HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: المائدہ ۵: ۳ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ، اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ، وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ، ذٰلِکُمْ فِسْقٌ۔ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ، فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا، فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ، فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۳}
 تم۱۰ پر مردار ۱۱ اور خون ۱۲ اور سؤر کا گوشت ۱۳ اور خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے اور (اِسی کے تحت) وہ جانور بھی جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، جو چوٹ سے مرا ہو، جو اوپر سے گر کر مرا ہو، جو سینگ لگ کر مرا ہو، جسے کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو، ۱۴ سواے اُس کے جسے تم نے (زندہ پا کر) ذبح کر لیا۔ ۱۵ (اِسی طرح) وہ (جانور بھی حرام ہیں) جو کسی آستانے پر ذبح کیے گئے ہوں اور یہ بھی کہ تم (اُن کا گوشت) جوے کے تیروں سے تقسیم کرو۔ ۱۶ (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) یہ سب خدا کی نافرمانی کے کام ہیں۔ یہ منکر اب تمھارے دین کی طرف سے مایوس ہو گئے ہیں، ۱۷ اِس لیے (اِن حرمتوں کے معاملے میں) اِن سے نہ ڈرو، مجھی سے ڈرو۔ تمھارے دین کو آج۱۸ میں نے تمھارے لیے پورا کر دیا ہے ۱۹ اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ ۲۰ (سو میرے اِن احکام کی پابندی کرو)، پھر جو بھوک سے مجبور ہو کر اِن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اِس کے کہ وہ گناہ کا میلان رکھتا ہو تو اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ۲۱ ۳

۱۰؎  یہاں سے آگے اب اُنھی حرمتوں کی تفصیل ہے جن کا حوالہ اوپر ’اِلاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ‘ کے الفاظ میں دیا گیا ہے۔ 

۱۱؎  اصل میں لفظ ’میتۃ‘ آیا ہے۔ یہ اِن احکام میں عرف و عادت کی رعایت سے استعمال ہوا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ عربی زبان میں اِس کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے، لیکن یہ جب اِس رعایت سے بولا جائے تو اردو کے لفظ مردار کی طرح اِس کے معنی ہر مردہ چیز کے نہیں ہوتے۔ اِس صورت میں ایک نوعیت کی تخصیص اِس لفظ کے مفہوم میں پیدا ہو جاتی ہے اور زبان کے اسالیب سے واقف کوئی شخص، مثال کے طور پر، مردہ ٹڈی اور مردہ مچھلی کو اِس میں شامل نہیں سمجھتا۔

۱۲؎  سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۶ میں اِس کے لیے ’دمًا مسفوحًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کا مفہوم وہی ہے جو عام بول چال میں اِن الفاظ سے سمجھا جاتا ہے۔ تلی اور جگر کے متعلق یہ بات اگرچہ کہی جا سکتی ہے کہ یہ بھی درحقیقت خون ہیں، لیکن عرف استعمال کا تقاضا ہے کہ اِن پر اِس کا اطلاق نہ کیا جائے۔ اِسی طرح ’مَسْفُوْحًا‘ کی قید سے معلوم ہوتا ہے کہ رگوں اور شریانوں میں رکا ہوا خون بھی حرمت کے اِس حکم سے مستثنیٰ ہے۔

۱۳؎  یہ انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے۔ اِس لیے یہ سوال پیدا ہوا کہ اِسے کھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے وضاحت فرمائی ہے کہ اِس کا الحاق درندوں سے ہوگا اور اِسے حرام سمجھا جائے گا۔

۱۴؎  اِس سے پہلے ’میتۃ‘ کی حرمت کا جو حکم بیان ہوا ہے، اُس کے بارے میں یہ شبہ بعض ذہنوں میں پیدا ہو سکتا تھا کہ طبعی موت سے مرے ہوئے اور ناگہانی حوادث سے مرے ہوئے جانور میں کیا کچھ فرق کیا جائے گا یا دونوں یکساں مردار قرار پائیں گے؟ قرآن نے جواب دیا ہے کہ دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ 

۱۵؎  اصل میں ’اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’میتۃ‘ کی تفصیل کے بعد اِن الفاظ سے واضح ہے کہ یہ صرف تذکیہ ہی ہے جس سے کسی جانور کی موت اگر واقع ہو تو وہ مردار نہیں ہوتا۔ تذکیہ انبیا علیہم السلام کی قائم کردہ سنت ہے اور بطور اصطلاح جس مفہوم کے لیے بولا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے جانور کو زخمی کر کے اُس کا خون اِس طرح بہا دیا جائے کہ اُس کی موت خون بہ جانے کے باعث ہی واقع ہو۔ جانور کو مارنے کی یہی صورت ہے جس میں اُس کا گوشت خون کی نجاست سے پوری طرح پاک ہو جاتا ہے۔ اِس کا اصل طریقہ ذبح یا نحر ہے۔ ذبح گائے، بکری اور اِن کے مانند جانوروں کے لیے خاص ہے اور نحر اونٹ اور اِس کے مانند جانوروں کے لیے۔ ذبح سے مراد یہ ہے کہ کسی تیز چیز سے حلقوم اور مری (غذا کی نالی) یا حلقوم اور ودجین (گردن کی رگوں) کو کاٹ دیا جائے اور نحر یہ ہے کہ جانور کے حلقوم میں نیزے جیسی کوئی تیز چیز اِس طرح چبھوئی جائے کہ اُس سے خون کا فوارہ چھوٹے اور خون بہ کر جانور بالآخر بے دم ہو کر گر جائے۔

۱۶؎  اوپر خدا کے سوا کسی اور کے نام کا ذبیحہ حرام ٹھیرایا گیا ہے۔ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۶ میں قرآن نے واضح فرمایا ہے کہ اُس کی حرمت کا باعث خود جانور کا ’رجس‘، یعنی ظاہری نجاست نہیں، بلکہ ذبح کرنے والے کا ’فسق‘ ہے۔ خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کرنا چونکہ ایک مشرکانہ فعل ہے، اِس لیے اُسے ’فسق‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ علم و عقیدہ کی نجاست ہے۔ اِس طرح کی نجاست جس چیز کو بھی لاحق ہو جائے، عقل کا تقاضا ہے کہ اُس کا حکم یہی سمجھا جائے۔ قرآن نے یہ دونوں چیزیں اِسی اصول کے تحت ممنوع قرار دی ہیں۔ اِن کے لیے اصل میں ’مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘ اور ’اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِن کی تفسیر لکھتے ہیں:

’’’وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ‘، ’نُصُب‘ تھان اور استھان کو کہتے ہیں۔ عرب میں ایسے تھان اور استھان بے شمار تھے جہاں دیویوں، دیوتاؤں، بھوتوں، جنوں کی خوشنودی کے لیے قربانیاں کی جاتی تھیں۔ قرآن نے اِس قسم کے ذبیحے بھی حرام قرار دیے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ اِن کے اندر حرمت مجرد بارادۂ تقرب و خوشنودی استھانوں پر ذبح کیے جانے ہی سے پیدا ہو جاتی ہے، اِس سے بحث نہیں کہ اِن پر نام اللہ کا لیا گیا ہے یا کسی غیراللہ کا۔ اگر غیر اللہ کا نام لینے کے سبب سے اِن کو حرمت لاحق ہوتی تو اِن کے علیحدہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اوپر ’وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ‘ کا ذکر گزر چکا ہے، وہ کافی تھا۔ ہمارے نزدیک اِسی حکم میں وہ قربانیاں بھی داخل ہیں جو مزاروں اور قبروں پر پیش کی جاتی ہیں۔ اُن میں بھی صاحب مزار اور صاحب قبر کی خوشنودی مدنظر ہوتی ہے۔ ذبح کے وقت نام چاہے اللہ کا لیا جائے یا صاحب قبر و مزار کا، اُن کی حرمت میں دخل نام کو نہیں، بلکہ مقام کو حاصل ہے۔
وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ‘، ’اِسْتِقْسَام‘ کے معنی ہیں حصہ یا قسمت یا تقدیر معلوم کرنا۔ ’ازلام‘ جوے یا فال کے تیروں کو کہتے ہیں۔ عرب میں فال کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ اپنے زعم کے مطابق غیب کے فیصلے معلوم کرتے تھے اور جوے کے تیروں کا بھی رواج تھا جن کے ذریعے سے وہ گوشت یا کسی چیز کے حصے حاصل کرتے تھے۔ ہم سورۂ بقرہ کی تفسیر میں ’خمر و میسر‘ کے تحت بیان کر آئے ہیں کہ عرب شراب نوشی کی مجلسیں منعقد کرتے، شراب کے نشے میں جس کا اونٹ چاہتے ذبح کر دیتے، مالک کو منہ مانگے دام دے کر راضی کر لیتے، پھر اُس کے گوشت پر جوا کھیلتے۔ گوشت کی جو ڈھیریاں جیتتے جاتے، اُن کو بھونتے، کھاتے، کھلاتے اور شرابیں پیتے اور بسااوقات اِسی شغل بدمستی میں ایسے ایسے جھگڑے کھڑے کر لیتے کہ قبیلے کے قبیلے برسوں کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے اور سینکڑوں جانیں اِس کی نذر ہو جاتیں ــــ مجھے خیال ہوتا ہے کہ یہاں ’اِسْتِقْسَام بِالْاَزْلَامِ‘ سے یہی دوسری صورت مراد ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۵۶)

۱۷؎   یعنی اِس بات سے مایوس ہو گئے ہیں کہ وہ اِس دین کو کوئی نقصان پہنچا سکیں گے۔

۱۸؎  اِس ’آج‘ سے مراد کوئی معین دن نہیں ہے، بلکہ وہ زمانہ ہے جس میں یہ سورہ نازل ہوئی ہے۔

۱۹؎  یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پہلی وحی سے جو دین تمھیں دینا شروع کیا تھا، اُسے آج پورا کر دیا ہے۔

۲۰؎  یعنی یہودیت اور نصرانیت کو نہیں، بلکہ اسلام کو پسند فرمایا ہے۔ اِس لیے کہ وہ اللہ کا دین نہیں، بلکہ دین سے انحراف کی مختلف صورتیں ہیں۔

۲۱؎  مطلب یہ ہے کہ اِن محرمات سے استثنا صرف حالت اضطرار کا ہے اور وہ بھی اِس طرح کہ آدمی نہ خواہش مند ہو اور نہ ضرورت کی حد سے آگے بڑھنے والا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔’مَخْمَصَۃ‘ کی قید سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ جہاں دوسرے غذائی بدل موجود ہوں وہاں مجرد اِس عذر پر کہ شرعی ذبیحہ کا گوشت میسر نہیں آتا، جیسا کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر ملکوں کا حال ہے، ناجائز کو جائز بنا لینے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ گوشت زندگی کے بقا کے لیے ناگزیر نہیں ہے۔ دوسری غذاؤں سے نہ صرف زندگی، بلکہ صحت بھی نہایت اعلیٰ معیار پر قائم رکھی جا سکتی ہے۔ ’غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ‘ کی قید اِس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہے کہ رخصت بہرحال رخصت ہے اور حرام بہرشکل حرام ہے۔ نہ کوئی حرام چیز شیر مادر بن سکتی، نہ رخصت کوئی ابدی پروانہ ہے۔ اِس وجہ سے یہ بات کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ رفع اضطرار کی حد سے آگے بڑھے۔ اگر اِن پابندیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شخص کسی حرام سے اپنی زندگی بچالے گا تو اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اگر اِس اجازت سے فائدہ اٹھا کر اپنے حظ نفس کی راہیں کھولے گا تو اِس کی ذمہ داری خود اُس پر ہے۔ یہ اجازت اُس کے لیے قیامت کے دن عذر خواہ نہیں بنے گی۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۵۸)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B