HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۱۶۶-۱۶۹ (۲۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


لٰـکِنِ اللّٰہُ یَشْہَدُ بِمَآ اَنْزَلَ اِلَیْْکَ، اَنْزَلَہٗ بِعِلْمِہٖ، وَالْمَلٰٓئِکَۃُ یَشْہَدُوْنَ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا{۱۶۶} اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلاً بَعِیْدًا{۱۶۷} اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ طَرِیْقًا{۱۶۸} اِلاَّ طَرِیْقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا{۱۶۹}
یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ، قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ، فَاٰمِنُوْا خَیْْرًا لَّکُمْ وَاِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا{۱۷۰} یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ، لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ، وَلاَ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلاَّ الْحَقَّ، اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہٗ اَلْقٰہَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ، فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَلاَ تَقُوْلُوْا: ثَلٰثَۃٌ، اِنْتَہُوْا خَیْْرًا لَّکُمْ، اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ، سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ، لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلاً{۱۷۱} لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَلاَ الْمَلٰٓئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ، وَمَنْ یَّسْتَنکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا{۱۷۲} فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ وَیَزِیْدُہُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ، وَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْتَنْکَفُوْا وَاسْتَکْبَرُوْا فَیُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا، وَّلاَ یَجِدُوْنَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا{۱۷۳}
یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ، قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْہَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ، وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا{۱۷۴} فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا{۱۷۵}
یَسْتَفْتُوْنَکَ، قُلِ: اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ، اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ، وَہُوَ یَرِثُہَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہَا وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ، وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَّنِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْْنِ، یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا، وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْئٍ عَلِیْمٌ{۱۷۶}
(یہ جھٹلاتے ہیں تو جھٹلائیں)، مگر اللہ اُس چیز کی گواہی دیتا ہے جو اُس نے تم پر نازل کی ہے۔ ۲۵۰ اُس نے اپنے علم کے ساتھ اُسے نازل کیا ہے۔ اور اُس کے فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔۲۵۱ جن لوگوں نے ماننے سے انکار کیا ہے اور اللہ کی راہ سے روکا ہے، وہ بڑی دور کی گمراہی میں جاپڑے ہیں۔ جن لوگوں نے ماننے سے انکار کیا اور (اِس طرح اپنی جانوں پر) ظلم کیا ہے، اللہ اُنھیں بخشنے والا نہیں ہے اور نہ اُنھیں جہنم کے سوا کسی راستے کی ہدایت دینے والا ہے۔ یہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ کے لیے یہ بہت آسان ہے۔ ۱۶۶-۱۶۹
لوگو، تمھارے پاس یہ رسول تمھارے پروردگار کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے۔۲۵۲  سو (اِس پر) ایمان لائو، اِسی میں تمھاری بہتری ہے۔ اور اگر انکار پر جمے رہو گے تو یاد رکھو کہ (اللہ کا کچھ نہیں بگاڑو گے، اِس لیے کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اللہ ہی کا ہے۔ (وہ ہر ایک کو اُس کے اعمال کی جزا دے گا، اِس لیے کہ) اللہ علیم و حکیم ہے۔ اے اہل کتاب، اپنے دین میں غلو۲۵۳ نہ کرو اور اللہ کے حق میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔۲۵۴ حقیقت یہ ہے کہ مسیح عیسیٰ ابن مریم اللہ کے ایک رسول اور اُس کا ایک قول ہی تھے جو اُس نے مریم کی طرف القا فرمایا تھا اور اُس کی جانب سے ایک روح تھے (جو اللہ نے اُس میں پھونک دی تھی)۔۲۵۵  سو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لائو اور (اللہ کو) تین نہ بنائو۔۲۵۶  باز آجائو، یہی تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اللہ ہی تنہا معبود ہے، وہ اِس سے پاک ہے کہ اُس کے اولاد ہو، زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے اور اُن کے معاملات کو دیکھنے کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔۲۵۷ مسیح کو ہرگز اِس بات سے کوئی عار نہ ہوگی کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو اور نہ اللہ کے مقرب فرشتے اِسے کبھی عار سمجھیں گے۔ اگر کوئی اللہ کی بندگی کو اپنے لیے عار سمجھتا اور تکبر کرتا ہے تو عنقریب وہ سب کو گھیر کر اپنے حضور میں اکٹھا کر لے گا۔ پھر جو ایمان لائے اور جنھوں نے اچھے عمل کیے ہیں، اُنھیں وہ پورا پورا اجر دے گا اور اپنے فضل سے زیادہ بھی عطا فرمائے گا۔ اور جن لوگوں نے اُس کی بندگی کو عار سمجھا اور تکبر کیا ہے، اُنھیں وہ دردناک سزا دے گا اور اللہ کے مقابل میں وہ اپنے لیے کوئی حمایتی اور کوئی مددگار نہ پائیں گے۔۲۵۸ ۱۷۰-۱۷۳
لوگو، تمھارے پاس اللہ کی حجت آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایک ایسی روشنی نازل کر دی ہے جو (ہر چیز کو) واضح کر دینے والی ہے۔۲۵۹  اِس لیے جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اُنھوں نے اُسے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا ہے، اُنھیں وہ اپنی رحمت اور اپنی عنایتوں کے (سایے میں) داخل کرے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھا دے گا۔۲۶۰  ۱۷۴-۱۷۵
وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ (اِن سے) کہو: اللہ تمھیں کلالہ رشتہ داروں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے:۲۶۱  اگر کوئی شخص بے اولاد مرے ۲۶۲ اور اُس کی ایک بہن ہی ہوتو اُس کے لیے ترکے کا آدھا ہے اور اگر بہن بے اولاد مرے تو اُس کا وارث اُس کا بھائی ہے۔ اور بہنیں اگر دو ہوں تو اُس کے ترکے میں سے دو تہائی پائیںگی اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔۲۶۳ اللہ تمھارے لیے وضاحت کرتا ہے تا کہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔ ۱۷۶

۲۵۰؎  اِس جملے کی ابتدا حرف استدراک ’لٰکِن‘ سے ہوئی ہے۔ یہ استدراک اُس بات پر ہے جو اوپر کی آیتوں سے مفہوم ہوتی ہے۔

۲۵۱؎   یعنی اِس بات کی گواہی کے لیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اُس نے اِس کو اپنے علم کے ساتھ اتارا ہے، لہٰذا یہ ہر لحاظ سے خالص اور بے آمیز ہے، اِس میں نفس اور شیطان کے کسی وسوسے کو کوئی دخل نہیں ہے۔

قرآن نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے فرمائی ہے، لیکن یہ وحی کی صداقت کے لیے ایک دلیل بھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اوپر وحی کی صداقت کی جو دلیل بیان ہوئی ہے، اُس کی نوعیت تاریخی شہادت کی ہے۔ یعنی انبیا کی تاریخ اور اُن کی وحی کی کسوٹی پر جانچ کر قرآن اور پیغمبر کا درجہ متعین کیا گیا ہے۔ اب یہ ایک دوسری دلیل بیان ہوئی ہے جس کی نوعیت ایک باطنی دلیل کی ہے۔ اِس کا مدعا یہ ہے کہ پیغمبر اپنے باطن میں خدا اور فرشتوں کی شہادت اِس طرح سنتا، سمجھتا اور پرکھتا ہے کہ اُس کے لیے اپنی وحی کی صداقت پر کسی شبہے کی گنجایش باقی نہیں رہتی۔ اِس طرح کی شہادت کسی غیر نبی کو حاصل نہیں ہوتی۔ اِس وجہ سے کسی غیر نبی کے الہام اور نبی کی وحی میں آسمان وزمین کا فرق ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی جس کیفیت کو الہام سمجھ رہا ہے، وہ محض ایک وسوسۂ نفسانی یا شیطانی ہو، لیکن پیغمبر پر وحی جس افق سے آتی ہے، جس زوروقوت کے ساتھ آتی ہے اور اللہ اور ملائکہ کی جس تائید و شہادت کے ساتھ آتی ہے، وہ بجاے خود ایک ایسی برہان ہوتی ہے جس کے بعد کسی شبہے کی گنجایش باقی نہیں رہ جاتی۔ وحی کی صداقت کا یہی پہلو ہے جس کی وجہ سے ساری خدائی بھی نبی کی تکذیب کرے، تب بھی اُس کے اعتماد میں کوئی فرق نہیں پیدا ہوتا۔ اُس کی بزم و انجمن اُس کے باطن کے اندر ہوتی ہے، جہاں اُس کو خدا اور روح القدس کی معیت حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۳۳)

۲۵۲؎   آیت میں خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن آگے کے مضمون سے واضح ہے کہ روے سخن اہل کتاب بالخصوص نصاریٰ کی طرف ہے۔ 

۲۵۳؎   یہ لفظ جب دین کے تعلق سے آتا ہے تو اِس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ دین میں جس چیز کا جو درجہ و مرتبہ اور جو وزن اور مقام ہے، اُسے بڑھا کر کچھ سے کچھ کر دیا جائے۔ یہاں اِس سے اشارہ اُس غلو کی طرف ہے جس کے سبب سے نصاریٰ نے پورے دین کا حلیہ بگاڑا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بندے اور اُس کے رسول تھے۔ اُن کو اُنھوں نے خدا کا بیٹا بنایا اور پھر اُن کو لے جاکر خدائی کے عرش پر بٹھا دیا۔ حضرت مریم حضرت عیسیٰ کی والدہ تھیں، اُن کو نعوذ باللہ خدا کی ماں بنایا۔ حضرت جبریل خدا کے بندے اور فرشتے ہیں، اُن کو بھی ایک اقنوم کی حیثیت دے کر خدائی کی تثلیث میں شریک کر دیا۔ سیدنا مسیح نے دنیا اور دنیوی زندگی کے زخارف سے بچتے رہنے کی تاکید فرمائی تو اُنھوں نے رہبانیت کا ایک پورا نظام کھڑا کر دیا۔ غرض اِس غلو کے ہاتھوں اُنھوں نے مذہب کی کوئی چیز بھی ایسی نہیں چھوڑی جو اپنی جگہ پر برقرار رہ گئی ہو۔ فرش کی چیز عرش پر پہنچ گئی اور عرش کی چیز فرش پر آرہی۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۳۵)

۲۵۴؎   دین میں غلو کا فتنہ اِسی سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف اگر وہی بات منسوب کی جائے جو اُس نے کہی ہے تو اِس طرح کا کوئی فتنہ کبھی پیدا نہیں ہو سکتا۔

۲۵۵؎   یعنی خدا کا کلمۂ ’کن‘ اور اُس کی طرف سے ایک روح تھے جو اُسی طرح پھونکی گئی، جس طرح آدم و حوا میں پھونکی گئی تھی۔ اس کی بنا پر اُنھیں خدائی کا درجہ آخر کس طرح دیا جا سکتا ہے؟ 

۲۵۶؎   اس سے مراد نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیث ہے۔ یہ پال (Paul) کی اختراعات میں سے ہے اور اِس کی رو سے باپ، بیٹا اور روح القدس تینوں الوہیت میں شریک ہیں۔ تاہم اِس کی تعبیر اِس طریقے سے کی گئی ہے کہ توحید پر ایمان کا دعویٰ بھی برقرار رہے۔

۲۵۷؎  یعنی جب خلق اور خلق کے تمام معاملات کو دیکھنے کے لیے اللہ ہی کافی و وافی ہے تو کسی کو خدائی میں شریک کرنے کی گنجایش کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟

۲۵۸؎   اِس کا صحیح زور سمجھنے کے لیے ’لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ‘ کی آیت نگاہ میں رہنی چاہیے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔غلو کے فتنے میں مبتلا ہونے کا بڑا سبب درحقیقت استکبار ہے۔ جو لوگ کسی چیز یا کسی شخص کو مان لیتے ہیں، وہ اگر حدود سے واقف یا اُن کو ملحوظ رکھنے والے نہ ہوں تو اُن کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ اُس چیز یا شخص کو سب چیزوں اور تمام اشخاص سے بڑھ کر ثابت کر دکھائیں۔ پھر وہ اپنے استکبار کے اعتبار سے اُس کو بڑھانا شروع کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ اُس کو بڑھاتے بڑھاتے اُس حد تک پہنچا دیتے ہیں جہاں پہنچ کر اُن کے استکبار کو تسلی ہو جاتی ہے کہ اب برتری کے میدان میں کوئی اُن کا حریف نہیں رہا اور یہاں کوئی اُن کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ عیسائیوں کو یہی فتنہ پیش آیا۔ اُنھوں نے جب حضرت عیسیٰ کو مانا تو صرف اتنے ہی پر قانع نہ رہ سکے کہ اُن کو اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول مانیں۔ اُنھوں نے خیال کیا کہ اللہ کے بندے اور رسول تو بہت سے ہیں، اگر مسیح بھی اللہ کے بندے اور رسول ہی ہیں تو پھر اُن کا اور اُن کے ماننے والوں کا امتیاز کیا ہوا؟ اِس محرک نے، جو کھلا ہوا استکبار ہے، اُنھیں آمادہ کیا کہ وہ کھینچ تان کر اُن کو شریک خدا ثابت کریں۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۳۷)

۲۵۹؎   اِس سے مراد قرآن مجید ہے جس کے لیے اصل میں ’بُرْہَانٌ‘ اور ’نُوْرًا مُّبِیْنًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ پہلے لفظ سے قرآن کے عقلی اور استدلالی پہلو کو واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک برہان قاطع ہے اور دوسرے سے اُس کے عملی پہلو کو کہ زندگی کے تمام معاملات میں وہ انسان کو ایسی رہنمائی عطا فرماتا ہے جو اُسے تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتی ہے۔

۲۶۰؎  یعنی قیامت میں اپنے قرب کی طرف رہنمائی فرمائے گا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ بات کہ اِس ہدایت کا تعلق آخرت سے ہے، اِس سے نکلتی ہے کہ اس کا عطف ’فَسَیُدْخِلُہُمْ‘ پر ہے جس کا تعلق صریحاً آخرت سے ہے اور یہ بات کہ یہ ہدایت مطلوب و مقصود کی طرف ہے، ’اِلَیْْہِ‘ کے لفظ سے نکلتی ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ پر ایمان اور اُس حبل اللہ کو، جو قرآن کی شکل میں اُن کی طرف نازل ہوئی ہے، مضبوطی سے پکڑ لیں گے، خدا اُن کو اپنی رحمت اور فضل بے پایاں سے بھی نوازے گا اور براہ مستقیم اور براہ راست اُن کی رہنمائی اپنے قرب کی طرف بھی فرمائے گا اور یہ آخرت کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہوگی۔ اِس لیے کہ تمام ہدایت و شریعت کی اصل غایت اور اہل ایمان کی تمام مساعی کا اصل مقصود و مطلوب یہی قرب الہٰی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۳۸)

۲۶۱؎   لفظ ’کلالۃ‘ کی تحقیق اِس سے پہلے اِسی سورہ کی آیات ۱۱-۱۲ کے تحت بیان ہوچکی ہے۔ یہ اب چوتھے اور آخری سوال کا جواب ہے جو اولاد کی عدم موجودگی میں بھائی بہنوں کی میراث کے بارے میں پیدا ہوا ہے۔ اِس کا اشارہ اگرچہ آیات ۱۱-۱۲ میں بھی موجود تھا، لیکن جب لوگ نہیں سمجھے اور اُنھوں نے سوال کیا تو قرآن نے اُس کو پوری صراحت کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ آیت کی ابتدا ’قُلِ: اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ‘ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ اِس میں، اگر غور کیجیے تو وہی اسلوب ہے جو ’یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ‘ میں ہے، وہاں وصیت میت کی وارث اولاد کے بارے میں ہے اور یہاں فتویٰ میت کے وارث کلالہ رشتہ داروں کے بارے میں ہے۔ لفظ ’کلالۃ‘ پر الف لام دلیل ہے کہ سوال کلالہ وارثوں میں سے کچھ مخصوص اقربا سے متعلق ہے اور جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقربا میت کے بھائی بہن ہیں۔ تمام کلالہ رشتہ داروں، مثلاً چچا ماموں، بھائی بہن، خالہ پھوپھی میں سے کسی کو وارث بنا دینے کی اجازت آیات میراث میں بیان ہو چکی ہے۔ یہاں عام کے بعد خاص کا ذکر ہے۔ یہ چیز ملحوظ رہے تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا: کہہ دو اللہ تمھیں کلالہ رشتہ داروں میں سے بھائی بہنوں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔

۲۶۲؎   اصل میں ’اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْْسَ لَہٗ وَلَدٌ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ بھائی بہنوں کے میراث پانے کے لیے اُسی طریقے پر شرط ہے، جس طرح ’فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ‘ میں ہے۔ وہاں معنی یہ ہیں کہ میت بے اولاد ہو اور ماں باپ ہی وارث ہوں تو اُن کا حصہ یہ ہے اور یہاں مفہوم یہ ہے کہ مرنے والے کے اولاد نہ ہو اور اُس کے بھائی بہن ہوں تو اُن کا حصہ اِس طرح ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ بھائی بہن صرف اولاد کی غیرموجودگی میں وارث ہوتے ہیں۔ اولاد موجود ہو تو میت کے ترکے میں اُن کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، الاّ یہ کہ مرنے والا آیت ۱۲ میں کلالہ کے حکم عام کے تحت اُن میں کسی کو بچے ہوئے ترکے کا وارث بنا دے۔

۲۶۳؎   بھائی بہنوں کے جو حصے یہاں بیان ہوئے ہیں، اُن میں اور اولاد کے حصوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آیت میں ’وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَّنِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْْنِ‘ کا اسلوب دلیل ہے کہ یہ حصے بھی والدین اور بیوی یا شوہر کا حصہ دینے کے بعد باقی ترکے میں سے دیے جائیں گے۔ اِس کے دلائل آیت ۱۱ کی تفسیر میں بیان ہو چکے ہیں۔ چنانچہ ترکے کا جو حصہ بھائی بہنوں میں تقسیم کیا جائے گا، میت کی صرف بہنیں ہی ہوں تو اُنھیں بھی اُسی کا دوتہائی اور اُسی کا نصف ادا ہو گا۔ 

ـــــــــــــــــــــــــ

ـــــــ جاوید

جمعرات، ۱۱/ ربیع الاول ۱۴۲۹ھ

۲۰/مارچ ۲۰۰۸ء

B