عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: أُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ یَّشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْإِقَامَۃَ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلا ل (رضی اللہ عنہ) کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان (میں کلمات) دہرائیں اور اقامت میں اکہرے رکھیں۔
زَادَ یَحْیٰی فِیْ حَدِیْثِہِ عَنِ ابْنِ عُلَیَّۃَ فَحَدَّثْتُ بِہِ أَیُّوْبَ، فَقَالَ: إِلَّا الْإِقَامَۃَ۔
(امام مسلم کے شیخ) یحییٰ بن یحییٰ ابن علیہ سے اپنی روایت میں ابن علیہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ میں نے جب یہ روایت اپنے شیخ ایوب کے سامنے بیان کی تو انھوں نے کہا: سوائے اقامت ۱؎ کے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: ذَکَرُوْا أَنْ یُعْلِمُوْا وَقْتَ الصَّلٰوۃِ بِشَیْئٍ یَعْرِفُوْنَہُ۔ فَذَکَرُوْا أَنْ یُّنَوِّرُوْا نَارًا أَوْ یَضْرِبُوْا نَاقُوْسًا۔ فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَّشْفَعَ الأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْإِقَامَۃَ۔
حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ (لوگوں) نے بات کی کہ وہ کسی ایسی چیز کو نماز کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے اختیار کریں جسے سب پہچانتے ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ وہ آگ جلائیں یا ناقوس بجائیں۔ چنانچہ حضرت بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان دہری کہیں اور اقامت اکہری کہیں۔
حَدَّثَنِیْ مُحَمَّدُ ابْنُ حَاتِمٍ۔ حَدَّثَنَا بَہْزٌ۔ حَدَّثَنَا وُہَیْبٌ۔ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّائُ بِہٰذَا الْإِسْنَادِ لَمَّا کَثُرَ النَّاسُ ذَکَرُوْا أَنْ یُّعْلِمُوْا بِمِثْلِ حَدِیْثِ الثَّقَفِیِّ غَیْرَ أَنَّہُ قَالَ أَنْ یُّوْرُوْا نَارًا۔
مجھے بتایا محمد بن حاتم نے۔ ہمیں بتایا بہز نے۔ ہمیں بتایا اسی سند سے خالد الحذّاء نے کہ جب لوگ زیادہ ہو گئے تو انھوں نے کہا کہ وہ آگاہ کریں، (آگے) متن ثقفی کی حدیث کے مانند ہے۔ سوائے اس کے کہ اس نے (’یُنَوِّرُوْا نَارًا‘ کے بجاے) ’یُوْرُوْا نَارًا‘ ۲؎ کہا۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ أُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَّشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْإِقَامَۃَ۔
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ بلال سے کہا گیا کہ وہ اذان دہری کہیں اور اقامت اکہری کہیں۔
لغوی مباحث
’یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوْتِرَ الْإِقَامَۃَ‘: ’ شَفَعَ ‘ کا فعل تائید کرنے، دہرا کرنے اور جفت بنانے کے معنی میں آتا ہے۔ سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ یہاں تیسرے معنی میں آیا ہے۔ اسی طرح ’ وتر ‘ کا لفظ طاق کرنے کے معنی میں بھی معروف ہے، لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اذان کے سارے کلمے دو دو بار کہے جاتے ہیں، لیکن ’اَللّٰہُ اَکْبَرْ ‘ کا کلمہ چار بار کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اقامت میں بھی ’ قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘ کا جملہ دو مرتبہ کہا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں ’شفع‘ اور ’وتر‘ کے الفاظ علیٰ سبیل التغلیب استعمال ہوئے ہیں۔ ان کا منطقی اطلاق درست نہیں ہے۔ بعض فقہی اختلافات ان الفاظ کے منطقی اطلاق سے پیدا ہوئے ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان اور اقامت میں فرق ہے۔ اس حوالے سے اختلافات کا خلاصہ ابن رشد نے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں ان الفاظ میں کیا ہے:
’’علما نے اذان کے طریقے میں اختلاف کیا ہے اور اس کی چار مشہور صورتیں بیان کی ہیں: ایک اذان میں تکبیر کا دو بار، شہادتین کا چار بار اور باقی کلمات کا دوبار ہونا۔ یہ اہل مدینہ، یعنی مالک وغیرہ کا مذہب ہے۔ متأخرین اصحاب مالک نے ترجیع کا طریقہ اختیار کر لیا تھا۔ ترجیع سے مراد شہادتین کو پہلے ہلکی آواز سے دو مرتبہ کہنا اور پھر بلند آواز سے دو مرتبہ کہنا ہے۔
دوسری اہل مکہ کی اذان ہے۔ امام شافعی کی راے یہی ہے، اس میں پہلے تکبیر چار بار، پھر شہادتین اور باقی اذان کا دوبار ہونا۔
تیسری کوفیوں کی اذان ہے، اس میں پہلی تکبیر کا چار بار ہونا اور باقی اذان کا دوبار ہونا ہے۔ ابوحنیفہ کی یہی راے ہے۔
چوتھی اذان بصریوں کی ہے۔ اس میں پہلی تکبیر چار بار ہے، شہادتین تین بار ہیں اور ’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ‘ اور ’حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ’ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘ سے لے کر ’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ‘ تک ہر جملہ ایک ایک مرتبہ پڑھا جاتا ہے، پھر اسی طرح دوبارہ پڑھا جاتا ہے اور پھر اسی طرح تیسری بار پڑھا جاتا ہے۔ یہ حسن بصری اور ابن سیرین کی راے ہے۔
ان چاروں کے اختلاف کی وجہ روایات اور جاری عمل میں اختلاف ہے۔ اہل مدینہ اپنے ہاں جاری عمل سے استشہاد کرتے ہیں۔ اہل مکہ اپنے ہاں جاری عمل سے اور اہل کوفہ اوراہل بصرہ اپنے علاقے کے عمل سے استشہاد کرتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کے پاس کچھ آثار بھی ہیں جن کو یہ اپنی راے کے حق میں پیش کرتے ہیں۔‘‘(۷۶-۷۷)
اسی طرح اقامت کے حوالے سے ابن رشد نے لکھا ہے:
’’اقامت کا طریقہ مالک اور شافعی کے نزدیک پہلی تکبیر دوبار ہے۔ باقی سارے کلمات ایک ایک بار ہیں۔ ’ قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘ کے بارے میں امام مالک ایک بار اور امام شافعی دو بار کہنے کے قائل ہیں۔حنفیہ کے نزدیک اقامت دو دو ہے۔ احمد بن حنبل نے ایک ایک یا دو دو بار کہنے میں تخییر کی راے دی ہے۔ ان کے نزدیک اس معاملے میں تخییر ہی رکھی گئی ہے۔
اس اختلاف کی وجہ حدیث انس اور حدیث ابو لیلیٰ کا تعارض ہے۔حدیث انس میں بلال کو اذان کے دہرا ہونے اور اقامت کے ’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘ کے استثنا کے ساتھ اکہرا ہونے کا بیان ہے، جبکہ حدیث ابی لیلیٰ میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو حکم دیا تو انھوں نے اذان بھی دہری دی اور اقامت بھی دہری کہی۔‘‘(بدایۃ المجتہد۸۰)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ روایات بھی مختلف ہیں اور مختلف علاقوں میں تدوین فقہ کے زمانے میں جو عمل جاری تھا، وہ بھی مختلف تھا۔ حنفی شارحین میں سے بعض نے اقامت کے اکہرے کہنے کے حکم کو اذان کے مقابلے میں اقامت کے پڑھنے میں کم لمبا کرنے کے معنی میں لیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک اذان کی طرح اقامت میں بھی کلمات کا دو دو بار پڑھا جانا ہی اصل صورت ہے اور جاری کر دہ طریقہ ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اختلاف محض روایت کی وجہ سے ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ اذان اور اقامت روز پانچ مرتبہ کہی جاتی ہے۔ اس لیے اس کے طریقے کے معلوم ومشہود ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کئی سال اذان واقامت کا جاری رہنا اور بعد میں خلافت راشدہ کا مدینہ میں ربع صدی کا عرصہ اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ عمل اور طریقے کے مطابق ان امور کا جاری رہنا کم از کم ان علاقوں میں اذان و اقامت کی ہیئت کو گم نہیں ہو نے دے سکتا جو خلافت راشدہ اور صحابہ کے براہ راست زیر نگیں رہے، لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی فقہا ہی مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں کے موجود ہونے کو بیان کر رہے ہیں۔ روایات کا اختلاف عمل کے مختلف ہونے کا باعث بھی ہو سکتا ہے اور عمل کے مختلف ہونے کا نتیجہ بھی۔ چنانچہ روایات اختلاف کے پیدا ہونے کے سبب کے تعین میں زیادہ مدد نہیں دے سکتیں۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے میں اس معاملے میں وسعت رکھی گئی تھی۔ اگر مسلم کی زیر بحث روایت کو اس معاملے میں اصل مان لیا جائے تو اقامت میں کلمات دہرانا یا ترجیع کا طریقہ تطوع کے حکم میں ہو گا۔ استاد محترم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون عبادات‘‘ میں اذان اور اقامت کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’قیام جماعت کے لیے شریعت کا متعین کردہ طریقہ درج ذیل ہے:
۱۔ نماز سے پہلے اذان دی جائے گی تاکہ لوگ اِسے سن کر جماعت میں شامل ہو سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے جو کلمات مقرر فرمائے ہیں، وہ یہ ہیں:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ؛ اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلَہٰ اِلَّا اللّٰہُ؛ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ؛ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ؛ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ؛ اَللّٰہُ اَکْبَرُ؛ لَا اِلَہٰ اِلَّا اللّٰہُ.۔۔۔
۲۔ایک ہی مقتدی ہو تو وہ امام کے دائیں جانب اُس کے ساتھ کھڑا ہو گا اور زیادہ ہوں تو امام درمیان میں ہو گا اور وہ اُس کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوں گے۔
۳۔ نمازکھڑی کرنے کے لیے اقامت کہی جائے گی۔ اُس میں اذان ہی کے الفاظ دہرائے جائیں گے۔ اتنا فرق، البتہ ہو گا کہ ’ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِِ ‘ کے بعد اقامت کہنے والا ’ قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘ (نماز کھڑی ہو گئی ہے) بھی کہے گا۔
۴۔ اذان کے کلمات پیش نظر مقصد کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ دہرائے جائیں گے۔‘‘ (۳۱۷)
اسی سلسلے میں آگے اذان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ زمانۂ رسالت میں اذان کے کلمات بالعموم دو دو مرتبہ کہے جاتے تھے۔‘‘ (۳۱۷)
اقامت کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ اقامت بالعموم اکہری کہی جاتی تھی۔‘‘ (۳۱۹)
زیادہ قرائن اسی کے حق میں ہیں کہ اذان میں پہلی بار ’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘ چار بار اور باقی کلمات دو دو بار کہے جائیں۔ اسی طرح اقامت میں ’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘ اور ’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘ دو دو بار اور باقی کلمات ایک ایک بار کہے جائیں۔
امام مسلم کا منتخب کردہ یہ متن اذان و اقامت کے حوالے سے مروی بیانات میں سے مختصر ترین ہے۔ امام مسلم نے وہ متن بھی دے دیے ہیں جن سے انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ جملہ کس سیاق وسباق میں کہا گیا تھا۔ ہم پچھلی روایت کے تحت متون کی وضاحت میں متعلقہ اہم متون درج کر چکے ہیں اور اس صورت حال کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر بھی بیان کر دیا ہے۔ لہٰذا اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
موطا، رقم۱۴۷؛ بخاری، رقم۵۷۸- ۵۷۹، ۵۸۱،۳۲۷۰؛ مسلم، رقم۳۷۷-۳۷۸؛ ابوداؤد، رقم ۴۹۸- ۵۱۲؛ نسائی، رقم۶۲۶؛ ترمذی، رقم۱۹۰؛ ابن ماجہ، رقم۷۰۶- ۷۰۷، ۷۲۹؛ احمد، رقم۶۳۵۷، ۱۶۵۲۴- ۱۶۵۲۵، ۲۲۱۷۷؛ ابن حبان، رقم۱۶۷۸؛ ابن خزیمہ، رقم۳۶۱، ۳۶۷- ۳۶۸؛ حاکم، رقم۴۷۹۷- ۴۷۹۸؛ دارمی، رقم۱۱۸۷؛ بیہقی، رقم۱۷۰۱- ۱۷۰۲، ۱۷۸۳، ۱۸۰۴؛ عبدالرزاق، رقم۱۷۷۶۔
ـــــــــــــــــــــــــ
۱؎ ہمارے نزدیک یہ جملہ روایت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ اصلاً ایوب رحمہ اللہ کی وضاحت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم ’’اقامت اکہری کہو‘‘ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘ کا جملہ بھی اکہرا ہو گا۔
۲؎ ’’آگ روشن کرو‘‘، یہاں ’نَوَّرَ ‘کے بجاے ’ اَوْرٰی ‘ کا فعل استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب صاحب ’’مصباح اللغات‘‘ نے چقماق سے آگ نکالنا لکھا ہے۔
_______________