[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:میں نے اپنی بیوی کو غصے میں دی ہوئی تین طلاقوں کے بارے میں علما سے فتویٰ طلب کیا تھا۔ انھوں نے مجھے یہ فتویٰ دیا کہ آپ اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے چکے ہیں۔ لہٰذا اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا سوائے اس کے کہ حلالۂ شرعی کو اختیار کیا جائے۔
ازراہ مہربانی اس فتوے کے بارے میں اپنی راے دیں؟(سید ذوالفقار حسین گیلانی)
جواب:آپ نے اپنے طلاق کے معاملے میں جو فتویٰ حاصل کیا ہے، وہ احناف کے نقطۂ نظر کے مطابق ہے۔ چنانچہ اس کے مطابق آپ کی بیان کردہ صورت میں تین طلاقیں واقع ہو چکی ہیں اور آپ کی بیوی ہمیشہ کے لیے آپ پر حرام ہو چکی ہے حتیٰ کہ حلالۂ شرعی کے بعد وہ آپ سے دوبارہ نکاح کر لے۔
علماے احناف طلاق کے صریح الفاظ بولے جانے کی صورت میں آدمی کی نیت کو کوئی حیثیت نہیں دیتے۔ بہرحال، یہ ان کا نقطۂ نظر ہے۔
استاذ محترم غامدی صاحب غصے سے مغلوب ہو کر دی گئی طلاق کو طلاق شمار نہیں کرتے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا طَلَاقَ وَلَا عِتَاقَ فِیْ غِلَاقٍ.(ابوداؤد،رقم۲۱۹۳)
’’غصے سے مغلوب ہو کر دی ہوئی طلاق موثر ہوتی ہے اور نہ غلام کی آزادی کا فیصلہ۔‘‘
نیز ان کے خیال میں طلاق کا لفظ بولتے وقت آدمی کی نیت طلاق کی تھی بھی یا نہیں یا یہ کہ وہ طلاق کے بارے میں کیا معلومات رکھتا ہے، یہ سب باتیں ان کے نزدیک طلاق کے کسی مقدمے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔
بہرحال، علما کے درمیان آراکایہ اختلاف موجود ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بے معنی چیز ہے۔ امید ہے یہ آپ کا مقصودبھی نہیں ہو گا۔
موجودہ صورت حال میں یہ فیصلہ آپ ہی کے ذمے ہے کہ آپ کو کس فقیہ کی راے کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اگر آپ غامدی صاحب کی راے کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر یہ دیکھ لیجیے کہ طلاق دینے والا ،طلاق دیتے وقت کیا واقعۃً غصے سے مغلوب تھا، اگر آپ اطمینان سے یہ بات کہہ سکتے ہیں تو پھر آپ اس کے مطابق عمل کریں، ورنہ نہیں۔
سوال:میں نے اپنی بیوی کو شدید غصے کی حالت میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ اب میں بہت پریشان ہوں کہ میں کیا کروں؟ ازراہ مہربانی آپ اس کے بارے میں اپنی راے دیں؟ (محمد عمیر فیاض)
جواب: استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے نزدیک غصہ سے مغلوب ہو کر دی گئی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا طَلَاقَ وَلَا عِتَاقَ فِیْ غِلَاقٍ.(ابوداؤد،رقم۲۱۹۳)
’’غصے سے مغلوب ہو کر دی ہوئی طلاق موثر ہوتی ہے اور نہ غلام کی آزادی کا فیصلہ۔‘‘
سوال: سورۂ بقرہ (۲:۵۴) میں بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ ’فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ (اپنے نفسوں کو قتل کرو) اس حکم کا کیا مطلب ہے؟
۱۔ کیا اس سے خود کشی مراد ہے؟
۲۔ ایک دوسرے کو قتل کرنا مراد ہے؟
۳۔ نفس امارہ کو قتل کرنا، یعنی مجاہدۂ نفس کرنا مراد ہے؟
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس حکم کے بعد اسی سورہ کی دوسری آیت میں بنی اسرائیل پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ ’ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ‘ ’’پھر یہ تمھی لوگ ہو جو اپنوں کو قتل کرتے ہو اور اپنے ہی ایک گروہ کو ان کی بستیوں سے نکالتے ہو‘‘(۲:۸۵)، اس تضاد کی کیا وضاحت ہے؟(قاری محمد اسحاق)
جواب:’فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ کی آیت ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل کے گوسالہ پرستی کے جرم سے متعلق ہے۔ چنانچہ پہلی بات یہ ہے کہ بچھڑے کی پرستش بنی اسرائیل کے سارے لوگوں نے نہیں کی تھی، بلکہ ان میں سے ایک گروہ نے یہ مشرکانہ اقدام کیا تھا، جیسا کہ درج ذیل دو آیات سے پتا چلتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ.(الاعراف۷: ۱۵۲)
’’بے شک جن لوگوں نے بچھڑے کو معبود بنایا ہے، انھیں عنقریب ان کے رب کی طرف سے غضب لاحق ہو گا۔‘‘
اَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا.(الاعراف۷: ۱۵۵)
’’(موسیٰ نے کہا) کیا تو ہمیں ایسے جرم کی پاداش میں ہلاک کر دے گا جس کا ارتکاب ہمارے اندر کے بے وقوفوں نے کیا ہے۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے متعلق زیر بحث آیت کا پورا مضمون درج ذیل ہے :
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِءِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.(البقرہ۲: ۵۴)
’’اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم کے لوگو، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو اور خود اپنے (مجرموں) کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرو، یہ تمھارے لیے تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے پھر وہ تمھاری طرف متوجہ ہوا۔ بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
اگر قرآن مجید کی اس بات کو ہم ملحوظ رکھیں کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے بچھڑے کی پرستش کا جرم کیا تھا تو پھر اس درج بالا آیت کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ اے بنی اسرائیل، تم خود اپنے مجرموں کو قتل کرو۔
اور پھر مزید یہ بات بھی ہے کہ اگر ہم ’فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ‘ میں ’اَنْفُسَکُمْ‘ سے ’’اپنے مجرموں کو‘‘ کے بجاے ’’تم سب اپنے آپ کو‘‘ مراد لیں تو پھر اس سزا میں نیک و بد اور صالح و مجرم، دونوں شامل ہو جاتے ہیں جو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے۔
سوال: سورۂ آل عمران میں اہل کتاب کے بعض افراد کے بارے میں تحسین اور تعریف کے کچھ کلمات ہیں اور ان کے ایمان دار ہونے کا ذکر موجود ہے، مثلاً ’یَتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ‘،’یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ‘ اور ’اُولٰٓءِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ‘۔ کیا قرآن مجید کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان نہ لانے کے باوجود صالح اور مومن ہی قرار دیے جا رہے ہیں؟
کیا ان کا یہ مومن اور صالح ہونا صرف عنداللہ ہے، یعنی آخرت کے حوالے سے ہے یا پھر دنیوی قانون کے لحاظ سے بھی وہ مومن اور صالح ہی متصور ہوں گے؟
اگر وہ دنیوی پہلو سے بھی مومن ہی ہوں گے تو پھر کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اس کے اخلاقی حدود و قیود کو مانتا ہے اور اللہ کے پیغمبروں میں سے کسی ایک کو بھی مانتا ہے تو وہ شخص مومن ہو گا، جیسا کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کی درج ذیل آیات سے یہ بات ثابت بھی ہوتی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ.(۲: ۶۲)
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْْءًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ.(۳: ۶۴) (قاری محمد اسحاق)
جواب: اہل کتاب کے بارے میں تحسین اور تعریف کے جن کلمات کا آپ نے ذکر کیا ہے، انھیں ان کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھیے تو وہ اشکال رفع ہو جاتا ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔ یہ آیات درج ذیل ہیں:
وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِحَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ.
لَیْسُوْا سَوَآءً، مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ، یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَاُولٰٓءِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ، وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ، وَاللّٰہُ عَلِیمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ.(آل عمران۳: ۱۱۲۔۱۱۵)
’’اور ان(یہود) پر پست ہمتی تھوپ دی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی آیتوں کا انکار اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں، کیونکہ یہ نافرمان اور حد سے آگے بڑھنے والے رہے ہیں۔
سب اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ عہد پر قائم ہے۔ یہ رات کے اوقات میں اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے اور سجدہ کرتے ہیں، اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، معروف کا حکم دیتے، منکر سے روکتے اور بھلائی کے کاموں میں سبقت کرتے ہیں اور یہ لوگ نیکو کاروں میں سے ہیں۔ جو نیکی بھی یہ کریں گے تو اس سے محروم نہیں کیے جائیں گے اور اللہ خدا ترسوں سے باخبر ہے۔‘‘
ان آیات میں جن صالح اہل کتاب کا ذکر ہے، ظاہر ہے وہ لوگ انھی آیات میں بیان کردہ غیر صالح اہل کتاب کے بالکل برعکس ہیں، یعنی نہ یہ لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرنے والے تھے اور نہ یہ اس کے نبیوں کی تکذیب کرنے والے تھے۔ چنانچہ مفسرین نے یہ بات واضح کی ہے کہ ان صالح اہل کتاب میں سے بعض نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر علانیہ ایمان لا چکے تھے اور بعض دل سے ایمان لا چکے تھے، لیکن ابھی انھوں نے اس کا اظہار نہیں کیا تھا۔
اور ایسا کیوں نہ ہوتا، کیونکہ ان کی اپنی کتابوں کے مطابق یہ لازم تھا کہ وہ اس نبی امی پر ایمان لائیں جسے وہ اپنی کتاب میں لکھا ہوا پاتے تھے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ، اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ.(الاعراف۷: ۱۵۶۔۱۵۷)
’’اور میری رحمت ہر چیز کو عام ہے، سو میں اس کو ان لوگوں کے لیے لکھ رکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے اور زکوٰۃ دیتے رہیں گے اور جو ہماری آیات پر ایمان لائیں گے۔ جو پیروی کریں گے، اس نبی امی رسول کی جسے وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘
چنانچہ قرآن مجید نے جن اہل کتاب کی تعریف کی ہے اور جو واقعی صالحین تھے، وہ اس نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔
اور پھر وہ ایمان کیوں نہ لاتے ، جبکہ سورۂ مائدہ میں انھیں یہ بتا دیا گیا تھا کہ اس نبی پر ایمان لائے بغیر چارہ نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ.(۵: ۶۸)
’’کہہ دو اے اہل کتاب، تمھاری کوئی بنیاد نہیں ہے جب تک تم تورات، انجیل اور اس چیز کو قائم نہ کرو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے، لیکن وہ چیز جو تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتاری گئی ہے، وہ ان میں سے بہتوں کی سر کشی اور ان کے کفر میں اضافہ کرے گی تو تم اس کافر قوم پر غم نہ کرو۔‘‘
اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اہل کتاب کے لیے اپنی کتابوں کو ماننا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی لائی ہوئی کتاب پر ایمان لانا ضروری تھا۔
چنانچہ یہ خیال تو باطل محض ہے کہ اہل کتاب کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں تھا۔
رہا سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۶۲ کا معاملہ تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ یہود و نصاریٰ کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں تھا یا آج نہیں ہے، کیونکہ یہ مفہوم تو بنی اسرائیل کے بارے میں قرآن کی اس ساری دعوت کے خلاف ہو گا جس سے متعلق بعض آیات کا ابھی ہم نے مطالعہ کیا ہے۔
سورۂ بقرہ کی اس آیت کا صحیح مفہوم جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اسے اس کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا جائے۔
استاذ محترم غامدی صاحب نے ان آیات کا ترجمہ و تفسیر ،اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ میں درج ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے:
وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ. اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ.(البقرہ۲: ۶۱۔۶۲)
’’(وہ یہی کرتے رہے) اور اُن پر ذلت اورمحتاجی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کا غضب کما لائے۔ یہ اِس وجہ سے ہواکہ وہ اللہ کی آیتوں کو نہیں مانتے تھے اور اُس کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے ۔یہ اِس وجہ سے ہوا کہ اُنھوں نے نافرمانی کی اور وہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی کسی حد پر نہ رہتے تھے۔
(اِس سے واضح ہے کہ جزا و سزا کا قانون بالکل بے لاگ ہے۔ لہٰذا) وہ لوگ جو (نبی امی پر)ایمان لائے ہیں اور جو (ان سے پہلے) یہودی ہوئے اور جو نصاریٰ اور صابی کہلاتے ہیں، اُن میں سے جن لوگوں نے بھی اللہ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کو مانا ہے اور نیک عمل کیے ہیں ، ان کا صلہ (ان کے) پروردگار کے پاس ہے اور (اُس کے حضور میں) اُن کے لیے کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ وہ کوئی غم (وہاں) کھائیں گے۔‘‘
آیات کی شرح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’یعنی یہ ذلت اور مسکنت اس لیے ان پر تھوپی گئی کہ انھوں نے پے در پے جرائم کا ارتکاب کیا اور اپنی سر کشی اور تعدی کے باعث ہر حد توڑ دی ،یہاں تک کہ اللہ کے نبیوں تک کو قتل کر ڈالا۔... قرآن نے واضح کر دیا کہ ان کے انبیا کی اولاد ہونے کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان جرائم کے بعد انھیں چھوڑ نہیں دیا ، بلکہ ان کی پاداش میں انھیں پکڑا اور اسی دنیا میں ان کے جرائم کی سزا اُنھیں دی ۔
... اس (سلسلہ آیات) میں قرآن نے نہایت غیر مبہم طریقے پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کو فلاح محض اس بنیاد پر حاصل نہ ہو گی کہ وہ یہود و نصاریٰ میں سے ہے یا مسلمانوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا صابی ہے ، بلکہ اس بنیاد پر حاصل ہو گی کہ وہ اللہ کو اور قیامت کے دن کو فی الواقع مانتا رہا ہے اور اس نے نیک عمل کیے ہیں۔ ہر مذہب کے لوگوں کو اسی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ،اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ ہو گا۔ یہود کا یہ زعم محض زعم باطل ہے کہ وہ یہودی ہونے ہی کو نجات کی سند سمجھ رہے ہیں۔ یہ بات ہوتی تو اللہ دنیا میں بھی ان کے جرائم پر ان کا مواخذہ نہ کرتا، لہٰذا وہ ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب و ملت کے پیرو ، ان میں سے کوئی بھی محض پیغمبروں کو ماننے والے کسی خاص گروہ میں شامل ہو جانے سے جنت کا مستحق نہیں ہو جاتا، بلکہ اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان اور عمل صالح ہی اس کے لیے نجات کا باعث بنتا ہے۔
... (ان آیات میں نجات کی) یہ بشارت، ظاہر ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ آدمی نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو جو ایمان اور عمل صالح کے باوجود اسے جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے ، مثلاً : کسی بے گناہ کو قتل کر دینا یا جانتے بوجھتے اللہ کے کسی سچے پیغمبر کو جھٹلا دینا۔‘‘
چنانچہ سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۶۲ میں کسی بھی شخص کے لیے نبوت کو جانتے بوجھتے نہ ماننے کی کوئی اجازت نہیں ہے، بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نجات کے لیے کسی پیغمبر کا پیرو کار کہلانا ہی کافی نہیں، اس کے ساتھ اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان لانا اور نیک اعمال کرنا بھی ضروری ہے۔
اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس میں اللہ نے یہ بتایا ہے کہ کسی نہ کسی پیغمبر کو مان لو، خواہ باقی پیغمبروں کی جان بوجھ کر تکذیب کر دو یا ان سے بے اعتنائی برت لو اور ان کی دعوت قبول نہ کرو، تمھاری بخشش بہرحال، ہو جائے گی۔
اسی طرح سورۂ آل عمران کی درج ذیل آیت سے بھی یہ مراد نہیں کہ اہل کتاب صرف توحید میں مسلمانوں سے اشتراک کر لیں تو وہ کافی ہو گا، بلکہ اس آیت میں تو اس مشترک بنیاد کی طرف دعوت دی گئی ہے جس پر اگر وہ کھڑے ہو جاتے ہیں تو اب آگے ان کو نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی جاسکتی ہے۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ اَلاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْْءًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ.(۳: ۶۴)
’’کہہ دو اے اہل کتاب ،اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں مشترک ہے، یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا رب ٹھہرائے۔ اگر وہ اس چیز سے اعراض کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو مسلم ہیں۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’... توحید کے متعلق قرآن مجید کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ اہل کتاب اور مسلمانوں کے درمیان یکساں مشترک و مسلم ہے۔قرآن نے اسی مشترک کلمہ کو بنیاد قرار دے کر ان سے بحث کا آغاز کیا ہے کہ جب توحید ہمارے اور تمھارے درمیان ایک مشترک حقیقت ہے تو موازنہ کرو کہ اس قدر مشترک کے معیار پر قرآن اور اسلام پورے اترتے ہیں یا یہودیت اور نصرانیت؟
بحث کا یہ طریقہ قرآن کے اس قرار دادہ طریقے کے بالکل مطابق ہے جس کی اس نے آیت ’اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ‘ (اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ سے دعوت دو) میں تلقین فرمائی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۱۱۲)
سوال: بواسیر کی بیماری کی وجہ سے کپڑے خراب ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ نماز پڑھنے کے بارے میں بتائیے کہ وہ کیسے پڑھی جائے؟(محمد عامر شہزاد)
جواب: ہر نماز کے موقع پر استنجا کریں، کپڑے کے ناپاک حصے دھو لیں، وضو کریں اور نماز پڑھیں۔ دوران نماز بیماری کی وجہ سے اگر کچھ خرابی ہو تو اس کی پروا نہ کریں اور نماز مکمل کریں۔
سوال:کیا اسلام میں موسیقی حرام ہے ؟(عبد الرحمن میمن)
جواب:اسلام میں موسیقی حرام نہیں ہے، البتہ اگر موسیقی کے ساتھ کچھ حرام چیزیں (شراب و کباب اور فحش رقص و سرود وغیرہ) شامل ہو جائیں تو پھر وہ حرام ہو گی۔ اسی طرح اگر موسیقی کی دھن ہی ایسی ہے کہ وہ انسان کے اندر سفلی جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے تو ایسی موسیقی بھی اپنی دھن کی شناعت کے درجے کے مطابق مکروہ یا حرام ہو گی۔
اگر معاملہ یہ ہے کہ نہ موسیقی کی دھن وغیرہ میں کوئی خرابی ہے اور نہ اس کے ساتھ کسی حرام چیز ہی کی آمیزش ہے تو پھر اس صورت میں موسیقی جائز ہو گی، لیکن اس جائز موسیقی کا بھی ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ کہ اس میں زیادہ اشتغال انسان کے تزکیے کے عمل کو خراب کرتا اور اسے خدا سے غافل کرتا ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ موسیقی میں اشتغال کو اشتغال بالادنیٰ (کم تر درجے کی چیز میں مشغول ہونا) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
چنانچہ موسیقی جائز تو ہے، لیکن اس درج بالا ساری بات کے مطابق ہی موسیقی کے جواز کا مفہوم طے کرنا چاہیے۔
سوال: اگر ہم بنک میں رقم جمع کرائیں اور اس پر ملنے والے سود کو غربا میں تقسیم کردیں تو کیا یہ صحیح اور جائز ہو گا؟(صبیحہ خان)
جواب: بنک میں جمع شدہ رقم پر ملنے والے سارے سود کو بغیر ثواب کی نیت سے، اگر آپ غربا میں تقسیم کر دیں تو یہ درست اور جائز ہے۔
سوال:کیا میں اپنے تیرہ سالہ بیٹے کے ساتھ حج پر جا سکتی ہوں، یعنی اس کے ساتھ ہونے سے کیا میرے لیے محرم کی شرط پوری ہو جاتی ہے؟(صبیحہ خان)
جواب: استاذ محترم غامدی صاحب کے نزدیک اس زمانے میں چونکہ عورت کے لیے سفر محفوظ ہو گیا ہے۔ لہٰذا غیرمحفوظ سفروں کے زمانے میں محرم کے ساتھ ہونے کی جو ہدایت دی گئی تھی، ان حالات میں اب اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔
محرم کی شرط کے ضمن میں ائمۂ اربعہ میں بھی اختلاف موجود تھا۔امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک اگر عورت کو محفوظ رفاقت میسر آ جائے تو وہ حج کے لیے جا سکتی ہے، اس کے ساتھ محرم کا ہونا ضروری نہیں ہے، جبکہ امام ابو حنیفہ محرم کے وجود کو لازم قرار دیتے ہیں۔
_________________