HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: المائدہ ۵: ۶ (۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ، وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ، وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا، وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا، فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ، مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ، وَّلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ، لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ{۶}
ایمان والو، (یہی پاکیزگی خدا کے حضور میں آنے کے لیے بھی چاہیے، لہٰذا) جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں بھی دھو لو، ۳۲ اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔۳۳  اور اگر (کبھی ایسا ہو کہ) تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے۳۴  یا عورتوں سے مباشرت کی ہو اور پانی نہ ملے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔۳۵  اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کر نا چاہتا، لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمھیں پاکیزہ بنائے (چنانچہ وضو اور غسل کا پابند بناتا ہے) اور (چاہتا ہے کہ) اپنی نعمت تم پر تمام کرے ،(اِس لیے مجبوری کی حالت میں تیمم کی اجازت دیتا ہے) تاکہ تم اُس کے شکرگزار ہو۔  ۶

۳۲؎  یہ نماز کے لیے وضو کا طریقہ بتایا ہے کہ پہلے منہ دھویا جائے، پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے جائیں، پھر پورے سر کا مسح کیا جائے اور اِس کے بعد پاؤں دھو لیے جائیں۔ پورے سر کا مسح اِس لیے ضروری ہے کہ اِس حکم کے لیے آیت میں ’وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں اور عربیت کے ادا شناس جانتے ہیں کہ ’ب‘ اِس طرح کے مواقع میں احاطے پر دلیل ہوتی ہے۔ اِسی طرح پاؤں کا حکم، اگرچہ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ ’وَامْسَحُوْا‘ کے تحت ہے، لیکن ’اَرْجُلَکُمْ‘ منصوب ہے اور اِس کے بعد ’اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘ کے الفاظ ہیں جو پوری قطعیت کے ساتھ فیصلہ کر دیتے ہیں کہ اِس کا عطف ’اَیْدِیَکُمْ‘ پر ہے۔ اِس لیے کہ یہ اگر ’بِرُئُ وْسِکُمْ‘ پر ہوتا تو اِس کے ساتھ ’اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘ کی قید غیرضروری تھی۔ تیمم میں دیکھ لیجیے کہ جہاں مسح کا حکم دیا گیا ہے، وہاں ’اِلَی الْمَرَافِقِ‘ کی قید اِسی بنا پر ختم کر دی ہے۔ چنانچہ پاؤں لازماً دھوئے جائیں گے۔ آیت میں اِن کا ذکر محض اِس وجہ سے موخر کر دیا گیا ہے کہ وضو میں اعضا کی ترتیب سے متعلق کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو جائے۔ 

۳۳؎  اِس سے واضح ہے کہ جنابت کے بعد غسل ضروری ہے، اِس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اِس غسل کے لیے یہاں ’فَاطَّھَّرُوْا‘ اور اِس سے پہلے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۴۳ میں ’تَغْتَسِلُوْا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ الفاظ تقاضا کرتے ہیں کہ جنابت کا یہ غسل پورے اہتمام کے ساتھ کیا جائے۔ 

۳۴؎  اصل الفاظ ہیں: ’اَوْجَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ‘ ۔ لفظ ’غائط‘ عربی زبان میں نشیبی زمین کے لیے آتا ہے۔ یہاں یہ رفع حاجت سے کنایہ ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاتی زندگی میں لوگ اِس مقصد کے لیے بالعموم نشیبی زمینوں ہی میں جاتے ہیں۔

۳۵؎   سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں وضو اور غسل، دونوں مشکل ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ اِس کا طریقہ اِن آیتوں میں اور اِس سے پہلے سورۂ نساء (۴) کی آیت ۴۳ میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی پاک جگہ دیکھ کر اُس سے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ تیمم ہر قسم کی نجاست میں کفایت کرتا ہے۔ وضو کے نواقض میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو اُس کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے اور مباشرت کے بعد غسل جنابت کی جگہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح صراحت فرمائی ہے کہ مرض اور سفر کی حالت میں پانی موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔مرض میں وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ رعایت ہوئی ہے۔ اِسی طرح سفر میں مختلف حالتیں ایسی پیش آ سکتی ہیں کہ آدمی کو تیمم ہی پر قناعت کرنی پڑے۔ مثلاً یہ کہ پانی نایاب تو نہ ہو، لیکن کم یاب ہو، اندیشہ ہو کہ اگر غسل وغیرہ کے کام میں لایا گیا تو پینے کے لیے پانی تھڑ جائے گا یا یہ ڈر ہو کہ اگر نہانے کے اہتمام میں لگے تو قافلے کے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں گے یا ریل اور جہاز کا ایسا سفر ہو کہ غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۳۰۳)  

اِس میں شبہ نہیں کہ تیمم سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اصل طریقۂ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو شبہی صورت میں اُس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B