہرگز داخل نہ ہوں گے، اِس لیے تم اور تمھارا پروردگار، دونوں جائو اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔۷۰ ۲۰-۲۴
اِس پر موسیٰ نے دعا کی: پروردگار، میری ذات اور میرے بھائی کے سوا کسی پر میرا کوئی اختیار نہیں ہے، لہٰذا تو ہمیں اور اِن نافرمان لوگوں کو الگ الگ کر دے۔۷۱ فرمایا: یہی بات ہے تو یہ سرزمین چالیس برسوں کے لیے اُن پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، اِس لیے (اب) اِن نافرمانوں پر افسوس نہ کرو۔۷۲ ۲۵-۲۶
۶۳؎ اصل میں ’جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں فعل ہمارے نزدیک فیصلۂ فعل کے معنی میں ہے، یعنی نبی اور بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ یہ وعدوں کی قطعیت کو ظاہر کرنے کے لیے ایک بلیغ اسلوب ہے۔ آیت کے الفاظ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بادشاہی کا منصب ایک اجتماعی منصب ہے جو پوری قوم کو دیا جاتا ہے۔ اِس میں کسی شخص یا خاندان کے استبداد اور مطلق العنانی کے لیے ہرگز کوئی گنجایش نہیں ہے۔ چنانچہ نبیوں کے لیے تو فرمایا ہے کہ ’جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ‘، لیکن بادشاہی کے لیے ’جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے۔
۶۴؎ اِس سے مراد شہادت علی الناس اور دنیا کی امامت کا وہ منصب ہے جس کے لیے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بالکل اُسی طرح منتخب کیا گیا، جس طرح اللہ تعالیٰ بنی آدم میں سے بعض ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔
۶۵؎ اِس سے فلسطین کا علاقہ مراد ہے۔ اِس کو مقدس کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ذریت ابراہیم میں سے جس طرح بنی اسمٰعیل کی دعوت کے لیے سرزمین عرب کا انتخاب کیا گیا، اِسی طرح بنی اسحق کی دعوت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اِس علاقے کا انتخاب فرمایا اور اِس کو یہ تقدس بخشا کہ لوگ علم و عمل کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے اِس سرزمین کی طرف رجوع کریں۔ چنانچہ اِسی کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں وہ مسجد تعمیر ہوئی جسے بیت المقدس کہا جاتا ہے۔
۶۶؎ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے یہ تقریر اُس موقع پر کی ہے، جب اُنھوں نے دشت فاران میں بنی اسرائیل کو فلسطین پر حملے کی ہدایت فرمائی ہے۔ یہ حملہ اِس لیے ضروری تھا کہ فلسطین کے علاقے کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی میراث کا علاقہ قرار دے کر اُنھیں حکم دیا تھا کہ اِس علاقے کو اپنی دعوت کا مرکز بنائیں۔ نبیوں کی قیادت میں جو حکومت قائم ہوتی ہے، وہ چونکہ براہ راست اللہ کی حکومت ہوتی ہے، اِس لیے اُس کو جس طرح اتمام حجت کے بعد لوگوں کی جزا و سزا کا حق حاصل ہو جاتا ہے، اِسی طرح یہ حق بھی آپ سے آپ حاصل ہو جاتا ہے کہ جس علاقے سے چاہے، لوگوں کی حکومت ختم کر کے اُس میں اپنی حکومت قائم کر دے۔ اِس کا عام انسانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُن کی حکومت کو یہ حق نہ حاصل ہے اور نہ کسی طرح حاصل ہو سکتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی یہ تقریر اگرچہ یہاں بالاجمال نقل ہوئی، لیکن غور کیجیے تو اِس میں وہ تمام پہلو موجود ہیں جو اِس موقع پر حوصلہ دینے اور پست حوصلگی کے برے انجام سے لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ضروری تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے اُن افضال و عنایات کا حوالہ دیا جو مصر سے خروج کے وقت سے لے کر اب تک برابر سایے کی طرح بنی اسرائیل کے ساتھ رہے، اُن قطعی اور حتمی وعدوں کا حوالہ دیا جو سلسلۂ نبوت کے اجرا اور بنی اسرائیل کو ایک عظیم حکمران قوم بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمائے، اُس میراث کا حوالہ دیا جو ایک شاداب و زرخیز علاقہ کی شکل میں اُن کو ملنے والی تھی اور جس کو اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے لکھ دیا تھا۔ اِن تمام وعدوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ اُن کو ارض مقدس پر حملے کی دعوت دی اور ساتھ ہی بزدلی اور پست حوصلگی کے انجام بد سے بھی آگاہ کر دیا کہ قدم پیچھے ہٹایا تو بالکل ہی نامراد ہو کر رہ جائو گے۔ پیچھے مصر کی غلامی ہے اور آگے کے لیے ہمت نہ کی تو یہ صحرا گردی ہے جس میں مرکھپ کر فنا ہو جائو گے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۸۸)
۶۷؎ بائیبل کی کتاب گنتی باب ۱۳، ۱۴ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل نے یہ باتیں اُس وقت کہیں، جب بارہ سرداروں کی اُس جماعت نے اپنی رپورٹ آکر پیش کی جو موسیٰ علیہ السلام نے حملے سے پہلے علاقے کے حالات دریافت کرنے کے لیے بھیجی تھی۔ بائیبل میں یہ رپورٹ اِس طرح نقل ہوئی ہے:
’’۔۔۔وہ ملک جس کا حال دریافت کرنے کو ہم اُس میں سے گزرے، ایک ایسا ملک ہے جو اپنے باشندوں کو کھا جاتا ہے اور وہاں جتنے آدمی ہم نے دیکھے، وہ سب بڑے قدآور ہیں، اور ہم نے وہاں بنی عناق کو بھی دیکھا جو جبار ہیں اور جباروں کی نسل سے ہیں اور ہم تو اپنی ہی نگاہ میں ایسے تھے جیسے ٹڈے ہوتے ہیں اور ایسے ہی اُن کی نگاہ میں تھے۔‘‘ (گنتی ۱۳: ۳۲-۳۳)
۶۸؎ اصل میں ’رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’رَجُلٰنِ‘ (دو شخص) سے مراد یوشع اور کالب ہیں جو اُس مہم کے ارکان تھے جو فلسطین کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی اور ’الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ‘ کے الفاظ بنی اسرائیل کے لیے آئے ہیں جو بنی عناق کے خوف سے ہمت ہار بیٹھے تھے اور اُن پر خوف اور بزدلی کی موت طاری ہو گئی تھی۔ اِس آیت میں عام طور پر لوگوں نے ’یَخَافُوْنَ‘ کے مفعول کو محذوف مانا ہے، یعنی ’یَخَافُوْنَ اللّٰہَ‘، وہ اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے، لیکن دو وجہ سے یہ تاویل محل نظر ہے۔ استاذ امام نے اِن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ایک تو یہ کہ یہ موقع مفعول کے اظہار کا تھا نہ کہ اِس کے حذف کا، اِس لیے کہ یہاں التباس پیدا ہو سکتا ہے اور التباس کے مواقع میں اظہار مستحسن ہے نہ کہ حذف۔ دوسری یہ کہ اِس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ اُس وقت خدا سے ڈرنے والوں کی ایک جماعت موجود تھی جن کے اندر یوشع اور کالب بھی تھے۔ اگر یہ بات ہے تو انعام الٰہی کی تخصیص اِنھی دو حضرات کے لیے کیوں ہوئی؟ پھر تو ’اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمَا‘ کی جگہ ’اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ‘ ہونا تھا۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۸۹)
۶۹؎ یہ اُس تقریر کا خلاصہ ہے جو یوشع اور کالب نے اُس موقع پر کی، جب پوری قوم ہمت ہار چکی تھی۔ بائیبل میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’اور نون کا بیٹا یشوع اور یفنّہ کا بیٹا کالب جو اُس ملک کا حال دریافت کرنے والوں میں سے تھے، اپنے اپنے کپڑے پھاڑ کر بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہنے لگے کہ وہ ملک جس کا حال دریافت کرنے کو ہم اُس میں سے گزرے، نہایت اچھا ملک ہے۔ اگر خدا ہم سے راضی رہے تو وہ ہم کو اُس ملک میں پہنچائے گا اور وہی ملک جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے، ہم کو دے گا۔ فقط اتنا ہو کہ تم خداوند سے بغاوت نہ کرو اور نہ اُس ملک کے لوگوں سے ڈرو۔ وہ تو ہماری خوراک ہیں۔ اُن کی پناہ اُن کے سر پر سے جاتی رہی ہے اور ہمارے ساتھ خداوند ہے، سو اُن کا خوف نہ کرو۔‘‘ (گنتی ۱۴: ۶-۹)
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس تقریر پر تبصرہ فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِس میں شبہ نہیں کہ جب پوری قوم کی قوم اِس طرح ہمت ہار بیٹھے جس طرح بنی اسرائیل ہار بیٹھے تو بہادر سے بہادر آدمی کے اعصاب بھی جواب دے جاتے ہیں۔ بڑا ہی باوفا اور صداقت شعار ہوتا ہے وہ مرد حق جو ایسے نازک موقع پر بھی اپنی وفاداری اور صداقت شعاری نباہ لے جائے۔ یوشع اور کالب کے کردار کا یہی پہلو ہے جس کے سبب سے عہد و میثاق کی اِس سورہ میں قرآن نے اِن کا ذکر کر کے اِن کو زندۂ جاوید بنا دیا تاکہ جو لوگ خدا کی راہ پر چلنے کا ارادہ کریں، وہ اُن کے اِس مثالی کردار سے یہ سبق لیں کہ جب سب سو جائیں تو جاگنے والے کس طرح جاگتے ہیں اور جب سب مر جاتے ہیں تو زندہ رہنے والے کس طرح زندہ رہتے ہیں۔ قرآن نے یہاں بزدلوں کے اندر کے بہادروں اور مردوں کے اندر کے زندوں کو اِس لیے نمایاں کیا ہے کہ بہادروں کے اندر بہادر اور زندوں کے اندر زندہ تو بہت نظر آجائیں گے، لیکن وہ زندگی بخش ہستیاں بہت کم یاب ہیں جو مردوں کو زندگی بخشتی ہیں، اگرچہ اِسی راہ میں اُنھیں خود اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۸۹-۴۹۰)
۷۰؎ یہ بنی اسرائیل کی طرف سے آخری جواب ہے۔ بائیبل میں یہ جواب اِن لفظو ں میں تو نقل نہیں ہوا، مگر بنی اسرائیل کے گریہ و ماتم کا ذکر جس طریقے سے ہوا ہے، اُس سے واضح ہے کہ یوشع اور کالب کی اِس یقین دہانی کے جواب میں کہ ’’ہمارے ساتھ خداوند ہے، سو اِن کا خوف نہ کرو‘‘، اُنھوں نے یقینا وہی بات کہی ہو گی جو قرآن نے یہاں نقل کی ہے۔
۷۱؎ یہ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اِس بات کی درخواست ہے کہ اُنھیں اِس نالائق قوم کی قیادت کے بار عظیم سے سبک دوش کر دیا جائے۔
۷۲؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے سبک دوشی کی درخواست تو قبول نہیں کی گئی، اِس لیے کہ اِس صورت میں تمام بنی اسرائیل ہلاک کر دیے جاتے، مگر اُن کے لیے سزا کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ بائیبل میں یہ فیصلہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا: میں کب تک اِس خبیث گروہ کی جو میری شکایت کرتی رہتی ہے، برداشت کروں؟ بنی اسرائیل جو میرے برخلاف شکایتیں کرتے رہتے ہیں، میں نے وہ سب شکایتیں سنی ہیں۔ سو تم اُن سے کہہ دو: خداوند کہتا ہے، مجھے اپنی حیات کی قسم ہے کہ جیسا تم نے میرے سنتے کہا ہے، میں تم سے ضرور ویسا ہی کروں گا۔ تمھاری لاشیں اِسی بیابان میں پڑی رہیں گی اور تمھاری ساری تعداد میں سے، یعنی بیس برس سے لے کر اُس سے اوپر اوپر کی عمر کے تم سب جتنے گنے گئے اور مجھ پر شکایت کرتے رہے، اُن میں سے کوئی اُس ملک میں جس کی بابت میں نے قسم کھائی تھی کہ تم کو وہاں بساؤں گا، جانے نہ پائے گا، سوا یفنّہ کے بیٹے کالب اور نون کے بیٹے یشوع کے۔ اور تمھارے بال بچے جن کی بابت تم نے یہ کہا کہ وہ تو لوٹ کا مال ٹھیریں گے، اُن کو میں وہاں پہنچاؤں گا اور جس ملک کو تم نے حقیر جانا، وہ اُس کی حقیقت پہچانیں گے۔ اور تمھارا یہ حال ہوگا کہ تمھاری لاشیں اِسی بیابان میں پڑی رہیں گی اور تمھارے لڑکے بالے چالیس برس تک بیابان میں آوارہ پھرتے اور تمھاری زناکاریوں (یعنی بدعہدیوں) کا پھل پاتے رہیں گے۔‘‘ (گنتی ۱۴: ۲۶-۳۳)
استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔تاریخ بنی اسرائیل کے اِس واقعے نے اُن کے اُس زعم کی پوری پوری تردید کر دی جس کا حوالہ اوپر گزرا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے محبوب اور چہیتے سمجھتے ہیں، اِس وجہ سے عمل و اطاعت کی ذمہ داریوں سے اپنے کو بری خیال کیے بیٹھے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تمھارا یہ گمان کچھ حقیقت رکھتا ہے تو موسیٰ کی موجودگی میں تو تم اور بھی زیادہ چہیتے تھے پھر اُس وقت ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے ڈگ ڈال دیے تھے تو خدا خود تمھیں اپنے کندھوں پر اٹھا کر لے جاتا اور فلسطین کا بادشاہ بنا دیتا۔ پھر خدا کی جنت کو تم یونہی مفت میں حاصل کرنے کے خبط میں کیوں مبتلا ہو!‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۹۲)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ