بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ، وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّھُمْ، وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ، اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ، وَ لَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ، وَمَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ، وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ{۵}
تمام پاکیزہ چیزیں اب تمھارے لیے حلال ٹھیرا دی گئی ہیں۔۲۸ (چنانچہ) اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کے لیے حلال ہے۔۲۹ (اِسی طرح شرک و توحید کے حدود بھی واضح ہو گئے ہیں، لہٰذا) مسلمانوں کی پاک دامن عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں اور تم سے پہلے کے اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں،۳۰ جب تم اُن کے مہر اُنھیں ادا کر دیتے ہو، اِس شرط کے ساتھ کہ تم بھی پاک دامن رہنے والے ہو نہ بدکاری کرنے والے اور نہ چوری چھپے آشنائی کرنے والے۔ (اپنے ایمان کو، البتہ ہر حال میں خالص رکھو) اور (جانتے رہو کہ) جو ایمان کے منکر ہیں،۳۱ اُن کی سب محنت ضائع ہو جائے گی اور قیامت کے دن وہ نامرادوں میں سے ہوں گے۔ ۵
۲۸؎ یعنی خبائث میں سے جن چیزوں کے بارے میں کوئی شبہ ہو سکتا تھا، اُسے پوری طرح دور کردینے کے بعد اب تمام پاکیزہ چیزیں تمھارے لیے حلال کر دی گئی ہیں اور وہ تمام پابندیاں ختم ہو گئی ہیں جو یہود نے یا تو ازخود اپنے اوپر عائد کر لی تھیں یا اُن کی ضد، ہٹ دھرمی اور سرکشی کے باعث اللہ تعالیٰ نے اُن پر لگا دی تھیں۔
۲۹؎ مطلب یہ ہے کہ حلال و حرام اور خبیث و طیب کے ہر لحاظ سے واضح ہو جانے کے بعد اب کوئی اندیشہ نہیں رہا کہ تم کسی حرام اور خبیث چیز سے آلودہ ہو سکتے ہو، اِس لیے طیبات تمھارے دستر خوان پر ہوں یا اہل کتاب کے، دونوں کے لیے جائز ہیں۔ یہاں تک کہ اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے تو ایک دوسرے کاذبیحہ بھی تمھارے لیے جائز ہے۔ اہل کتاب اِسے نہ مانیں تو یہ اُن کی بدقسمتی ہے۔ تمھارے پروردگار نے تو جو وعدہ اُن سے کیا تھا، وہ تمھارا کھانا اُن کے لیے جائز کر کے پورا کر دیا ہے اور خورونوش کے معاملے میں وہ تمام پابندیاں اٹھا لی ہیں جو اُن کی سرکشی کے باعث اُن پر عائد کی گئی تھیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اُنھوں نے اِس کی قدر نہیں کی تو یہ اُن کی اپنی محرومی و بدقسمتی ہے۔ اُن کی نالائقی کی وجہ سے آخر خدا اپنے وعدے کو کیوں فراموش کرتا؟ سورج چمکتا ہے، خواہ کوئی اپنی آنکھیں بند رکھے یا کھلی رکھے۔ نسیم صبح اپنی عطربیزیوں سے ہر مشام جان کو معطر کرنا چاہتی ہے اور اُس کے فیض عام کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہر ایک کو فیض یاب کرے، لیکن جو محروم القسمت اپنی ناک اور اپنے منہ بند کر لیتے ہیں، وہ اُس سے محروم ہی رہتے ہیں۔ اِسی طرح رب کریم نے جو سفرۂ نعمت اِس امت کے ذریعے سے تمام دنیا کے آگے بچھانا چاہا تھا، وہ بچھا دیا اور اُس سے متمتع ہونے کی دعوت اہل کتاب کو بھی دے دی۔ اُنھوں نے اِس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو یہ اُن کی اپنی بدقسمتی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۴۶۴)
۳۰؎ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۲۱ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمان نہ مشرک عورتوں سے نکاح کر سکتے ہیں اور نہ اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں دے سکتے ہیں۔ یہ حکم جس طرح مشرکین عرب سے متعلق تھا، اِسی طرح اشتراک علت کی بنا پر یہود و نصاریٰ سے بھی متعلق ہو سکتا تھا، کیونکہ علم و عمل، دونوں میں وہ بھی شرک جیسی نجاست سے پوری طرح آلودہ تھے۔ تاہم اصلاً چونکہ توحید ہی کے ماننے والے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے رعایت فرمائی اور اُن کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی ہے۔ آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہ اجازت اُس وقت دی گئی، جب حلال و حرام اور شرک و توحید کے معاملے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔ اِس کے لیے آیت کے شروع میں لفظ ’الیوم‘ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اجازت میں شرک و توحید کے وضوح اور شرک پر توحید کے غلبے کو بھی یقینا دخل تھا۔ لہٰذا اِس بات کی پوری توقع تھی کہ مسلمان اِن عورتوں سے نکاح کریں گے تو یہ اُن سے لازماً متاثر ہوں گی اور شرک و توحید کے مابین کوئی تصادم نہ صرف یہ کہ پیدا نہیں ہوگا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ اُن میں بہت سی ایمان و اسلام سے مشرف ہو جائیں۔ یہ چیز اِس اجازت سے فائدہ اٹھاتے وقت اِس زمانے میں بھی ملحوظ رہنی چاہیے۔
۳۱؎ یعنی ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے اپنے علم و عمل میں کفروشرک اختیار کرتے یا اُن کے ساتھ مصالحت روا رکھتے ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ