عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِّیِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْجَرَادُ مِنْ صَیْدِ الْبَحْرِ.۱
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹڈی صید البحر (بحری شکار کے حکم) میں ہے۔
عَنْ أَبِیْہُرَیْرَۃَ قَالَ: أَصَبْنَا صِرْمًا مِنْ جَرَادٍ فَکَانَ رَجُلٌ مِنَّا یَضْرِبُ بِسَوْطِہِ وَہُوَ مُحْرِمٌ فَقِیْلَ لَہُ: إِنَّ ہٰذَا لَا یَصْلُحُ فَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّمَا ہُوَ مِنْ صَیْدِ الْبَحْرِ.۲
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ ہمیں ٹڈی کا ایک جھنڈ ملا۔ ہم میں سے ایک شخص انھیں کوڑے سے مارنے لگا، جبکہ وہ احرام باندھے ہوئے تھا۔ اسے لوگوں نے بتایا کہ احرام میں ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ اس بات کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ تو بس دریائی شکار کے حکم میں ہے ۔۱
۱۔ ان روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ اگر حاجی یا عمرہ کرنے والا حالت احرام میں ٹڈی کو پکڑے اور کاٹ کر کھالے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ،کیونکہ ٹڈی کے شکار کا حکم وہی ہے جو دریائی جانور کے شکار کا حکم ہے ۔قرآن مجید میں حالت احرام میں صید البحر (پانی کے جانوروں کا شکار)اور اس کے کھانے کو حلال کیا گیا ہے (المائدہ۵: ۹۶)۔ چنانچہ یہ روایتیں یہ کہہ رہی ہیں کہ خشکی کے ایک جانور ٹڈی کو پانی کے جانوروں کی طرح سمجھا جائے۔یہ بات بظاہر درست نہیں لگتی کہ اللہ نے خشکی کے شکار کو حالت احرام میں حرام کیا ہے ، جبکہ یہ روایتیں اسے حلال کررہی ہیں۔علما کے ایک گروہ نے انھیں ضعیف ہونے کی بنا پر بناے استدلال نہیں بنایا، لیکن ایک گروہ نے ان کی توجیہات کی ہیں، جن میں سے چند معروف درج ذیل ہیں :
ا۔ چونکہ ٹڈی اور مچھلی دونوں ’میتۃ‘ (مردار) کے حکم میں ایک ہیں ، اس لیے صید کے حکم میں بھی مشترک ہوں گی۔ (مرقاۃ المفاتیح۵/ ۵۹۷)
ب۔ ’اَلْجََرَادُ نَثْرَۃُ الْحُوْتِ‘، ’’ٹڈی مچھلی کی چھینک ہے‘‘ (شرح الزرقانی ۲/ ۴۷۳)۔ یہ کیڑوں کی طرح مچھلی سے پیدا ہوتی ہے (مرقاۃ المفاتیح۵/ ۵۹۷)۔ اس لیے ان کا حکم بھی ایک جیسا ہو گا۔ یہ الفاظ کہ ’اَلْجََرَادُ نَثْرَۃُ الْحُوْتِ‘ (ٹڈی مچھلی کی چھینک ہے) سنن ابن ماجہ، رقم۳۲۲۱ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان ہوئے ہیں، یہ روایت، ان شاء اللہ، ہم الگ سے زیر بحث لائیں گے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ زیر بحث کوئی ٹڈی اسی طرح پانی سے پیدا ہوتی ہو، جس طرح مچھر کا انڈا تمام مراحل پانی کے اندر گزارتا ہے۔ حالانکہ وہ خشکی کا جانور ہے، لیکن میری معلومات کی حد تک ، جراد (locust)کے مراحل پیدایش اور نمومیں پانی کا دخل محض نمی کی حد تک ہی ہے۔اسی طرح یہ بات بھی ثابت نہیں ہے کہ وہ مچھلی کے جسم میں کہیں نمو پاتی ہے ، اور چھینکنے سے باہر آجاتی ہے۔
چھینکنے کا عمل اس جملے میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ بطور تشبیہ آیا ہے ۔ بڑی مچھلیوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ پانی کو جب منہ سے نکالتی ہیں تو ایک تیز پھوار سی فضا میں پھیل جاتی ہے۔ ٹڈی دل کے پھیلنے کی صورت بھی ایسی ہی ہے۔ اس صورت کی بنا پر یہ تشبیہ دی گئی ہے۔ٹڈی دل کے حملے کے وقت ایسے ہی لگتا ہے کہ جیسے ٹڈیاں زور سے دھکیلی گئی ہیں۔ جیسے ان کو ایک طرف سے چھینکا گیا ہو۔
ج۔یہ دونوں تذکیہ کی محتاج نہیں ہیں، اس لیے دونوں کا حکم صید کے معاملے میں بھی ایک ہو گا(فیض القدیر ۳/ ۳۵۵)۔
د۔ جراد (ٹڈی)کی دو قسمیں ہیں: ایک برّی اور ایک بحری، دونوں کے لیے الگ الگ حکم ہو گا۔بحری میں کفارہ نہیں ہے اور برّی میں کفارہ ہو گا۔(مرقاۃ المفاتیح۵/ ۵۹۷)
آخری راے سب سے زیادہ محکم اور واضح نظر آتی ہے ،لیکن اس موضوع کی تمام روایات جمع کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ روایتوں میں زیر بحث ٹڈی برّی ہے نہ کہ بحری۔ہمارے خیال میں اصل سوال یہ ہے کہ برّی و بحری، دونوں طرح کے شکار میں کیا فرق ہے؟ کیا وجہ ہے کہ سمندری جانور مارنا حالت احرام میں جائز ہے اور خشکی کا جانور مارنا حرام ۔ظاہر ہے، دونوں طرح کے جانور وں میں زندگی موجود ہے، اس لیے کیا صید میں جانور کی جان لینا وجہ حرمت نہیں ہے؟ کیونکہ اگر جان لے لینا وجہ حرمت ہوتا تو سمندری شکارمیں بھی تو جان لی جارہی ہے، پھر وہ کیوں ناجائز نہیں ہے۔ اگر جان لینا ہی منع ہے تو پھر یقیناً یہ ماننا پڑے گا کہ ان دونوں کی جان لینے یا جان کی نوعیت میں کوئی جوہری فرق ہے ، جس کی وجہ سے ایک حرام قرار دی گئی او ر دوسری حلال ، ایک فرق تو دم مسفوح ہے ، وہ برّی جانوروں میں جان لیتے وقت بہتا ہے اور بحری میں نہیں اور یہی معاملہ ٹڈی کا ہے۔ اس کے حوت کے حکم کے تحت آنے کی شاید یہی وجہ ہو۔ بہرحال، یہ رواییتں ضعیف ہیں، ان سے کسی قسم کا حکم واجب نہیں ہوتا، او ر ان کا ظاہر قرآن کی صریح نص کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں برّی اور بحری شکار کے لیے احکام ان الفاظ میں آئے ہیں :
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْتُلُوا الصَّیْْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ہَدْیًا بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِّیَذُوْقَ وَبَالَ اَمْرِہٖ عَفَا اللّٰہُ عَمَّا سَلَفَ وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّٰہُ مِنْہُ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ. اُحِلَّ لَکُمْ صَیْْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ وَحُرِّمَ عَلَیْْکُمْ صَیْْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْْہِ تُحْشَرُوْنَ.(المائدہ۵: ۹۵۔ ۹۶)
’’اے ایمان والو، حالت احرام میں شکار نہ مارو، اور تم میں سے جس نے اس حالت میں عمدًا شکار کیا ، تو اسے بدلے میں ویسا ہی جانور چوپایوں میں سے دینا ہوگا، جیسا اس نے مارا ہے، جس کے بارے میں (صحیح متبادل ہونے کا )فیصلہ دو معتبر قسم کے آدمی کریں گے ، اور یہ ہدی کے طور پر کعبہ تک پہنچے گا یاکفارہ دینا ہوگا مسکینوں کا کھانا یا اس کے برابر روزے رکھنے ہوں گے تاکہ وہ اپنے کیے کا وبال چکھے۔جو ہو چکا اللہ نے اسے معاف کیا، لیکن اب جو کرے گا تو اللہ اس سے انتقام لے گا، اور اللہ سب سے طاقت ور اور انتقام والا ہے۔ تمھارے لیے دریا کا شکا ر اور اس کا کھانا حلا ل رکھا گیا ہے۔ تمھارے اور قافلوں کے زاد راہ کے لیے اور خشکی کا شکار، البتہ تمھارے لیے حرام ہے جب تک کہ تم حالت احرام میں ہو اور اللہ سے ڈرو، جس کے پاس تم سب اکٹھے کیے جاؤ گے۔‘‘
۱۔ یہ روایت سنن ابی داؤد، رقم ۱۸۵۳ میں وارد ہوئی ہے، یہ اپنی سند میں ضعیف ہے ۔ اس لیے اس سے حکم اخذ نہیں کیا جائے گا۔ ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت درج ذیل مقامات پر بھی آئی ہے ۔سنن ابی داؤد، رقم ۱۸۵۵؛ سنن البیہقی الکبریٰ، رقم۹۷۹۵۔
۲۔ یہ روایت سنن ابی داؤد، رقم۱۸۵۴ ہے۔ یہ بھی ضعیف ہے، مگر مختلف مضمون کی ہے، اس لیے اسے یہاں نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں ہے ۔ یہی واقعہ کچھ مختلف الفاظ میں یوں بھی آیا ہے: ’کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْ حَجٍّ وَعُمْرَۃٍ فَاسْتَقْبَلْنَا وَقَالَ عَفَّانُ فَاسْتَقْبَلَنَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ فَجَعَلْنَا نَضْرِبُہُنَّ بِعِصِیِّنَا وَسِیَاطِنَا وَنَقْتُلُہُنَّ وَأُسْقِطَ فِیْ أَیْدِیْنَا فَقُلْنَا: مَا نَصْنَعُ وَنَحْنُ مُحْرِمُوْنَ فَسَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لَا بَأْسَ بِصَیْدِ الْبَحْرِ‘۔ مسند احمد، رقم ۸۰۴۶، ۸۷۵۰، ۸۸۵۸، ۹۲۶۵؛ سنن ابن ماجہ، رقم۳۲۲۲؛ سنن الترمذی، رقم ۸۵۰؛ سنن ابی داؤد، رقم۱۸۵۳، ۱۸۵۴؛ سنن البیہقی الکبریٰ، رقم ۹۷۹۶۔ (ہم کسی حج و عمرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہماری طرف ٹڈیاں اور عفان کے الفاظ میں ٹڈی دل ہماری طرف بڑھا، ہم انھیں لکڑیوں اور کوڑوں سے مارنے لگے، ہم انھیں مار رہے تھے اور وہ ہمارے ہاتھوں میں آپڑیں تو یکایک ہمیں خیال ہوا کہ یہ ہم کیا کررہے ہیں ،ہم تو احرام میں ہیں، پھر ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: بحری شکار میں کچھ حرج نہیں ہے۔)مسند احمد کی یہ روایت رقم ۸۸۵۸ ’لَا بَأْسَ‘ کے الفاظ پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس میں ’بِصَیْدِ الْبَحْرِ‘ کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ روایت قرآن کی تصریح کے مطابق ہے ۔ اس لیے کہ ان اصحاب نے خطا سے ٹڈیوں کو مارا تھا اور قرآن میں یہ بات واضح الفاظ میں موجود ہے کہ خطا پر کفارہ واجب نہ ہو گا، مذکورہ بالا آیت کے یہ الفاظ اسی پر دلالت کررہے ہیں کہ ’وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا‘ (اور تم میں سے جس نے عمدًا شکار مارا)، ان الفاظ سے واضح ہے کہ خطا سے ایسا کرنے والے کے بارے میں کفارے کا حکم نہیں ہے، اس لیے یہ بات درست ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی کفارہ عائد نہیں ہوا۔
________________