HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

اذان کے کلمات

عَنْ أَبِیْ مَحْذُوْرَۃَ أَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ عَلَّمَہُ ہٰذَا الْأَذَانَ: أَللّٰہُ اَکْبَرُ أَللّٰہُ اَکْبَرُ أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ثُمَّ یَعُوْدُ فَیَقُوْلُ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ أَشْہَدُ أَنَ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ مَرَّتَیْنِ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ مَرَّتَیْنِ زَادَ إِسْحَاقُ أَللّٰہُ أَکْبَرُ أَللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ.
حضرت ابو محذورہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ انھیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ اذان سکھائی: ’أَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ (اللہ بہت بڑا ہے )، ’أَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ (اللہ بہت بڑا ہے)، ’أَشْہَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)، ’أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)، ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)، ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)۔ آپ پھر دہراتے ہیں اور کہتے ہیں: ’أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)، ’أَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں)، ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)، ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ (میں اعلان کرتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں)، ’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ‘ (نماز کی طرف آؤ) دوبار، ’حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘ (فلاح کی طرف آؤ) دوبار۔ اسحاق کی روایت میں ’أَللّٰہُ أَکْبَرُ أَللّٰہُ أَکْبَرُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ کا اضافہ بھی ہے۔
لغوی مباحث

أَکْبَرُ‘: یہ افعل التفضیل کا صیغہ ہے ۔ یہ تقابل کے معنی میں بھی آتا ہے اور مطلق تفضیل کے معنی میں بھی۔ ترجمہ ’’اللہ سب سے بڑا ہے‘‘ کیا جائے یا ’’اللہ بہت بڑا ہے‘‘، دونوں ترجمے مطلق تفضیل کو بیان کرنے کے لیے ہیں۔

معنی

اس روایت میں قابل غور مسئلے دو ہیں:

ایک یہ کہ اس میں پہلی تکبیر دو بار ہے۔

دوسرا یہ کہ اس میں شہادتین کو ایک بار کہنے کے بعد دوبارہ کہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ واقعۃً نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار تکبیر کہنے کو تعلیم کیا ہے یا یہ بیان کرنے یا سمجھنے میں تسامح ہے؟ عام اصول یہ ہے کہ یہ فیصلہ راویوں کے صدق وضبط اور روایت کی تقدیم وتاخیر وغیرہ کی روشنی میں کیا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ فیصلہ ان شواہد کی روشنی میں ہونا چاہیے جو زمانۂ رسالت میں اس معاملے پر عمل کے حوالے سے فقہ، حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ زمانۂ رسالت میں اذان میں تربیع، یعنی اذان کی ابتدا میں چار بار ’أَللّٰہُ أَکْبَرُ‘ کہنا ہی مروج تھا۔ دوبار کہنے کی راے بعد میں پیدا ہوئی اور اس کی وجہ وہ روایات ہیں جن میں دوبار کہنے کا ذکر ہے۔ پچھلی روایت کی شرح میں ’’بدایۃ المجتہد‘‘ کا اقتباس ہم نقل کر چکے ہیں۔ اس اقتباس سے واضح ہے کہ اختلاف راے کی وجہ روایات کا اختلاف ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اذان میں تربیع ہی تھی۔یہی صورت ترجیع، یعنی شہادتین کو دو دو بار کہنے کے بعد، پھر دو دو بار کہنے کی ہے۔ قوی قرائن وشواہد اسی کے حق میں ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ترجیع نہیں تھی۔

سوال یہ ہے کہ پھر یہ روایات کس چیز کا بیان ہیں۔ اس روایت کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ اس میں تکبیر کے تثنیہ کا ذکر محض اتفاقی ہواور شہادتین کے دہرانے کا معاملہ صرف وقتی ہو، یعنی یہ بات صرف سکھانے کے موقع پر پیش آئی ہو، لیکن تاریخی طور پر معلوم ہے کہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ ترجیع کے ساتھ مکہ میں اذان دیتے رہے ہیں۔ اسی طرح ابوداؤد کی روایت میں ترجیع کا معاملہ براہ راست حضور کی نسبت سے بیان ہوا ہے۔ مزید براں ابوداؤد ہی میں ایک متن میں حضرت بلال والی اذان بھی مروی ہے۔ روایت کے متون کا تجزیہ کرکے کوئی حتمی بات کہنا ممکن نہیں ہے۔ ہر نقطۂ نظر کے حق میں قرائن موجود ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وقتی اور اتفاقی ہونے کا پہلو زیادہ قرین قیاس ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تربیع کی موجودگی اور ترجیع کی عدم موجودگی کا یقینی ہونا، روایت کی مذکورہ بالا توجیہ کو کافی قوی بنا دیتا ہے۔

اس حوالے سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے ادا کرنے کے کسی ایک طریقے کی تحدید کی تھی؟ استاد محترم کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمومی طریقۂ اذان ’أَللّٰہُ أَکْبَرُ‘ چار باراور ’لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ کے سوا باقی کلمات کو دو بار کہنے کا تھا۔گویا ان کے نزدیک کلمات کی تکرار میں کمی بیشی کرنے میں حرج نہیں ہے۔

ہمیں معلوم ہے کہ کم از کم مدینے میں اذان کا وہی طریقہ رائج رہا ہے جو ہمارے ہاں مروج ہے۔۱؂ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرر کے بعد ابومحذورہ رضی اللہ عنہ نے مکہ میں ترجیع کے طریقے پر اذان دی۔ اس پر کسی تنقید کی کوئی روایت ریکارڈ پر نہیں ہے۔ اس سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اذان کے کلمات کی تکرار کے حوالے سے وسعت کے قائل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس روایت کے شارحین نے بالعموم اذان کی روایات میں مذکور طریقوں کو مباح قرار دیا ہے۔ ہمارے خیال میں روایات سے حاصل ہونے والی معلومات اسی نتیجے تک پہنچاتی ہیں۔

میرا خیال یہ ہے کہ اذان کا اصل طریقہ وہی ہے جو احناف نے اختیار کیا ہے۔ روایات میں موجود داخلی قرائن بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔

کلمات اذان کی ترتیب اوران کا پیغام اسے عبادت کی طرف بلانے کے تمام طریقوں سے بہت ممتاز کر دیتا ہے۔ اللہ کی کبریائی اور توحیدکے بہ تکرار اعلان سے اذان شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ گویا وہ عقیدہ جس پر تمام عقیدوں کا انحصار ہے، اسے اول وآخر میں رکھ کر اس کے محیط ہونے کے پہلو کو نمایاں کر دیا گیا ہے۔ رسالت محمدی کا اقرار امت مسلمہ کا دوسرا امتیازی وصف ہے۔ چنانچہ اقرار توحید کے بعد اسے رکھ دیا گیا ہے۔ درمیان میں نماز کی طرف دعوت اور نماز کی اہمیت کا بیان ہے۔آؤ نماز کی طرف اور آؤ فلاح کی طرف کے متوازی جملوں نے نماز اور فلاح اخروی کو ہم معنی بنا دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز انسان کے خدا سے تعلق کا بیان واظہار ہے۔ اس کے اعمال کبریائی کے ادراک سے پیدا ہوتے اور اس کے اذکار حمد وتسبیح اور دعا ومناجات کی صورت میں خالق ومالک کے سامنے اظہار بندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتے ہیں۔ دین تمام کا تمام بندگی ہے اور نماز اس کا مظہر اتم اور دین کے ساتھ زندہ وابستگی کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نماز اور فلاح کو مترادف بنا دیا گیا ہے۔

متون

امام مسلم کا منتخب متن اذان سکھانے کے بیان تک محدود ہے، لیکن کتب روایت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو اذان سکھانے کا واقعہ ایک خاص موقع پر پیش آیا تھا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ حنین کی مہم سے واپسی پر ایک مقام پر پڑاؤ کیے ہوئے تھے، ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ اسی علاقے میں موجود تھے۔ اذان کی آواز سن کر ان لوگوں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے اس کی نقل کرنا شروع کر دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بلا لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی آواز بہت پسند آئی۔ اسی ملاقات میں ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے ایمان قبول کیا اور آپ نے خود انھیں اذان سکھائی تھی۔ ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور ان کے لیے برکت کی دعا کی تھی۔ مزید براں انھیں ایک تھیلی بھی دی جس میں کچھ سکے تھے۔ بیان کیا گیا ہے کہ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے بقیہ زندگی میں کنگھی نہیں کی کہ وہاں حضور کا ہاتھ لگا تھا۔ان روایات میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خواہش پر انھیں مکہ کا مؤذن مقرر کر دیا تھا۔ اسی طرح حضرت ابومحذورہ کا یہ تاثر بھی نقل ہوا ہے کہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت انھیں سب سے زیادہ ناپسند تھی اور اس ملاقات کے بعد آپ سے زیادہ انھیں کوئی محبوب نہ تھا۔ کچھ راویوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر کوئی بیس لوگوں سے اذان سنی تھی، لیکن آپ کو حضرت ابو محذورہ کی آواز سب سے زیادہ پسند آئی تھی۔

بعض روایات میں فجر کی اذان اور اقامت سکھانے کا ذکر بھی روایت ہوا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایسی روایات بھی موجود ہیں جن میں وہی اذان اور اقامت بیان ہوئی ہے جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے متعلق اذان کی روایات میں مذکور ہے۔ اسی طرح بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں صرف اقامت کا ذکر ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اذان سکھانے کو مسلم کی روایت میں ’عَلَّمَہُ ہٰذَا الْأَذَانَ‘ کے الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے۔ بعض متون میں ’أُلْقِیَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ التَّأْذِیْنُ‘ کے الفاظ اختیار کیے گئے ہیں۔ اسی طرح بعض متون میں ’حَرْفًا حَرْفًا ‘ کی تصریح ہے اور بعض میں بٹھا کر سکھانے کا ذکر ہے۔

مسلم کی روایت کے درمیان میں ترجیع سکھانے کا ذکر ہے۔ اس کے لیے ’ثُمَّ یَعُوْدُ فَیَقُوْلُ‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں۔ دوسری روایات میں اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے ’ ثُمَّ ارْجِعْ فَمُدَّ مِنْ صَوْتِکَ ‘ ، ’اِرْجِعْ فَامْدُدْ مِنْ صَوْتِکَ‘ ، ’اِرْفَعْ مِنْ صَوْتِکَ‘ ، ’ تَخْفِضْ بِہَا صَوْتَکَ‘ اور ’بِصَوْتٍ دُوْنَ ذٰلِکَ الصَّوْتِ‘ جیسی تعبیرات بھی آئی ہیں۔

حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کے متون کا مطالعہ کرنے سے یہ تاثر ہوتا ہے کہ ترجیع کا اضافہ ایک نامقبول چیز تھی۔ چنانچہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کو مؤثر بنانے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر وہ روایات جن میں انیس کلمات سکھانے کی تعبیر اختیار کی گئی ہے، میرے خیال میں اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔

کتابیات

مسلم، رقم۳۷۹؛ ابوداؤد، رقم۵۰۱۔۵۰۵؛ نسائی، رقم۶۲۹۔۶۳۳؛ ترمذی، رقم۱۹۱۔ ۱۹۲؛ ابن ماجہ، رقم۷۰۸؛ احمد، رقم۱۵۴۱۳، ۱۵۴۱۷؛ ابن حبان، رقم۳۸۵؛ ابن خزیمہ، رقم۳۷۷، ۳۷۹، ۳۸۵؛ دارمی، رقم۱۱۹۶۔ ۱۱۹۷؛ بیہقی، رقم۱۷۱۳۔۱۷۱۶، ۱۸۱۵، ۱۸۲۲۔۱۸۲۵، ۱۸۲۷؛ دارقطنی، رقم۱۔ ۴؛ سنن کبریٰ، رقم۱۵۹۴۔۱۵۹۷؛ مسند الشافعی، رقم۱۲۰؛ طیالسی، رقم۱۳۵۴؛ المعجم الاوسط، رقم۱۱۰۶، ۱۶۶۰؛ المعجم الکبیر، رقم۶۷۲۸۔ ۶۷۳۱، ۶۷۳۴، ۶۷۳۵، ۶۷۳۸؛ مسند ابی عوانہ، رقم۲۱۱۹؛ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۱۴۷۔

__________

۱؂ پچھلی روایت کی شرح میں ہم نے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ سے فقہا کی آرا کا خلاصہ نقل کیا تھا۔ یہاں ہم فقہی آرا کی ایک اور کتاب کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ ’’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘‘ کے مصنف وہبہ زحیلی اذان کے ضمن میں لکھتے ہیں:

’’ فقہا اذان کے اصل کلمات پر، جو معروف ہیں، بغیر کسی کمی بیشی کے تواتر سے نقل ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ وہ دہرے دہرے ہیں، متفق ہیں۔ اسی طرح وہ تثویب پر بھی متفق ہیں ۔ تثویب سے مراد فجر کی اذان میں ’فلاح‘ کے بعد دوبار ’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘ کہنے کا اضافہ ہے۔ یہ عمل سنت سے ثابت ہے، جیسا کہ ابوداؤد اور احمد نے حضرت بلال اورحضرت ابومحذورہ سے روایت کیا ہے کہ جب فجر کا وقت ہو تو دو بار ’اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ‘ کہو۔ البتہ ان کا ترجیع میں اختلاف ہے۔ ترجیع یہ ہے کہ شہادتین کو جہراً کہنے سے پہلے سراً کہا جائے۔ مالکیہ اور شافعیہ نے اسے اختیار کیا ہے اور حنفیہ اور حنابلہ نے اسے اختیار نہیں کیا۔ البتہ حنابلہ ترجیع کو مکروہ قرار نہیں دیتے۔حنفیہ اور حنابلہ کا مختار قول یہ ہے کہ اذان پندرہ کلمات ہے: ’اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، أَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، أَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، أَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ، لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ مالکیہ اور شافعیہ کے نزدیک اذان کے کلمات مشہور ہیں اور ان کی تعداد ترجیع کے ساتھ انیس ہے۔یہ مسنون اذان، یعنی ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی اذان پر عمل ہے جس میں ترجیع ہے، یعنی شہادتین کو دہرانا۔‘‘ (۱/ ۵۴۲)

________________

B