بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یَسْئَلُکَ اَہْلُ الْکِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْْہِمْ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآئِ، فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰٓی اَکْبَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَقَالُوْٓا اَرِنَا اللّٰہَ جَہْرَۃً، فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ، ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ، فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِکَ، وَاٰتَیْْنَا مُوْسٰی سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا{۱۵۳} وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِہِمْ، وَقُلْنَا لَہُمُ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا، وَّقُلْنَا لَہُمْ لاَ تَعْدُوْا فِی السَّبْتِ، وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا{۱۵۴}
فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِمْ بَاٰیٰتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْْرِ حَقٍّ وَّقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ، بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ اِلاَّ قَلِیْلاً{۱۵۵} وَّبِکُفْرِہِمْ وَقَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا{۱۵۶} وَّقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ، وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ، وَلٰـکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ، وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ، مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلاَّ اتِّبَاعَ الظَّنِّ، وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا{۱۵۷} بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا{۱۵۸}
وَاِنْ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ،وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکُوْنُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْدًا{۱۵۹}
فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ، وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا{۱۶۰} وَّاَخْذِہِمُ الرِّبٰوا، وَقَدْ نُہُوْا عَنْہُ، وَاَکْلِہِمْ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ، وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ مِنْہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا{۱۶۱} لٰـکِنِ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ مِنْہُمْ، وَالْمُؤْمِنُوْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ، وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ وَالْمُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالْمُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، اُولٰٓـئِکَ سَنُؤْتِیْہِمْ اَجْرًا عَظِیْمًا{۱۶۲}
اِنَّآ اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْکَ کَمَآ اَوْحَیْْنَآ اِلٰی نُوْحٍ، وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْ بَعْدِہٖ، وَاَوْحَیْْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِیْسٰی وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَہٰرُوْنَ وَسُلَیْْمٰنَ، وَاٰتَیْْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا{۱۶۳} وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْْکَ مِنْ قَبْلُ، وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْْکَ، وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا{۱۶۴} رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ، وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا{۱۶۵}
یہ ۲۲۴ اہل کتاب تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ (اِس قرآن کے بجاے) اِن پر براہ راست آسمان سے ایک کتاب اتار لائو۔ (اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے)۔ اِنھوں نے موسیٰ سے اِس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا۔ اِنھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں خدا کو سامنے دکھائو تو اِن کی اِس سرکشی کے باعث اِن کو کڑک نے آلیا تھا۔ ۲۲۵ پھر اِنھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا، اِس کے بعد کہ اِن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں آچکی تھیں۔ اِس پر بھی ہم نے اِن سے درگذر کیا اور موسیٰ کو (اِن پر) صریح غلبہ عطا فرمایا تھا۔۲۲۶ اور ہم نے طور کو اِن پر اٹھا لیا تھا، اِن سے عہد کے ساتھ۲۲۷ اور اِن کو حکم دیا تھا کہ (شہر کے) دروازے میں سر جھکائے ہوئے داخل ہوں۲۲۸ اور اِن سے کہا تھا کہ سبت کے معاملے میں نافرمانی نہ کرنا اور۲۲۹ (اِن سب چیزوں پر) ہم نے اِن سے پختہ عہد لیا تھا۔ ۱۵۳-۱۵۴
پھر اِن کے عہد توڑ دینے کی وجہ سے (ہم نے اِن پر لعنت کر دی)، اور اِس وجہ سے کہ اِنھوں نے اللہ کی آیتوں کو نہیں مانا اور اِن کے نبیوں کو ناحق قتل کر دینے کی وجہ سے اور اِس وجہ سے کہ اِنھوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر تو غلاف ہیں ــــ (نہیں)، بلکہ اِن کے کفر کی پاداش میں اللہ نے اِن کے دلوں پر مہر کر دی ہے، اِس لیے (اب) یہ کم ہی ایمان لائیں گے ــــــ ور اِن کے کفر کی وجہ سے ۲۳۰ اور مریم پر بہتان عظیم لگانے کی وجہ سے۲۳۱ اور اِن کے اِس دعوے کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح ابن مریم رسول اللہ۲۳۲ کو قتل کردیا ہے ـــــ دراں حالیکہ اِنھوں نے نہ اُس کو قتل کیا اور نہ اُسے صلیب دی،۲۳۳ بلکہ معاملہ اِن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا۔۲۳۴ اِس میں جو لوگ اختلاف کر رہے ہیں،۲۳۵ وہ اِس معاملے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں، اُن کو اِس کے متعلق کوئی علم نہیں، وہ صرف گمانوں کے پیچھے چل رہے ہیں۔ اِنھوں نے ہرگز اُس کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ ہی نے اُسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا۲۳۶ اور اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ ۱۵۵-۱۵۸
(یہ اِن کے جرائم ہیں، اِس لیے اب قرآن کے سوا یہ براہ راست آسمان سے اتری ہوئی کسی کتاب کا مطالبہ کر رہے ہیں تو اِن کی پروانہ کرو، اے پیغمبر) اِن اہل کتاب میں سے ہر ایک اپنی موت سے پہلے اِسی (قرآن) پر یقین کر لے گا ۲۳۷ اور قیامت کے دن یہ اِن پر گواہی دے گا۔۲۳۸ ۱۵۹
پھر اِن یہودیوں کے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ایسی پاکیزہ چیزیں بھی اِن پر حرام کر دی تھیں جو اِن کے لیے حلال تھیں۲۳۹ اور اِس وجہ سے کہ یہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے رہے ہیں اور اِس وجہ سے کہ سود لیتے رہے ہیں، دراں حالیکہ اِنھیں اِس سے روکا گیا تھا۲۴۰ اور اِس وجہ سے کہ یہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے رہے ہیں،۲۴۱ اور یہ اِنھی کے منکرین ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔۲۴۲ اِن میں سے، البتہ جو علم میں پختہ ہیں۲۴۳ اور جو ایمان والے ہیں،۲۴۴ وہ اُس چیز کو مانتے ہیں جو تم پر اتاری گئی اور جو تم سے پہلے اتاری گئی ہے اور خاص کر نماز کا اہتمام کرنے والے۲۴۵ اور زکوٰۃ دینے والے اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھیں ہم عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔ ۱۶۰-۱۶۲
(اِن کی پروانہ کرو، اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف اُسی طرح وحی کی ہے، جس طرح نوح پر اور اُس کے بعد آنے والے پیغمبروں پر کی تھی۔ ہم نے ابراہیم، اسمعٰیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی کی اور دائود کو ہم نے زبور عطافرمائی تھی۔۲۴۶ ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی وحی بھیجی جن کا ذکر تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا۲۴۷ اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے۔۲۴۸ یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ اِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔۲۴۹ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ ۱۶۳-۱۶۵
۲۲۴؎ پہلا سوال کمزور مسلمانوں کی طرف سے تھا اور دوسرا منافقین کی طرف سے۔ اب یہ تیسرا سوال ہے جو اِس سورہ کی دعوت کے جواب میں اہل کتاب کے اِس مطالبے کی صورت میں سامنے آیا ہے کہ اُنھیں قرآن نہیں، بلکہ ایک ایسی کتاب چاہیے جو آسمان سے براہ راست نازل کی جائے۔ وہ اس کے بعد ہی ایمان لانے کے لیے تیار ہوں گے۔ اس کا جواب اس قدر سخت اور شدید تنبیہ کے ساتھ دیا گیا ہے کہ استاذ امام کے الفاظ میں لفظ لفظ سے جوش غضب ابلا پڑ رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ پوری تقریر ازابتدا تا انتہا صرف فرد قرارداد جرائم پر مشتمل ہے اور کلام کے جوش اور روانی کا یہ عالم ہے کہ بات شروع ہونے کے بعد یہ متعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ختم کہاں ہوئی۔ اِس قسم کے پرجوش اور پرغضب کلام میں عموماً خبر حذف ہو جاتی ہے، گویا متکلم کا جوش ہی خبر کا قائم مقام بن جاتا ہے اور مبتدا ہی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ متکلم کیا کہنا چاہتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۱۵)
۲۲۵؎ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش اگر شرح صدر اور اطمینان قلب کے لیے ہو تو کوئی قابل ملامت چیز نہیں ہے، لیکن بنی اسرائیل کا یہ مطالبہ محض اُن کی بے یقینی اور تشکیک کا مظاہرہ اور انکارو تکذیب کا بہانہ تھا۔ اُنھیں کسی طرح اِس بات کا یقین ہی نہیں آتا تھا کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرماتے ہیں، لہٰذا اُن پر عتاب ہوا۔ اِس کے لیے اصل میں ’فَاَخَذَتْہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلْمِہِمْ‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن کا مدعا یہ ہے کہ یہ اللہ نے اُن پر کوئی زیادتی نہیں کی، بلکہ اُنھوں نے خود اپنے اوپر زیادتی کی ہے۔ وہ ایک ایسے تجربے کے لیے بہ ضد ہوئے جس کی تاب وہ کسی طرح نہیں لا سکتے تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود ہی اُس کی زد میں آگئے۔
۲۲۶؎ اِس کی صورت یہ ہوئی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے حکم سے بنی اسرائیل کی جماعت کو مجرموں سے پاک کر دیا گیا اور کسی کو اُن کے سامنے چون و چرا کی جرأت نہیں ہوئی ۔ بائیبل کی کتاب خروج میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’۔۔۔موسیٰ نے لشکر گاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا جو جو خداوند کی طرف ہے (یعنی اپنے ایمان پر قائم ہے)، وہ میرے پاس آجائے۔ تب سب بنی لاوی اُس کے پاس جمع ہوگئے اور اُس نے اُن سے کہا کہ خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تم اپنی اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم گھوم کر سارے لشکر گاہ میں اپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اور اپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو اور بنی لاوی نے موسیٰ کے کہنے کے موافق عمل کیا۔ چنانچہ اُس دن لوگوں میں سے قریباً تین ہزار مرد کھیت آئے اور موسیٰ نے کہا کہ آج خداوند کے لیے اپنے آپ کو مخصوص کرو (یعنی اپنے ایمان کی تجدید کرو)، بلکہ ہر شخص اپنے ہی بیٹے اور اپنے ہی بھائی کے خلاف ہو تاکہ وہ تم کو آج ہی برکت دے۔‘‘ (۳۲: ۲۶-۲۹)
۲۲۷؎ قرآن اور بائیبل، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے یہ عہد پہاڑ کے دامن میں اِس طرح لیا گیا کہ طور اپنی جگہ سے اکھڑ کر سائبان کی طرح اُن کے سروں پر لٹک رہا تھا اور اُنھیں لگتا تھا کہ وہ اُن پر گر کر رہے گا۔ قرآن نے یہاں اِس حالت کو پہاڑ کے اُن پر اٹھا لینے سے تعبیر کیا ہے۔ اِس کے لیے اصل میں ’وَرَفَعْنَا فَوْقَہُمُ الطُّوْرَ بِمِیْثَاقِہِمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’ب‘ ملابست کے لیے ہے۔ اِس سے جس حقیقت کو مصور کر کے پیش کرنا مقصود ہے، وہ استاذ امام کے الفاظ میں یہ ہے کہ خدا نے اُن کے اوپر طور کو بھی اٹھایا اور اُس کے ساتھ معاہدے کو بھی کہ یہ معاہدہ ہے اور یہ پہاڑ، اگر اِس معاہدے کی بے حرمتی ہوئی تو اِسی پتھر سے تمھارا سر کچل دیا جائے گا۔
۲۲۸؎ یہ سرزمین فلسطین ہی کا کوئی شہر تھا جس کی فتح کے بعد اُنھیں عجز اور فروتنی کے ساتھ اُس میں داخل ہونے کی ہدایت کی گئی۔
۲۲۹؎ یہ اصلاً جمعہ کا دن تھا جسے بنی اسرائیل نے اُس کے اگلے دن سے بدل ڈالا۔ اُن کے ہاں یہ دن پشت در پشت تک دائمی عہد کے نشان کے طور پر خدا کی عبادت کے لیے خاص تھا اور اِس میں اُن کے لیے کام کاج، سیروشکار، حتیٰ کہ گھروں میں آگ جلانا اور لونڈی غلاموں سے کوئی خدمت لینا بھی ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ اُن کی ایک بستی کے لوگوں نے اِس دن کی پابندیوں سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لیے جو شرعی حیلے ایجاد کیے اور اِس طرح اللہ کی شریعت کا مذاق اڑایا، یہ اُسی کا ذکر ہے۔
۲۳۰؎ اِس کا عطف اوپر کے سلسلۂ کلام پر ہے۔ اِس سے پہلے ایک جملۂ معترضہ ہے جس کے بعد اہل کتاب کے جرائم کا بیان ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا ہے۔
۲۳۱؎ یہود نے یہ الزام سیدنا مسیح علیہ السلام کے بعد اُن کی ماں پر لگایا۔ اُن کے سامنے وہ اِس کی جرأت کبھی نہیں کر سکے۔
۲۳۲؎ ’رسول اللّٰہ‘ کا لفظ اِس آیت میں ہمارے نزدیک یہود کے قول کا جز نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تضمین ہے جس سے اُن کے جرم کی سنگینی کو واضح کرنا مقصود ہے۔
۲۳۳؎ یہ پھر ایک جملۂ معترضہ ہے جس میں یہود کی طرف سے مسیح علیہ السلام کے دعوی قتل کی فوری تردید کی گئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اِس فوری تردید سے دو پہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ کے رسول اُس کی حفاظت میں ہوتے ہیں، اُن کے خلاف اُس کے دشمنوں کی چالیں خدا کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ اِس وجہ سے یہود کا یہ دعویٰ کہ اُنھوں نے اُن کو قتل کیا یا سولی دی بالکل بے بنیاد ہے۔ وہ اپنی اس شرارت میں بالکل ناکام رہے۔ البتہ ایک جھوٹے دعوے کا بار اپنے سر لے کر ہمیشہ کے لیے مبغوض و ملعون بن گئے۔ دوسرا یہ کہ نہ کہیں مسیح کے قتل کا واقعہ پیش آیا نہ سولی کا، لیکن پال (Paul) کے متبع نصاریٰ نے اِس فرضی افسانے کو لے کر اِس پر ایک پوری دیو مالا (mythology) تصنیف کر ڈالی اور اِس طرح پرائے شگون پر خود اپنی ناک کٹوا بیٹھے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۲۰)
۲۳۴؎ یعنی صورت حال ایسی بنا دی گئی کہ یہود یہی سمجھے کہ اُنھوں نے مسیح علیہ السلام کو سولی دلوا دی ہے۔ اِس کی صورت کیا ہوئی؟ اِس معاملے میں سب سے زیادہ قرین قیاس بیان انجیل برنباس کا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب یہوداہ اسکریوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر مسیح علیہ السلام کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آں جناب کو اٹھا کر لے گئے اور یہوداہ اسکر یوتی کی صورت اور آواز بالکل وہی کر دی گئی جو سیدنا مسیح کی تھی۔ سولی اُسے ہی دی گئی۔ مسیح علیہ السلام کو ہاتھ لگانا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں ہوا۔ قرآن نے غالباً اِسی کو یہاں ’معاملہ اُن کے لیے مشتبہ بنا دیا گیا‘سے تعبیر کیا ہے۔
۲۳۵؎ اصل میں ’اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے مراد نصاریٰ ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِن کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ نصاریٰ میں نفس واقعہ سے متعلق بھی ۔۔۔بڑا اختلاف ہے اور اِس پر جو دیومالا (mythology) اُنھوں نے تصنیف کی ہے، اُس میں بھی بڑے اختلافات ہیں اور یہ اختلاف قدرتی نتیجہ ہے اِس بات کا کہ اُنھوں نے اپنے سارے علم کلام کی بنیاد حقیقت کے بجاے محض ظن پر رکھی اور اِس طرح جس سولی سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح کو محفوظ رکھا، نصاریٰ نے اُس پر خود چڑھ کر خودکشی کر لی۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۲۱)
۲۳۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْْہِ‘۔ اِس رفع کی وضاحت قرآن نے سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۵۵ میں اِس طرح فرمائی ہے کہ وفات کے بعد اللہ تعالیٰ اُنھیں اپنی طرف اٹھا لیں گے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ روح قبض کر کے اُن کا جسم بھی اٹھا لیا جائے گا تاکہ اُن کے دشمن اُس کی توہین نہ کر سکیں۔ مسیح علیہ السلام اللہ کے رسول تھے اور رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت کرتا ہے اور جب تک اُن کا مشن پورا نہ ہو جائے، اُن کے دشمن ہرگز اُن کو کوئی نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ اِسی طرح اُن کی توہین و تذلیل بھی اللہ تعالیٰ گوارا نہیں کرتا اور جو لوگ اِس کے درپے ہوں، اُنھیں ایک خاص حد تک مہلت دینے کے بعد اپنے رسولوں کو لازماً اُن کی دست درازی سے محفوظ کر دیتا ہے۔
۲۳۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ‘۔ اِن میں لام تاکید اور قسم کا ہے اور ایمان کا لفظ یقین کرنے کے معنی میں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ دین میں معتبر ایمان صرف وہ ہے جو یقین، تصدیق اور اقرار، تینوں اجزا پر مشتمل ہو۔ اِس کے علاوہ ایک وہ ایمان ہے جس کے اندر یقین اور تصدیق کے اجزا تو نہیں پائے جاتے، لیکن اظہار و اقرار کا جزو پایا جاتا ہے، یہ منافقین کا ایمان ہے۔ اِسی طرح ایک وہ ایمان بھی ہے جس کے اندر یقین تو پایا جاتا ہے، لیکن اِس کے اندر تصدیق اور اقرار کے اجزا مفقود ہوتے ہیں، یہ متکبرین اور متمردین کا ایمان ہے۔ اِن پر حق کا حق ہونا تو بالکل واضح ہو جاتا ہے، لیکن وہ اپنی رعونت اور شرارت کی وجہ سے اِس کی تصدیق و اقرار سے گریز کرتے ہیں اور اپنی اِس شرارت کو مختلف بہانوں کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۲۲)
یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ یہ تہدید اور وعید کا جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت جو باتیں اِنھیں دلیل سے سمجھائی جارہی ہیں، وہی آنے والے دنوں میں واقعہ بن جائیں گی۔ اِنھیں سوچنا چاہیے کہ اُس وقت یہ کیا کریں گے۔ ماننے کے سوا اُس وقت اِن کے لیے کوئی چارہ نہ ہو گا۔
۲۳۸؎ یہ جملہ بھی اُسی تہدید و وعید کا حامل ہے جس کا حامل پہلا جملہ ہے۔
۲۳۹؎ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۴۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن پر وہ تمام جانور حرام کر دیے گئے تھے جن کے ناخن ہوتے ہیں۔ اِسی طرح گاے اور بکری کی چربی بھی اُن پر حرام تھی۔ اِس کے لیے یہاں ’فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں لفظ ’ظلم‘ کی تقدیم سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ یہود پر یہ چیزیں خود اُنھی کے اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے کی وجہ سے حرام کی گئیں، اللہ نے اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا۔
۲۴۰؎ سود کی حرمت کا یہ حکم خروج باب ۲۲ کی آیات ۲۵-۲۷ اور احبار باب ۲۵ کی آیات ۳۵-۳۸ میں پوری صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۲۴۱؎ اِس سے مراد وہ طریقے ہیں جو عدل و انصاف، معروف، دیانت اور سچائی کے خلاف ہوں اور جن میں لین دین اور معاملت کی بنیاد فریقین کی حقیقی رضامندی پر نہ ہو، بلکہ ایک کا مفاد ہر حال میں محفوظ رہے اور دوسرے کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اُسے ضرر یا غرر کا ہدف بنایا جائے۔
۲۴۲؎ یہ سب باتیں بھی جرائم کی اُسی فہرست سے متعلق ہیں جو اوپر گزر چکی ہے۔ اِس پورے سلسلۂ بیان میں بلاغت کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہ قابل توجہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔بنی اسرائیل کے جرائم کی ایک طویل فہرست تو سنا دی گئی ہے، لیکن الفاظ میں یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ اِس فہرست کے سنانے سے مدعا کیا ہے۔ جرائم کی فہرست کے بیچ میں ایک جملۂ معترضہ آگیا ہے اور اِس کے ختم ہوتے ہی پھر اِن کے جرائم کے بیان کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اِس کے بعد اقتضاے کلام سے ایک اور طویل جملۂ معترضہ آگیا ہے اور اُس کے بند ہوتے ہی پھر فہرست جرائم شروع ہوگئی۔ یہ اسلوب بیان ۔۔۔متکلم کے زور بیان اور جوش، سامع کی ذہانت اور ہوش، دعوے کی قوت اور وضاحت اور فیصلے کے مستغنی عن البیان ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ خطباے عرب کے خطبات میں اِس کی نہایت عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ قرآن میں بھی آگے اِس کی نہایت بلیغ مثالیں آئیں گی۔ اِس طرح کے پرزورکلام کو ایک صاحب ذوق سامع سمجھ تو سکتا ہے، لیکن اِس کے زور اور اِس کی بلاغت کو کسی دوسری زبان میں منتقل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۱۹)
۲۴۳؎ اِس سے مراد یہود کے وہ علما ہیں جو دین کے علم میں راسخ، عقیدہ و عمل میں پختہ اور اخلاق و کردار میں ہر پہلو سے جادۂ مستقیم پر استوار تھے۔
۲۴۴؎ یعنی وہ عام لوگ جو علما تو نہیں ہیں، مگر اپنی سلامتیِ طبع اور پاکیزگی سیرت و کردار کے باعث اپنے علم کی حد تک تورات کی ہدایت پر قائم اور اِس لحاظ سے گویا سچے اہل ایمان ہیں۔ اہل کتاب کے اِس گروہ کا ذکر اِس سے پہلے آل عمران (۳) کی آیت ۱۱۳ کے تحت بھی گزر چکا ہے۔
۲۴۵؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَالْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ‘۔ اِن میں ’الْمُقِیْمِیْنَ‘ کا عطف اگرچہ ’الْمُؤْمِنُوْنَ‘ پر ہے، لیکن یہ عربیت کے اُس قاعدے کے مطابق منصوب ہو گیا ہے جس کو ’علٰی سبیل الاختصاص‘ یا ’علٰی سبیل المدح‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی بلاغت واضح فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’۔۔۔ اسلوب کی اِس تبدیلی کا لفظی اثر تو سامع پر یہ پڑتا ہے کہ یہ تنوع اُس کو لفظ پر متوجہ کر دیتا ہے اور معنوی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ محض اسلوب کی تبدیلی سے، بغیر ایک حرف کے اضافے کے، اُس کے اندر اختصاص اور مدح و تعریف کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً، یہی لفظ اپنے عام اسلوب کے مطابق ’وَالْمُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ‘ ہوتا تو اِس کے معنی صرف یہ ہوتے کہ ’اور نماز کے قائم کرنے والے‘ لیکن جب اسلوب بدل کر ’الْمُقِیْمِیْنَ الصَّلٰوۃَ‘ کہہ دیا تو اِس کے معنی یہ ہوگئے کہ ’اور خاص کر نماز قائم کرنے والے‘، جس سے اِن موصوفین کی غیر معمولی تعریف اور اِن کی خصوصیت بھی واضح ہوئی اور نماز کی وہ اہمیت و عظمت بھی جو دین کے نظام میں اُس کو حاصل ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۲۵)
۲۴۶؎ زبور کا لفظ اِس آیت میں نکرہ آیا ہے۔ یہ تفخیم شان کے لیے ہے جس سے الہامی کتابوں میں زبور کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
۲۴۷؎ ابنیا علیہم السلام کے نام یہاں جس ترتیب سے گنائے گئے ہیں، اُس میں کیا چیز ملحوظ ہے اور اِس تمام حوالے کا مقصود کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔اِن کی ترتیب حضرت نوح سے لے کر حضرت یعقوب اور اُن کی اولاد کے ذکر تک تو تاریخی ہے، لیکن اِس کے بعد ترتیب صفاتی ہو گئی ہے۔ حضرت عیسیٰ، حضرت ایوب، حضرت یونس، حضرت ہارون اپنے خاص نوع کے ابتلا اور خاص نوع کی تائید الہٰی میں فی الجملہ اشتراک رکھتے ہیں۔ حضرت سلیمان اور حضرت داؤد دونوں نبی بھی ہیں اور دونوں بادشاہ بھی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد لانے کی وجہ خاص اہتمام کے ساتھ زبور کی طرف توجہ دلانا ہے۔ سب سے آخر میں حضرت موسیٰ کا ذکر ہے، اِس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ مماثل نبی ہیں۔ اِس بات کا ذکر قرآن اور احادیث، دونوں میں ہے۔
۔۔۔اِس تمام حوالے سے قرآن کا مقصود یہ ہے کہ یہ انبیا ہیں جن کے نام اور کام تورات کے صحیفوں میں بھی بیان ہوئے ہیں اور یہ طریقہ رہا ہے کہ جس طریقے پر اللہ نے اِن نبیوں کو اپنی وحی اور اپنے خطاب و کلام سے نوازا ہے۔ اِن سب سے اہل کتاب واقف ہیں، بھلا ہے اِس میں کہیں ذکر اِس بات کا کہ اللہ نے کسی نبی پر اِس طرح کتاب اتاری ہو کہ اُس کو اترتے سب نے دیکھا ہو؟ موسیٰ سے بے شک اللہ تعالیٰ نے کلام کیا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے، لیکن اِن یہود کا اطمینان اِس سے بھی نہ ہوا۔ اُنھوں نے اِس پر بھی یہ شبہ وارد کر دیا کہ جب تک خدا ہم سے رو در رو ہو کر کلام نہ کرے، ہم کس طرح باور کریں کہ وہ تم سے کلام کرتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۳۱)
۲۴۸؎ یہ موسیٰ علیہ السلام کا خاص امتیاز ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن سے خطاب و کلام کی شان اُس سے مختلف تھی جو دوسرے انبیا کے ساتھ تھی۔ تاہم یہ خطاب و کلام بھی خدا سے رو در رو نہیں، بلکہ ’مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ‘، یعنی پردے کی اوٹ ہی سے تھا۔
۲۴۹؎ یہ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی بعثت کا مقصد بھی بتا دیا ہے اور وہ ضرورت بھی جو اِن کے بھیجنے کی داعی ہوئی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ وہ انذار و بشارت کے لیے آتے ہیں تاکہ لوگوں کو غفلت سے بیدار کیا جائے اور اُن کو بھیجنے کی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ علم و عقل کی شہادت کے بعد ایک دوسری شہادت بھی پیش کر دی جائے جو حق کو اِس درجہ واضح کر دے کہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ