[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال: جہیز کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر کیا ہے؟(محمد عمر بن عبداللہ)
جواب: شادی کے موقع پر والدین کا اپنی بیٹی کو جہیز دینا ایک معاشرتی رسم و رواج ہے۔ دین نہ اسے نکاح کی کوئی شرط قرار دیتا ہے اور نہ اس پر کوئی پابندی لگاتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ طریقہ بھی درست ہے کہ لڑکے کی طرف سے دی گئی مہر کی رقم ہی سے یہ جہیز خرید لیا جائے اور یہ بھی درست ہے کہ لڑکی کے والدین اپنی خوشی اور سہولت سے بیٹی کو بطور جہیز جو دینا چاہیں، وہ دیں۔ دین کو اس پر نہ کوئی اعتراض ہے اور نہ وہ اس کی کوئی ترغیب ہی دیتا ہے۔
البتہ، یہ ایک اہم بات ہے کہ اگر یہ جہیز ایک ایسی رسم کی صورت اختیار کر جائے جو معاشرے میں ظلم و زیادتی اور دیگر مفاسد کا باعث بن جائے، اس کے نتیجے میں شادی بیاہ مشکل ہو جائے، جیسا کہ ہمارے معاشرے کی صورت حال ہے تو پھر دین اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا اور مسلمانوں کو یہ ترغیب دلاتا ہے کہ وہ اس میں موجود خرابیوں کو لازماً دور کریں۔
سوال:کیا ریاست زکوٰۃ کے نصاب میں تبدیلی کر سکتی ہے؟ (اے کے فریدی)
جواب: استاد محترم غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق زکوٰۃ کے نصاب میں ریاست اجتہاد کر سکتی ہے، لہٰذا ریاست جو نصاب بھی طے کر دے گی، اس سے کم مال یا پیداوار پر زکوٰۃ عائد نہیں ہو گی۔ وہ اپنی کتاب ’’قانون عبادات‘‘ میں زکوٰۃ کے حوالے سے بعض عام غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے یہ لکھتے ہیں کہ:
’’ چند باتیں مزید واضح رہنی چاہییں:
... ریاست اگر چاہے توحالات کی رعایت سے کسی چیزکوزکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے سکتی اورجن چیزوں سے زکوٰۃ وصول کرے ، ان کے لیے عام دستور کے مطابق کوئی نصاب بھی مقرر کرسکتی ہے۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقصد سے گھوڑوں اورغلاموں کی زکوٰۃ نہیں لی اور مال ، مواشی اورزرعی پیداوار میں اس کا نصاب مقرر فرمایا۔ یہ نصاب درج ذیل ہے :
مال میں۵اوقیہ /۶۴۲گرام چاندی
پیداوارمیں۵وسق/۶۵۳کلو گرام کھجور
مواشی میں ۵اونٹ ، ۳۰گائیں اور ۴۰ بکریاں۔
آپ کا ارشادہے : ’قد عفوت عن الخیل والرقیق‘ (میں نے گھوڑوں اورغلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے)۔ اسی طرح فرمایا ہے :
لیس فیما دون خمسۃ اوسق من التمر صدقۃ، ولیس فیما دون خمس اواق من الورق صدقۃ، ولیس فیما دون خمس ذود من الابل صدقۃ.(الموطا ، رقم ۵۷۸)
’’ ۵ وسق سے کم کھجور میں کوئی زکوٰۃنہیں ہے، ۵اوقیہ سے کم چاندی میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اور ۵ سے کم اونٹوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘‘‘ (۱۳۰۔۱۳۱)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ واضح طور پر یہ بتا رہے ہیں کہ یہ نصاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ عرب کی ریاست کا فرماں روا ہونے کی حیثیت سے مقرر فرمایا تھا، چنانچہ اگر ریاست محسوس کرے تو وہ اس میں تبدیلی کر سکتی ہے۔
سوال:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بہت سے محکمے وجود میں آ گئے تھے تو کیا انھوں نے کرایے اور معالجوں کی فیسوں پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد کی تھی، جیسا کہ غامدی صاحب کے خیال میں یہ عائد ہونی چاہیے؟(اے کے فریدی)
جواب: اس زمانے میں تنخواہ پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد نہیں کی جاتی تھی۔ اگرچہ بعض چیزوں پر زکوٰۃ عائد کرنا اور بعض کو اس سے مستثنیٰ قرار دینا امیر ریاست کا کام ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے تو پھر یہ لازم نہیں رہتا کہ جو کچھ وہاں موجود نہیں تھا، وہ یہاں بھی موجود نہ ہو۔ وقت اور زمانے کی تبدیلی سے حالات بدل جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہو جاتاہے کہ نئے حالات میں شریعت کے اطلاقات کو از سر نو متعین کیا جائے۔ شریعت کے اسی اطلاق کی تعیین کے حوالے سے استاذ محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں :
’’...جو کچھ صنعتیں اس زمانے میں وجود میں لاتیں اوراہل فن اپنے فن کے ذریعے سے پیدا کرتے اورجو کچھ کرایے، فیس اورمعاوضہ خدمات کی صورت میں حاصل ہوتا ہے ، وہ بھی اگر مناط حکم کی رعایت ملحوظ رہے تو پیداوار ہی ہے۔ اس وجہ سے اس کا الحاق اموال تجارت کے بجاے مزروعات سے ہونا چاہیے اوراس معاملے میں وہی ضابطہ اختیار کرنا چاہیے جوشریعت نے زمین کی پیداوار کے لیے متعین کیا ہے۔
... اس اصول کے مطابق کرایے کے مکان ، جائدادیں اوردوسری اشیا اگر کرایے پراٹھی ہوں تو مزروعات کی اوراگر نہ اٹھی ہوں توان پرمال کی زکوٰۃعائد کرنی چاہیے۔‘‘ (قانون عبادات ۱۳۱۔۱۳۲)
یہ درج بالا نقطۂ نظر غامدی صاحب کا اجتہاد ہے جسے وہ اپنے استدلال کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، ان کے نزدیک یہ صحیح ہے، لیکن اس میں غلطی کا امکان موجود ہے۔
سوال:میں نے اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑے کے دو مختلف موقعوں میں سے ہر موقع پر محض اسے دبانے اور چپ کرانے کے لیے دو بار طلاق طلاق کے الفاظ بولے ہیں جس کے نتیجے میں اس وقت وہ جھگڑا ختم ہو گیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں، جبکہ میں نے طلاق دینے کی نیت سے طلاق کے الفاظ بولے ہی نہیں تھے، میرے ان الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی تھی؟(عبد الستار،جاپان)
جواب:آپ نے جو بات لکھی ہے، اگر وہ واقعۃً ایسے ہی ہے تو پھر ہمارے نزدیک ان الفاظ سے کوئی ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوئی، البتہ ان الفاظ کا اس طرح بولنا شدید غلطی ہے۔ یہی الفاظ اگر آپ قاضی کی عدالت میں کھڑے ہو کر بولیں گے تو وہ آپ سے نیت پوچھے بغیر طلاق واقع کر دے گا، کیونکہ ان الفاظ کا ایک سنجیدہ مطلب اور طے شدہ مقصد ہے۔ اس مقصد کے بغیر انھیں بولنا ہرگز درست نہیں۔
بہرحال، ہمارے خیال میں آپ کے طلاق کی نیت کے بغیر یہ الفاظ بولنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، البتہ آپ کو اپنی اس غلطی پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔ طلاق کے لفظ کی، جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے، ایک قانونی حیثیت ہے۔ چنانچہ ان الفاظ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا کسی صورت بھی درست نہیں، لہٰذا آپ یہ عہد کریں کہ آپ آیندہ ان الفاظ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔
سوال:بعض علما کا یہ خیال ہے کہ مرنے کے فوراً بعد ہر انسان کے اعمال کا حساب کتاب ہو جاتا ہے اور وہ جنت یا دوزخ جس کا بھی مستحق ہو، اس میں چلا جاتا ہے۔ یہی وہ قیامت ہے جو انسان پر آنی ہے۔ اس فوراً حساب کتاب کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ’سَرِیْعُ الْحِسَابِ‘ ہے، لہٰذاوہ قیامت کے حساب کتاب میں دیر نہیں کرتا، لیکن علما ہی کے ایک دوسرے گروہ کا خیال یہ ہے کہ حساب کتاب قیامت ہی کے دن ہو گا، وہاں از اول تا آخر تمام انبیا کو اور ان کی امتوں کو اکٹھا کیا جائے گا، پھر ان کے اعمال کا حساب کتاب ہو گا اور پھر اس کے بعد لوگ اپنے اچھے یا برے اعمال کے مطابق جنت یا دوزخ میں جائیں گے۔
آپ یہ بتائیے کہ قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں ان دونوں میں سے کون سی راے صحیح ہے؟(غلام یٰسین)
جواب:پہلی بات یہ ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ ’سَرِیْعُ الْحِسَابِ‘ کا مفہوم اگر ہم اپنے معیارات اور اپنے ذہنی پیمانوں سے طے کریں گے تو یہ صحیح نہیں ہو گا، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّھُمْ یَرَوْنَہٗ بَعِیْدًا، وَّ نَرٰہُ قَرِیْبًا، یَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَآءُ کَالْمُھْلِ وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ.(المعارج۷۰: ۶۔۹)
’’وہ اس کو بہت دور خیال کر رہے ہیں اور ہم اس کو نہایت قریب دیکھ رہے ہیں جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کی مانند ہو جائے گا اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی مانند۔‘‘
آج سے تقریباً سوا چودہ سو سال پہلے مشرکین مکہ نے قیامت کے بارے میں جب یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ تو بہت دور ہے تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ تم اسے بہت دور سمجھ رہے ہو اور ہم اسے نہایت قریب دیکھ رہے ہیں۔
آج سوا چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود، وہ قیامت ابھی تک نہیں آئی جس میں آسمان تیل کی تلچھٹ کی مانند اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی مانند ہو جائیں گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نزول قرآن کے زمانے ہی میں اس کو قریب دیکھ رہا تھا۔ کیا قیامت کے قریب ہونے کے بارے میں خدا کی بات غلط ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ خدا ہی کی بات صحیح ہے، البتہ اس وقت ہمارا فہم اس کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے۔
دنیا میں ایک لمبی زندگی گزارنے کے بعد جب لوگ قیامت کے دن اٹھیں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے تو وہ کہیں گے کہ ’یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ‘(ایک دن یا اس کا کچھ حصہ)، ظاہر ہے کہ جس دن انسان کو اپنی ساٹھ ستر سالہ زندگی ایک دن یا اس کا کچھ حصہ محسوس ہو گی تو امید ہے کہ اس دن اسے یہ بھی محسوس ہو جائے گا کہ قیامت بہت ہی قریب تھی اور یہ بہت جلد آ گئی ہے۔
چنانچہ ہمیں خدا کی بات کو اپنے معیارات اور اپنے پیمانوں کے مطابق نہیں لینا چاہیے۔
اعمال انسانی کے حساب کتاب کے بارے میں جو دو مختلف نقطہ ہاے نظر آپ نے پیش کیے ہیں، ان میں سے دوسرا نقطۂ نظر ہی صحیح ہے۔ آیات قرآن اسی کی تصدیق کرتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌ، فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ، وَاِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتْ، وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ، وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ، لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ، لِیَوْمِ الْفَصْلِ.(المرسلٰت۷۷: ۷۔۱۳)
’’بے شک، جو وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے، وہ شدنی ہے۔ پس، جبکہ ستارے بے نشان کر دیے جائیں گے اور آسمان پھٹ جائے گااور پہاڑ ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے اور رسولوں کی حاضری کا وقت آ پہنچے گا، کس دن کے لیے وہ ٹالے گئے ہیں، فیصلے کے دن کے لیے۔‘‘
ان آیات کا صاف مطلب یہ ہے کہ قیامت اس وقت آنی ہے جب ستاروں نے اپنی روشنی کھو دینی ہے، آسمان نے پھٹ جانا ہے، پہاڑوں نے ریزہ ریزہ ہونا ہے، جب یہ سب کچھ ہو جائے گا تب خدا کے سامنے رسولوں کے حاضر ہونے کا وقت آ جائے گا ، ان کی یہ حاضری، فیصلے کے اس خاص دن ہی کے لیے موخر کی گئی ہے:
قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ، اَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ، قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ، قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ وَّاِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ، اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ.(ص۳۸: ۷۵۔۸۱)
’’اے ابلیس، تجھے اس (وجود) کوسجدہ کرنے سے کس چیز نے منع کیا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا ہے؟ یہ تو نے تکبر کیا ہے یا تو کوئی برتر ہستی ہے، اس نے کہا: میں اس سے برتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا، حکم ہوا: تو یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو راندۂ درگاہ ہوا اور تجھ پر میری لعنت ہے، جزا کے دن تک، اس نے کہا: اے میرے رب، مجھے مہلت دے، اس دن تک کے لیے جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔ ارشاد ہوا: تجھ کو مہلت دی گئی، وقت معین تک کے لیے۔‘‘
ان آیات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے اٹھائے جانے کا ایک خاص دن ہے ۔ چنانچہ شیطان نے اسی خاص دن تک کے لیے خدا سے مہلت مانگی تھی۔
ارشاد باری ہے:
وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ. وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰہُ، ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ. وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْٓءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّہَدَآءِ وَقُضِیَ بَیْْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ. وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُوَ اَعْلَمُ بِمَا یَفْعَلُوْنَ. وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَہَنَّمَ زُمَرًا... وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا. (الزمر۳۹: ۶۷۔۷۳)
’’اور لوگوں نے خدا کی صحیح قدر نہیں جانی، قیامت کے دن زمین ساری کی ساری اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان کی بساط بھی اس کے ہاتھ میں لپٹی ہوئی ہو گی۔ وہ پاک اور برتر ہے، ان چیزوں سے جن کو یہ شریک بناتے ہیں اور صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے، مگر جن کو اللہ چاہے، پھر دوبارہ اس میں پھونکا جائے گا تو دفعۃً وہ کھڑے ہو کر تاکنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور رجسٹر رکھا جائے گا اور انبیا اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور لوگوں کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا اور ہر جان کو اس کے عمل کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہو گا، وہ گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے جائیں گے ... اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے رہے، وہ گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے۔‘‘
یہ آیات بھی بہت صراحت کے ساتھ بتا رہی ہیں کہ لوگوں کے اعمال کا حساب کتاب ان کے مرنے کے ساتھ ہی نہیں ہو جائے گا، بلکہ اس سے پہلے کئی واقعات ہوں گے۔ صور میں دو دفعہ پھونکا جائے گا، سب لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے، خدا زمین کو اپنی مٹھی میں پکڑ لے گا، آسمان کی بساط کو اپنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور اپنی بزرگی بیان کرے گا۔ پھر خدا ہی جانتا ہے کہ کتنے مراحل اور گزریں گے اور پھر زمین خدا کے نور سے چمک اٹھے گی۔ تب رجسٹر رکھا جائے گا، انبیا اور گواہ حاضر کیے جائیں گے اور لوگوں کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پھر اس کے بعد گناہ گار جہنم کی طرف اور نیکوکار جنت کی طرف لے جائے جائیں گے:
اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ. لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا، اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآءِلُہَا، وَمِنْ وَّرَآءِہِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ. فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَیْْنَہُمْ یَوْمَءِذٍ وَّلَا یَتَسَآءَ لُوْنَ. فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ. وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَہُمْ فِیْ جَہَنَّمَ خٰلِدُوْنَ.(المؤمنون۲۳: ۹۹۔۱۰۳)
’’جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا: اے میرے رب، مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ میں دنیا میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کما لوں، ہرگز نہیں یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور اب ان سب مرنے والوں کے آگے اس دن تک کے لیے ایک پردہ ہو گا جس دن یہ اٹھائے جائیں گے۔ چنانچہ جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن آپس کا نسب کام نہ آئے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے مدد کے طالب ہوں گے۔ پس جن کے پلے بھاری ہوں گے، وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے اور جن کے پلے ہلکے ہوں گے تو وہی ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا، وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔‘‘
ان آیات میں بہت صراحت سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ موت کے بعد قیامت کا دن آنے تک لوگ برزخ میں رہیں گے، پھر صور پھونکا جائے گا، پھر اعمال کا وزن ہو گا اور اس کے بعد لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم میں جائیں گے۔
اس مضمون کی بے شمار آیات قرآن میں موجود ہیں، جن کی کوئی اور توجیہ نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ان کے خلاف ہر تصور باطل ہے۔
سوال:سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۶۲ اور سورۂ مائدہ (۵)کی آیت ۶۹، جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان، عیسائی ، یہودی اور صابی جو بھی اللہ پر ایمان رکھے گا، یوم حساب سے ڈرے گا اور نیک کام کرے گا، اس کے لیے اس کے رب کے پاس اجر ہو گا اور وہ ایسی زندگی میں ہو گا جس میں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ کوئی غم، ان آیات سے کیا مراد ہے؟ کیا یہود و نصاریٰ اور صابئین یا کسی بھی غیر مسلم کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے؟(غلام یٰسین)
جواب:یہ دونوں آیات دراصل، ایک ہی بات بیان کر رہی ہیں اور وہ یہ کہ انسان کے لیے بخشش کا اصل معیار اللہ اور آخرت پر ایمان اور عمل صالح ہے۔ اگر کوئی شخص ان پر پورا اترتا ہے اور اس نے کوئی ایسا جرم بھی نہیں کیا جو اس کے ایمان کے لازمی تقاضے کے خلاف ہو تو پھر اس کی بخشش ہو جائے گی۔
استاذ محترم غامدی صاحب اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ میں سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۶۱ اور ۶۲ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ. اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ.(البقرہ۲: ۶۱۔۶۲)
’’(وہ یہی کرتے رہے) اور اُن پر ذلت اورمحتاجی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کا غضب کما لائے۔ یہ اِس وجہ سے ہواکہ وہ اللہ کی آیتوں کو نہیں مانتے تھے اور اُس کے نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے ۔یہ اِس وجہ سے ہوا کہ اُنھوں نے نافرمانی کی اور وہ اللہ کی ٹھیرائی ہوئی کسی حد پر نہ رہتے تھے۔
(اِس سے واضح ہے کہ جزا و سزا کا قانون بالکل بے لاگ ہے۔ لہٰذا) وہ لوگ جو (نبی امی پر)ایمان لائے ہیں اور جو (ان سے پہلے) یہودی ہوئے اور جو نصاریٰ اور صابی کہلاتے ہیں، اُن میں سے جن لوگوں نے بھی اللہ کو مانا ہے اور قیامت کے دن کو مانا ہے اور نیک عمل کیے ہیں ، ان کا صلہ (اُن کے) پروردگار کے پاس ہے اور (اُس کے حضور میں) اُن کے لیے کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ وہ کوئی غم (وہاں) کھائیں گے۔‘‘
ان آیات کی شرح کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ :
’’...یہ ذلت اور مسکنت اس لیے ان (یہود) پر تھوپی گئی کہ انھوں نے پے در پے جرائم کا ارتکاب کیا اور اپنی سر کشی اور تعدی کے باعث ہر حد توڑ دی ،یہاں تک کہ اللہ کے نبیوں تک کو قتل کر ڈالا۔ یہوداہ میں ان کے بادشاہ یوآس کے حکم سے زکریا علیہ السلام کو عین ہیکل میں مقدس اور قربان گاہ کے درمیان سنگ سار کیا گیا ۔انھی کے فرماں روا ہیروویس کے حکم سے یحییٰ علیہ السلام کا سر ایک تھال میں رکھ کر اس کی معشوقہ کی نذر کر دیا گیا۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کو بھی انھوں نے اپنے زعم کے مطابق سولی پر چڑھا دیا۔ ...اس بدترین جرم کا ارتکاب انھوں نے ’بغیر الحق ‘ یعنی بغیر کسی وجہ جواز کے کیا۔ قتل نفس ، پھر انبیا علیہم السلام کا قتل اور وہ بھی بغیر کسی وجہ جواز کے ،گویا اس جرم کی تمام سنگینیاں انھوں نے ایک ہی جگہ جمع کر دیں۔ قرآن نے واضح کر دیا کہ ان کے انبیا کی اولاد ہونے کے باعث اللہ تعالیٰ نے ان جرائم کے بعد انھیں چھوڑ نہیں دیا ، بلکہ ان کی پاداش میں انھیں پکڑا اور اسی دنیا میں ان کے جرائم کی سزا انھیں دی۔ ... قرآن نے نہایت غیرمبہم طریقے پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی شخص کو فلاح محض اس بنیاد پر حاصل نہ ہو گی کہ وہ یہود و نصاریٰ میں سے ہے یا مسلمانوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے یا صابی ہے ، بلکہ اس بنیاد پر حاصل ہو گی کہ وہ اللہ کو اور قیامت کے دن کو فی الواقع مانتا رہا ہے اور اس نے نیک عمل کیے ہیں۔ ہر مذہب کے لوگوں کو اسی کسوٹی پر پرکھا جائے گا،اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہ ہو گا۔ یہود کا یہ زعم محض زعم باطل ہے کہ وہ یہودی ہونے ہی کو نجات کی سند سمجھ رہے ہیں ۔یہ بات ہوتی تو اللہ دنیا میں بھی ان کے جرائم پر ان کا مواخذہ نہ کرتا، لہٰذا وہ ہوں یا مسلمان یا کسی اور مذہب و ملت کے پیرو ، ان میں سے کوئی بھی محض پیغمبروں کو ماننے والے کسی خاص گروہ میں شامل ہو جانے سے جنت کا مستحق نہیں ہو جاتا ، بلکہ اللہ اور آخرت پر حقیقی ایمان اور عمل صالح ہی اس کے لیے نجات کا باعث بنتا ہے۔ ... (لیکن) اللہ تعالیٰ کی طرف سے (نجات کی) یہ بشارت، ظاہر ہے کہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ آدمی نے کسی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کیا ہو جو ایمان اور عمل صالح کے باوجود اسے جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے ، مثلاً : کسی بے گناہ کو قتل کر دینا یا جانتے بوجھتے اللہ کے کسی سچے پیغمبر کو جھٹلا دینا۔‘‘
_____________________