[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:کیا تمام نبیوں اور رسولوں کو معجزے عطا کیے گئے تھے؟ کیا معجزہ اللہ کے قانون فطرت سے متصادم نہیں ہوتا؟کیا قرآن مجید میں یہ بات موجود ہے کہ اللہ اپنی سنت کے خلاف کوئی کام نہیں کرتا؟(آصف بن خلیل و قمر اقبال)
جواب: یہ بات تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سب رسولوں اور نبیوں کو معجزے دیے ہیں، کیونکہ بہت سے انبیا ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمیں بالکل کوئی معلومات نہیں دی گئیں۔ معجزہ یقیناًاس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے اپنے جاری کردہ قانون ہی کو توڑتا ہے اور معجزہ دیا بھی اسی لیے جاتا ہے کہ وہ جاری قانون کو توڑ کر یہ بتا دے کہ جس شخص کے ہاتھ سے یہ واقعہ سرزد ہو رہا ہے، اس کے پیچھے اس کائنات کا مالک کھڑا ہے۔ خدا نے قرآن مجید میں کہیں بھی ایسی کوئی بات نہیں کی کہ وہ کائنات میں اپنے جاری قانون کو ہرگز نہیں توڑے گا۔ اس ضمن میں جن آیات سے استدلال کیا جاتا ہے، ان کا قوانین فطرت سے کوئی دور کا واسطہ بھی نہیں ہے، بلکہ وہ آیات رسولوں کے بارے میں اللہ کی مستقل سنت سے متعلق ہیں۔ جیسا کہ ارشادباری ہے:
لَءِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْہَآ اِلَّا قَلِیْلاً. مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً. سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً.(الاحزاب۳۳: ۶۰۔۶۲)
’’یہ منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے اور جو مدینہ میں سنسنی پھیلانے والے ہیں، اگر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم تم کو ان پر اکسا دیں گے، پھر وہ تمھارے ساتھ رہنے کا بہت ہی کم موقع پائیں گے۔ ان پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور بے دریغ قتل کیے جائیں گے۔ یہی اللہ کی سنت رہی ہے ان لوگوں کے بارے میں جو پہلے ہو گزرے ہیں اور تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔‘‘
یہ رسولوں کے مخالفین کے بارے میں اللہ کی سنت ہے، نہ کہ قوانین فطرت کے بارے میں۔
سوال:میں نے بعض لوگوں سے یہ سنا ہے کہ قرآن کا پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا تھا اور پھر اسی فارسی ترجمے سے باقی تمام ترجموں میں رہنمائی لی گئی، جس کی وجہ سے ایرانیوں کے خیالات اور ان کے عقائد قرآن کے اُن ترجموں میں شامل ہو گئے ہیں، چنانچہ یہ ترجمے قابل اعتبار نہیں ہیں، خصوصاًجبکہ ہم لوگ عربی زبان سے بھی ناواقف ہیں۔ کیا یہ بات آپ کے خیال میں درست ہے؟ (آصف بن خلیل و قمر اقبال)
جواب: ترجموں کے حوالے سے آپ نے جو بات لکھی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عالم نے قرآن کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا، وہ تو کچھ عربی جانتا تھا، چنانچہ اس نے عربی قرآن کا فارسی میں ترجمہ کر لیا، لیکن جن لوگوں نے قرآن کا ترجمہ مثلاً اردو میں کیا ہے، وہ عربی کوئی خاص نہیں جانتے تھے، البتہ وہ فارسی بہت اچھی جانتے تھے۔ چنانچہ وہ فارسی ترجمے ہی کی مدد سے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنے پر مجبور تھے۔ سبحان اللہ،یہ نکتہ بہت بودا ہے۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ کے اردو ترجمے کو دیکھیے، وہ ایک بے مثال ترجمہ ہے۔ کوئی شخص بھی یہ بات نہیں مان سکتا کہ مسلمان امت میں قرآن کا ترجمہ عربی زبان سے ناواقف لوگوں نے کیا ہے اور جو عربی زبان جانتے تھے، انھوں نے ایسے ترجمے اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے دیے اور خود اس ضمن میں کوئی کام نہ کیا۔
اس طرح کے اشکالات عموماً وہ لوگ پیدا کرتے ہیں جو اصل میں خود عربی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں۔
سوال: کیا فرشتے اللہ کی طاقتوں میں سے ایک طاقت ہیں یا وہ ایک نوری مخلوق ہیں جو اپنا جسمانی وجود بھی رکھتی ہے جو انسانی روپ یا کسی بھی روپ میں ظاہر ہو سکتی ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کی صفاتی طاقتیں ہیں جنھیں مختلف فرشتوں کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے؟(آصف بن خلیل و قمر اقبال)
جواب: فرشتے اپنا تشخص رکھتے ہیں۔ وہ کائناتی قوتیں نہیں ہیں، نہ وہ خدا کی طاقتوں کے نام ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے بارے میں جس طرح کلام کیا گیا ہے، وہ کلام بتاتا ہے کہ وہ اپنا ایک تشخص رکھتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰہِ وَلاَ الْمَلآءِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ وَمَنْ یَّسْتَنْکِفْ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَیَسْتَکْبِرْ فَسَیَحْشُرُہُمْ اِلَیْہِ جَمِیْعًا.(النساء۴: ۱۷۲)
’’اور مسیح کو اللہ کا بندہ بننے سے ہرگز عار نہ ہو گا اور نہ مقرب فرشتوں کو عار ہو گا اور جو اللہ کی بندگی سے عار کرے گا اور تکبر کرے گا تو اللہ ان سب کو اپنے پاس اکٹھا کرے گا۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ مقرب فرشتے بھی مسیح علیہ السلام کی طرح کسی کام سے عار محسوس کرنے کی اور تکبر کرنے کی صلاحیت بہرحال رکھتے ہیں اور وہ بھی مسیح کی طرح اللہ کا بندہ بننے اور اس کی عبادت کرنے کے مکلف ہیں۔ اس طرح کی اور بھی بے شمار آیات ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے اپنا باقاعدہ تشخص رکھتے ہیں ۔
ہم فرشتوں کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے، بس اتنا معلوم ہے کہ وہ اللہ کی ایک مخلوق ہے۔ ان کے ذمے جو کام ہوتے ہیں، انھیں وہ بڑی فرماں برداری سے بجا لاتے ہیں۔
ہمیں اس بات میں کیوں کوئی اشکال ہو کہ فرشتے انسانی روپ دھار سکتے ہیں یا نہیں، اگر قرآن ایسی کوئی بات کرتا ہے کہ وہ انسانی روپ میں آ سکتے ہیں یا آئے ہیں تو ہم تہ دل سے اسے مانیں گے۔ارشاد باری ہے:
فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا، قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْکَ اِنْ کُنْتَ تَقِیًّا، قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکَ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زِکِیًّا.(مریم۱۹: ۱۷ ۔ ۱۹)
’’تو ہم نے اس (مریم) کے پاس اپنی روح کو بھیجا، جو اس کے سامنے ایک کامل بشر کی صورت میں نمودار ہوئی۔ وہ بولی کہ اگر تم کوئی خدا ترس آدمی ہو تو میں تم سے خدا رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔اس نے کہا کہ میں تو تمھارے رب ہی کا فرستادہ ہوں تاکہ تمھیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں۔‘‘
یہ آیت بتاتی ہے کہ خدا کی وہ فرستادہ روح بشر کی صورت دھار کر مریم کے پاس آئی تھی۔ اسی روح کو قرآن میں دوسری جگہوں پر روح الامین ، روح القدس اور الروح کہا گیا ہے اور قرآن ہی کے دوسرے مقامات سے پتا چلتا ہے کہ یہ روح جبریل علیہ السلام ہیں۔
وہ فرشتے جو ابراہیم علیہ السلام کے پاس مہمانوں کی صورت میں آئے تھے، وہ بھی انسانی روپ ہی میں تھے ، جبھی تو وہ انھیں پہچان نہ سکے تھے اور ان کے لیے بھنا ہوا گوشت لا کر رکھ دیا۔ پھر جب انھوں نے وہ نہیں کھایا تو آپ نے ان سے یہ کہا کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں۔
اس طرح کے بعض اور مقام بھی ہیں، جن سے یہ واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے انسانی روپ اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد اس سے انکار کی کوئی وجہ ہی موجود نہیں ہے۔
سوال: کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام واقعی بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے یا حضرت مریم کی شادی ہوئی تھی اور اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا اور وہ قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ واپس آئیں گے یا ان کی طبعی وفات ہوئی تھی؟(آصف بن خلیل و قمر اقبال)
جواب: عیسیٰ علیہ السلام یقیناًبن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَاللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ، خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ، اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ.(آل عمران۳: ۵۹۔۶۰)
’’بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے، اس کو مٹی سے بنایا ،پھر اس کو امر کیا کہ توہو جا تو وہ ہو گیا۔ یہی بات تمھارے رب کی طرف سے حق ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ بنو۔‘‘
یہ آیت واضح طور پر یہ بتا رہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش کا معاملہ آدم علیہ السلام کی پیدایش کی مثل ہے اور آپ اسی طرح بغیر باپ کے مریم کے پیٹ میں حرف کن سے پیدا کیے گئے تھے، جیسے آدم علیہ السلام بغیر ماں باپ کے مٹی سے حرف کن کے ساتھ پیدا کیے گئے تھے۔ پھر اس کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت بھی کر دی ہے کہ یہی بات حق ہے، لہٰذا اے مخاطب، تم شک کرنے والوں میں نہ بنو۔
عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کا قرآن مجید میں دو مقامات پر ذکر موجود ہے۔ ارشاد باری ہے:
وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا، بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ.(النساء۴: ۱۵۷۔۱۵۸)
’’انھوں نے اس کو ہرگز قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘
اور فرمایا:
اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ.(آل عمران۳: ۵۵)
’’جب اللہ نے کہا: اے عیسیٰ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا۔ ‘‘
ان دونوں آیات سے یہ پتا چلتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے ہرگز قتل نہیں کیا تھا، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے، البتہ اللہ نے انھیں وفات دی تھی اور پھر اللہ نے ان کے بے جان جسم کو یہود کے ہاتھوں سے بچانے کے لیے اپنے پاس اٹھا لیا تھا۔ چنانچہ یہی بات صحیح ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
اس سب کے باوجود اگر انھیں دنیا میں دوبارہ آنا ہے تو اس میں عقلاً کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ جن احادیث میں ان کے دنیا میں دوبارہ آنے کا ذکر ہے، خود قرآن مجید ہی کی بعض آیات ان سے متصادم ہیں۔ لہٰذا ان آیات کی روشنی ہی میں ان احادیث کو سمجھنا چاہیے۔
سوال:کیا قیامت کا مطلب دنیا اور کائنات کا خاتمہ ہے یا اس سے مراد وہ وقت اور زمانہ ہے، جب اللہ تعالیٰ کا نظام، یعنی دین نافذ ہو جائے گا؟ اس سلسلے میں قرآن مجید سے کیا بات ثابت ہوتی ہے؟ (آصف بن خلیل و قمر اقبال)
جواب: قرآن مجید کے مطابق قیامت کا واضح طور پر صرف اور صرف یہی مطلب ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والے ہر آدمی کو مرنا ہے، پھر ایک دن یہ زمین شدید زلزلوں کی وجہ سے بالکل ہموار ہو جائے گی اور انسانوں کی یہ دنیا ختم ہو جائے گی، یہ کائنات بھی توڑ پھوڑ دی جائے گی۔ پھر نئی دنیا وجود میں آئے گی، لوگ مر کر ہڈیاں ہو جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور میدان حشر میں حساب کتاب کے لیے اکٹھے کیے جائیں گے، سب لوگوں کا حساب کتاب ہو گا اور پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت یا دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔ یہ سب کچھ قرآن کی صریح آیات سے ثابت ہے۔ ذیل میں ان درج بالا باتوں میں سے ہر ایک سے متعلق آیات پیش کی جاتی ہیں۔
دنیا میں پیدا ہونے والے ہر آدمی کو مرنا ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ.(آل عمران۳: ۱۸۵)
’’ہر انسان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔‘‘
پھر ایک دن یہ زمین شدید زلزلوں کی وجہ سے بالکل ہموار ہو جائے گی اور انسانوں کی یہ دنیا ختم ہو جائے گی:
اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا.(الزلزال۹۹: ۱۔۲)
’’جب زمین پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی اور وہ اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔‘‘
وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ، وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَ تَخَلَّتْ.(الانشقاق۸۴: ۳۔۴)
’’اورجب زمین تان دی جائے گی اور وہ اپنے اندر کی چیزیں باہر ڈال کر فارغ ہو جائے گی۔‘‘
کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ.(الرحمن۵۵: ۲۶)
’’اس زمین پر جو کچھ ہے، وہ سب فانی ہے۔‘‘
یہ کائنات بھی توڑ پھوڑ دی جائے گی:
اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ، وَاِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْ.( الانفطار۸۲: ۱۔۲)
’’جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب ستارے بکھر جائیں گے۔‘‘
پھر نئی دنیا وجود میں آئے گی:
یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ.(ابراہیم۱۴: ۴۸)
’’جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان دوسرے آسمان سے۔‘‘
لوگ مر کر ہڈیاں ہو جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور میدان حشر میں حساب کتاب کے لیے اکٹھے کیے جائیں گے:
یَقُوْلُوْنَ ءَ اِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ، ءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا نَّخِرَۃً، قَالُوْا تِلْکَ اِذًا کَرَّۃٌ خَاسِرَۃٌ، فَاِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ، فَاِذَا ہُمْ بِالسَّاہِرَۃِ.(النازعات۷۹: ۱۱تا ۱۴)
’’پوچھتے ہیں: کیا ہم پھر پہلی حالت میں لوٹائے جائیں گے، کیا جبکہ ہم کھنکھناتی ہڈیاں ہو چکیں گے، کہتے ہیں: یہ لوٹایا جانا تو بڑے ہی خسارے کا ہو گا۔ وہ تو بس ایک ہی ڈانٹ ہو گی کہ دفعۃً وہ سب میدان میں آ موجود ہوں گے۔‘‘
سب لوگوں کا حساب کتاب ہو گا:
ہٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ جَمَعْنٰکُمْ وَالْاَوَّلِیْنَ.(المرسلٰت۷۷: ۳۸)
’’یہ ہے فیصلے کا دن، ہم نے جمع کر لیا ہے تم کو بھی اور اگلوں کو بھی۔‘‘
پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت یا دوزخ میں داخل ہو جائیں گے:
وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْبَ فِیْہِ فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ.(الشوریٰ۴۲: ۷)
’’اور اس دن سے ڈراؤ، جو سب کو اکٹھا کرنے کا دن ہو گا، جس کے آنے میں کسی شک کی گنجایش نہیں ہے،( اس دن) ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا اور ایک گروہ دوزخ میں۔‘‘
بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْٓءَتُہٗ ، فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ.(البقرہ۲: ۸۱)
’’ البتہ جس نے کمائی کوئی بدی اور اس کے گناہ نے اس کو اپنے گھیرے میں لے لیا تو وہی لوگ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃَ، ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ. (البقرہ۲: ۸۲)
’’اور جو ایمان لائے اور انھوں نے بھلے کام کیے تو وہی جنت والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
یہ آیات اپنے مفہوم کے اعتبار سے بالکل واضح ہیں، اس طرح کی اور بے شمار آیات قرآن میں موجود ہیں، ان کو کسی ایسے مجازی مفہوم میں لینا ممکن ہی نہیں، جس سے اس کائنات میں کوئی توڑ پھوڑ واقع نہ ہو، لوگ مر کر دوبارہ زندہ نہ ہوں، ان کے اعمال کا حساب کتاب نہ ہو اور وہ اپنے اچھے اعمال کے بدلے میں جنت نہ پائیں اور برے اعمال کے بدلے میں دوزخ کی سزا سے ہم کنار نہ ہوں۔ جن لوگوں نے انھیں مجازی مفہوم میں لینے کی کوشش کی ہے، انھوں نے علم کی دنیا میں اپنی جہالت کا پورا ثبوت دے دیا ہے۔
سوال:کیا ہندو لڑکے کے ساتھ مسلمان لڑکی کا شادی کرنا جائز ہے؟(محمد زبیر خان)
جواب: مسلمان مردوں کے لیے غیر مسلموں میں سے صرف اہل کتاب کی خواتین سے نکاح جائز ہے، اس سے آگے بڑھنا درست معلوم نہیں ہوتا۔چنانچہ ہمارے خیال کے مطابق ہندو لڑکے کے ساتھ مسلمان لڑکی کا شادی کرنا جائز نہیں ہے۔
سوال:نکاح اور طلاق کا شرعی طریقۂ کار کیا ہے؟(محمد عمر بن عبداللہ)
جواب: دین میں نکاح اور طلاق کے حوالے سے جو احکام دیے گئے ہیں، استاذ محترم جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’قانون معاشرت‘‘ میں انھیں پوری تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ذیل میں اسی کتاب میں سے بعض اقتباسات ایک ترتیب کے ساتھ آپ کے پیش خدمت ہیں:
’’نکاح
...علانیہ ایجاب و قبول کے ساتھ یہ مردو عورت کے درمیان مستقل رفاقت کا عہد ہے جو لوگوں کے سامنے اور کسی ذمہ دار شخصیت کی طرف سے اس موقع پر تذکیر و نصیحت کے بعد پورے اہتمام اور سنجیدگی کے ساتھ باندھا جاتا ہے۔ (۱۳)
...نکاح مال یعنی مہر کے ساتھ ہونا چاہیے۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ ایک فریضہ کی حیثیت سے یہ نکاح کی ایک لازمی شرط ہے۔ (۲۳)
مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں کی گئی ۔ اسے معاشرے کے دستور اور لوگوں کے فیصلے پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ چنانچہ عورت کی سماجی حیثیت اور مرد کے معاشی حالات کی رعایت سے وہ جتنا مہر چاہیں ، مقرر کر سکتے ہیں۔(۲۴)
...نکاح کے لیے پاک دامن ہونا ضروری ہے۔ کوئی زانی یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی عفیفہ سے بیاہ کرے اور نہ کوئی زانیہ یہ حق رکھتی ہے کہ کسی مردعفیف کے نکاح میں آئے ، الاّ یہ کہ معاملہ عدالت میں نہ پہنچا ہو اور وہ توبہ و استغفار کے ذریعے سے اپنے آپ کو اس گناہ سے پاک کر لیں۔(۲۴)
...یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ نکاح خاندان کے جس ادارے کو وجود میں لانے کے لیے کیا جاتا ہے ، اس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ یہ والدین اور سرپرستوں کو ساتھ لے کر اور ان کی رضا مندی سے کیا جائے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ نکاح میں فیصلہ اصلاً مردو عورت کرتے ہیں اور ان کے علانیہ ایجاب و قبول سے یہ منعقد ہو جاتا ہے ، لیکن اولیا کا اذن اگر اس میں شامل نہیں ہے تو اس کی کوئی معقول وجہ لازماً سامنے آنی چاہیے ۔ یہ نہ ہو تو معاشرے کا نظم اجتماعی یہ حق رکھتا ہے کہ اس طرح کا نکاح نہ ہونے دے۔(۲۶)
طلاق کا طریقہ
شوہر خود طلاق دے یا بیوی کے مطالبے پر اسے علیحدہ کر دینے کا فیصلہ کرے ، دونوں ہی صورتوں میں اس کا جو طریقہ ان آیات میں بتایا گیا ہے ، وہ یہ ہے:
۱۔طلاق عدت کے لحاظ سے دی جائے گی ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بیوی کو فوراً علیحدہ کر دینے کے لیے طلاق دینا جائز نہیں ہے ۔یہ جب دی جائے گی ، ایک متعین مدت کے پورا ہو جانے پر مفارقت کے ارادے سے دی جائے گی۔ عدت کا لفظ اصطلاح میں اس مدت کے لیے استعمال ہوتا ہے جس میں بیوی شوہر کی طرف سے طلاق یا اس کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی ۔ یہ مدت چونکہ اصلاً مقرر ہی اس لیے کی گئی ہے کہ عورت کے پیٹ کی صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے ، اس لیے ضروری ہے کہ بیوی کو حیض سے فراغت کے بعد اور اس سے زن و شو کا تعلق قائم کیے بغیر طلاق دی جائے۔...(۵۸۔۵۹)
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ عدت کا شمار پوری احتیاط کے ساتھ کیا جائے ۔ طلاق کا معاملہ چونکہ نہایت نازک ہے ، ا س سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہ جب طلاق دی جائے تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جائے اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ طلاق کے وقت عورت کی حالت کیا تھی ، عدت کی ابتدا کس وقت ہوئی ہے ، یہ کب تک باقی رہے گی اور کب ختم ہو جائے گی۔
معاملہ گھر میں رہے یا خدانخواستہ کسی مقدمے کی صورت میں عدالت تک پہنچے، دونوں صورتوں میں اسی سے متعین کیا جائے گا کہ شوہر کو رجو ع کا حق کب تک ہے، اسے عورت کو گھر میں کب تک رکھنا ہے ، نفقہ کب تک دینا ہے ، وراثت کا فیصلہ کس وقت کے لحاظ سے کیا جائے گا، عورت اس سے کب جدا ہو گی اور کب اسے دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہو جائے گا۔
۲۔ عدت کے پورا ہونے تک شوہر کو رجوع کا حق ہے ۔...(۵۹۔۶۰)
۳۔ شوہر رجوع نہ کرے تو عدت کے پورا ہو جانے پر میاں بیوی کا رشتہ ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ ہدایت فرمائی ہے کہ یہ خاتمے کو پہنچ رہی ہو تو شوہر کو فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اسے بیوی کو روکنا ہے یا رخصت کردینا ہے ۔ دونوں ہی صورتوں میں اللہ کا حکم ہے کہ معاملہ معروف کے مطابق ، یعنی بھلے طریقے سے کیا جائے۔ (۶۱)
...اس باب میں جو ہدایات خود قرآن میں دی گئی ہیں ، وہ یہ ہیں :
اولاً ، بیوی کو کوئی مال ، جائداد ، زیورات اور ملبوسات وغیرہ ، خواہ کتنی ہی مالیت کے ہوں ، اگر تحفے کے طور پر دیے گئے ہیں تو ان کا واپس لینا جائز نہیں ہے ۔ نان ونفقہ اور مہر تو عورت کا حق ہے ، ان کے واپس لینے یا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ جو چیزیں دی گئی ہوں، ان کے بارے میں بھی قرآن کا حکم ہے کہ وہ ہرگز واپس نہیں لی جا سکتیں ۔
اس سے دو صورتیں ، البتہ مستثنیٰ ہیں :
ایک یہ کہ میاں بیوی میں حدودالٰہی کے مطابق نباہ ممکن نہ رہے ، معاشرے کے ارباب حل و عقد بھی یہی محسوس کریں ، لیکن میاں صرف اس لیے طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو کہ اس کے دیے ہوئے اموال بھی ساتھ ہی جائیں گے تو بیوی یہ اموال یا ان کا کچھ حصہ واپس کر کے شوہر سے طلاق لے سکتی ہے ۔ اس طرح کی صورت حال اگر کبھی پیدا ہو جائے تو شوہر کے لیے اسے لینا ممنوع نہیں ہے ۔
دوسری یہ کہ بیوی کھلی ہوئی بدکاری کا ارتکاب کرے ۔ اس سے میاں بیوی کے رشتے کی بنیاد ہی چونکہ منہدم ہو جاتی ہے ، لہٰذا شوہر کے لیے جائز ہے کہ اس صورت میں وہ اپنا دیا ہوا مال اس سے واپس لے لے ۔...(۶۳۔۶۴)
ثانیاً، عورت کو ہاتھ لگانے یا اس کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دی جائے تو مہر کے معاملے میں شوہر پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے ، لیکن مہر مقرر ہو اور ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق کی نوبت پہنچ جائے تو مقررہ مہر کا نصف ادا کرنا ہو گا ، الاّیہ کہ عورت اپنی مرضی سے پورا چھوڑ دے یا مرد پورا ادا کر دے ۔...(۶۵)
ثالثاً، عورت کو کچھ سامان زندگی دے کر رخصت کیا جائے۔...(۶۶)
۴۔عدت کے دوران میں شوہر رجوع کر لے تو عورت بدستور اس کی بیوی رہے گی ، لیکن اس کے معنی کیا یہ ہیں کہ شوہر اسی طرح جب چاہے بار بار طلاق دے کر عدت میں رجوع کر سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب قرآن نے یہ دیا ہے کہ طلاق اور طلاق کے بعد رجوع کا یہ حق ہر شخص کو ایک رشتۂ نکاح میں دو مرتبہ حاصل ہے ۔... (۶۷)
...یعنی آدمی طلاق دے کر رجوع کر لے تو عورت کے ساتھ اس کی پوری ازدواجی زندگی میں اس کو ایک مرتبہ پھر اسی طرح طلاق دے کر عدت کے دوران میں رجوع کر لینے کا حق حاصل ہے ، لیکن اس کے بعد یہ حق باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ ایک رشتۂ نکاح میں دو مرتبہ رجوع کے بعد تیسری مرتبہ پھر علیحدگی کی نوبت آ گئی اور شوہر نے طلاق دے دی تو اس کے نتیجے میں عورت ہمیشہ کے لیے اس سے جدا ہو جائے گی ، الاّ یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ ہو اور وہ بھی اسے طلاق دے دے ۔...(۶۸)
۵۔شوہر طلاق دے یا رجوع کرے ، دونوں ہی صورتوں میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا ہے کہ اپنے اس فیصلے پر وہ دو ثقہ مسلمانوں کو گواہ بنا لے اور گواہوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ کے لیے اپنی اس گواہی پر قائم رہیں۔...(۷۲۔۷۳)
یہ طلاق کا صحیح طریقہ ہے ۔ اگر کوئی شخص اس کے مطابق اپنی بیوی کو علیحدہ کرتایا علیحدگی کا فیصلہ کر لینے کے بعد اس کی طرف مراجعت کرتا ہے تو اس کے یہ فیصلے شرعاً نافذ ہو جائیں گے ، لیکن کسی پہلو سے اس کی خلاف ورزی کر کے اگر طلاق دی جاتی ہے تو یہ پھر ایک قضیہ ہے جس کا فیصلہ عدالت کرے گی ۔ ‘‘(۷۳)
_______________