[’’نقطۂ نظر‘‘کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
آیئے غور کریں کہ پاکستان میں موجود تہذیب اور ہمارا اندازِ فکر اکیسویں صدی کی اُبھرتی علمی معیشت (نالج اکانومی) کے تقاضوں سے کتنے ہم آہنگ ہیں۔ نالج اکانومی کی شروعات امریکہ میں 1955ء میں ہوئی۔ یہ دور ’’بعد از صنعتی‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ ہم اس پر بھی غور کریں گے کہ ہمارے افکار اپنے فطری بہاؤ میں انفرمیشن ایج کی جانب پیشرفت کے لیے کتنے موزوں ہیں۔ یہاں بحث اس امر سے نہیں کہ نالج اکانومی یا انفرمیشن ایج اچھی چیزیں ہیں یا نہیں۔ یہ معاملات ہمارے طے کرنے کے نہیں،انھیں سائنسی ترقی نے طے کر رکھا ہے۔ صنعتی دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی نے جو حیرت انگیز ترقی کی ،یہ چیزیں اس کا فطری نتیجہ ہیں اور باہم لازم و ملزوم ہیں۔
آج کے دور کی نمایاں خصوصیت ہائی ٹیکنالوجی اور انفرمیشن و کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ہے۔ سائنس کے ہر شعبے نے زبردست ترقی کی ہے۔ سینتھیٹک بیالوجی، سینتھیٹک Genomics اور metabolic انجینئرنگ جدید ترین سائنسیں ہیں جو پیداواری عمل اور انسانی زندگی کے بے شمار شعبوں میں انقلابی تبدیلی پیدا کر رہی ہیں۔ یہ سائنسیں فطرت کا مطالعہ کرتی ہیں۔ جن معاشروں نے ان سائنسوں میں ترقی حاصل کی ہے اور اعلیٰ ٹیکنالوجی اختیار کر لی ہے، ان کی معاشی پیداواریت۔۔۔ صنعتی، زرعی اور سروسز میں۔۔۔ زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ ممالک اپنی معاشی سبقت برقرار رکھنے کے لیے مذکورہ علوم و فنون میں تیزی سے اضافہ کرتے رہتے ہیں، انہیں پھیلاتے ہیں اور قومی زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اکثر مسلم ممالک جدید علوم کے حصول اور فروغ میں کماحقہ دلچسپی نہیں لیتے، بلکہ جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات کے استعمال پر قناعت کرتے ہیں۔ مثلاً موبائیل ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پیغام رسانی کے لیے استعمال کرتے ہیں، کمپیوٹر کی مدد سے چلنے والی مشینری سے مصنوعات تیار کرتے ہیں، جینٹک بیجوں سے فصلیں اُگاتے ہیں۔ پس ماندہ تہذیبی معاشرے جدید ٹیکنالوجی کی اشیا ایجاد کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ البتہ انھیں خرید کر ترقی یافتہ معاشروں کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کی اشیا ملٹی نیشنل کمپنیاں تیار کرتی ہیں۔ ہم ان کے محتاج بن گئے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاشی طاقت، اسلحہ کی طاقت اور سیاسی طاقت ان معاشروں کو حاصل ہے جو جدید علوم کی مہارت رکھتے ہیں۔ ایشیا کے تیزی سے ترقی پانے والے تین ترقی پذیر ممالک۔۔۔ چین، تائیوان اور سنگاپور۔۔۔ نے اپنے مڈل اور ہائی ا سکولوں میں فزکس اور ریاضی کی اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کر رکھا ہے جو برطانیہ اور یورپ سے بھی بہتر ہے۔ یہ تعلیم اُن کی تیز رفتار ترقی کا سبب بنی۔ اور اگر وہ جمہوری استحکام قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ امریکہ، جاپان اور یورپ کی طرح نالج اکانومی قائم کر لیں گے۔ نالج اکانومی کی حامل سول سوسائٹی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ادراک رکھتی ہیں کہ نئی سائنسی تحقیقات اور ٹیکنیکی ایجادات کے معاشی، سماجی، انتظامی اور سیاسی تقاضے کیا ہیں۔ انہیں پورا کرنے کے لیے علمی، تعلیمی، معاشی، صنعتی اور تجارتی نظم و نسق اور سماجی شعبوں میں کیا کیا ترامیم اور اصلاحات درکار ہیں۔
ہمیں غور کرنا ہوگا کہ پاکستان سائنسی ترقی اور علمی معیشت کے تقاضے پورے کرنے کے قابل کیوں نہ بنا۔ اس سوال کو ہم یوں بھی اُٹھا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جدید علوم کو فروغ کیوں حاصل نہ ہوا۔ ہمارا سماج فیوڈل اور قبائلی تھا اور سماجی قوتیں جن کے پاس رہبری کا فریضہ تھا، اُن کا رویہ غیرسائنسی اور مذہبی تھا۔ سیاسی عمل کے دوران میں مؤثر حلقوں کی توجہ اسلامی نظریے سے جذباتی اظہار پر مرکوز ہو گئی۔ 1949ء میں قرار داد مقاصد کے ذریعے پاکستان کی پارلیمان کے اکثریتی (مسلمان) ارکان نے اسلامی تعلیمات کو مسلمانوں کی نجی زندگی اور ملک کی قومی زندگی کے لیے مشعل راہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ جہاں تک قومی زندگی کا تعلق ہے، ہمارے پاس بیسویں صدی (جو تب تھی) کے اہل کوئی ماڈل نہیں تھا۔ ہمارے پاس عقیدہ تھا، جوش تھا، علم اور صلاحیت نہیں۔ عالم اسلام میں کہیں بھی صنعتی دور (جو تب تھا) کے تقاضوں کے مطابق اسلامی افکار میں اجتہاد نہیں ہوا۔ کچھ معاملات، جن میں پیشرفت ہوئی، قومی زندگی میں اہم کردار کے حامل نہ تھے۔ پاکستان کے رہبروں نے شروع شروع میں ’’اسلام کی راہ‘‘ اختیار کرنے کی بات کی۔ اُنھوں نے طے کیا کہ قانون سازی اور دوسرے امور میں کوئی ایسا کام نہ ہو گا جس سے اسلامی تعلیمات سے ’’تصادم‘‘ پیدا ہو۔ 1977ء کے بعد ایک فوجی حکمران نے اپنے اثر و رسوخ سے قانون سازی کروائی۔ جس کی رو سے تصادم سے بچنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ، شریعت کے نفاذ کی آئینی ذمہ داری بھی قبول کر لی گئی۔
یہاں رک کر ہمیں مسلمانوں کے مذہبی افکا ر میں جمود کا ذکر کرنا ہو گا۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ جمود ہماری سماجی زندگی کے ہر شعبے پر اثر انداز ہوا۔ ہمارے مذہبی افکار میں جمود فطری تھا، اس لیے کہ سماجی علوم اور سماجی فکر میں جمود موجود تھا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آٹھ سو سال پہلے مسلمانوں کی تہذیبی ترقی رک گئی اور زوال کی ابتداء ہوئی۔ ہمارے یہاں عام خیال کے مطابق مسلمانوں کے زوال کا سبب جدید علوم و فنون سے اغماص اور فکری قیادت کی نااہلی نہیں، بلکہ روایتی مذہب کی تقلید میں کوتاہی ہے۔ ہم نے ماضی کو سراہا ہے۔ ہم نے مستقبل کی دُنیا کے لیے پیشگی تیاری نہیں کی۔ ہمارے لیے توجہ کے قابل مستقبل مرنے کے بعد آئے گا۔ اس لیے ہماری دُنیاوی زندگی پسماندہ رہی، سواے بالادست طبقات کے جنہوں نے اخلاقی اقدار ترک کر کے دولت حاصل کی، مگر عوام کومحض عبادات پر قانع رکھنے کا بندوبست کیا۔
جب یورپ میں علوم و فنون کی ترقی شروع ہوئی اور وہ صنعتی دور میں داخل ہوا ،اس نے مذہب کی حکومتی معاملات میں مداخلت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ طویل کشمکش کے بعد وہاں سیاست اور مذہب کے شعبوں کی علیحدگی ہو گئی۔ سیاسی حکمران اور چرچ اپنے اپنے شعبوں میں بااختیار ہو گئے۔ جبکہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے کسی فیصلے کی ضرورت نہ محسوس ہوئی، اس لیے کہ مسلمان حکمرانوں نے (ماسواے عرب ایمپائر سے قبل کے دورِ خلافت کے) اکثر و بیشتر مذہبی علما کو سیاست سے دور رکھا۔ صرف خلافتِ راشدہ کے دوران ہی میں دینی اور سیاسی قیادت یکجا رہی۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلم ممالک میں بڑے ذریعۂ روزگار (زراعت) پر کنٹرول حکمران کا ہوتا تھا۔ زرعی اراضی کی تقسیم کا اختیار سلطان یا بادشاہ کو حاصل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا میں مذہبی رہنما اور مذہبی افکار الا ماشاء اﷲ بالا دست طبقہ کے مفاد کے تابع رہے۔ مسلم سلاطین کے ادَوار میں عام طور پر سیاست اور مذہب نے ایک دوسرے کے لیے کوئی بڑی مشکل پیدا نہیں کی۔ سیاسی حکمران اپنے سیاسی اور طبقاتی مفاد کے لیے جائز اور ناجائز، اسلامی اور غیر اسلامی ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے۔ عام مسلمانوں نے یہ سب کچھ قبول کیا۔ شاید نظریۂ ضرورت کا تقاضا یہی تھا۔ انھیں خطرہ تھا کہ اگر مسلمانوں میں نفاق اُبھرا تو غیرمسلم رعایا یا پڑوسی حکمران (دشمن) فائدہ اُٹھائے گا۔ مختصراً، بالادست طبقات اسلام کی روح، یعنی انصاف پر کاربند نہ تھے جب کہ عام مسلمان اسلام کی رسوم و رواج کے پابند رہے۔ یہی بات حکمرانوں کے حق میں بہتر تھی۔ گذشتہ آٹھ سو سالوں میں مسلمانوں نے سماجی علوم، فزیکل سائنسز اور ٹیکنالوجی میں ترقی نہیں کی۔ مسلمانوں کی تہذیب میں جمود آ چکا تھا۔ مسلم دنیا میں صنعتی انقلاب نہیں آیا۔ مسلم معاشرے بدستور قبائلی، فیوڈل اور زرعی رہے۔ روایتی مذہبی تعبیرات ان ادوار کے تقاضوں کو پورا کرتی رہیں۔ اس دوران یورپی ممالک میں علمی فروغ ہوا، صنعتی انقلاب آیا۔ نتیجتاً ان کی فوجی طاقت بڑھی۔ یورپی ممالک مسلم حکمرانوں کو فوجی شکست دے کر ان کی سلطنتوں پر قابض ہو گئے۔ یورپی حکمرانوں نے مفتوحہ علاقوں میں معاشی اور انتظامی نوعیت کی تبدیلیاں کیں۔ نظم و نسق کے نئے ادارے اور نئے قوانین رائج کیے جو صنعتی دور یا ان کی حکمرانی کے تقاضوں کے مطابق تھے۔
یوں مفتوحہ مسلم علاقے ایک نئی صورت سے دو چار ہو گئے۔ مسلم رعایا تہذیبی اور فکری اعتبار سے قبائلی اور زرعی دور میں رہنے کی عادی تھی، جب کہ نئے یورپی حکمران صنعتی دور اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ استحصالی بھی تھے۔ اس صورت حال میں مسلم دانشوروں اور رہنماؤں کے دو طرح کے ردِّعمل تھے۔ ایک یہ کہ صنعتی دور کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے مذہبی افکارمیں اجتہاد ہو نا چاہیے تاکہ نئے دور کے ساتھ تضاد دور ہو اور مسلمانو ں کے لیے ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے میں سہولت ہو۔ برصغیر میں سرسید اور علامہ اقبال صنعتی دور کے مطالبے کے مطابق اجتہاد کے حامی تھے۔ دوسرا مکتب فکر یہ تھا کہ ہم مذہبی افکار کی روایتی تعبیر کے خول میں پناہ لے کر بزعم خود غیر مسلم آقاؤں کے اثر سے خود کو محفوظ کر لیں۔ مذہبی افکار کی روایتی تعبیر قبائلی، زرعی اور عرب امپریلزم کے ادوار میں پروان چڑھی تھی۔ اس انداز فکر کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ مختلف الخیال مذہبی مسلکوں اور مذہبی فرقوں میں منقسم تھی۔ پاکستان میں یہ تقسیم ’’نفاذاسلام‘‘ کے بعد بڑھی ہے، اِس تقسیم کو آمریت کے خلاف مشترک سیاسی جدوجہد نے کنٹرول کیا۔ البتہ جنونی فرقہ پرست گروہ کسی کے کنٹرول میں نہیں۔
پاکستان نے نفاذِ اسلام کے جو اقدام کیے ،وہ پہلے سے رائج روایتی افکار کے مطابق تھے۔ نفاذِ اسلام کے حامی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ پاکستان کا معاشرہ خالص روایتی، قبائلی اور زرعی نہیں رہا، اس میں کئی اعتبار سے تبدیلی آ چکی ہے۔ قبائلی اور دیہی علاقوں سے آبادی شہروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ معاشرے کے خوشحال اور امیر طبقے نیا لائف اسٹائل اختیار کر رہے ہیں۔ ان کا رہن سہن، ان کے تجارتی اور رہائشی مراکز روایت شکن بن چکے ہیں۔ کاشتکاری میں مشینوں کا استعمال دیہی زندگی بدل رہا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں تاجر، طالبعلم اور عام شہری دوسرے ملکوں کا سفر کرتے ہیں اور نئی تہذیب سے روشناس ہوتے ہیں۔ آسان ٹیکنالوجی کی صنعتیں فروغ پا رہی ہیں۔ عالمی میڈیا ہمارے روایتی کلچر پر چوٹیں مار رہا ہے۔ بچے جو وسائل کا بندوبست کر سکتے ہیں، انگلش میڈ یم ا سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ تاہم معاشرہ مجموعی طور پر فکری اور علمی اعتبار سے پسماندہ ہی ہے۔ ہمارا واسطہ جس دُنیا سے ہے، وہ انفرمیشن ایج میں داخل ہو رہی ہے۔ اس دور کا طاقتور میڈیا جن قوموں کے ہاتھ میں ہے، ان ہی کا تہذیب و تمدن اس دور کا مؤثر تہذیب و تمدن بن گیا ہے۔ یہ عالمی تہذیب و تمدن دوسرے سب معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے پر بھی اپنی چھاپ بڑھا رہا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ آج کا ملک، چاہے پسماندہ ہو، عالمی گاؤں ہی کا حصہ ہے۔ اس کے لیے گاؤں کے اثر، ڈسپلن اور قوانین سے بچنا ممکن نہیں۔ ان سب باتوں کا شعور ان افراد کو نہیں جو ذہنی اور فکری اعتبار سے اُس دور میں نہیں رہتے جس میں وہ سانس لیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ شعور پر حاوی ہے۔ وہ حالات کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں ہر علاقے کا اپنا اپنا تہذیب و تمدن ہے۔ مثلاً پختون قبائلی علاقے کا تہذیب و تمدن اپنا ہے اور کراچی کا اپنا۔ قبائلی لوگوں نے (جو وزیرستان میں رہیں یا کراچی میں) نفاذِ اسلام کی اس تعبیر کو قبول کیا جو جنرل ضیاء الحق نے کی، مگر وہ طبقے جو تہذیب و تمدن کے اعتبار سے قبائلی نہیں، اس تعبیر کو قبول نہ کر سکے۔ لیکن نفاذِ اسلام کا معاملہ قانون کا ہے جو سب کے لیے یکساں ہے۔ یوں اسلامی قوانین کے نفاذ نے ان مسائل میں اضافہ کر دیا ہے جو ملک میں تہذیب و تمدن کے فرق کی وجہ سے پہلے سے موجود تھے۔ اس طرح ملک میں عدم استحکام بڑھا ہے۔
اب بہت سی چیزیں اکٹھی ہو گئیں۔ اوّل ،ہمارا معاشرہ نیم قبائلی، نیم فیوڈل اور نیم صنعتی ہے۔ دوم، اس کا بیشتر قانونی ڈھانچہ سوائے قبائلی علاقوں کے صنعتی اور غلامی کے دور کے مطابق قائم ہوا تھا، اسی میں روایتی اسلامی قوانین کو داخل کر دیا گیا ہے۔ سوم، ہمارا ملک عالمی گاؤں کا حصہ ہے۔ یہ گاؤں جو صنعتی دور سے آگے انفرمیشن دور میں داخل ہو چکا ہے۔ اور چہارم یہ کہ اسلام کی جس تعبیر کو ہم اپنے معاشرے میں رائج کرنا چاہتے ہیں، اس کا بہت سا حصہ فکری اعتبار سے قبائلی اور زرعی دورکے مطابق ہے۔ یہ چاروں خصوصیات باہم ہم آہنگ نہیں۔ اور پانچویں بات یہ کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں جدید سماجی اور فطری سائنسز کا معیار بوسیدہ اور از کار رفتہ ہے۔ مزید برآں نفاذ اسلام کے ہمارے تجربے نے ثابت کیا کہ اس سے فرقہ پرستی کو ہوا ملی اور بعض روایتی مذہبی حلقوں میں تشدد کا رجحان بڑھا۔
ہمارا دعویٰ ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے۔ (معاشرہ سے مراد انسانوں کا ایک گروہ ہے جس میں مفادات اور ضروریات کی سانجھ ہو، جن کی تکمیل کے لیے سوشل سسٹم موجود ہو) سچ یہ ہے کہ سوشل سسٹم کی تشکیل کے لیے قابلِ عمل فکر کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ اسلامی فکر کا اجتہاد صنعتی دور سے بہت پہلے ہی رُک گیا تھا۔ (یہ رُکنا فطری تھا کیونکہ معاشرے میں علمی فروغ اور معاشی ترقی نہ ہوئی۔) فرض کریں کہ ترقی بتدریج جاری رہی ہوتی تو صورت حال بالکل دوسری ہوتی۔ ہمارے سماجی اور مذہبی افکار وہ نہ ہوتے جو آج ہیں، مسلم معاشرے کی شکل اور مسلمانوں کی سماجی زندگی اُس سے کہیں مختلف ہوتی جو آج ہے۔ اور شاید دنیا کی تہذیب و ہےئت بھی ایسی نہ ہوتی جو آج ہے۔ نچوڑ اس بحث کا یہ ہے کہ ہم مسلمان چاہتے کچھ ہیں، کرتے یا کرنے پر مجبور کچھ اَور ہیں۔ ہم دُوئی میں مبتلا ہیں۔ دوئی معمولی نہیں، شدید ہے۔ اِس لیے یہ دُوئی ہماری ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ معاملہ سوچ اور عمل میں تضاداسی کا نہیں، ایک اور اعتبار سے تشویشناک بھی ہے۔ مسلم معاشرے کی روایتی اور لبرل دھڑوں میں تقسیم وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سوسائٹی سوچ کے اعتبار سے دو طاقتور گروہوں میں تقسیم ہونے کی طرف مائل ہے۔ ایک گروہ کے پاس جدید علوم کی کچھ نہ کچھ شد بد ہے۔ دوسرے کے پاس عقیدہ ہے، اسلحہ ہے اور مرنے مارنے کا جذبہ۔ یہ بات معاشرے کے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ روایت پرست سوچ علمی معیشت کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اسلحہ کا غلبہ مسلمانوں کو غربت، مذہبی جنونیت اور آمریت کی طرف لے جائے گا۔ کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ جواب مشروط اثبات میں ہے۔ ہمیں جدید علوم کو فروغ دینا ہوگا اور سماجی ترقی کی رفتار کو تیز کرنا ہوگا۔
ترقی کے خواہش مند ملکوں کے لیے سماجی علوم کی نوعیت بدل چکی ہے اور بدلتی رہے گی۔ سائنسی تحقیقات اور نئی ٹیکنالوجی نئے مسائل کھڑے کریں گے۔ نئے تصورات اور نئی تھیوریاں بنیں گی۔ نئی ٹیکسٹ بُک بنیں گی۔ بدلتے تقاضوں کے مطابق اساتذہ کو بار بار ریفریشر کورس کرنے ہوں گے۔ ہر ترقی پسند قوم کو اپنے سماج اور سیاسی اور انتظامی ڈھانچوں میں بار بار تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔ قوم کے لیے حکمت عملی بنانے والوں اور قانون سازوں کو اپنے افکار پر نظر ثانی کرتے رہنا ہو گی۔ انفرمیشن سوسائٹی اسی کا نام ہے۔ ایسی بدلتی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت صرف ایک کشادہ فکر والی سوسائٹی کو حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے سوچنے کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کا روایت پرست معاشرہ اتنی صلاحیت پیدا کر سکے گا کہ وہ انفرمیشن سوسائٹی کے تقاضوں کا پیشگی اندازہ لگا کر بروقت ضروری اصلاحات کر سکے، ہرگز نہیں۔ یہ صلاحیت پیدا کرنے کے لیے تعلیم و تدریس کے نصاب اور طور طریقوں کو بدلنے کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں تدریس کا ایسا اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور اتنی آزادی دینا ہو گی کہ طالب علموں میں سوچنے کی صلاحیت پیدا ہو، سوال اُٹھانے کی ہمت پیدا ہو، طالب علم حصول تعلیم میں شر کت اختیار کرے، تجزیہ کرے، بحث میں حصہ لے۔ گویا علم کے بڑھاؤ میں حصہ دار بنے۔ ضروری ہے کہ ہم قوم کو فکری اعتبار سے اکیسویں صدی میں لائیں۔ اُن میں سائنسی اندازِ فکر کی صلاحیت پیدا کریں۔ اِسی اندازِ فکر سے ہم آج کی دُنیا کے معاملات سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا ایک زود اثر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی کی ڈاکومنٹری فلمیں دکھانے کا بندوبست کیا جائے۔ بالخصوص دورانِ تعلیم ایک پیریڈ ایسی ڈاکومنٹری فلموں کے لیے مختص کر دیا جاے۔ دینی مدارس میں بھی ایسی ڈاکومنٹری دکھانے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ یہ طریقہ قوم کے ذہن میں فراخی اور سائنسی رویہ پیدا کرنے کا باعث ہوگا جو قوم میں آگے بڑھنے اور عالمی گاؤں کی صفِ اوّل میں جگہ پانے کا جذبہ اُبھارے گا۔
_______________