بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ، اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْْکُمْ، غَیْْرَ مُحِلِّی الصَّیْْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ، اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ{۱}
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَاٰمَنُوْا لاَ تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَلاَ الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْہَدْیَ وَلاَ الْقَلَآئِدَ وَلَآ آٰمِّیْنَ الْبَیْْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا، وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا، وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا، وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی، وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ{۲}
ایمان والو، (اپنے پروردگار سے باندھے ہوئے سب) عہد و پیمان پورے کرو۔۱ تمھارے لیے مویشی کی قسم کے تمام چوپائے۲ حلال ٹھیرائے گئے ہیں،۳ سواے اُن کے جو تمھیں بتائے جا رہے ہیں۔ لیکن احرام کی حالت میں شکار کو حلال نہ کر لو۔۴ (یہ اللہ کا حکم ہے اور) اللہ جو چاہتا ہے، حکم دیتا ہے۔۵ ۱
ایمان والو، اللہ کے شعائر ۶ کی بے حرمتی نہ کرو، نہ حرام مہینوں کی، نہ ہدی۷ کے جانوروں کی، نہ (اُن میں سے بالخصوص) اُن جانوروں کی جن کے گلے میں نذر کے پٹے بندھے ہوئے ہوں، اور نہ بیت الحرام کے عازمین کی جو اپنے پروردگار کی عنایتوں اور اُس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ہاں، جب احرام کی حالت ختم ہو جائے تو شکار کر سکتے ہو۔ تمھارے لیے مسجد حرام کا راستہ کچھ لوگوں نے بند کر دیا تھا تو (اُن کے اسلام قبول کر لینے کے بعد اب) اُن کے ساتھ اِس بنا پر تمھاری دشمنی بھی تمھیں ایسا مشتعل نہ کر دے کہ تم حدود سے تجاوز کرو (نہیں، ہر حال میں حدود الٰہی کے پابند رہو)۸ اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں تعاون کرو، مگر گناہ اور زیادتی میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔۹ ۲
۱؎ اِس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو ایمان و اسلام کی دعوت قبول کر لینے کے بعدہر بندۂ مومن اپنے پروردگار سے اُس کی شریعت کی پابندی کے لیے باندھ لیتا ہے۔
۲؎ اصل میں ’بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ’اَنْعَامٌ‘ کا لفظ عربی زبان میں بھیڑ بکری، اونٹ اور گاے بیل کے لیے معروف ہے۔ اِس کی طرف ’بَھِیْمَۃٌ‘ کی اضافت سے اِس میں انعام کی قسم کے وحشی چوپائے، یعنی ہرن وغیرہ بھی شامل ہو گئے ہیں۔
۳؎ یعنی اُن کا حلال ہونا واضح کر دیا گیا ہے اور وہ تمام پابندیاں جو لوگوں نے اپنے اوہام کی بنا پر یا پچھلے صحیفوں کی کسی روایت کی بنا پر اپنے اوپر عائد کر رکھی تھیں، ختم ہو گئی ہیں۔
۴؎ اصل الفاظ ہیں: ’غَیْْرَ مُحِلِّی الصَّیْْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ‘۔ مطلب یہ ہے کہ تمام چوپائے حلال ہیں، مگر اِس پابندی کے ساتھ کہ حالت احرام میں شکار کو جائز کر لینے والے نہ بن جانا۔ یہ بالکل اُسی نوعیت کا حکم ہے جو یہود کو سبت سے متعلق دیا گیا تھا۔
۵؎ اِس طرح کے احکام ابتلا اور امتحان کے لیے دیے جاتے ہیں۔ اِن میں بندوں کی مصلحت واضح نہیں ہوتی، اِس لیے جب تک یہ عقیدہ محکم نہ ہو کہ خدا حاکم مطلق ہے اور اُس کا کوئی حکم مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، اُس وقت تک پوری وفاداری کے ساتھ کوئی شخص اُن کی تعمیل نہیں کر سکتا۔
۶؎ یہ ’شعیرۃ‘ کی جمع ہے جس کے معنی علامت کے ہیں۔ اصطلاح میں اِس سے مراد وہ مظاہر ہیں جو اللہ اور رسول کی طرف سے کسی حقیقت کا شعور قائم رکھنے کے لیے بطور ایک نشان کے مقرر کیے گئے ہوں، مثلاً حجر اسود، استلام اور رمی وغیرہ۔
۷؎ یہ لفظ قربانی کے اُن جانوروں کے لیے آتا ہے جو ہدیے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لیے بیت الحرام لے جائے جاتے ہیں۔
۸؎ مدعا یہ ہے کہ یہ اللہ کی حرمتیں ہیں، اِن کے توڑنے میں پہل ایک بدترین جرم ہے۔ اِس کا ارتکاب کسی حال میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بیت الحرام پر حملہ خدا کے گھر پر حملہ ہے، جن جانوروں کے گلے میں خدا کی تخصیص کے پٹے بندھ گئے ہیں اور جو اللہ کے بندے اُس کے فضل اور اُس کی خوشنودی کی تلاش میں رخت سفر باندھ کر نکلے ہیں، اُن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہونا خود اللہ، پروردگار عالم سے تعرض کرنے کے مترادف ہے۔ اِس وجہ سے کسی قوم کی دشمنی بھی مسلمانوں کو اِس پر آمادہ نہ کرے کہ وہ اِس معاملے میں حدود سے تجاوز کریں۔ اُن پر واضح رہنا چاہیے کہ جو پروردگار اپنے عہد و میثاق سے قوموں پر کرم فرماتا اور اُنھیں سرفرازی بخشتا ہے، اُس کے ہاں اِس عہد و میثاق کے توڑنے کی پاداش بھی بڑی ہی سخت ہے۔
۹؎ یہ ایک دوسرے پہلو سے اُسی بات کی تاکید ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔یعنی جس گروہ کو اللہ نے دنیا میں نیکی اور تقویٰ قائم کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، اُس کے لیے پسندیدہ روش یہ نہیں ہے کہ وہ دوسروں کی زیادتیوں سے مشتعل ہو کر خود اُسی طرح کی زیادتیاں کرنے لگے۔ وہ ایسا کرے تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ اُس نے گناہ اور زیادتی کے کام میں تعاون کیا اور شریروں نے برائی کی جو نیو جمائی، اُس پر اُس نے بھی چند ردّے رکھ دیے، حالاں کہ اُس کا کام نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرنا تھا۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۵۵)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ