HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

زنا کی سزا (۷)

[یہ مصنف کی زیر طبع کتاب ’’حدود و تعزیرات چند اہم مباحث‘‘ کا ایک جز ہے۔ قارئین ’’اشراق‘‘ کے افادے کے لیے اس کتاب کے جملہ مباحث کو بالا قساط شائع کیا جا رہا ہے .]


ایک احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے تو زنا کی سزا سو کوڑے ہی مقرر کی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فیصلہ فرمایا کہ اس پر جلا وطنی اور سنگ ساری کی سزا کا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت امت پر مطلقاً فرض کی گئی ہے، اس لیے آپ نے قرآن کے علاوہ اپنے اجتہاد کی بنیاد پر جو حکم دیا، امت کے لیے اسے بھی ایک شرعی حکم کی حیثیت سے تسلیم کرنا لازم ہے، تاہم یہ مفروضہ بھی اصل الجھن کو حل کرنے میں کسی طور پر مددگار نہیں، اس لیے کہ اصل سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو ماننے یا نہ ماننے یا آپ کی اطاعت کے دائرے کو مطلق یا مقید قرار دینے کا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اجتہاد تھا تو کیا آپ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم دیا گیا ہو، اس میں اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے نفس حکم میں کوئی ترمیم یا اضافہ کر لیں اور کیا آپ کے اجتہادات میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ ان سزاؤں کے اضافے کو آپ کے اجتہاد پر مبنی ماننے سے دوسرا اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرعی سزاؤں کے معاملے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رجحان یہ تھا کہ مجرم کو سزا سے بچنے کا موقع دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے زنا کے اعتراف کے ساتھ پیش ہونے والے مجرموں کو اپنے رویے سے واپس پلٹ جانے اور توبہ واصلاح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور عمومی طور پر بھی مسلمانوں کو یہی ہدایت کی کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حتی الامکان سزا سے بچنے کا راستہ تلاش کریں۔ اس تناظر میں یہ بات ایک تضاد دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف آپ مجرموں سے سزا کے نفاذ کو ٹالنے کا رجحان ظاہر کر رہے ہوں اور دوسری طرف انھی مجرموں کے لیے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو ناکافی سمجھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے ان پر مزید اور زیادہ سنگین سزاؤں کا اضافہ فرما رہے ہوں۔ ان وجوہ سے جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد پر مبنی قرار دینے کی بات کسی طرح قرین قیاس دکھائی نہیں دیتی۔

ایک مزید احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے صرف نفس زنا کی سزا بیان کی ہے، جبکہ سزا کے نفاذ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر اس میں مجرم کے حالات یا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے شناعت کا کوئی مزید پہلو شامل ہو جائے تو اس کی رعایت سے کوئی اضافی سزا بھی اصل سزا کے ساتھ شامل کی جا سکتی ہے۔ چونکہ شادی شدہ زانی جائز طریقے سے جنسی تسکین کی سہولت موجود ہوتے ہوئے ۲۷؂ ایک ناجائز راستہ اختیار کرتا اور اپنے رفیق حیات کے ساتھ بھی بے وفائی اور عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے زانی کے لیے اضافی سزا مقرر کرنے سے قرآن مجید کے حکم پر کوئی زد نہیں پڑتی، تاہم یہ توجیہ اصل مقصود کے اثبات کے لیے ناکافی ہے، کیونکہ یہاں مطلوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سزاؤں کے ’حد‘ ،یعنی سزا کا لازمی حصہ ہونے کا اثبات ہے، جبکہ قرآن نے ہر قسم کے زانی کے لیے زنا کی سزا صرف سو کوڑے بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزدیک اصل سزا یہی ہے۔ اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اضافی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی زائد سزا بیان کی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ’حد‘ نہیں، بلکہ ایک تعزیری سزا ہی ہو سکتی ہے، کیونکہ اسے اصل سزاکا لازمی حصہ تصور کرتے ہوئے قرآن کی بیان کردہ سزا کے ساتھ مساوی طور پر لازم مانا جائے تو یہ بات قرآن کے صریح بیان کو ناکافی قرار دینے کے مترادف ہے اور اس سے آیت اور روایت کے باہمی تعلق کی کوئی معقول توجیہ بے حد مشکل ہو جاتی ہے۔

۳۔ فقہاے احناف نے رجم کی سزا کے حوالے سے قرآن مجید اور روایت کے باہمی تعارض کونسخ کے اصول پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں دو زاویہ ہاے نگاہ پائے جاتے ہیں: ایک راے کے مطابق رجم کا حکم سورۂ نور کی آیت کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں ہی کی سزا مشروع کی گئی تھی، لیکن بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی۔۲۸؂ دوسری راے کی رو سے شادی شدہ اور کنوارے زانی کی سزا میں فرق سورۂ نور کی مذکورہ آیت سے پہلے ہی قائم کیا جا چکا تھا اور کنوارے زانی کو سو کوڑوں کے ساتھ جلا وطن کرنے، جبکہ شادی شدہ زانی کو کوڑے مارنے کے ساتھ رجم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سورۂ نور کی آیت نازل ہوئی اور کنوارے زانی کو جلا وطن کرنے اور شادی شدہ زانی کو رجم سے پہلے سو کوڑے مارنے کی سزا منسوخ قرار پائی۔ ۲۹؂

ہم یہاں اصول فقہ کی اس بحث سے صرف نظر کر لیتے ہیں کہ سنت کے ذریعے سے قرآن یا قرآن کے ذریعے سے سنت کے کسی حکم کو کلی یا جزوی طور پر منسوخ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس امکان کو اصولاً تسلیم کر لیا جائے تو بھی نسخ کا وقوع ثابت کرنا بے حد مشکل ہے، اس لیے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے حق میں مثبت طور پر کوئی دلیل موجود نہیں، بلکہ اس کے برخلاف قرائن موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ سورۂ نور کی آیت شادی شدہ زانی کے لیے رجم کا حکم دیے جانے سے پہلے نازل ہو چکی تھی ۔اور روایت اس کے لیے ناسخ ہے تو عبادہ بن صامت سے مروی روایت اس بات کی نفی کرتی ہے، کیونکہ روایت سے واضح ہے کہ سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد اس موقع سے پہلے زنا سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور ’اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلًا‘ کے وعدے کی تکمیل پہلی مرتبہ اسی حکم کے ذریعے سے کی جا رہی تھی۔ اس کے برعکس اگر سورۂ نورکی آیت کو اس سے پہلے نازل ہونے والے حکم کے لیے ناسخ مانا جائے تو لازم آئے گا کہ شادی شدہ اور کنوارے، دونوں طرح کے زانیوں کے لیے سو کوڑے ہی حد شرعی قرار پائے، اس لیے کہ سورۂ نور میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں نہ صرف یہ کہ کوئی فرق نہیں کیا گیا، بلکہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح کی گئی ہے۔ چنانچہ یہ بات کہ سورۂ نور کی آیت نے کنوارے زانی کے لیے جلاوطنی اور شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا تو منسوخ کر دی، لیکن رجم کا حکم اس کے بعد بھی برقرار رہا، محض تحکم کا درجہ رکھتی ہے۔

۴۔ ایک نقطۂ نظر یہ پیش کیا گیا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی آیت خود قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی جو بعد میں الفاظ کے اعتبار سے تو منسوخ ہو گئی، لیکن اس کا حکم باقی رہ گیا۔ ۳۰؂ اس موقف کے حق میں بناے استدلال بالعموم سیدنا عمر کی طرف منسوب ایک روایت کو بنایا جاتا ہے۔ عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا:

ان اللّٰہ بعث محمدًا بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللّٰہ آیۃ الرجم فقراناہا وعقلناہا ووعیناہا رجم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل واللّٰہ ما نجد آیۃ الرجم فی کتاب اللّٰہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلہا اللّٰہ والرجم فی کتاب اللّٰہ حق علی من زنی اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البینۃ او کان الحبل او الاعتراف.(بخاری، رقم ۶۳۲۸)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے جو وحی نازل کی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی۔ چنانچہ ہم نے اسے پڑھا اور سمجھا اور اسے یاد کیا۔ (اس پر عمل کرتے ہوئے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی اس پر عمل کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ زیادہ وقت گزرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہے گا کہ بخدا، ہم کتاب اللہ میں رجم کی آیت کو موجود نہیں پاتے۔ اس طرح وہ اللہ کے اتارے ہوئے ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں گے۔ جو مرد یا عورت محصن ہونے کی حالت میں زنا کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ موجود ہوں یا حمل ظاہر ہو جائے یا وہ خود اعتراف کر لے تو اللہ کی کتاب میں اس کے لیے رجم کی سزا ثابت ہے ۔‘‘

سیدنا عمر کی طرف اس قول کی نسبت کے صحیح ہونے میں ایک اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اس خطبے کے راوی عبد اللہ بن عباس ہیں، لیکن خود ان کی راے قرآن مجید میں رجم کا کوئی باقاعدہ حکم نازل ہونے کے برعکس ہے۔ اس ضمن میں ان سے مروی دو آثار قابل توجہ ہیں:

علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ ابتدا میں زنا کی سزا یہ تھی کہ خاتون کو گھر میں محبوس کر دیا جائے اور مرد کو زبانی اور جسمانی طور پر اذیت دی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ‘ کی آیت اتاردی، جبکہ مرد وعورت اگر محصن ہوں تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی رو سے رجم کر دیا جائے۔ ۳۱؂

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ جو شخص رجم کا انکار کرتا ہے، وہ غیر شعوری طور پر قرآن کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ‘ (اے اہل کتاب، تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو تمھارے لیے تورات کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم چھپاتے تھے) اور رجم کا حکم بھی انھی امور میں سے ہے جنھیں اہل کتاب چھپاتے تھے۔ ۳۲؂

ان دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ ابن عباس قرآن مجید میں واضح طور پر رجم کا حکم نازل ہونے کے قائل نہیں اور اس کے بجاے اسے اشارتاً قرآن میں مذکور مانتے اور اس کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قرار دیتے ہیں۔ اگر وہ فی الواقع سیدنا عمر کے مذکورہ خطبے کے راوی ہیں جس میں انھوں نے رجم کے قرآن مجید میں نازل ہونے کا ذکرکیا ہے تو پھر ان کا اس سے مختلف راے قائم کرنا بظاہر سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔

رجم کا حکم نازل ہونے کی روایات سیدنا عمر کے علاوہ ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں اور ان میں قرآن مجید کی یہ آیت ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ‘(بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو ان کو لازماً سنگ سار کردو)کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ ۳۳؂ یہ روایات اس حوالے سے باہم متعارض ہیں کہ رجم کا حکم آیا قرآن مجید کی کسی باقاعدہ آیت کے طور پر نازل ہوا تھا یا قرآن سے باہر کسی الگ حکم کے طور پر۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت باقاعدہ قرآن مجید کے ایک حصے کے طور پر نازل ہوئی تھی اور اسی حیثیت سے پڑھی جاتی تھی۔ چنانچہ زر بن حبیش ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ سورۂ احزاب اپنے حجم میں سورۂ بقرہ کے برابر ہوا کرتی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی: ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ نکالا من اللّٰہ واللّٰہ عزیزحکیم‘ ۳۴؂ ۔اس کے برعکس بعض دوسری روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ قرآن مجید سے الگ ایک حکم تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حین حیات میں اسے قرآن مجید میں لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کثیر بن ا لصلت روایت کرتے ہیں کہ زید بن ثابت نے ایک موقع پر مروان کی مجلس میں یہ کہا کہ ہم ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ‘ کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ اس پر مروان نے کہا کہ کیا ہم اسے مصحف میں درج نہ کر لیں؟ زید نے کہا کہ نہیں، دیکھتے نہیں کہ جوان شادی شدہ مردو عورت بھی اگر زنا کریں تو انھیں رجم کیا جاتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے مابین زیر بحث آئی تو سیدنا عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ، مجھے رجم کی آیت لکھوا دیجیے، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ ۳۵؂

بہرحال، رجم کا حکم قرآن مجید میں نازل کیے جانے کے بعد اس سے نکال لیا گیا ہو یا ابتدا ہی سے اسے قرآن کا حصہ بنانے سے گریز کیا گیا ہو، دونوں صورتوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شارع کے پیش نظر اس کو ایک مستقل حکم کے طور پر برقرار رکھنا تھا تو مذکورہ طریقہ کیوں اختیارکیا گیا؟

اگر یہ مانا جائے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کی آیت قرآن میں نازل ہونے کے بعد اس سے نکال لی گئی تو اس کی واحد معقول توجیہ یہی ہو سکتی ہے کہ اب یہ حکم بھی منسوخ ہو چکا ہے، ورنہ حکم کو باقی رکھتے ہوئے آیت کے الفاظ کو منسوخ کر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعۂ وحی یہ حکم تو دیا گیا تھا، لیکن اسے قرآن مجید کا حصہ بنانے سے بالقصد گریز کیا گیا تو بظاہر یہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی نوعیت کا حکم تھا جسے ابدی شرعی احکام کی حیثیت سے برقرار رکھنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف اسی سزا کے بیان پر اکتفا کی جسے ابدی طور پر باقی رکھنا ضروری تھا۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رجم کے حکم کے منسوخ ہو جانے کی بات بظاہر معقول دکھائی دیتی ہے، لیکن اس امر کی توجیہ کسی طرح نہیں ہو پاتی کہ نہ صرف سیدنا عمر جیسے بلند پایہ فقیہ معاملے کی اس نوعیت سے پوری طرح واقف ہونے کے باوجود رجم کے ایک شرعی حکم کے طورپر باقی ہونے کے قائل ہیں، بلکہ خلفاے راشدین اور دوسرے اکابر صحابہ کے ہاں بھی متفقہ طور پر یہی تصور پایا جاتا ہے۔

روایتی علمی ذخیرے میں زیر بحث سوال کے حوالے سے پیش کی جانے والی توجیہات کے غیراطمینان بخش ہونے کے تناظر میں متاخرین میں سے بعض اہل علم نے ان سے ہٹ کر بعض نئی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک الجھن موجود ہے، مزید غور وفکر اور تحقیق کی گنجایش،بلکہ ضرورت موجود رہے گی اور اہل علم اگر اس ضمن میں نئی اور متبادل آرا پیش کرتے ہیں تو ان کو سنجیدہ توجہ کا مستحق سمجھا جانا چاہیے۔ یہ توجیہات حسب ذیل ہیں:

۵۔ مولانا انور شاہ کشمیری نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ قرآن مجید میں رجم کا حکم کسی واضح آیت کی صورت میں نہیں، بلکہ سورۂ مائدہ (۵)کی آیات ۴۱۔۴۳ میں مذکور اس واقعے کے ضمن میں نازل ہوا ہے

جس میں یہود کے، منافقانہ اغراض کے تحت، ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہے۔ روایات کے مطابق یہ زنا کا مقدمہ تھا اور یہود نے نرم سزا کی توقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تھا، لیکن آپ نے ان پر تورات ہی کی سزا ،یعنی رجم کو نافذ کر دیا۔ ۳۶؂ مولانا کی راے میں قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر اس کو فی الجملہ حکم کا ماخذ بنانے کے لیے کافی ہے، تاہم قرآن نے رجم کا ذکر اصلاً شریعت محمدیہ کے ایک حکم کے طور پر نہیں بلکہ شریعت موسوی کے آثار وباقیات کے ضمن میں کیا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے اور وہ عمومی طور پر اسے رجم کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ گویا قرآن کی رو سے زانی کے لیے کوڑے کی سزا تو لازم ہے جبکہ رجم ایک ثانوی سزا ہے جس کو نمایاں اور عملاً رائج نہ کرنا مقصود ہے، اور اگر اس کا ذکر قرآن میں نصاً وتصریحاً کر دیا جاتا تو اس سے اس کی اہمیت نمایاں ہو جاتی اور اس کے نفاذ کو ٹالنے کا مقصد حاصل نہ ہوتا۔ شاہ صاحب کے نزدیک قرآن نے اسی پہلو سے اس سزا کے نفاذ کی شرائط، یعنی مجرم کے شادی شدہ اور مسلمان ہونے کی وضاحت نہیں کی،بلکہ ان کے اخذ واستنباط کو روایات ومقدمات پر چھوڑ دیا ہے تاکہ ان کی تعیین میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے، اور اسی لیے معمولی شبہات اور اعذار کی بنا پر رجم کی سزا کو ساقط کر کے سو کوڑوں کی سزا دینے پر اکتفا کی جاتی ہے۔ ۳۷؂

شاہ صاحب کی توجیہ پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن مجید کے رجم کی سزا کو مبہم طور پر بیان کرنے سے مقصود یہ تھاکہ عمومی طور پر رجم کی سزا نافذ نہ کی جائے اور اس کے نفاذ میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے منشا کے برعکس شادی شدہ زانی کے لیے متعین طور پر رجم کی سزا کیوں مقرر کر دی؟ اگر قرآن کا منشا آپ پر بھی واضح نہیں ہو سکا تو بلاغت کے پہلو سے ابہام کا یہ اسلوب کمال نہیں،بلکہ نقص کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ اور اگر خود قرآن کا منشاوہی ہے جو روایت میں بیان ہوا ہے تووہی سوال عود کر آتا ہے کہ قرآن خود صاف لفظوں میں اس کی تصریح کیوں نہیں کرتا اور اس کے لیے ایک جگہ زنا کی سزا مطلقاً سو کوڑے مقرر کرنے اور دوسری جگہ رجم کی سزا کا مبہم انداز میں ذکر کرنے اور پھر اس کے نفاذ کی شرائط و تفصیلات کو روایات ومقدمات پر، جو ابھی وجود میں بھی نہیں آئے تھے، منحصر چھوڑ دینے کا پر پیچ طریقہ کیوں اختیارکرتا ہے؟ ۶۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ روایت میں جلا وطنی یا رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ’محاربہ‘ اور ’فساد فی الارض‘ کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ جلاوطنی یا رجم دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی سزا ہے جو ’فساد فی الارض‘ کے تحت آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نوعیت کے بعض مجرموں پر زنا کی سزا کے ساتھ ساتھ، سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت ’فساد فی الارض‘ کی پاداش میں جلا وطن کرنے یا سنگ سار کرنے کی سزا بھی نافذ کی تھی۔ ۳۸؂ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’الثیب بالثیب جلد ماءۃ والرجم‘ کے بارے میں مولانا اصلاحی کی راے یہ ہے کہ یہاں حرف ’و‘جمع کے لیے نہیں، بلکہ تقسیم کے مفہوم میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی کی اصل سزا تو تازیانہ ہی ہے، البتہ آیت محاربہ کے تحت مصلحت کے پہلو سے اسے جلاوطن یا سنگ سار بھی کیا جا سکتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح آیت مائدہ کے تحت ازروے مصلحت بعض مجرموں کو جلاوطنی کی سزا دی، اسی طرح بعض سنگین نوعیت کے مجرموں کے شر وفساد سے بچنے کے لیے آیت مائدہ ہی کے تحت انھیں رجم کی سزا بھی دی۔ ۳۹؂

اس راے کو درست ماننے کے نتیجے میں ’رجم‘ کی بنیاد زانی کا شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ اس کے جرم کی نوعیت قرار پاتی ہے۔ اس طرح نہ ہر شادی شدہ زانی کو رجم کرنا لازم رہتا ہے اور نہ کوئی غیر شادی شدہ محض اپنے کنوارے ہونے کی بنا پر اس سزا سے محفوظ قرار پاتا ہے، بلکہ اگر زنا کے جرم میں سنگینی یا شناعت کا کوئی بھی اضافی پہلو پایا جائے تو مجرم کی ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، اسے رجم کیا جا سکتا ہے۔

رجم کی سزا کو زنا کے عام مجرموں کے بجاے زیادہ سنگین نوعیت کے مجرموں سے متعلق قرار دینے کی مذکورہ توجیہ کو قبول کر لیا جائے تو قرآن مجید اور روایات کا ظاہری تعارض باقی نہیں رہتا۔ یہ راے اس پہلو سے بھی قابل توجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے ایک مقدمے میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ ’لاقضین بینکما بکتاب اللّٰہ‘، یعنی میں تمھارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور پھر آپ نے کنوارے زانی کو سو کوڑے مارنے اور جلاوطن کرنے کا، جبکہ شادی شدہ زانیہ کو رجم کرنے کاحکم دیا۔ ۴۰؂ قرآن مجید میں سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ ہی وہ واحد مقام ہے جہاں مجرموں کو سزا کے طور پر جلا وطن کرنے یا عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کا ذکر ہوا ہے۔ شارحین حدیث نے اس مقام پر ’کتاب اللّٰہ‘سے اللہ کا حکم یا اس کا قانون مراد لیا ہے، لیکن اگر زانی کو جلا وطن یا سنگ سار کرنے کا ماخذ سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دینے کی راے درست تسلیم کر لی جائے تو ’کتاب اللّٰہ‘ کے لفظ کی مذکورہ تاویل کی ضرورت نہیں رہتی، البتہ اس امر کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ یہ توجیہ رجم سے متعلق تمام روایات پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتی، کیونکہ اس توجیہ کی رو سے یہ محض زنا کے سادہ مقدمات نہیں تھے، بلکہ ان میں سزا پانے والے مجرموں کو درحقیقت آوارہ منشی اور بدکاری کو ایک پیشے اور عادت کے طور پر اختیار کر لینے کی پاداش میں آیت محاربہ کے تحت رجم کیا گیا۔ اب اگر آیت محاربہ کو رجم کا ماخذ مانا جائے تو یہ ضروری تھا کہ احساس ندامت کے تحت اپنے آپ کو خود قانون کے حوالے کرنے والے مجرم سے درگذر کیا جائے یا کم ازکم سنگین سزا دینے کے بجاے ہلکی سزا پر اکتفا کی جائے، جبکہ قبیلۂ غامد سے تعلق رکھنے والی خاتون کو خود عدالت میں پیش ہونے اور سزا پانے پر خود اصرار کرنے کے باوجود رجم کیا گیا۔ ۴۱؂

ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں خود پیش ہونے یا پکڑ کر لائے جانے کے حوالے سے روایات الجھی ہوئی ہیں اور تفصیلی تحقیق وتنقید کا تقاضا کرتی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اس کا ایک عادی مجرم ہونا واضح ہوتا ہے۔ ۴۲؂ اسی طرح بعض روایات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کو بھی طلب کیا جس کے ساتھ ماعز نے زنا کیا تھا، لیکن کوئی سزا دیے بغیر اسے چھوڑ دیا ۴۳؂ جو بظاہر اس امر کی دلیل ہے کہ یہ رضامندی کے زنا کا نہیں، بلکہ زنا بالجبر کا واقعہ تھا، تاہم بعض دیگر روایات کے مطابق آپ نے نہ صرف ماعز کو رجم کرنے والوں سے فرمایا کہ اگر وہ رجم سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا، ۴۴؂ بلکہ اس کے سرپرست ہزال سے بھی کہا کہ ’’اگر تم اس کے جرم پر پردہ ڈال دیتے تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔‘‘ ۴۵؂ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ماعز کا آیت محاربہ کے تحت ماخوذ ہونا قابل فہم نہیں رہتا۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

لا یحل دم امرئ مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزانی والمارق من الدین التارک للجماعۃ.(بخاری، رقم ۶۳۷۰)
’’کسی مسلمان کی، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جان لینا تین صورتوں کے سوا جائز نہیں: جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی اور وہ شخص جو دین سے نکل کر مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ چھوڑ دے۔‘‘

یہاں شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا بیان کی گئی ہے اور روایت میں اسے عادی مجرموں کے ساتھ مخصوص قراردینے کا کوئی قرینہ بظاہرموجود نہیں۔ یہی صورت حال مزدور کے مقدمے میں دکھائی دیتی ہے اور روایت کے داخلی قرائن یہی بتاتے ہیں کہ یہ کوئی مستقل یاری آشنائی کا نہیں، بلکہ اتفاقیہ زنا میں ملوث ہو جانے کا ایک واقعہ تھا۔ ۴۶؂

اسی طرح یہ بات بھی بعض روایات سے بظاہر لگا نہیں کھاتی کہ مجرم کا شادی شدہ ہونا اس سزا کے نفاذ میں محض ’ایک‘ عامل کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ ’واحد‘ فیصلہ کن بنیاد کی۔ مثال کے طور پر مزدور کے مقدمے میں اس کے مالک کی بیوی کو رجم کی، جبکہ خود مزدور کو سو کوڑوں کی سزا دی گئی اور روایت سے اس فرق کی وجہ بظاہر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونا ہی سمجھ میں آتی ہے۔ ’لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ‘ میں بھی زانی کے شادی شدہ ہونے کو قتل کے جواز کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، جبکہ کسی اضافی پہلو کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب بدیہی طور پر موزوں نہیں۔ مزید براں صحابہ کے ہاں، جنھیں رجم کے ان واقعات کے عینی شاہد ہونے کی وجہ سے مقدمے کے احوال وشرائط اور سزا کی نوعیت سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے، اس سزا کے بارے میں جو مجموعی فہم پایا جاتا ہے، وہ بھی اس فرق کے اضافی نہیں، بلکہ اساسی اور حقیقی ہونے ہی پر دلالت کرتا ہے۔

مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ اگر قرآن مجید کے ظاہر کو حکم مانا جائے تو زنا کے عام مجرموں کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کرنا بے حد مشکل ہے۔ دوسری طرف اگر روایات کے ظاہراور ان پر مبنی تعامل کو فیصلہ کن ماخذ مانا جائے تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کی نفی یا اس کی ایسی توجیہ و تاویل بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتی جس سے روایات کے متبادر مفہوم و مدعا کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ ان کا ظاہری تعارض فی الواقع دور ہو جائے۔ اس ضمن میں اب تک جو توجیہات سامنے آئی ہیں، وہ اصل سوال کا جواب کم دیتی اور مزید سوالات پیدا کرنے کا موجب زیادہ بنتی ہیں۔

اس وجہ سے ہماری طالب علمانہ راے میں یہ بحث ان چند مباحث میں سے ایک ہے جہاں توفیق وتطبیق کا اصول موثر طور پر کارگر نہیں اور جہاں ترجیح ہی کے اصول پر کوئی متعین راے قائم کی جا سکتی ہے۔ عقلاً اس صورت میں دو ہی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں:

ایک یہ کہ روایات سے بظاہر جو صورت سامنے آتی ہے، اس کو فیصلہ کن مانتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ قرآن مجید کا مدعا اگرچہ بظاہر واضح اور غیر محتمل ہے، تاہم یہ محض ہمارے فہم کی حد تک ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے منشا کی تعیین کے حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کے ظاہر کو حکم مانتے ہوئے یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا یقیناً کوئی ایسا محل ہوگا جو قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو، لیکن چونکہ قرآن کا مدعا ہمارے لیے بالکل واضح ہے، جبکہ روایات کا کوئی واضح محل بظاہر سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے روایات اور ان پر مبنی تعامل کو توجیہ وتاویل یا توقف کے دائرے میں رکھتے ہوئے ان پر غور وفکر جاری رکھا جائے گا تاآنکہ ان کا مناسب محل واضح ہو جائے ۔

اس دوسرے زاویۂ نگاہ کے پس منظر میں یہ تصور کارفرما ہے کہ شریعت کے جو احکام قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل قرآن مجید کے برعکس یا اس سے متجاوز نہیں ہو سکتا اور اگر بظاہر کہیں ایسی صورت دکھائی دے تو اس کی بنیاد قرآن مجید ہی میں تلاش کرنی چاہیے یا توجیہ وتاویل کے ذریعے سے حتی الامکان اس کے صحیح محل کو واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تصور اصولی طور پر خود صحابہ کے ہاں موجود رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ جب قرآن مجید میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت خوف کی حالت سے مشروط ہے تو امن کی حالت میں اس رعایت سے فائدہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ ۴۷؂

ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول گھریلو گدھے کے گوشت کی ممانعت کو حرمت پر محمول کرنے میں تردد تھا، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ بات قرآن مجید کی آیت ’قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا‘ ۴۸؂ کے منافی تھی جس میں حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کو حرام کہا گیا ہے۔ ۴۹؂

سنت کے جو احکام بظاہر قرآن مجید کے نصوص سے متجاوز دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں سوچ کا یہ زاویہ بھی صحابہ کے ہاں دکھائی دیتا ہے کہ شاید وہ قرآن مجید میں نازل ہونے والے حکم سے پہلے کے دور سے متعلق ہوں۔ مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے کے بجاے موزوں پر مسح کر لینے کے جواز کے بارے میں صحابہ کے مابین خاصی بحث موجود رہی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کے جواز کے قائل نہیں تھے اور ان کا اصرار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موزوں پر مسح کرنا سورۂ مائدہ میں وضو کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا عمل تھا:

سلوا ہؤلاء الذین یزعمون ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی الخفین بعد سورۃ المائدۃ واللّٰہ ما مسح بعد المائدۃ.(طبرانی، المعجم الکبیر، رقم ۱۲۲۸۷)
’’ان سے پوچھو جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ بخدا، آپ نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسح نہیں کیا۔‘‘

خود رجم کی سزا کے معاملے میں بھی یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوا۔ ابو اسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا کہ سورۂ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا اس کے بعد؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔ ۵۰؂

اس طرح یہ بحث دو مختلف اصولی زاویہ ہاے نگاہ میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی بحث قرار پاتی ہے۔ ہماری راے میں یہ دونوں زاویے عقلی اعتبار سے اپنے اندر کم وبیش یکساں کشش رکھتے ہیں اور اس باب میں انفرادی ذوق اور رجحان کے علاوہ کوئی چیز غالباً فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔

زنا بالجبر کی سزا

قرآن مجید میں زنا کی سزا بیان کرتے ہوئے زانی اور زانیہ، دونوں کو سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ قرآن کے پیش نظر اصلاً زنا بالرضا کی سزا بیان کرنا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سزا کا اطلاق زنا بالجبر پر بھی ہوگا، لیکن چونکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ زنا بالرضا سے زیادہ سنگین جرم ہے، اس لیے زنا کی عام سزا کے ساتھ کسی تعزیری سزا——- جو جرم کی نوعیت کے لحاظ سے موت بھی ہو سکتی ہے——- کا اضافہ، ہر لحاظ سے قانون وشریعت کا منشا تصور کیا جائے گا۔ اس ضمن میں کوئی متعین سزا تو قرآن وسنت کے نصوص میں بیان نہیں ہوئی، البتہ روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض فیصلے ضرور نقل ہوئے ہیں: وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نماز کے لیے مسجد جاتی ہوئی ایک خاتون کو راستے میں تنہا پا کر اسے پکڑ لیا اور زبردستی اس کے ساتھ بدکاری کر کے بھاگ گیا، لیکن جب اس کے شبہے میں ایک دوسرے شخص کو پکڑ لیا گیا اوراس پر سزا نافذ کی جانے لگی تو اصل مجرم نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنگ سار کرنے کا حکم دے دیا۔ ۵۱؂

اس واقعے سے متعلق روایات میں اس شخص کے شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونے کی تحقیق کیے جانے کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر یہ شخص کنوارا تھا یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ازدواجی حیثیت کی تحقیق کی سرے سے ضرورت ہی محسوس نہیں کی تو پھر اس سے یہ بات بآسانی اخذ کی جا سکتی ہے کہ زنا بالجبر کی سزا رضامندی کی سزا کے مقابلے میں زیادہ سخت ہونی چاہیے۔ ایک دوسرے مقدمے میں جس میں ایک شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی سے جماع کر لیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر اس میں لونڈی کی رضامندی شامل نہیں تھی تو پھر وہ آزاد ہے اور شوہر کے ذمے لازم ہے کہ وہ اس جیسی کوئی دوسری لونڈی اپنی بیوی کے حوالے کرے۔ ۵۲؂

یہاں زنا کے مرتکب کے لیے کسی سزا کا ذکر نہیں ہوا۔ ممکن ہے، اس شخص کو کوئی سزا دی گئی ہو، لیکن روایت میں اس کا ذکر نہ ہوا ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ وطی کی ہو اور اس طرح حرمت محل میں شبہے کی بنیاد پر اسے سزا سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو۔

صحابہ اور تابعین سے زنا بالجبر کے بعض واقعات میں زنا کی عام سزا دینا منقول ہے۔ ۵۳؂ ان واقعات میں زنا بالجبر کا شکار ہونے والی زیادہ تر لونڈیاں تھیں۔ عرب معاشرت میں غلام اور لونڈیاں نہ صرف اخلاقی تربیت سے محروم ہوتے تھے، بلکہ ان میں زنا اور چوری جیسی اخلاقی برائیوں کا پایا جانا ایک عام بات تھی۔ چنانچہ لونڈیوں کے ہاں عفت وعصمت کا تصور ایسا پختہ نہیں تھا کہ اس کے چھن جانے پر وہ محرومی یا ہتک عزت کے کسی شدید احساس کا شکار ہو جائیں۔ اس تناظر میں لونڈیوں کے ساتھ بالجبر زنا پر اگر کوئی سخت تر سزا نہیں دی گئی تو یہ بات قابل فہم ہے۔

سیدنا ابوبکر نے ایک مقدمے میں زنا بالجبرکے مجرم کو پابند کیا کہ وہ اس خاتون کے ساتھ نکاح کر لے، ۵۴؂ جبکہ عمر بن عبد العزیز اور حسن بصری نے زنا بالجبر کی سزا یہ تجویز کی کہ مجرم پر حد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اسے غلام بنا کر اسی عورت کی ملکیت میں دے دیا جس کے ساتھ اس نے زیادتی کی تھی۔ ۵۵؂

تابعی مفسر سدی کی راے یہ تھی کہ اگر خاتون کا باقاعدہ پیچھا کر کے اس کے ساتھ بالجبر زنا کیا جائے تو مجرم کو لازماً قتل کیا جائے گا۔ سدی نے اس کے لیے سورۂ احزاب(۳۳) کی آیت ۶۱ میں منافقین کے حوالے سے بیان ہونے والے حکم ’اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا‘ سے استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

ہذا حکم فی القرآن لیس یعمل بہ، لو ان رجلًا او اکثر من ذلک اقتصوا اثر امراۃ فغلبوہا علی نفسہا ففجروا بہا کان الحکم فیہم غیر الجلد والرجم: ان یؤخذوا فتضرب اعناقہم .(تفسیر ابن ابی حاتم۷/ ۳۲۶،رقم۱۸۳۸۴)
’’قرآن مجید میں یہ ایک ایسا حکم ہے جس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اگر کوئی شخص یا کچھ افراد کسی عورت کا پیچھا کریں اور اس کو زبردستی پکڑ کر اس کے ساتھ بدکاری کریں تو ان کی سزا سو کوڑے لگانا یا رجم کرنا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ انھیں پکڑ کر ان کی گردنیں اڑا دی جائیں۔‘‘

امام باقر اور امام جعفر صادق بھی زنا بالجبر کے مجرم کو قتل کر دینے کے قائل ہیں۔ ۵۶؂ جہاں تک باقی فقہی مکاتب فکر کا تعلق ہے تو فقہا اس کو زنا بالرضا کے مقابلے میں سنگین تر جنایت تسلیم کرنے کے باوجود بالعموم اس کے مرتکب کے لیے زنا کی عام سزا ہی تجویز کرتے یا زیادہ سے زیادہ زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو اس کے مہر کے برابر رقم کا حق دار قرار دیتے ہیں، جبکہ احناف اس کو اس رقم کا مستحق بھی نہیں سمجھتے۔ ۵۷؂ امام مالک سے منقول ہے کہ اس صورت میں عورت کو مہر کے ساتھ اس کی عزت وناموس اور حیثیت عرفی کے مجروح ہونے کا تاوان بھی دلوایا جائے گا۔ ۵۸؂

ہماری راے میں یہ بات بعض صورتوں میں تو شاید نامناسب نہ ہو، لیکن اسے علی الاطلاق درست تسلیم کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زنا بالجبر محض زنا کی دو صورتوں میں سے ایک صورت نہیں، بلکہ ایک بالکل مختلف نوعیت کا جرم ہے۔ رضامندی کا زنا اصلاً ایک گناہ ہے جس میں ’حق اللہ‘ پامال ہوتا ہے، جبکہ زنا بالجبر میں حق اللہ کے ساتھ ساتھ حق العبد پر بھی تعدی کی جاتی اور ایک خاتون سے اس کی سب سے قیمتی متاع چھین لی جاتی ہے۔ فقہا نے اس بات کو محسوس نہیں کیا کہ ایک پاک دامن عورت کے لیے جو اپنی عفت اور اپنی عزت نفس کو عزیز رکھتی ہے، عصمت کا لوٹا جانا کوئی مالی نقصان نہیں کہ اس کے بدلے میں اسے کچھ رقم دے کر نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کا شکار ہونے والی خاتون کے زاویۂ نظر سے دیکھیے تو نفسیاتی لحاظ سے یہ غالباً قتل سے بھی بڑا جرم ہے اور ابن تیمیہ نے بجا طور پر اسے ’مثلہ‘ (Mutilation) ،یعنی انسانی جسم کی بے حرمتی کے مشابہ قرار دیا ہے۔ ۵۹؂ بروکلین لا اسکول میں قانون کی استاد پروفیسر سوزن این ہرمن (Susan N. Herman) نے اس ضمن میں نفسیاتی تحقیقات کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

“Women who are raped suffer a sense of violation that goes beyond physical injury. They may become distrustful of men and experience feelings of shame, humiliation, and loss of privacy. Victims who suffer rape trauma syndrome experience physical symptoms such as headaches, sleep disturbances, and fatigue. They may also develop psychological disturbances related to the circumstances of the rape, such as intense fears. Fear of being raped has social as well as personal consequences. For example, it may prevent women from socializing or traveling as they wish.” (Microsoft Encarta Reference Library 2003, CD edition, article: “Rape”)

[باقی]

__________

۲۷؂ جمہور فقہا رجم کی سزا نافذ کرنے کے لیے محض اس بات کو کافی سمجھتے ہیں کہ زانی نے زندگی میں ایک مرتبہ نکاح صحیح کے ساتھ کسی مسلمان خاتون کے ساتھ ہم بستری کی ہو، جبکہ امام باقر، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم کی راے یہ نقل ہوئی ہے کہ رجم کی سزا کا نفاذ صرف ایسے شادی شدہ زانی و زانیہ پر کیا جائے گاجس کے لیے ارتکاب زنا کے وقت بھی شرعی طریقے سے اپنی بیوی باندی یا شوہر سے جنسی استمتاع کا امکان موجود ہو۔ اگر نکاح کے بعد جدائی ہو چکی ہو یا زوجین میں سے کوئی ایک انتقال کر چکا ہو یا خاوند محبوس ہویا گھر سے دور ہو تو زنا کے ارتکاب پر مجرم کے شادی شدہ ہونے کے باوجود اسے رجم کی سزا نہیں دی جائے گی (الکلینی، الفروع من الکافی ۷/ ۱۷۸۔۱۷۹۔ القمی، من لا یحضرہ الفقیہ۴/ ۳۹۔۴۰، رقم۵۰۳۶۔ ۵۰۳۷) امام باقر بیان کرتے ہیں کہ خاوند کی گھر سے دوری اور قید و بند کی صورت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی یہی فیصلہ صادر فرمایا۔(الفروع من الکافی۷/ ۱۷۹

۲۸؂ ابن الہمام، فتح القدیر ۵/ ۲۳۰۔

۲۹؂ سرخسی، المبسوط ۹/ ۴۱۔ ۴۲۔

۳۰؂ ابن حزم، المحلیٰ ۱۱/۲۳۴۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۲۰/ ۳۹۸۔۳۹۹۔

۳۱؂ طبری، جامع البیان ۴/ ۲۹۷۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۱۔

۳۲؂ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۶۲۔

۳۳؂ مسند احمد، رقم ۲۰۶۱۳۔ موطا امام مالک، رقم ۲۵۶۸۔

۳۴؂ بیہقی، رقم۱۶۶۸۸۔ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۵۰۔

۳۵؂ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۰۔ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۴۸۔

۳۶؂ بخاری، رقم ۴۱۹۰۔

۳۷؂ فیض الباری ۵/ ۲۳۰ ،۶/ ۳۵۳۔۳۵۴۔ مشکلات القرآن ۱۶۵۔ ۱۶۶، ۲۱۳۔

۳۸؂ تدبر قرآن ۵/ ۳۶۷ ۔ ۳۶۹۔

۳۹؂ تدبر قرآن ۵/۳۷۴۔ رجم کو زنا کی سزا کا لازمی حصہ نہ سمجھنے والے بعض دیگر اہل علم نے اس سے مختلف ماخذ بھی متعین کیے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا عنایت اللہ سبحانی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اس حکم کا ماخذ سورۂ احزاب (۳۳)کی آیت ۶۱ کے الفاظ ’اَیْْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً‘ (یہ جہاں ملیں، ان کو پکڑ لیا جائے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے) کو قرار دیا ہے جن میں مدینہ منورہ کے منافقین کی فتنہ پردازیوں اور بالخصوص مسلمان خواتین کے حوالے سے ان کے مفسدانہ اور شرانگیز طرزعمل سے نمٹنے کے لیے انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ (عنایت اللہ سبحانی، حقیقت رجم ۲۰۲۔۲۰۷۔ محمد طفیل ہاشمی، حدود آرڈی نینس کتاب وسنت کی روشنی میں ۱۲۷ ۔ ۱۳۶) جبکہ بعض اہل علم قرآن مجید میں رجم کا کوئی ماخذ متعین کیے بغیر اسے حد کے بجاے محض ایک تعزیری سزا قرار دیتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے دی۔ (عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن رجم اصل حد ہے یا تعزیر؟ ۵۵، ۹۳ ۔۹۵۔ فقہ القرآن: حدود و تعزیرات اور قصاص ۶۳۲ ۔ ۶۴۴)

۴۰؂ بخاری، رقم ۲۴۹۸۔

۴۱؂ مسلم، رقم ۳۲۰۸۔

۴۲؂ مسلم، رقم ۳۲۰۳۔ ۳۲۰۶۔

۴۳؂ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۴/ ۳۲۳۔

۴۳؂ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۴/ ۳۲۳۔

۴۴؂ بخاری، رقم ۱۳۴۸۔

۴۵؂ الموطا، رقم ۱۲۹۰۔

۴۶؂ بخاری، رقم ۲۵۲۳۔

۴۷؂ مسلم، رقم ۶۸۶۔

۴۸؂ الانعام ۶: ۱۴۵۔ ’’تم کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، میں اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر حرام نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا رگوں سے بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو،کیونکہ وہ ناپاک ہے یا ایسا جانور ہو جسے اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔‘‘

۴۹؂ بخاری، رقم ۵۲۰۹۔ المستدرک، رقم ۳۲۳۶۔

۵۰؂ بخاری، رقم ۱۷۰۲۔

۵۱؂ ابوداؤد،ر قم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴۔

۵۲؂ نسائی، رقم ۳۳۱۰۔ ابو داؤد، رقم ۳۸۶۸۔

۵۳؂ موطا امام مالک، رقم ۱۳۰۰۔ ۱۳۰۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۴۲۱ ۔ ۲۸۴۲۷۔

۵۴؂ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۲۷۹۶۔

۵۵؂ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۸۴۲۳۔ ۲۸۴۲۶۔

۵۶؂ الکلینی، الفروع من الکافی۷/ ۱۸۹۔القمی، من لا یحضرہ الفقیہ۴/ ۴۱،رقم ۵۰۴۱،۵۰۴۲، ۵۰۴۴۔

۵۷؂ الموطا،رقم ۲۲۹۴۔ الشافعی، الام ۳/۲۷۲۔ سرخسی، المبسوط ۹/ ۶۱۔ ۶۲۔

۵۸؂ سحنون بن سعید،المدونۃ الکبریٰ ۱۶/ ۲۵۴۔

___________________

B