HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]


جہیز میراث کا حصہ

سوال:ہمارے معاشرے میں عام طور پر بیٹیوں کو ماں باپ کی وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے اور ان کے بھائی چاہتے ہیں کہ اپنے ماں باپ کی ساری میراث پر وہی قبضہ کر لیں، اس کے لیے وہ درج ذیل دو دلائل خاص طور پر پیش کرتے ہیں:

پہلا یہ کہ بہنوں کو چاہیے کہ وہ اپنی خوشی سے اپنا حصہ اپنے بھائیوں کے لیے چھوڑ دیں، کیا انھیں اپنے بھائیوں کا خیال نہیں ہے؟

دوسر ایہ کہ لڑکیوں کی شادیوں پر چونکہ ان کے والدین اور بھائیوں نے اخراجات بھی کیے ہیں اور انھیں جہیز بھی دیا ہے۔ لہٰذا ایک طرح سے وہ اپنا حصہ لے چکی ہیں اور اب ان کا میراث کا مطالبہ درست نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا بھائیوں کا یہ رویہ درست ہے اور کیا جہیز کو میراث کے حصے کا بدل کہا جا سکتا ہے؟(فوزیاب اسلم)

جواب:ہمارے معاشرے میں یہ بات عام طور پر دیکھنے میں آتی ہے کہ صرف بھائی ہی نہیں والدین بھی بیٹیوں کو اپنی میراث سے محروم رکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی زندگی ہی میں طرح طرح کے حیلے بہانے اختیار کرتے ہیں۔

بہرحال، لڑکیوں کو میراث سے ان کے بھائی محروم رکھنا چاہیں یا ان کے والدین اپنی زندگی ہی میں اس کا کوئی حیلہ اختیار کریں، دونوں صورتوں میں یہ بات سرتا سر ظلم ہے اور خدا کے ہاں اس کی جواب دہی ہو گی۔ والدین کی میراث میں خدا نے جیسے بیٹوں کا حصہ رکھا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی رکھا ہے۔ حصہ کی مقدار کا فرق تو ضرور ہے، لیکن حصہ دار ہونے میں دونوں کو ایک جیسی حیثیت حاصل ہے۔ جو شخص کسی وارث کی اس حیثیت کو عملاً بدلتا ہے، وہ خدا کے فیصلے کو ناپسند کرتا اور اسے بدلتا ہے اور یہ چیز بہت بڑا جرم ہے۔ سورۂ نساء میں میراث کے سارے حصے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِینَ فِیْہَا وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ. وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا خَالِدًا فِیْہَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِینٌ.(۴: ۱۳۔۱۴)
’’یہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی حدیں ہیں، (اِن سے آگے نہ بڑھو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کریں گے، اُنھیں وہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کریں گے اور اُس کی ٹھیرائی ہوئی حدوں سے آگے بڑھیں گے، اُنھیں ایسی آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کے لیے رسوا کر دینے والی سزا ہے۔‘‘

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح طور پر بیان کر دیا ہے کہ خدا کی طرف سے میراث کے یہ طے شدہ حصے خدا کی حدیں ہیں۔ ان حصوں کو بدلنا یا انھیں پامال کرنا خدا کی حدوں کو توڑنا ہے اور جو خدا کی حدوں کو توڑے گا ، اس کے لیے ایسی آگ ہو گی جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کر دینے والا عذاب ہو گا۔

جہیز کا میراث کے حصے سے کوئی تعلق نہیں۔ جہیز ایک معاشرتی رسم ہے۔ لڑکی کو ماں باپ کے جہیز دینے سے اس (لڑکی) کے حصے کی میراث میں سے ایک پائی بھی ادا نہیں ہوتی،لہٰذا وہ جہیز دیں یا نہ دیں، انھیں میراث میں حصہ دینا ہو گا۔


عورت کے سفر حج کے لیے محرم کی شرط

سوال:میں حج پر جانا چاہتی ہوں ، لیکن محرم رشتہ داروں میں سے کوئی ساتھ نہیں جا سکتا، البتہ ایک قابل اعتماد فیملی جن کے بچے میرے شاگرد رہے ہیں، وہ مجھے اپنے ساتھ حج پر لے جا سکتی ہے۔ کیا اسلام کی رو سے اس فیملی کے ساتھ میرا حج پر جانا درست ہو گا؟(صغریٰ بیگم)

جواب:اس زمانے میں حج کا سفر بہت محفوظ ہو گیا ہے، لہٰذا پرانے زمانے کے غیر محفوظ سفروں کی وجہ سے عورت کے لیے محرم کے ساتھ ہونے کی جو ہدایت دی گئی تھی، اب ان حالات میں اس کا اطلاق نہیں ہو گا۔

محرم کی شرط کے معاملے میں ائمہ اربعہ میں اختلاف موجود ہے ۔امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک اگر عورت کو محفوظ رفاقت میسر آ جائے تو وہ حج کے لیے جا سکتی ہے، اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ محرم کے وجود کو لازم قرار دیتے ہیں۔

غامدی صاحب کی راے کے مطابق آپ جس قابل اعتماد فیملی کے ساتھ حج پر جانا چاہتی ہیں، اس کے ساتھ جا سکتی ہیں، کسی محرم کے ساتھ ہونے کی شرط لازم نہیں ہے۔

 

شراب کی حرمت کی بنیاد

سوال:قرآن مجید میں چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ان میں شراب شامل نہیں ہے۔ شراب کے بارے میں بس یہ کہا گیا ہے کہ تم نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔اس کے علاوہ شراب سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن ایسا کیوں ہے کہ مسلمان شراب کو خدا کی حرام کردہ دوسری سب چیزوں سے زیادہ حرام سمجھتے ہیں؟

ایسا کیوں ہے کہ اسلام شراب کی حرمت سے شروع ہوتا ہے اور عورتوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے؟(احسان)

جواب: قرآن مجید نے حلت و حرمت کے حوالے سے جو اصولی بات کی ہے، وہ درج ذیل ہے۔ ارشاد باری ہے:

یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰت.(المائدہ۵: ۴)
’’وہ پوچھتے ہیں: ان کے لیے کیا چیز حلال ٹھہرائی گئی ہے۔ کہو تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال ٹھہرائی گئی ہیں۔‘‘

یہودونصاریٰ نے حلت و حرمت کے حوالے سے افراط و تفریط کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انھیں ایمان کی دعوت دیتے ہوئے، حلت و حرمت کے بارے میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا:

وَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ، وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبآءِثَ، وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ، وَالْاَغْلٰلَ التَِّیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ.(الاعراف ۷ : ۱۵۷)
’’(یہ پیغمبر) اُن کے لیے طیبات کو حلال اور خبائث کو حرام ٹھہرایا ہے اور اُن کے وہ بوجھ اتارتا اور بندشیں توڑتا ہے جو اب تک ان پر رہی ہیں۔‘‘

اصل بات یہ ہے کہ دین چونکہ نفس انسانی کا تزکیہ کرنا چاہتا ہے،اس لیے وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ باطن کی تطہیر کے ساتھ کھانے اور پینے کی چیزوں میں بھی خبیث و طیب کا فرق ملحوظ رکھا جائے۔

اسلام میں شراب کی ممانعت کا حکم اسی بنا پر ہے کہ یہ چیز طیبات میں نہیں آتی، بلکہ یہ خبائث میں آتی ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ، فَاجْتَنِبُوْہُ، لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(المائدہ۵: ۹۰)
’’ایمان والو ،یہ شراب اور جوا اور تھان اور قسمت کے تیر، سب گندے شیطانی کام ہیں، اس لیے ان سے الگ رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

چنانچہ آپ کا یہ کہنا کہ بس شراب سے بچنے کا کہا گیا ہے، اسے حرام تو نہیں ٹھہرایا گیا، یہ بات درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ صرف طیبات ہی حلال ہیں اور شراب طیبات میں سے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک گندہ شیطانی کام ہے، چنانچہ اس کے پینے پلانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا ہر صاحب ایمان کو اس سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔

رہی یہ بات کہ ’’اسلام شراب کی حرمت سے شروع ہوتا ہے اور عورتوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے‘‘ یہ کسی حقیقت ناشناس اور لا ابالی شخص ہی کا جملہ ہو سکتا ہے۔ ایسے شخص سے یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ اگر اسے اس طرح کے جملے کہنے کا محض شوق ہے تو وہ ضرور کہا کرے، بس یہ ذہن میں رکھے کہ اللہ نے ہر بات کا حساب لینا ہے،لیکن اگر اس کے دل میں حقیقت جاننے کا شوق ہے تو پھر وہ اسلام کا باقاعدہ مطالعہ کرے، ان شاء اللہ اس کا یہ خیال بدل جائے گا۔


مزار پر دعا

سوال: ہمیں بزرگوں کے مزاروں پر جا کر کیا کہنا چاہیے اور کس طرح سے دعا کرنی چاہیے؟(قاسم چٹھہ)

جواب:پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی بزرگ کے مزار پر کسی مشرکانہ عقیدے کے ساتھ ہرگز نہیں جانا چاہیے، ورنہ ہم اپنے عقیدے ہی کی خرابی کی بنا پر خدا کے ہاں سخت سزا کے مستحق قرار پائیں گے۔ مشرکانہ عقیدے سے ہماری مراد یہ ہے کہ آدمی کسی قبر والے بزرگ کے بارے میں کوئی ایسا خیال رکھے جس کی بنیاد قرآن و سنت میں موجود نہ ہو۔ مثلاً، یہ کہ ان سے دعا مانگی جاسکتی ہے، یہ حاجتیں پوری کرتے ہیں ، یہ بگڑی بنا دیتے ہیں ، ان سے مدد لی جا سکتی ہے، یہ ہمارے حالات سے واقف ہو جاتے ہیں، ہم جہاں کہیں سے انھیں پکاریں، یہ ہماری پکار سن لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

دوسری بات یہ ہے کہ بزرگوں کی قبر پر جا کر خدا سے ان کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔

 

بنک کی ملازمت

سوال:کیا بنک کی ملازمت جائز ہے؟(عقیل شاہد)

جواب:بنک ایک سودی ادارہ ہے۔ اس ادارے کے ملازمین دراصل اس کے سودی نظام ہی کے ایجنٹ یا کارندے کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیتے اور اس کا معاوضہ لیتے ہیں۔ اسلام میں سود کھانا اور کھلانا صریحاً حرام ہے۔ چنانچہ سودی ادارے کی خدمات بھی ناجائز کام ہیں اور ان کا معاوضہ بھی حرام ہے۔

کسی بڑے عذر اور مجبوری کے تحت تو ایسا ہو سکتا ہے کہ آدمی کچھ دیر کے لیے بنک میں ملازمت کر لے، لیکن یہ ملازمت اصلاً جائز نہیں ہے۔

 

نظر بد

سوال:نظر بد کی کیا حقیقت ہے؟ لوگ اس کے علاج کے لیے سرخ مرچوں کو جلا کر مریض کو سنگھاتے ہیں، کیا یہ صحیح ہے؟(سائرہ ناہید)

جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ان العین حق‘،’’بے شک نظر کا لگ جانا سچ ہے۔‘‘ (بخاری،رقم ۵۷۴۰،۵۹۴۴؛مسلم ، رقم۲۱۸۷،۲۱۸۸)


نظر بد کیا چیز ہے؟

یہ غالباً بعض کیفیتوں میں انسان کی آنکھ سے نکلنے والے وہ اثرات ہیں جو دوسرے شخص پر خدا کے اذن سے اثر انداز ہوتے اور اسے بیمار وغیرہ کر دیتے ہیں۔ ان اثرات کا معاملہ بالکل وہی ہے جو عام انسانی اقدامات کا معاملہ ہوتا ہے، جیسا کہ ایک آدمی (خدا کے قانون کے تحت ) دوسرے کو پتھر مار کر زخمی کر سکتا ہے، اسی طرح بعض لوگوں کی نظر بھی خدا ہی کے اذن سے دوسرے پر اثر انداز ہو جاتی ہے۔ نظر مؤثر بالذات ہرگز نہیں ہوتی جو کچھ ہوتا ہے ،خدا کے قانون ہی کے تحت ہوتا ہے۔

نظر اگر لگ گئی ہو تو اس کو اتارنے کے لیے لوگوں نے مختلف حل تلاش کیے ہیں، سرخ مرچوں کو جلا کر سنگھانا، انھی میں سے ایک ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نظر اتارنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ جس آدمی کی نظر لگی تھی، اس کے وضو کا مستعمل پانی نظر کے مریض پر ڈالا۔

ہمارا خیال ہے کہ نظر بد کے اثرات جو کہ شاید نفسیاتی ہوتے ہیں یا کسی اور طرح کے غیر مادی اثرات ہوتے ہیں ، انھیں دور کرنے کے لیے یہ طریقے لوگوں نے اپنے تجربات سے ایجاد کیے ہیں، ان میں اگر کوئی مشرکانہ بات نہ ہو تو انھیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔

جس طرح عام بیماری میں ہم خدا سے شفا کے طالب ہوتے ہیں، کیونکہ شفا اسی کی طرف سے ملتی ہے، اسی طرح نظر بد سے شفا کے معاملے میں بھی دوا کے ساتھ اللہ ہی کی پناہ پکڑی جائے گی اور اسی سے دعا کی جائے گی۔

 

آیت کا صحیح ترجمہ

سوال:سورۂ آل عمران آیت ۳۰ کا صحیح ترجمہ کیا ہے؟(سائرہ ناہید)

جواب: آیت اور اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:

یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا، وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْٓءٍ، تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَھَا وَبَیْنَہٗٓ اَمَدًا بَعِیْدًا، وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ، وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌ بِالْعِبَادِ.(آل عمران۳: ۳۰)
’’جس دن ہر نفس اپنی کی ہوئی نیکی سامنے پائے گا اور اُس نے جو برائی کی ہوگی، اُسے بھی دیکھے گا، اُس دن وہ تمنا کرے گا کہ کاش، اُس کے اور اِس (دن )کے درمیان ایک مدت حائل ہوجاتی۔ (یہ اللہ کی نصیحت ہے) اور اللہ تمھیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور (اِس لیے ڈراتا ہے کہ ) اللہ اپنے بندوں کے لیے بڑا مہربان ہے۔‘‘


میراث کا ایک قضیہ

سوال:ایک صاحب نے اپنے ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس اپنی وفات کے بعد کیش کرانے کی اتھارٹی اپنے ایک قانونی وارث کو دے دی، جب ان کی وفات ہوئی تو ان صاحب نے ایک عرصہ تک وہ ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس کیش نہیں کرائے۔ پھر عدالت نے ان ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس کو باقی جائداد میں شامل کرتے ہوئے ، انھیں کیش کرانے کی اتھارٹی سب ورثا کو دے دی۔

سوال یہ ہے کہ ان سرٹیفکیٹس کی رقم کا اصل حق دار کون ہے، کیا وہی شخص جسیمرحوم نے خود نامزد کیا تھا اور اسے کیش کرانے کی اتھارٹی دی تھی یا پھر سبھی ورثا جنھیں اب عدالت نے حق دار قرار دے دیا ہے؟ (عبداللہ)

جواب: اس سوال میں موجود معلومات ہی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عدالت نے نامزد شخص (Nominee) کے حق میں یہ بات تسلیم نہیں کی کہ مرنے والے نے اسے ان ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس کا مالک بنا دیا تھا، بلکہ اس کے نزدیک اسے محض ان سرٹیفکیٹس کو کیش کرانے کا حق دیا گیا تھا۔ چنانچہ اب عدالت نے سارے ورثا کو ان کا مالک مانتے ہوئے، کیش کرانے کا حق سبھی کو دے دیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہی بات صحیح ہے۔

 

مشرکانہ اعمال والے فرقوں میں شادی بیاہ کا مسئلہ

سوال:مسلمانوں کے جن فرقوں میں مشرکانہ اعمال و تصورات پائے جاتے ہیں، کیا ان میں شادی کرنا جائز ہے؟(سلمان طاہر)

جواب: اسلام میں مسلمان مرد کی شادی، مشرک عورت سے اور مسلمان عورت کی شادی، مشرک مرد سے بالکل ممنوع ہے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:

وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ، وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ، وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ، وَلَاتُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا، وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ، وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ.(البقرہ ۲ : ۲۲۱)
’’ اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور (یاد رکھو کہ) ایک مسلمان لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں کتنی ہی بھلی لگے۔ اور اپنی عورتیں مشرکین کے نکاح میں نہ دو ، جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ اور (یاد رکھو کہ)ایک مسلمان غلام مشرک شریف زادے سے بہتر ہے ، اگرچہ وہ تمھیں کتنا ہی بھلا لگے۔‘‘

ان آیات کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ مرد جو دین توحید سے وابستہ ہے، وہ دین شرک سے وابستہ کسی عورت کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا اور نہ دین توحید سے وابستہ عورت کی شادی دین شرک سے وابستہ کسی مرد کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔

مسلمانوں کے سارے ہی گروہ یا فرقے دین توحید سے وابستہ ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ہم دین شرک سے وابستہ قرار نہیں دے سکتے۔ ان میں جو شرک نظر آتا ہے، وہ تاویل کا شرک ہے، یعنی جسے ہم مشرکانہ بات کہتے ہیں، وہ اسے توحید کے عین مطابق سمجھتے ہیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ خود جسے توحید کے خلاف سمجھتے ہیں، اس سے نفرت کرتے ہیں۔

اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟ اس کی رہنمائی ہمیں قرآن مجید سے ملتی ہے، ارشاد باری ہے:

وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ ، اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ، مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ، وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ.(المائدہ ۵ : ۵)
’’اور تم سے پہلے کے اہل کتاب کی پاک دامن عورتیں بھی (حلال ہیں) ، جب تم اُن کے مہر ادا کرو ، اِس شرط کے ساتھ کہ تم بھی پاک دامن رہنے والے ہو، نہ بدکاری کرنے والے اور نہ چوری چھپے آشنا بنانے والے ۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہود و نصاریٰ اپنے علم اور عمل ،دونوں میں شرک کی نجاست سے آلودہ تھے، لیکن چونکہ وہ اصلاً توحید ہی کو مانتے تھے، یعنی وہ خود کو توحید کے بجاے شرک سے منسوب کرنا ہرگز پسند نہ کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اتنی رعایت کی کہ ان کی پاک دامن عورتوں سے مسلمانوں کو نکاح کی اجازت دے دی۔

یہ معاملہ ان اہل کتاب کا ہے جو نہ صرف علم و عمل کے اعتبار سے شرک میں ملوث تھے، بلکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان بھی نہیں رکھتے تھے، جبکہ مسلمانوں کے سبھی فرقے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ چنانچہ ہمارا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ان فرقوں میں جنھیں ہم شرکیہ اعمال و تصورات میں ملوث دیکھتے ہیں، شادی کرنے میں قانوناً اور شرعاً کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔


غیر زائر ین حرم کی قربانی

سوال: زائرین حرم کے علاوہ عام مسلمان جو اپنے اپنے علاقوں میں قربانی کرتے ہیں، کیا ان کا یہ قربانی کرنا درست ہے، جیسا کہ پاکستان میں کی جاتی ہے؟کیا پاکستان میں قربانی صحیح طریقے سے کی جا رہی ہے؟ (محمد شاکر)

جواب:زائرین حرم کے علاوہ عام مسلمان جو اپنے اپنے علاقوں میں قربانی کرتے ہیں، ان کا یہ قربانی کرنا بالکل درست ہے۔ یہ قربانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔

عَنْ اَنْسٍ... وَضَحّٰی (النَّبِیُّ) بِالْمَدِیْنَۃِ کَبْشَیْنِ اَمْلَحَیْنِ اَقْرَنَیْنِ مُخْتَصَرًا.(بخاری، رقم۱۷۱۲)
’’حضرت انس سے روایت ہے... نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دو سیاہی و سفیدی مائل رنگ کے، سینگوں والے مینڈھوں کو پہلو کے بل لٹا کر، ان کی قربانی کی۔‘‘
اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَ سِنِیْنَ یُضَحِّیْ. (ترمذی، رقم ۱۵۰۷)
’’ (ہجرت کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دس سال رہے اور آپ (ہر سال) قربانی کرتے رہے۔‘‘

پاکستان میں قربانی کا جو طریقہ رائج ہے، یہ عام طور پر احناف کے اصولوں کے مطابق ہے اور اس میں اصولاً کوئی غلطی نہیں ہے۔

 _______________

B