بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ، وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا، وَاتَّقُوااللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ{۷} یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ، وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا، اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ{۸} وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ{۹} وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ{۱۰} یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ھَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھُمْ فَکَفَّ اَیْدِیَھُمْ عَنْکُمْ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ{۱۱}
وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ، وَبَعَثْنَا مِنْھُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا، وَقَالَ اللّٰہُ: اِنِّیْ مَعَکُمْ۔ لَئِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْھُمْ وَ اَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا لَّاُکَفِّرَنَّ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَلَاُدْخِلَنَّکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ، فَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ{۱۲} فَبِمَا نَقْضِھِمْ مِّیْثَاقَھُمْ لَعَنّٰھُمْ، وَجَعَلْنَا قُلُوْبَھُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ، وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ، وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلٰی خَآئِنَۃٍ مِّنْھُمْ اِلَّا قَلِیْلاً مِّنْھُمْ، فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاصْفَحْ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِِیْنَ{۱۳}
وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓااِنَّا نَصٰرٰٓی، اَخَذْنَا مِیْثَاقَھُمْ، فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ، فَاَغْرَیْنَا بَیْنَھُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، وَسَوْفَ یُنَبِّئُھُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ{۱۴}
(اِس رعایت سے فائدہ اٹھائو) اور اپنے اوپر اللہ کی اِس نعمت کو یاد رکھو۳۶ اور اُس کے اُس عہد و میثاق کو بھی۳۷ جو اُس نے اُس وقت تم سے ٹھیرایا جب تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم فرماں بردار ہیں، (اِسے یاد رکھو) اور اللہ سے ڈرو۔ بے شک، اللہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ ایمان والو،(اِس عہد و میثاق کا تقاضا ہے کہ ) اللہ کے لیے کھڑے ہو جائو، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اِس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جائو۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ ۳۸بے شک، اللہ تمھارے ہر عمل سے با خبر ہے۔ اللہ نے اُن لوگوں سے وعدہ کر رکھا ہے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں کہ اُن کے لیے مغفرت اور اجر عظیم ہے۔ (اِس کے برخلاف) جو منکر ہیں اور اُنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ہے، وہی دوزخ میں جانے والے ہیں۔ ایمان والو، (اور) اپنے اوپر اللہ کی یہ عنایت بھی یاد رکھو کہ جب ایک قوم ۳۹نے تم پردست درازی کا ارادہ کیا تو اللہ نے اُن کے ہاتھ تم سے روک دیے۴۰ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور (یاد رکھو کہ) ایمان والوں کو تو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔۷-۱۱
اللہ نے (اِسی طرح) بنی اسرائیل سے بھی عہد لیا تھا اور (اُس کی نگرانی کے لیے) اُن میں سے بارہ نقیب ۴۱اُن پر مقرر کیے تھے اور اُن سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔۴۲ اگر تم نے نماز کا اہتمام کیا اور زکوٰۃ ادا کی اور میرے رسولوں کو مانا ۴۳اوراُن کی مدد کی اور اپنے پروردگار کو قرض دیتے رہے، اچھا قرض۴۴ تو یقین رکھو کہ میں تمھاری لغزشیں ۴۵تم سے دور کردوں گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پھر اِس (عہد و میثاق) کے بعد بھی جو منکر ہوں تو ۴۶(اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ)وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔ سو اپنے اِس عہد کو توڑ دینے ہی کی وجہ سے ہم نے اِن پر لعنت کی۴۷ اور اِن کے دل سخت کر دیے۔ اب اِن کی حالت یہ ہے کہ یہ کلام کو اُس کے موقع و محل سے ہٹا دیتے ہیں اور جس چیز کے ذریعے سے اِنھیں یاد دہانی کی گئی تھی ، اُسے بھلا بیٹھے ہیں۴۸ اور (یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ) آئے دن تم اِن کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر پاتے ہو۔ اِن میں سے بہت تھوڑے ہیں جو اِن چیزوں سے بچے ہوئے ہیں۔۴۹ (اِن سے اب تم کسی خیر کی توقع نہیں کر سکتے)، اِس لیے معاف کرو، (اے پیغمبر) اور اِن سے درگذر کرتے رہو۵۰ (اوریاد رکھو کہ) اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔۱۲-۱۳
اِسی طرح ہم نے اُن سے بھی عہد لیا تھا جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں۔۵۱ پھر جس چیز کے ذریعے سے اُنھیں یاددہانی کی گئی، اُس کا ایک حصہ وہ بھی بھلا بیٹھے تو ہم نے قیامت تک کے لیے اُن کے درمیان بغض و عداوت کی آگ بھڑکا دی۔۵۲ (وہ اُسی میں جل رہے ہیں) اور اللہ عنقریب اُنھیں بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔۱۴
۳۶؎ یاد رکھنے کی یہ ہدایت اپنے حقیقی مفہوم میں ہے، یعنی ظاہر و باطن میں ہر پہلو سے اِس اتمام نعمت کا حق ادا کیا جائے۔
۳۷؎ یعنی اِس عہد و میثاق کو یاد رکھو کہ سمع و طاعت پر قائم رہو گے تو اللہ تمھاری مغفرت کرے گا اور قیامت کے دن ایک اجر عظیم تمھیں عطا فرمائے گا۔ آگے آیت ۹ میں اِس کی وضاحت فرما دی ہے۔
۳۸؎ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر شخص نہ صرف یہ کہ حق و انصاف پر قائم رہے، بلکہ یہ اگر گواہی کا مطالبہ کریں تو جان کی بازی لگا کر اُن کا یہ مطالبہ پورا کرے۔ حق کہے، حق کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ انصاف کرے، انصاف کی شہادت دے اور اپنے عقیدہ و عمل میں حق و انصاف کے سوا کبھی کوئی چیز اختیار نہ کرے۔ یہاں تک کہ کسی قوم کی دشمنی بھی اُسے آمادہ نہ کرے کہ وہ حق و انصاف کی راہ سے ہٹ جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔شیطان نے راہ حق سے گمراہ کرنے میں سب سے زیادہ جس حربے سے کام لیا، وہ یہی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کا حربہ ہے۔ یہود نے محض بنی اسمٰعیل اور مسلمانوں کی دشمنی میں اُس تمام عہد و پیمان کو خاک میں ملا دیا جس کے وہ گواہ اور ذمہ دار بنائے گئے تھے۔ اِس وجہ سے مسلمانوں سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ شیطان کے اِس فتنے سے بچ کے رہیں ۔ دوستوں اور دشمنوں، دونوں کے لیے اُن کے پاس بس ایک ہی باٹ اور ایک ہی ترازو ہو۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۴۷۱)
۳۹؎ اشارہ ہے قریش مکہ کی طرف جن کی دست درازیوں کو روک کر اللہ تعالیٰ نے بالآخر مسلمانوں کو اُن پر غلبہ عطا فرمایا۔
۴۰؎ یہ اُسی عہد کی واقعاتی شہادت پیش فرمائی ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب دنیا میں اللہ نے اپنا وعدہ اِس شان کے ساتھ پورا کیا ہے تو آخرت میں بھی یقیناً کرے گا۔
۴۱؎ اِس لفظ کے اصل معنی کھوج لگانے والے اور حالات و معاملات کی جستجو کرنے والے کے ہیں۔ اِس لیے یہ قوم اور قبیلہ کے سردار اور نگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اِن سے شریعت کی پابندی اور اُس کی حفاظت کا عہد لینے کے بعد بنی اسرائیل کے ہر قبیلے پر ایک ایک نقیب اِس مقصد سے مقرر کیا کہ وہ لوگوں کی نگرانی رکھے کہ وہ شریعت کے حدود و قیود کی پابندی کریں اور کوئی ایسی چیز اُن کے اندر گھسنے نہ پائے جو اُن کو اللہ کے عہد سے روگردان کرے۔ بنی اسرائیل کے قبیلے چونکہ بارہ تھے، اِس وجہ سے نقیب بھی بارہ مقرر ہوئے۔ اُن کا تقرر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت کیا تھا، اِس وجہ سے اِس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۴۷۴-۴۷۵)
۴۲؎ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے لیے یہ ایک جامع تعبیر ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ جب خدا ساتھ ہے تو گویا پوری کائنات اُن کے ساتھ ہے۔
۴۳؎ یہ عہد چونکہ بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا، اِس لیے اس میں خاص اشارہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے جن کا ذکر تورات میں نہایت واضح علامتوں کے ساتھ ہوا ہے۔
۴۴؎ یہ اُس انفاق کے لیے قرآن کی خاص تعبیر ہے جو دین کی خدمت اور اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کے لیے کیا جائے۔
۴۵؎ اصل میں لفظ ’سَیِّاٰت‘ آیا ہے۔ اِس سے مراد وہ لغزشیں اور کوتاہیاں ہیں جو اُن احکام کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتی ہیں جو سد ذریعہ کے طور پر دیے جاتے ہیں۔
۴۶؎ اِس سے واضح ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے اِس معاہدے سے انحراف گویا خدا اور اُس کی ہدایت کا انکار کر دینے کے مترادف تھا۔ چنانچہ اِسی بنا پر اِسے کفر سے تعبیر کیا ہے۔
۴۷؎ یعنی اپنی رحمت سے دور کیا اور اپنی بارگاہ سے ذلت کے ساتھ دھتکار دیا۔ اِس مفہوم کے لیے جامع تعبیر یہی لعنت ہے۔ اِس کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ یہ آگے کی آیتوں میں بیان ہوئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔راندۂ درگاہ ہونے کا پہلا اثر جو اُس قوم پر پڑتا ہے، وہ یہ ہے کہ اُس کے اندر سے خدا کی خشیت جو دل کی زندگی کی ضامن ہے، ختم ہو جاتی ہے اور دل پتھر ہو کر توبہ و انابت کی روئیدگی کے لیے بالکل بنجر ہو جاتا ہے۔ یہ حالت پیدا تو ہوتی ہے عہد شکن قوم کے اپنے عمل کے نتیجہ کے طور پر، لیکن چونکہ واقع ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی مقررکردہ سنت کے مطابق، اِس وجہ سے اِس کو منسوب اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمایا ہے۔ یہ قساوت عہد شکن قوم کے اندر جسارت پیدا کرتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ میثاق الٰہی کی خلاف ورزی ہی پر بس نہیں کرتی، بلکہ وہ اُس معاہدے کو اپنی خواہشات کے مطابق بنانے کے لیے اُس کے الفاظ و کلمات کی تحریف بھی کرتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۴۷۶)
۴۸؎ اِس سے تورات مراد ہے، اِس لیے کہ خدا کا یہی عہد نامہ تھا جس کے بنی اسرائیل پابند بنائے گئے اور جس کے ذریعے سے اُن کی یاددہانی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ یہود کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنھوں نے اِس میں لفظی تحریفات بھی کی ہیں، اپنی تاویلات کے ذریعے سے اِس کے حقائق کی قلب ماہیت بھی کی ہے اور اِس کی بعض چیزیں عام لوگوں سے چھپائی بھی ہیں۔ یہ اُن کے لیے گھر کاچراغ تھا اور استاذ امام کے الفاظ میں گھر کا چراغ ہی ہوتا ہے جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ اگر اُسی کو بجھا دیا جائے یا چھپا دیا جائے تو اب دوسری کون سی چیز اجالا کرے گی۔
۴۹؎ یہود کے اندر صالحین کا یہی گروہ ہے جس کا ذکر اِس سے پہلے بقرہ و آل عمران میں بھی ہوا ہے۔
۵۰؎ اصل میں ’فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاصْفَحْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اِن سے مراد یہاں دل سے معاف کرنا نہیں، بلکہ محض درگذر کرنا ہے۔ یہی مفہوم ہم مہلت دینے اور نظر انداز کرنے کے الفاظ سے ادا کرتے ہیں۔ اِس معنی کی نظیر آگے آیت ۱۵ میں بھی ہے۔
۵۱؎ اِس سے واضح رہے کہ نصاریٰ کا نام بھی سیدنا مسیح علیہ السلام کے پیرووں نے اپنے لیے خود اختیار کیا تھا۔ یہ اللہ کا دیا ہوا نام نہیں ہے کہ اِس کی بنیاد پر لوگوں کو نصرانیت اختیار کرنے کی دعوت دی جائے۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت کے لیے اللہ کا دیا ہوا نام ہمیشہ سے اسلام ہی ہے۔
۵۲؎ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں تحریف اور اُس کے ایک حصے کو ضائع کر دینے کا نتیجہ بیان ہوا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ملت کی شیرازہ بندی اللہ کے میثاق اور اُس کی کتاب ہی سے ہوتی ہے۔ اگر اُسی میں فساد و اختلال پیدا ہو جائے تو پھر ملت کو فساد و اختلال اور خون خرابے سے کیا چیز بچا سکتی ہے۔ یہ صورت حال عہد شکنی کا قدرتی نتیجہ بھی ہے اور اِس جرم کی سزا بھی، اِس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔ نصاریٰ کے لیے اِس سے نجات کی واحد شکل یہ تھی کہ قرآن کی رہنمائی میں اِن تاریکیوں سے نکل کر ہدایت کی روشنی اور امن و سلامتی کی شاہراہ پر آجاتے، لیکن اُن کے تعصب نے اُن کو یہ سیدھی راہ اختیار نہ کرنے دی۔ اب نہ کوئی کتاب آنی ہے اور نہ کوئی رسول، اِس وجہ سے اِس جنگ و جدل سے نکلنے کا اب اُن کے لیے قیامت تک کوئی امکان ہی باقی نہیں رہا۔‘‘(تدبر قرآن ۲/ ۴۷۸)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ