حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے۔ عام فیل کے چھ برس بعد۵۷۶ء میں مکہ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام عفان،دادا کا ابو العاص ، اورپڑدادا کا امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف تھا۔پانچویں پشت عبدمناف پر ان کا نسب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جا ملتا ہے۔آپ کا شجرۂ مبارکہ یہ ہے،محمد بن عبد اﷲ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف ۔حضرت عثمان کی والدہ اروی بنت کریز کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی، نانی ام حکم بیضا بنت عبدالمطلب آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں۔ زمانۂ جاہلیت کی جنگوں میں قریش کا قومی علم ’عقاب‘ ان کے خاندان بنو امیہ کے پاس رہتا تھا۔
حضرت عثمان رضی اﷲعنہ نے زمانۂ جاہلیت ہی میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ بڑے سلیم الفطرت تھے ،جاہلیت کی کسی برائی سے دامن آلودہ نہ ہوا۔ جوان ہونے پر قریش کے دوسرے معززین کی طرح تجارت کو اپنا پیشہ بنایاپھرعمر بھر سوتی کپڑے کا کاروبار کرتے رہے ۔ شرافت ، امانت اور راست باز ی کی وجہ سے ان کا کاروبار خوب چمکا۔ایک ممتاز اور دولت مند تاجر ہونے کی وجہ سے ’غنی‘کے لقب سے مشہور ہو گئے۔عثمان ۳۴ برس کے تھے کہ اﷲ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کی بعثت ہوئی۔ابوبکررضی اﷲ عنہ پہلے مرد مومن تھے۔ انھوں نے اپنے تمام قریبی ساتھیوں کو دین حق قبول کرنے کی دعوت دی۔ حضرت عثمان انھی کی دعوت پرمسلمان ہوئے۔ انھوں نے عثمان سے کہا:تم سمجھ دار اوردور اندیش آدمی ہو ،سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکتے ہو ۔کیا یہ بت جنھیں ہماری قوم پوجتی ہے بے جان پتھر نہیں جو سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں۔انھوں نے کہا ،ہاں ایسی ہی بات ہے۔تب ابوبکر نے کہا ،تمہاری خالہ سعدیہ بنت کریزسچ کہتی ہے ، محمد بن عبداﷲ، اﷲ کے رسول ہیں،کیا اچھا نہیں کہ تم ان کے پاس چلو؟چنانچہ عثمان اورطلحہ بن عبیداﷲ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انھیں قرآن سنایااور اسلامی حقوق و فرائض سے متعارف کیاتویہ فوراًایمان لے آئے ۔عثمان فرماتے ہیں ،میں اسلام لانے والا چوتھا شخص تھا۔ان کے چچا حکم بن ابوالعاص نے انھیں رسیوں سے باندھ دیا اور کہا ،جب تک تم یہ نیا دین ترک نہ کرو گے ،میں تمہیں ہر گز نہ چھوڑوں گا۔عثمان نے ثابت قدمی دکھائی تو حکم کو چھوڑنا پڑا۔
جلد ہی نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی رقیہ کی شادی ان سے کر دی۔حضرت عثمان نے اسلام لانے کے بعد بھی تجارت جاری رکھی۔جب اہل مکہ نے مکہ میں مسلمانوں کی زندگی تنگ کردی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ ان کی ایذاؤں سے بچنے کے لیے حبشہ کو ہجرت کر جائیں۔ بعثت کے پانچویں سال ۱۱ مسلمانوں کاپہلا قافلہ حبشہ روانہ ہوا، عثمان اوران کی اہلیہ رقیہ اس میں شامل تھے۔ شاید بنوامیہ کا اپنے قبیلے کے مسلمانوں سے برتاؤ زیادہ سخت تھا یا دختر رسو ل کی سلامتی کا خیال غالب تھا کہ عثمان جلد ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔رسول اﷲ صلی علیہ وسلم نے فرمایا ،عثمان اور رقیہ ،لوط علیہ السلام کے بعد اﷲ کی طرف ہجرت کرنے والے پہلے اشخاص ہیں۔ قیام حبشہ کے دوران ہی میں ان کے صاحب زادے عبد اﷲ پیدا ہوئے ۔
اپنی دوسری ہجرت ،ہجرت مدینہ کے بعدسیدنا عثمان حضرت حسان بن ثابت کے بھائی اوس کے گھر قیام پذیر ہوئے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان دونوں کے بیچ مواخات قائم فرمائی۔اس وجہ سے دونوں گھرانوں میں گہری محبت ویگانگت پیدا ہو گئی۔ پھر جب آپ نے مہاجرین کو اس نئے شہرمیں گھر بنانے کے لیے زمین کے قطعات دیے تو اپنے گھر کے بالمقابل عثمان کا گھر تجویز کیا ۔دونوں گھروں کے دروازے آمنے سامنے کھلتے تھے۔آپ کے چند دوسرے صحابہ کے ساتھ عثمان رضی اﷲ عنہ کو بھی کاتب وحی مقرر فرمایا۔ اس کے علاوہ، وہ آپ کے معتمد (سیکرٹری) کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ جنگ بدر سے پہلے انھوں نے کسی غزوہ میں شرکت نہ کی تھی،بدرکا موقع آیاتو ان کی اہلیہ بیمار پڑ گئیں۔ لشکر کی روانگی کے وقت مرض کی شدت بڑھ گئی تو آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں عیادت کے لیے رکنے کا حکم دیا۔رقیہ جانبر نہ ہو سکیں،انھوں نے۲ھ میں اسی روز وفات پائی جس دن زید بن حارثہ فتح کی خوش خبری لے کر مدینہ پہنچے ۔آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے عثمان کو غزوۂ بدر میں شریک تصور فرمایا اورانھیں مال غنیمت کا پورا حصہ عطا کیا۔وہ اپنی اہلیہ کی وفات سے بہت رنجیدہ تھے۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم جانتے تھے کہ انھوں نے مرحومہ کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا،اس لیے آپ نے اپنی دوسری صاحب زادی ام کلثوم بھی ان کے نکاح میں دے دیں ۔اﷲ کی مرضی کہ ام کلثوم بھی جلد وفات پاگئیں ،عثمان اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ سلم دونوں بہت غم زدہ تھے ۔اپنے داماد کو تسلی دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’اگر ہماری تیسری بیٹی ہوتی تو ہم اسے بھی تمہاری زوجیت میں دے دیتے۔‘‘
ختم المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو دختران سے عقد کا شرف حاصل ہونے کی وجہ سے عثمان کو ذوالنورین کا لقب ملا۔حضرت علی فرماتے ہیں ، انھیں ملاء اعلی میں بھی ذو النورین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔زمانۂ جاہلیت میں وہ ابو عمر وکی کنیت سے مشہور تھے ،جب رقیہ بنت رسول اﷲ سے عبداﷲ پیدا ہوئے تو ابو عبداﷲ کنیت کرنے لگے ، ۴ھ میں جب عبداﷲ کی عمر ۶ سال تھی،ان کی آنکھوں پر مرغ نے ٹھونگا مارا۔وہ ایسے بیمار ہوئے کہ چل بسے ۔ان کی وفات کے بعد بھی یہی کنیت برقرار رہی۔ گمان غالب ہے کہ سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم کے ہوتے ہوئے کوئی اور عورت عثمان کی زوجہ نہ بنی۔تاہم زمانہْ جاہلیت میں اور دختران رسو ل کی وفات کے بعدجو خواتین حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں ،ان کے نام یہ ہیں:فاختہ بنت غزوان جن سے عبداﷲ (اصغر) نے جنم لیا۔ام عمرو بنت جندب جن سے عمرو،خالد،ابان ،عمراور مریم پیدا ہوئے۔فاطمہ بنت ولید ،ان سے ولید ،سعید اور ام سعید کی ولادت ہوئی۔ ام بنین بنت عیینہ جنھوں نے عبد المالک کو جنم دیا۔رملہ بنت شیبہ سے عائشہ ،ام ابان اور ام عمرو پیدا ہوئے۔ نائلہ بنت فرافصہ جن سے مریم کی ولادت ہوئی۔ یہی نائلہ حضرت عثمان کے آخری وقت ان کے پاس تھیں۔ ان ۱۵ بچوں کے علاوہ ام بنین بھی حضرت عثمان کی دختر تھیں جو ایک ام ولد سے متولد ہوئیں۔
اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت عثمان کا مال اسلام کے لیے وقف ہو گیا اور ان کی سخاوت مسلمانوں کے کام آنے لگی۔وہ رفاہی کاموں میں پیش پیش تھے اور غزوات کے موقع پر دل کھول کر خرچ کرتے۔ مدینۂ منورہ میں پینے کے پانی کی قلت ہوئی توایک یہودی اپنے کنویں’بئر رومہ‘ کا میٹھا پانی منہ مانگے داموں فروخت کرنے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی، ’’کون ’ بئررومہ‘ خرید کراس کا ڈول مسلمانوں کے ڈول میں شامل کرے گا کہ اس بدلے میں اسے جنت میں اس سے بہترمل جائے؟‘‘(ترمذی:۲۷۰۳)عثمان یہودی کے پاس گئے ، وہ پورا کنواں بیچنے پر آمادہ نہ ہوتو انھوں نے ۱۲ ہزار درہم کے بدلے میں نصف کنواں خرید لیا۔ایک دن یہودی اسے استعمال کرتا ، دوسرے دن وہ عثمان کے توسط سے مسلمانوں کے تصرف میں ہوتا۔ اپنی باری پر مسلمان دو دن کا پانی ایک بار ہی نکال لیتے ۔اس سے یہودی تنگ آ گیا اور۸ ہزار درہم لے کر باقی نصف بھی دے دیا۔اب یہ کلی طور پرعامۃ المسلمین کے لیے وقف تھا۔ بعد میں انھوں نے اور بھی کئی کنویں کھدواکر مسلمانوں کے لیے وقف کیے، مثلاً بئر سائب، بئر عامر اور بئر اریس ۔بئراریس وہی کنواں ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی جو یکے بعد دیگر ابوبکر،عمر کے ہاتھوں کی زینت بنی، عثمان کے ہاتھ سے گر پڑی تھی۔ کنویں کا سارا پانی نکال دیا گیا، لیکن انگوٹھی نہیں ملی۔ عہد نبوی میں نمازیوں کی کثرت کے باعث جب مسجد نبوی کی توسیع کی ضرورت پیش آئی توآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:کون فلاں قطعۂ زمین خریدکر اسے مسجد میں شامل کرے گا کہ بدلے میں اسے جنت میں اس سے بہتر گھر دے دیاجائے؟‘‘(ترمذی:۲۷۰۳) حضرت عثمان نے زمین کا وہ ٹکڑا خرید کر مسجد کے لیے وقف کر دیا۔
جنگ بدر کے ایک سال بعد غزوۂ احد کا موقع آیا تو حضرت عثمان مسلمانوں کے برابر شریک ہوئے۔صبح مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی پھر پاسا مشرکین کے حق میں پلٹ گیا ۔اسی اثنا میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔اس خبر نے مسلمانوں کے حوصلے پست کر دیے،ان میں سے کئی میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔عثما ن بھی ان میں شامل تھے۔کچھ ہی دیر میں جب معلوم ہو گیا کہ یہ اطلاع جھوٹی تھی تو ان میں سے اکثر پلٹ آئے اور اپنے نبی کا دفاع کیا۔ عثمان نہ لوٹے تھے،جب وہ خلیفہ بنے تو کسی نے انھیں اس بات پر عار دلائی۔انھوں نے جواب دیا،تم مجھے کیسے برا بھلا کہہ سکتے ہو جب کہ اﷲ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔:اَِنّ الَِّذْینَ تَوَلَّوْمِنْکمْ يوْمَ اآْتَقَی اآْجَآْعاِن،ِ اّنمَا اسْتَزَلّہْٓمْ الشّيطانِْ بَبآْضِ مَا کَسَبْوْٓا وَلَقَدْٓ عَفَا اﷲْ عَنْہْٓمْٓ،ِ انَّ اﷲَ غَفْوْٓر حَِلْٓيم۔ تم میں سے جو دو لشکروں کے بھڑنے کے دن پیٹھ پھیر گئے ، انھیں شیطان نے ان کے بعض اعمال کی وجہ سے پھسلا دیا ۔اﷲ نے انھیں معاف کر دیاہے، بے شک اﷲ بخشنے والا اور بردبار ہے۔(سورۂ آل عمران:۱۵۵)
عثمان رضی اﷲ عنہ خندق اورخیبرکی جنگوں میں شامل ہوئے،وہ فتح مکہ میں شامل رہے اور حنین ،طائف اور تبوک کے غزوات میں بھی حصہ لیا ،تاہم وہ حمزہ،علی، زبیر،سعداور خالد کی طرح اگلی صفوں میں لڑنے والے مرد میدان نہ تھے۔ فوج کی درمیانی صفوں میں شامل رہتے،جنگ میں آگے آگے نہ ہوتے تو پیچھے بھی نہ رہتے۔اصلاً جنگ جو نہ تھے، لیکن ہرجہاد میں شامل ہوتے رہے ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب غزوۂ ذات الرقاع اورغزوۂ بنی غطفان میں تشریف لے گئے تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو مدینہ کاقائم مقام امیر مقرر فرمایا۔ ذی قعد ۶ھ میں رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم ۱۴۰۰صحابہ کے جلو میں عمرہ کرنے کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔جب آ پ حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو معلوم ہواقریش مسلمانوں کو روکنے کے لیے آمادہ بہ جنگ ہیں۔آپ جنگ کے مقصد سے نہیں ،بلکہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے تشریف لائے تھے ۔ یہ بات واضح کرنے کے لیے آپ نے حضرت عمر کو سفیر بنا کر مکہ بھیجنا چاہا۔انھوں نے کہا :قریش میرے جانی دشمن ہیں ،میری بات ہر گز نہ سنیں گے ۔اس کام کے لیے عثمان زیادہ موزوں ہیں کیونکہ ان کی یہاں زیادہ عزت کی جاتی ہے۔عثمان مکہ پہنچے تو عثمان بن سعیدنے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا ۔انھوں نے بہت کوشش کی کہ قریش مسلمانوں کے طواف و عمرہ میں حائل نہ ہوں ۔اس کام میں انھیں دیر لگ گئی ،اسی اثنا میں افواہ پھیل گئی کہ قریش نے ان کو شہید کر دیا ہے۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت فکر مند ہوئے اور فرمایا :جب تک ہم ان لوگوں سے جنگ نہ کر لیں،یہیں رہیں گے۔یہ کہہ کرآپ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور حضرت عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لیے صحابہ سے جان لڑا دینے کی بیعت لی ۔فرمان خداوندی: لَقَدْٓ رَضِیَ اﷲْ عَنِ الْآْومِنےِْٓنَ اِآْ ےْباَےِعْوْٓنَکَ تَحْٓتَ الشَّجَرَۃِ۔ ’’ اﷲ مومنوں سے راضی ہو گیا، جب وہ درخت کے نیچے تمہاری بیعت کر رہے تھے ‘‘(سورۂ فتح :۱۸) کی رعایت سے یہ بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔اس موقع پر رسول اﷲ صلی علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا اور فرمایا: ہذہ لعثمان، یہ عثمان کا ہاتھ ہے ۔پھر آپ نے اس طرح بیعت لی گویا عثمان خودموجود ہیں ،کچھ ہی دیر بعد عثمان پلٹ آئے تو قریش سے بات چیت کے بعدصلح حدیبیہ کا مشہور معاہدہ طے پایا۔
غزوۂ تبوک کا موقع آیا تو سخت قحط سالی تھی ۔اسلامی لشکربے سر وسامان تھا،اسی لیے اسے ’’جیش عسرت ‘‘ کا نام دیا گیا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعوت عام دی،جو جیش عسرت کے لیے سامان مہیا کرے گا ،اسے بدلے میں جنت ملے گی ۔(بخاری :فضائل اصحاب النبی)اس موقع پر حضرت عثمان نے سامان حرب سے لدے ہوئے ۹۵۰ اونٹ اور۵۰ گھوڑے خدمت نبوی میں پیش کیے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس فیاضی سے اس قدر خوش ہوئے کہ دیناروں کو دست مبارک پر اچھالتے جاتے اور فرماتے: ما ضر عثمان ما عمل بعد ہذا الیوم ، آج کے بعد عثمان کچھ بھی کریں، کوئی عمل انھیں نقصان نہ پہنچائے گا (ترمذی)
حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ میانہ قد ،خوب رو اورگندم گوں تھے۔ سر کے بال جھڑ چکے تھے جب کہ ڈاڑھی لمبی اور گھنی تھی ، جلد نرم ونازک تھی تاہم چہرے پر چیچک کے کچھ نشان تھے،شانے چوڑے تھے،صاحب ثروت تھے،اس لیے اچھا اور قیمتی لباس زیب تن کرتے، ڈاڑھی سفیدتھی،بالوں پر مہندی بھی لگا لیتے۔انھیں سلسل البول (پیشاب کے قطرے آنا)کی بیماری تھی، اس لیے ہر نماز کے لیے وضو کرتے۔بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے۔موسیٰ بن طلحہ بیان کرتے ہیں:میں نے عثمان رضی اﷲ عنہ کو دیکھا ،وہ زرد لباس پہن کر جمعہ کی نماز پڑھانے آئے،منبر پر بیٹھے تو مؤذن نے اذان شروع کی ،اس دوران میں وہ لوگوں سے گفتگو کرتے رہے ۔ان کی خیریت دریافت کی اوراشیا کا بھاؤ پتا کرتے رہے۔پھر عصا پکڑ کر خطبہ دیا، بیٹھے تو پھر گفتگو شروع کر دی۔
عثمان بہت حیا دار تھے۔ حیا کی وجہ سے ان کی جوانی بے داغ رہی اور وہ مفاخرت سے دور رہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:عثمان میری امت میں سب سے بڑھ کر اور سچی حیا رکھنے والے ہیں۔(مسنداحمد:۱۳۹۹۰)ان کی حیاکی وجہ سے لوگ بھی ان سے حیا کرتے۔ایک بار نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سیدہ عائشہؓ کی چادر اوڑھے اپنے بستر پرآرام فرما رہے تھے۔شاید چادر چھوٹی تھی کہ آپ کی ران کا کچھ حصہ ڈھکنے سے رہ گیا۔کسی کام سے حضرت ابو بکر آئے ،آپ اسی حالت میں ان سے ملے۔حضرت عمر نے آکر اجازت مانگی تو آپ اسی طرح استراحت فرماتے رہے ۔اتفاق سے کچھ دیر بعد حضرت عثمان بھی تشریف لے آئے۔ آپ نے اپنے کپڑے درست فرمائے،بدن اچھی طرح ڈھانکا اور پھر ان سے ملاقات فرمائی۔ان کے جانے کے بعد حضرت عائشہ نے دریافت کیا،یا رسول اﷲ!کیا وجہ ہے کہ ابوبکر و عمر آئے تو آپ ان سے ویسے ہی مل لیے جب کہ عثمان کے آنے پر اپنے کپڑوں اور اپنی ہےئت کا خاص طور پر دھیان کیا۔ آپ نے جواب ارشاد کیا، عثمان شرمیلے ہیں۔مجھے اندیشہ ہوا ،اگر اسی حالت میں انھیں آنے دیا تو وہ اپنی بات بھی نہ کر پائیں گے۔کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرماتے ہیں۔عثمان تہجد کے لیے اٹھتے تو غلام کو نہ اٹھاتے۔ انھیں کہا گیا ،کسی کومدد کے لیے جگا لیاکریں تو جواب دیا ،رات ان کے آرام کے لیے ہوتی ہے۔
اپنے شرمیلے پن کی وجہ سے عثمان لمبی گفتگو نہ کرتے تھے۔وہ بحث و جدل سے بھی دور رہتے ۔البتہ کوئی فیصلہ کر لیتے تو اس پر ڈٹے رہتے اورانھیں اس سے ہٹانا مشکل ہوتا۔انتہائی مال دار ہونے کے باوجود ان کا نرم خو ،رحم دل اور سخی ہونااسی فطری حیا کا نتیجہ تھا۔وہ اپنے کنبے اور قبیلے کی ضرورتوں کا خیال رکھتے تھے ، اس لیے عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔ وہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں لوگوں کو کھلے دل سے قرض دیتے رہے۔مضاربت کے لیے رقوم بھی فراہم کر دیتے۔
حضرت عثمان اپنے رشتہ داروں سے بے حد شفقت کرتے۔ یہ ان کے مزاج کا حصہ تھی۔فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قریش کے لیے عام معافی کا اعلان فرمایا،البتہ چند افراد کا نام لے کر کہا،یہ عام معافی میں شامل نہیں ۔چاہے وہ کعبہ کے پردوں میں چھپے ہوں ، انھیں قتل کر دیا جائے۔ان میں سے ایک حضرت عثمان کا رضاعی بھائی عبداﷲ بن سعد (ابن ابی سرح)تھا جو اپنے دادا ابو سرح کی نسبت سے زیادہ جانا جاتا ہے ۔یہ مسلمان تھا تو وحی کی کتابت کرتا تھا ،پھر مرتد ہو کر مکہ واپس چلا گیا اور مشہور کر دیا کہ وہ وحی میں آمیزش کیا کرتا تھا۔ مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو یہ عثمان کے پاس چلا گیا۔انھوں نے اسے پناہ دی ۔ جب شہر میں امن قائم ہو گیاتو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور اس کے لیے امان طلب کی۔آپ نے طویل خاموشی فرمائی ،پھر امان دے دی۔عثمان کے جانے کے بعد آپ نے اپنے پاس موجود صحابہ سے فرمایا:میں نے اتنی لمبی خاموشی اس لیے اختیار کی کہ تم میں سے کوئی آگے بڑھ کر اس کی گردن اڑا دے۔ دل میں ابن ابی سرح کے بارے میں یہ خواہش ہوتے ہوئے آپ نے حضرت عثمان سے حیا کی او راس دشمن دین کو معاف فرما دیا۔
حضرت عثما ن اصحاب عشرۂ مبشرہ میں شامل تھے۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:عثمان!اﷲ نے تمہارے اگلے پچھلے ،ظاہرپوشیدہ اور قیامت تک ہونے والے سب گناہ بخش دیے ہیں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انھیں جنت کی بشارت دی اور شہادت کی موت کی پیش گوئی فرمائی۔آپ کا ارشاد ہے:’’ہر نبی کا (جنت میں) ایک ساتھی ہو گا اور میرے رفیق جنت عثمان ہوں گے۔‘‘(ترمذی:۳۶۹۸)
سیدنا عثما ن خلیفۂ اول ابوبکر کی مجلس شوریٰ کے ممتاز رکن ہونے کی حیثیت سے انھیں اپنے مشوروں سے مستفید کرتے رہے ۔عہد صدیقی میں چند دوسرے صحابہ کے ساتھ افتا ان کی بھی ذمہ داری رہی،کاتب کے فرائض بھی انجام د یے ۔شام کے بعد ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے عراق پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو عمر نے ان کی بھرپور تائید کی۔عبدالرحمان بن عوف نے احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا۔عثمان نے کہا،آپ اس دین کی نصرت کرنے والے اور مسلمانوں پر شفقت کرنے والے ہیں۔جو راے آپ کو درست لگے ،اس پر عمل کر گزریے ،کوئی انگلی نہ اٹھا سکے گا۔انھوں نے خلیفۂ ثانی کے انتخاب کے وقت ابو بکر کی راے کو درست قرار دیا اور کہا ،عمر کا باطن ان کے ظاہر سے اچھا ہے۔
خلافت فاروقی میں بھی عثمان رضی اﷲ عنہ اپنی تجارت جاری رکھنے کے ساتھ مجلس شوریٰ میں ذمہ داریاں نبھاتے رہے ۔عام طور پر ان دونوں اجل صحابیوں میں اتفاق ہوتا، تاہم دو واقعے ایسے تھے جن میں حضرت عثمان کی راے حضرت عمر سے مختلف تھی۔ جب بیت المقدس کے محصورین نے اصرار کیا کہ امیر المومنین خود آ کر ان سے معاہدۂ صلح کریں تو یہ مسئلہ مجلس شوریٰ میں پیش ہوا ۔حضرت عثمان کا مشورہ تھا ،ان کا مطالبہ نہ ماننا بہتر ہے کیونکہ اس سے اہل بیت المقدس پرمسلمانوں کی دھاک بیٹھ جائے گی۔حضرت علی نے کہا،اہل ایمان لڑائی کو طوالت دینے سے عاجز آ جائیں گے۔عمر نے انھی کی راے اختیار کی۔ جب مصر پر یورش کرنے کا مسئلہ پیش ہوا تو حضرت عثمان نے ڈٹ کر مخالفت کی ۔ ان کا خیال تھا ،عمرو بن عاص جنگ میں جلد کود پڑتے ہیں اورانھیں امارت کا شوق بھی ہے ۔اس وجہ سے مسلمان ہلاکت میں پڑ جائیں گے ۔عمر ان کی راے سے متفق نہ تھے ، ا س لیے انھوں نے عمرو کو مصر میں پیش قدمی کرنے کا پورا موقع دیا۔
مطالعۂ مزید:الطبقات الکبری(ابن سعد)، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ(ابن اثیر)، الاصابہ فی تمییز الصحابہ(ابن حجر )، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(یوسف مزی)، عن()،عثمان بن عفان(محمد حسین ہیکل)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(مقالہ:امین اﷲ وثیر)
[باقی]
___________________