[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:استمداد اور قربانی ونذر اور پکار(لغیراللہ استغاثہ)، دفعۃًتین طلاقوں کا تین ہونا، ہدہد اور نملہ کے لیے مرفوع صحیح احادیث بیان کریں۔(پرویز قادر)
جواب:شرک کی شناعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار بیان کی ہے۔ پھر خود قرآن مجید میں بھی یہ موضوع بار بار زیر بحث آیا ہے۔ تینوں چیزیں جن کا آپ نے ذکر کیا ہے، اگر غیر اللہ کے لیے ہوں تو شرک ہیں۔ احادیث میں ان کا ذکر کرکے ان کی شناعت بیان کرنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی، اس لیے کہ یہ بات خود قرآن مجید میں کئی اسالیب میں بیان کر دی گئی ہے۔ ممکن ہے، کسی روایت میں تصریح کے ساتھ ان کی نفی کی گئی ہو، لیکن معروف روایات میں شرک ہی کی تردید یا شناعت بیان ہوئی ہے۔
اسی طرح ہدہد اور نملہ کے بارے میں بعض صحابہ کے اقوال تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوئے ہیں۔ سردست مجھے کوئی مرفوع حدیث نہیں ملی۔
تین طلاقوں کا ایک طلاق ہونا ایک فقہی بحث ہے، اس میں استدلال کا مدار کن روایات پر ہے، اس کا خلاصہ ابن رشد نے اپنی کتاب ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں بخوبی کیا ہے۔ میں اسے آپ کے لیے نقل کر دیتا ہوں:
’’ان کے استدلال کی بنیاد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث پر بھی ہے۔ جس کی تخریج امام مسلم (رقم ۱۴۷۲) اور امام بخاری نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حضرت ابوبکر کے دور میں اور خلافت عمر کے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی قرار دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر نے تینوں کو نافذ کر دیا۔ ان حضرات کے استدلال کی بنیاد ابن اسحاق کی روایت پر بھی ہے جو انھوں نے عکرمہ سے بواسطۂ ابن عباس بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں اور اس پر انھیں شدید قلق ہوا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم نے طلاق کس طرح دی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: میں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ تو ایک طلاق ہے، تم اس سے رجوع کر لو۔( ابوداؤد، رقم۲۲۰۶ ؛ابن ماجہ، رقم ۲۰۵۱)
جمہور کی راے (ایک وقت میں تین طلاقوں) کی حمایت کرنے والے کہتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حدیث ابن عباس کی روایت ان کے اصحاب میں سے طاؤس نے کی ہے، جبکہ ان کے بیش تر اصحاب نے جن میں سعید بن جبیر، مجاہد، عطااور عمرو بن دینار رضی اللہ عنہم ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کاقول نقل کیا ہے اور ابن اسحاق کی حدیث وہم ہے۔ثقہ راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو حتمی طلاق دی تھی۔ اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں۔‘‘ (۲/ ۴۶)
سوال:کیا پانچ نمازیں، وضو میں پاؤں دھونا،معجزات، تقدیر،ارضی قبر کے عالم برزخ ہونے پر ایمان، یتیم پوتے کی میراث کا نہ ہونا اور ہفت قرآن، وحی خفی کی رو سے واجب ہیں۔ کیا تجسیم باری تعالیٰ کی تاویل ہو گی؟(پرویز قادر)
جواب:پہلی دونوں چیزوں کا ماخذ سنت متواترہ ہے۔ وضو میں اختلاف آیت قرآنی کی تاویل میں اختلاف سے پیدا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ساری امت اس بات پر متفق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو میں پاؤں دھوتے تھے۔
معجزات اور تقدیر اللہ پر ایمان کے لوازم میں سے ہیں۔ حدیث میں جو معجزات بیان ہوئے ہیں، ان پر اگر سنداً کوئی اعتراض نہیں ہے تو ماننے میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی، موت، والدین، بہن بھائی اور اس طرح متعدد چیزیں جن میں ہماری سعی کا کوئی تعلق نہیں ہے، خود مقرر کر رکھی ہیں، اسے ماننا اللہ تعالیٰ کو خالق ومالک ماننے کا نتیجہ ہے۔ یہی بات احادیث میں بھی بیان ہوئی ہے ۔ جن حدیثوں سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا نیک وبد ہونا بھی مقدر ہے تو وہ راویوں کے سوء فہم کا نتیجہ ہے۔ قرآن مجید میں بیان کیا گیا قانون آزمایش اس تصور کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔
ارضی قبر کو عالم برزخ قرار دینے کی وجہ حدیث نہیں ہے، حدیث کا فہم ہے۔ قبر کی تعبیر عالم برزخ کے لیے اختیار کرنا زبان کے عمومی استعمالات میں بالکل درست ہے۔اس سے یہ سمجھنا کہ قبر ہی عالم برزخ ہے، سخن نا شناسی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کس روایت میں تجسیم باری تعالیٰ بیان ہوئی ہے۔ جس طرح قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ اور چہرے کے الفاظ ہیں۔ اور عرش پر استوا کی تعبیر اختیار کی گئی ہے ، اسی طرح کی تعبیرات احادیث میں بھی ہیں۔ ان سے تجسیم کا نتیجہ نکالا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ الفاظ معنوی پہلو سے استعمال ہوئے ہیں۔ خود قرآن مجید ہی میں یہ بات بیان ہوگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ اس ارشاد سے واضح ہے کہ اوپر مذکور تعبیرات ابلاغ مدعا کے لیے ہیں،ان کا لفظی اطلاق درست نہیں ہے۔
سوال:کیا فروعی اور فہم واطلاق کے مسائل میں نبی کریم کے اجتہادات، مشورہ اور سوچ سے اختلاف جائز ہے؟(پرویز قادر)
جواب:ہر گز جائز نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا ایمان کی نفی کی علامت ہے اور حبط اعمال کا باعث ہوگا۔ اگر کوئی شخص روایت ودرایت کے اصول پر کسی بات کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کو درست نہیں مانتا تو یہ دراصل کسی محدث سے اختلاف ہے، اسے حضور سے اختلاف قرار دینا سراسر زیادتی ہے۔
سوال:ارتقا قرآن مجید کی کس آیت میں بیان ہوا ہے۔ مزید براں یہ بھی بتایے کہ کس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ معراج ایک خواب تھا؟(سعد فاروق)
جواب:ارتقا کے نقطۂ نظرکی اصل یہ ہے کہ زندگی انتہائی سادہ خلیاتی وجود سے شروع ہوئی اور بتدریج اس نے پیچیدہ جان داروں کی صورت اختیار کر لی۔ چنانچہ ان کے نزدیک پہلا انسان اس ابتدائی خلیاتی وجود کی طرح مٹی سے نمودار نہیں ہوا تھا، بلکہ وہ کسی والدین کی اولاد تھاجو اس انسان سے کم تر تھے، لیکن اس کے کافی قریب تھے۔
قرآن مجید کے نزدیک پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں براہ راست مٹی سے پیدا کیا تھا،یعنی ان کے کوئی والدین نہیں تھے۔ قرآن مجید کی ایک آیت میں یہ دونوں باتیں یکجا بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ آل عمران میں ہے:
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.(۳: ۵۹)
’’عیسیٰ کی مثال، اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے۔ اس کو مٹی سے بنایا، پھر اس کو کہا کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
یہ آیت اصل میں یہ بتا رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ ولادت میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔ ان سے پہلے قادر مطلق نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بغیر ماں باپ کے پیدا کر دیا تھا۔ چونکہ اس میں والدین کا ہونا اور نہ ہونا اصل موضوع ہے، اس لیے یہ آیت اس بات پر قطعیت کی مہر لگا دیتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے والدین نہیں تھے۔
انسان کی تخلیق کے ضمن میں دوسری اہم آیت سورۂ سجدہ کی ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں:
الَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْْءٍ خَلَقَہٗ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ. ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّہِیْنٍ. ثُمَّ سَوّٰہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْءِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ.(۳۲: ۷۔۹)
’’جس نے جو چیز بنائی ہے، خوب بنائی ہے، اس نے انسان کی خلقت کا آغاز مٹی سے کیا۔ پھر اس کی نسل حقیر پانی کے خلاصہ سے چلائی۔ پھر اس کے نوک پلک سنوارے اور اس میں اپنی روح پھونکی اور تمھارے لیے کان، آنکھیں اور دل بنائے۔ تم بہت ہی کم شکرگزار ہوتے ہو۔‘‘
اس آیت میں کچھ مراحل بیان ہوئے ہیں۔ استاد محترم کی راے یہ ہے کہ اس آیت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک طویل زمانہ ایسا گزرا جس میں انسان براہ راست زمین سے پیدا ہوتے رہے۔پھر ان انسانوں میں یہ صلاحیت پیدا کر دی گئی کہ وہ اپنی نسل آگے بڑھا سکیں۔ پھر ایک زمانے میں زمین سے پیدا ہونے والے ایک جوڑے کو جس میں نسل آگے بڑھانے کی صلاحیت بھی تھی، منتخب کیا گیا۔ اس میں روح پھونکی گئی۔ تمام نسل انسان اسی جوڑے کی اولاد ہیں۔ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سائنس دانوں کو جدید انسان کے علاوہ انسان سے مشابہ جو بھی آثار ملے ہیں، وہ درحقیقت پہلے ادوار کے انسانوں کے ہیں۔اس کے لیے وہ ارتقا کا لفظ بھی بولتے ہیں۔
معراج کا واقعہ قرآن مجید کی سورۂ بنی اسرائیل میں بیان ہوا ہے، بلکہ سورہ کا آغاز ہی اس کے بیان پر مبنی ہے۔ اسی سورہ میں آگے جا کر اس واقعے کا حوالہ دے کر یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے اسے نہ ماننے والوں کے لیے فتنہ بنا دیا۔ آیت کے الفاظ ہیں:
وَاِذْ قُلْنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْ یَا الَّتِیْٓ اَرَیْْنٰکَ اِلاَّ فِتْنَۃً لِّلنَّاسِ.(۱۷: ۶۰)
’’اور یاد کرو جب ہم نے تم سے کہا تھا کہ تمھارے رب نے لوگوں کو گھیرے میں لے لیااور وہ رویا جو ہم نے تم کو دکھائی اس کو ہم نے لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ ہی بنا دیا۔‘‘
اس آیت میں معراج کے واقعے کے لیے رویا کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس رویا سے مسجد اقصیٰ کی طرف سفر ہی مراد ہے۔ البتہ رویا کے لفظ کے معنی کی تاویل کی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک رویا کا لفظ ایک ہی معنی کے لیے بولا جاتا ہے اور وہ وہی ہے جس کے لیے ہم خواب کا لفظ بولتے ہیں۔ البتہ ہمارے خواب اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ پیغمبروں کو رویا میں جو کچھ نظر آتا ہے، وہ حقیقت ہوتی ہے، اس لیے کہ انھیں شیطان کی ہر در اندازی سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔بہرحال یہ آیت اس بات پر نص قطعی ہے کہ معراج جسمانی نہیں تھی۔
سوال:کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کیا سجدے کے لیے اتنا کافی ہے کہ آدمی تھوڑا سا جھک جائے یا کوئی سرہانا یا سخت چیز رکھ کر اس پر باقاعدہ سر رکھنا چاہیے؟(سعد فاروق)
جواب:نماز کی اصل ہیئت کے جس قدر قریب ہوں، اتنا ہی اچھا ہے۔ بیماری اور تکلیف میں رخصت کا مطلب صرف یہ ہے کہ نماز کے وقت پر ہر حال میں نماز پڑھی جائے اور کسی مجبوری کو اس راہ میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔ ہیئت میں رخصت کتنی ہے، یہ بات طے نہیں کی گئی۔ نمازی کی معذوری، حالات اور مزاج کے فرق کی وجہ سے یہ اسی پر چھوڑنا بہتر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ آپ والی مثال لے لیں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والا کہاں ہے: گھر میں ہے؟ مسجد میں ہے؟ سفر میں ہے؟ کسی کے ہاں مہمان ہے؟ کتنا جھک سکتا ہے؟ کرسی کون سی دستیاب ہے؟ مراد یہ ہے کہ ہر ہیئت اور حالات میں نماز کی اصل ہیئت سے قربت کی صورت بدل جائے گی۔ چنانچہ نمازی ، اس کی بیماری اور دستیاب حالات تینوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ ہو گا کہ نماز ادا کرنے کی بہتر صورت کیا ہوگی۔
سوال:بخاری میں ایک روایت ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے کاغذ اور قلم منگوایا تھا تاکہ آپ اس میں امت کے لیے کچھ لکھ دیں، مگر کچھ لوگوں نے کہا: آپ بیمار ہیں۔ ہمارے پاس قرآن ہے، لہٰذا ضروری نہیں کہ آپ سے کچھ لکھوایا جائے۔آپ بتایے کیا یہ واقعہ ممکن ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے کچھ کہیں اور صحابہ اس کی تعمیل نہ کریں؟ (سعد فاروق)
جواب:اس روایت کے حوالے سے دو رائیں اختیار کی جا سکتی ہیں: ایک یہ کہ اس واقعے ہی کو سرے سے نہ مانا جائے۔ اس کے قرائن بھی اس روایت میں موجود ہیں۔ سب سے قوی قرینہ یہ ہے کہ کاغذ اور قلم نہ لانے کی بات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب کی جارہی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت کو مطعون کرنا ایک زمانے میں باقاعدہ مسئلہ رہا ہے۔ ممکن ہے یہ واقعہ بھی اسی جذبے کے تحت تخلیق کیا گیا ہو۔ دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وفات سے تین چار دن پہلے پیش آیا، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعۃً کوئی چیز لکھوانا چاہتے تھے تو آپ وہ چیز دوبارہ کہہ کر لکھوا سکتے تھے۔ تیسرا قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کے راویوں میں ابن شہاب بھی ہیں۔ حضرت عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بارے میں وہ روایات جن میں ان کی کوئی نہ کوئی خرابی سامنے آتی ہو، ان کی سند میں بالعموم یہ موجود ہوتے ہیں۔
دوسری راے یہ ہے کہ اس واقعے کو درست مان لیا جائے۔شارحین نے اس واقعے کو درست مانتے ہوئے اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ نے یہ راے قائم کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات ان کی طرف سے جاری کردہ کوئی امر نہیں تھا، بلکہ محض ایک مشورہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ کو افاقہ بھی ہوا تو آپ نے یہ خواہش دوبارہ نہیں کی۔
میں ذاتی طور پر یہی محسوس کرتا ہوں کہ یہ واقعہ قابل قبول نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
سوال:کیا جہنم زمین پر ہے؟(زبیر شیخ)
جواب:قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس سے حتمی طور پر معلوم ہوکہ جہنم کہاں ہو گی۔ البتہ قرآن مجید سے ہمیں احوال قیامت کے ضمن میں جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان کی روشنی میں ہم ایک اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین وآسمان زبردست تباہی سے گزریں گے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو اسی طرح لپیٹ دیا جائے گا جیسے کاغذ رول کیا جاتا ہے۔ ایک آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان زمین و آسمان کو نئے زمین و آسمان سے بدل دیا جائے گا۔
اس تفصیل سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ جہنم اور جنت اسی نئی دنیا میں ہوں گے۔
_____________