HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ساجد حمید

سمندر کی مردہ تیرتی مچھلی

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا أَلْقَی الْبَحْرُ أَوْ جَزَرَ عَنْہُ فَکُلُوْہُ وَمَا مَاتَ فِیْہِ وَطَفَا فَلَا تَأْکُلُوْہُ.۱؂ (سنن ابی داؤد ،رقم۳۸۱۵)
جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مچھلی سمندر خشکی پر پھینک دے یاجسے سمندر سے پکڑ کر کاٹا جائے تو اسے تو کھا لو، مگر جو سمندر کے اندر ہی مرجائے اور اس کی سطح پر تیرنے لگے تو اسے مت کھاؤ۔۱؂
ترجمے کے حواشی

۱۔اس روایت میں ایک مشکل ہے کہ سمندر کے اندر مرنے اور باہر مرنے میں کیا فرق ہے۔ ’طفا‘ (تیرنے لگے) کی شرط سے کچھ واضح نہیں ہوتا، اس لیے کہ جب بھی کوئی چیز پانی میں مرتی ہے تو وہ اس کی سطح پر تیرنے لگ جاتی ہے۔مردہ مردہ ہی ہے، خواہ پانی میں مرے یا باہر۔ قرآن مجید نے ’صید البحر‘ اور ’طعامہ‘ کو حلال کیا ہے (مائدہ ۵: ۹۶)۔ پھر ’میتۃ‘ (البقرہ۲: ۱۷۳) کے معنی میں داخل نہ ہونے کی بنا پر مردہ مچھلی کی حلت باقی رہی۔ اب اس روایت میں جو نیا استثنا نکالا گیا ہے، وہ بظاہر درست نہیں ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ ’طفا‘ کی جگہ پر کوئی اور وصف بیان ہوا تھا، جسے راوی بھول گئے، جیسے یہ کہ جو بدبودار ہو جائے یا پھول جائے وغیرہ۔ یہ اوصاف مچھلی کے باسی ہونے کی علامت ہیں۔ ظاہر ہے ایسی مچھلی نہیں کھائی جاتی۔یہ روایت اپنی سند میں قابل احتجاج نہیں ہے، اس لیے جمہور علما نے اس سے استدلال نہیں کیا۔

چنانچہ یہ بات معلوم ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیق اور ابوایوب رضی اللہ عنہما نے ایسی مچھلی کو مباح قراردیا ہے، اور یہی راے امام شافعی اور نخعی اور ثوری رحمہم اللہ کی ہے(المغنی ۹/ ۳۱۴) ۔ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے حلال کہا ہے (مصنف ابن ابی شیبہ ۴/ ۲۴۸)۔

متن کے حواشی

یہ روایت ابن ماجہ ،رقم ۳۲۴۷؛ بیہقی، رقم ۱۸۷۶۷، ۱۸۷۶۸ میں آئی ہے۔ اس کی سند میں ضعف ہے۔

 _______________

B