HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]


امت کا تہتر فرقوں میں تقسیم ہونا اور نظم اجتماعی کی پیروی

سوال:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ یہود ۷۱ فرقوں میں تقسیم ہوئے، عیسائی ۷۲ فرقوں میں تقسیم ہوئے تھے اور میری امت تہتر(۷۳) فرقوں میں تقسیم ہو گی، ان میں سے ایک کے سوا سب کے سب فرقے جہنمی ہوں گے اور وہ ناجی فرقہ ،وہ ہو گا جو میرے اور میرے صحابہ کی راہ پر ہو گا۔ اس حدیث کا مطلب کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ تم جماعت المسلمین اور ان کے امام کے ساتھ جڑ کر رہو، اس کا کیا مطلب ہے؟کیونکہ آج کل جتنے فرقے بھی موجود ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے آپ کو صحیح قرار دیتا ہے، لہٰذا یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آدمی کس کا ساتھ دے اور کس کا نہ دے؟(سلمان اشرف)

جواب: مسلمانوں کے تہتر فرقوں میں بٹ جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان تہتر میں سے ایک اہل حدیث کا فرقہ ہے، دوسرا احناف کا اور تیسرا شوافع کا۔ نہیں، بلکہ یہ سب اہل سنت ہی کا گروہ ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی امت کی سطح پر نہ گمراہ قرار دیا گیا ہے اور نہ دیا جا سکتا ہے، یہ وہ فرقے نہیں ہیں۔ گمراہ فرقہ تو وہ ہوتا ہے جو دین کے معاملے میں اصول و عقائد ہی میں مختلف ہو یا دوسرے لفظوں میں جس کا دین کتاب و سنت پر مبنی نہ ہو۔ چنانچہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہماری امت پر ایک ایسا دور آئے گا جب اس طرح کے صریح گمراہ فرقوں کی تعداد بہتر ہو جائے گی اور اس وقت صرف ایک ہی یعنی تہترواں فرقہ صحیح دین کا حامل ہو گا۔ میرے خیال میں اس وقت یہ صورت حال بالکل نہیں ہے۔ جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے جس میں جماعت المسلمین اور ان کے امام کے ساتھ جڑ کر رہنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے سیاسی نظم کے ساتھ جڑ کر رہو، ان سے کٹ کر یا ان کے باغی بن کر نہ رہو۔ یہ حدیث مسلمانوں سے یہ کہہ رہی ہے کہ وہ اپنے ملک میں انارکی کی صورت حال ہرگز پیدا نہ ہونے دیں۔

آپ نے مختلف جماعتوں اور گروہوں کی اپنے بارے میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ہم ہی جماعت المسلمین ہیں اور ہمارے ہی لیڈر سے جڑنے کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا تویہ محض ان کی خوش خیالی ہے۔

 

تعویذ سے بیماری کا علاج

سوال:کیا تعویذ کے ذریعے سے بیماری کا علاج کیا جا سکتا ہے؟(زاہد محمد اسلم)

جواب: اشیا اور کلمات کے روحانی خواص اور تاثیرات کا علم ایک حقیقت ہے۔ چنانچہ آیات الٰہی پڑھ کر دم کرنے کا ذکر احادیث میں موجود ہے ۔ جہاں تک تعویذوں کا معاملہ ہے تو یہ چیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں ہے، لہٰذا ہمارے خیال میں دم کرنا یا کرانا تو درست ہے، لیکن تعویذ وغیرہ سے بچنا چاہیے۔اور اپنی بیماری اور دیگر مشکلات کے لیے اللہ سے دعا کریں۔ خدا کے ہاں مانگنے سے ملتا ہے ۔ آدمی کو ناامید نہیں ہونا چاہیے ۔ اگر خدا کسی چیز کو مقدر میں نہیں کرتا تو اس میں بڑی حکمت ہوتی ہے۔ آدمی کو اس لیے خود کو راضی بہ رضا رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

 

اردو میں تسبیحات

سوال: کیا ہم نماز کے دوران میں سجدے اور رکوع میں اردو میں تسبیحات کر سکتے ہیں، نیز کیا یہ ضروری ہے کہ سجدے میں ’سبحان ربی الاعلٰی ‘تین دفعہ ہی کہا جائے؟(احسن خان)

جواب:رکوع اور سجدے میں اردو زبان میں دعائیں کی جا سکتی ہیں ۔سجدے میں ’سبحان ربی الاعلٰی‘ تین دفعہ کہنا لازم نہیں ہے۔ اس سے زیادہ بھی کہا جا سکتا ہے اور زیادہ ہی کہنا چاہیے اور کم بھی کہا جا سکتا ہے۔

 

وتر نماز پڑھنے کا طریقہ

سوال: وتر پڑھنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟(احسن خان)

جواب:وتر کی نماز کی رکعات لازماً طاق ہوتی ہیں۔ اس کی ادائیگی کا بہترین وقت تہجد ہی کا وقت ہوتا ہے۔پڑھنے کا طریقہ کوئی خاص مختلف نہیں ہے۔ آپ تہجد کے نوافل چار، چھ، آٹھ جتنے بھی پڑھنا چاہتے ہیں، وہ پڑھیں۔ اس کے بعد وتر کی ایک،تین یا جتنی طاق رکعتیں بھی آپ پڑھنا چاہیں، وہ عام طریقے سے پڑھیں، سوائے اس کے کہ آخری رکعت میں سورۂ فاتحہ اور قرآن کی آیات کی تلاوت کے بعد تکبیر کہہ کر دوبارہ ہاتھ باندھیں اور دعاے قنوت پڑھیں، پھر رکوع میں چلے جائیں اور عام طریقے سے نماز کو مکمل کریں۔ وتر کے طریقے میں اگر آپ کو اختلاف نظر آئے (مثلاً اہل حدیث کے ہاں) تو اس سے پریشان نہ ہوں، کیونکہ ایسا نہیں کہ اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، بلکہ یہ نماز مختلف طریقوں سے پڑھی جا سکتی ہے۔

 

حج و عمرہ کے لیے قربانی کی تعداد

سوال: حج اور عمرہ اکٹھا کرنے والے کو ایک قربانی کرنا ہو گی یا دو؟(دانش)

جواب: ایسے شخص کے لیے عمرہ اور حج جمع کرنے کی وجہ سے کفارے کی ایک قربانی کرنا تو واجب ہو گی اور دوسری قربانی وہ حج کے حوالے سے نفلی قربانی کے طور پر کر سکتا ہے۔

 

رضاعی رشتوں میں نکاح

سوال: وہ بچہ جس نے اپنی نانی کا دودھ پیا ہو، کیا اس کا رشتہ اپنے مامووں اور خالاؤں کی بیٹیوں سے ہو سکتا ہے؟(مسز افتخار چوہدری)

جواب:آپ نے جو صورت بتائی ہے، اس صورت میں یہ بچہ اپنے مامووں اور اپنی خالاؤں کا رضاعی بھائی ہے۔ چنانچہ اس رشتے سے اس کے مامووں اور اس کی خالاؤں کی بیٹیاں اس کی رضاعی بھتیجیاں اور بھانجیاں بنتی ہیں،لہٰذا ان کے ساتھ اس کا نکاح نہیں ہو سکتا۔

 

تنخواہ پر زکوٰۃ

سوال: تنخواہ پر زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے؟(عاصم اعجاز)

جواب:غامدی صاحب کی راے یہ ہے کہ تنخواہ پیداوار کے ضمن میں آتی ہے اور اس پر پیداوار کی زکوٰۃ کی شرح لگائی جائے گی۔ چنانچہ ہر اس آدمی کو جس کی تنخواہ نصاب سے زیادہ ہو گی، اپنی تنخواہ کا دس فی صد زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گا۔ اس زکوٰۃ کا نصاب کیا ہے، یعنی تنخواہ کی کتنی مقدار ہو تو اس پر زکوٰۃ عائد ہو گی، یہ بات مسلمانوں کی حکومت کو طے کرنا ہو گی، لیکن جب تک وہ یہ طے نہیں کرتی، اس وقت تک غامدی صاحب کے نزدیک اگر کسی آدمی کی آمدنی اس کی بنیادی ضروریات کی حد سے اتنی زیادہ ہوئی کہ زکوٰۃ نکال کر باقی رقم سے اس کی بنیادی ضروریات پوری ہو جاتی ہوں تو اس پر یہ زکوٰۃ اپنی شرح کے مطابق عائد ہو گی۔

 

سودی اسکیمیں

سوال: بنکوں کے فکسڈ ڈیپازٹ اور گورنمنٹ کی اسکیموں میں سود پر روپیہ لگانا دینی اعتبار سے درست ہے یا نہیں ؟(اختر صدیقی)

جواب:سود کا کھانا صریحاً حرام ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیے، سورۂ بقرہ آیات ۲۷۵ سے ۲۷۹ تک۔

البتہ اگر کوئی آدمی ایسا مجبور ہے کہ اسے اپنے روزمرہ اخراجات حاصل کرنے کے لیے سود کھانے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تو امید ہے کہ اللہ اس کا یہ عذر قبول فرما لیں گے۔لیکن اگر اپنے روپے کو محفوظ رکھنے کی خواہش کسی آدمی کو سود کھانے پر مجبور کر رہی ہے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ عذر خدا کے ہاں قابل قبول ہو گا، کیونکہ ایک آدمی کے حالات واقعۃً ایسے ہو سکتے ہیں کہ اس کے لیے یہ عذر بنتا ہو اور دوسرے آدمی کے لیے ہو سکتا کہ یہ محض ایک بہانہ ہو۔

 

پراویڈنٹ فنڈ میں سود لینا

سوال: کیا پراویڈنٹ فنڈ میں وہ سودی اضافہ لینا جائز ہے جو ہر سال بدلتا رہتا ہے؟(معین قریشی)

جواب:پراویڈنٹ فنڈ میں یہ سودی اضافہ اگر نفع و نقصان کے اصول پر تبدیل ہوتا ہے تو پھر یہ درست ہے اور اگر اس کی وجہ یہ ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ پر دیے جانے والے سود کو ہر سال محض حلال بنانے کے لیے کچھ کم کچھ زیادہ کر دیا جاتا ہے تو پھر یہ سود ہی ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔

 

قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ

سوال: میں اپنے مرحوم والد کی ۶۶ سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاہتا ہوں، مجھے یہ بتایا جائے کہ میں یہ فدیہ کتنا دوں اور کیسے دوں؟(محمد یونس خان)

جواب:نمازوں کا کوئی فدیہ نہیں ہوتا، یہ آدمی کو خود ہی ادا کرنا ہوتی ہیں۔ اگر کسی نے ادا نہیں کیں اوروہ فوت ہو گیا ہے تو آپ اس کے لیے دعاے مغفرت کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ بوڑھا آدمی جو روزے نہ رکھ سکتا ہو یا ایسا مریض جسے صحت یابی کی امید نہ ہو، وہ اپنے روزوں کا فدیہ دے سکتا ہے۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہے، لیکن اگر اس نے خود یہ فدیہ نہیں دیا اور وہ وفات پا گیا ہے اور مرنے سے پہلے اس نے فدیہ دینے کی کوئی وصیت بھی نہیں کی تو پھر آپ اس کی طرف سے یہ فدیہ ادا نہیں کر سکتے۔بس ان کے لیے آپ خدا سے معافی کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔

 

شوہر کے حقوق

سوال: قرآن مجید میں کس جگہ شوہر کے حقوق بیان ہوئے ہیں؟(سعید الرحمن)

جواب: مردوں کے حقوق سورۂ نساء ہی میں بیان ہوئے ہیں۔ارشاد باری ہے:

’’مرد عورتوں پر قوام ہیں ، اِس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ، اور اِس لیے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ پھر جو نیک عورتیں ہیں ، وہ فرماں بردار ہوتی ہیں ، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں ، اِس بنا پر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے ۔ اور جن سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو ، اُنھیں نصیحت کرو، اور اُن کے بستروں میں اُنھیں تنہا چھوڑ دو اور (اِس پر بھی نہ مانیں تو) اُنھیں سزا دو۔ پھر اگر وہ اطاعت کریں تو اُن پر الزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک ، اللہ بہت بلند ہے ، وہ بہت بڑا ہے ۔ ‘‘( ۴ : ۳۴)

غامدی صاحب اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون معاشرت‘‘میں اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ:

’’میاں اور بیوی کے تعلق میں شوہر کو قوام قرار دینے کے بعد خاندان کے نظم کو صلاح و فلاح کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے عورتوں سے جس چیز کا تقاضا کیا گیا ہے ، وہ یہ ہے:
۱۔ اُنھیں اپنے شوہر کے ساتھ موافقت اور فرماں برداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
۲۔ شوہر کے رازوں اور اُ س کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
پہلی بات تو محتاج وضاحت نہیں ، اِس لیے کہ نظم خواہ ریاست کا ہو یا کسی ادارے کا ،اطاعت اور موافقت کے بغیر ایک دن کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا ۔ یہ نظم کی فطرت ہے ۔ اِسے نہ مانا جائے تو وہ نظم نہیں ،بلکہ اختلال و انتشار ہو گا جس کے ساتھ کوئی ادارہ بھی وجود میں نہیں آتا۔ رہی دوسری بات تو اس کے لیے قرآن نے ’حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔
... قرآن نے فرمایا ہے کہ صالح بیویوں کا رویہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے ۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو عورتیں سرکشی اور تمرد اختیار کریں یا گھر کے راز دوسروں پر افشا کرتی پھریں، وہ خدا کی نگاہ میں ہرگز صالحات نہیں ہیں ۔ لیکن کوئی عورت اگر اِس طرح کی سرکشی پر اتر ہی آئے تو مرد کیا اُس کی تادیب کر سکتا ہے ؟ قرآن نے اِس کا جواب اثبات میں دیا ہے ۔ آیۂ زیر بحث میں اِس سرکشی کے لیے ’نشوز‘ کا لفظ آیا ہے ۔ اِس کے معنی سر اٹھانے کے ہیں ، مگر اِس کا زیادہ استعمال اُس سرکشی اور شوریدہ سری کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت کی طرف سے اُس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو۔ یہ لفظ عورت کی ہر کوتاہی ، غفلت یا بے پروائی یا اپنے ذوق اور راے اور اپنی شخصیت کے اظہار کی فطری خواہش کے لیے نہیں بولا جاتا ، بلکہ اُس رویے کے لیے بولا جاتا ہے ، جب وہ شوہر کی قوامیت کو چیلنج کر کے گھر کے نظام کو بالکل تلپٹ کر دینے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: معاملہ یہاں تک پہنچ رہا ہو تو مرد اپنا گھر بچانے کے لیے تین صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔
پہلی یہ کہ عورت کو نصیحت کی جائے ۔ آیت میں اِس کے لیے ’وعظ‘ کا لفظ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی حد تک زجرو توبیخ بھی ہو سکتی ہے ۔
دوسری یہ کہ اُس سے بے تکلفانہ قسم کا خلاملا ترک کرد یا جائے تاکہ اُسے اندازہ ہو کہ اُس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اِس کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔
تیسری یہ کہ عورت کو جسمانی سزا دی جائے ۔ یہ سزا، ظاہر ہے کہ اتنی ہی ہو سکتی ہے جتنی کوئی معلم اپنے زیرتربیت شاگردوں کو یا کوئی باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی حد ’غیرمبرح‘ کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کوئی پائدار اثر چھوڑے ۔ ‘‘‘‘(میزان۴۲۲۔۴۲۳)


جنسی اختلاط سے بے زاری

سوال: اسلام شوہر کو اس بیوی کے حوالے سے کیا تجویز دیتا ہے جو اس کے ساتھ جنسی اختلاط کے اعتبار سے خواہ مخواہ سرد ہو جائے اور اس عمل سے نفرت کرنے لگ جائے؟(سعید الرحمن)

جواب: اگر میاں بیوی کے درمیان یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو اس کی وجہ معلوم کرنی چاہیے، کیونکہ ایسا ہونا ، یعنی جنس سے بے رغبتی فطری چیز نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی کچھ وجوہات ہوں گی۔ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ میاں بیوی کی آپس کی بعض چھوٹی چھوٹی رنجشیں ہوں جو ایک لمبے عرصے سے چل رہی ہوں اور ان کی بنا پر عورت کے ہاں جذبات بالکل سرد پڑ گئے ہوں۔ یہ عمر کا تقاضا بھی ہو سکتا ہے اور اس کی وجہ کسی بیماری کا پیدا ہو جانا بھی ہوسکتاہے۔ بہرحال وجوہات کی نوعیت طے کرکے انھیں دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو جنس کے معاملے میں اپنی بیوی تک محدود رہنے کا حکم دیا ہے، اس لیے عورت کو یہ چاہیے کہ وہ اس معاملے میں مرد کے نارمل مطالبے کو پوری اہمیت دے اور اس کے ساتھ تعاون کی ہر ممکن کوشش کرے۔ اگر اس کے پاس کوئی عذر نہ ہواور وہ جان بوجھ کر اس سے گریز کرے تو وہ عنداللہ قصوروار ہو گی۔

 

واقعۂ غدیرخم اور ولایت علی

سوال: غدیر خم کی روایت کی کیا حیثیت ہے اور اس کی بنا پر شیعہ حضرات اپنا جو موقف بیان کرتے اس کی کیا حقیقت ہے؟(جہاں زیب شیروانی)

جواب: اس روایت کی اکثر اسناد ضعیف ہیں اور بعض حسن ہیں مثلاً ترمذی،رقم ۳۶۴۶، لیکن یہ بھی غریب روایت ہے۔ اس حدیث میں اصل بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ ’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیُّ مَوْلَاہُ‘،ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس کا میں حلیف، یعنی دوست اور ساتھی ہوں، اس کا علی بھی حلیف ہے۔ ان الفاظ میں آپ نے حضرت علی کے بارے میں اپنے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ علی کو مجھ سے محبت ہے اور وہ تعلق کے معاملے میں مجھ سے الگ ہو کر نہیں چلیں گے۔

شیعہ حضرات ان الفاظ کو سیاسی مفہوم دیتے ہیں، حالانکہ ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ جن لوگوں کا آج میں امیر ہوں ، کل ان کا امیر علی ہو گا، کیونکہ ان الفاظ کے مطابق یہ ولایت دونوں میں بہ یک وقت موجود ہونی چاہیے، یعنی دونوں حضرات کو ایک ہی وقت میں یہ ولایت حاصل ہونی چاہیے۔چنانچہ ظاہر ہے کہ یہ ولایت کسی صورت میں بھی سیاسی نہیں ہو سکتی،کیونکہ نظم اجتماعی میں لازماً ایک وقت میں ایک ہی امیر ہوتا ہے۔

 

سید زادی کا غیر سید سے نکاح

سوال: سید خاندانوں میں خاص طور پر لڑکیوں کے رشتے غیر سیدوں میں نہیں کیے جاتے جس کے نتیجے میں گوناگوں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات قرین انصاف ہے اور کیا اسلام نے ایسا کوئی حکم دیا ہے؟(سائرہ عارف)

جواب:اسلام میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جاتی، بلکہ اسلام تو ذات پات ہی کے تصور کے خلاف ہے۔

کسی بھی مسلمان لڑکی کا رشتہ کسی بھی مسلمان لڑکے کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ ذات پات کے تصورات لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے ہیں جن کی دین میں کوئی حیثیت نہیں ، ان سے بسا اوقات بہت فتنے پیدا ہو جاتے ہیں۔ سادات خاندانوں میں باہر رشتہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو باقی مسلمانوں کی نسبت مقدس تصور کرتے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید نے صاف طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ اللہ کے نزدیک شرف و عزت کا معیار تقویٰ ہے۔ اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اصلاح کی جو کوششیں کی ہیں، ان کی ایک مثال یہ درج ذیل واقعہ ہے۔

عربوں کے ہاں آزاد اور غلام میں زمین آسمان کا فرق سمجھا جاتا تھا۔ اگر کوئی غلام آزاد کر بھی دیا جاتا، تب بھی اس کا درجہ معاشرے میں آزاد آدمی کی بہ نسبت بہت کم رہتا تھا۔ معزز گھرانے کی کوئی آزاد خاتون اس کے ساتھ نکاح کرنے کا تصور تک نہ کر سکتی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات واضح کر نے کے لیے کہ اسلام کی پسندیدہ معاشرت میں، انسانی اور معاشرتی سطح پر ، آزاد اور غلام کے مابین کوئی فرق نہیں ہے، اپنے خاندان کی ایک آزاد خاتون زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کرنا چاہا۔ زینب ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔ ان کی پرورش عرب کے معزز ترین گھرانے میں ہوئی تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کے لیے ، حضرت زینب کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تو ان کے رشتہ داروں نے اسے منظور نہیں کیا اور خود حضرت زینب نے بھی اس رشتے کو اپنے لیے پسند نہیں کیا۔ ان کے اپنے الفاظ جو روایات میں آتے ہیں، وہ یہ ہیں: ’’میں نسب کے اعتبار سے زید سے برتر ہوں، میں قریش کی شریف زادی ہوں۔‘‘ لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر اصرار ہے کہ یہ نکاح ہو تو انھوں نے اور ان کے خاندان والوں نے فوراً سر تسلیم خم کر دیا۔ چنانچہ ہمیں بھی اس حوالے سے اصلاح کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ البتہ، ایک بات ذہن میں رہے کہ کسی جگہ رشتہ طے کرتے ہوئے اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ لڑکا اور لڑکی اپنے کلچر، رسوم و رواج اور خاندانی عادات و اطوار کے اعتبار سے ایسے مختلف نہ ہوں کہ ان کے مابین نباہ ہی نہ ہوسکے۔اس لییسید خاندان کے لوگ اپنی بیٹی کا رشتہ خواہ سید خاندان میں کریں یا غیر سید خاندان میں وہ رشتہ کرتے وقت یہ خیال ضرور رکھیں کہ اس سید خاندان یا غیر سید خاندان کا کلچر، رسوم و رواج اور خاندانی عادات و اطوار ایسے مختلف نہ ہوں کہ دونوں کے مابین نباہ ہی نہ ہوسکے۔

 ________________

B