HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

باہمی محبت کا سبب

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلیَّ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی تُؤْمِنُوْا وَلَاتُؤْمِنُوْا حَتّٰی تَحَابُّوْا. اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ تَحَابَبْتُمْ. اَفْشُوا السَّلَامَ بَیْنَکُمْ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جنت میں نہیں جا سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ۔ صاحب ایمان نہیں ہو سکتے جب تک باہم محبت نہ کرو۔ میں تمھیں وہ چیز نہ بتاؤں، جب تم اسے کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو۔ اپنے بیچ سلام کو پھیلاؤ۔
معنی

اس روایت میں پہلی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ کوئی شخص ایمان کے بغیر جنت میں نہیں جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ایمان سے کیا مراد ہے۔ شارحین نے اس سوال کا جواب دو طرح سے دیا ہے۔ ایک یہ کہ یہاں ایمان ظاہری اور اطلاقی معنی میں آیا ہے۔ دوسرا یہ کہ یہاں ایمان شرعی مراد ہے اور اس سے ان چیزوں پر یقین مراد ہے جن کا ذکرحدیث جبریل ۱؂میں ہوا ہے۔دونوں باتیں اصل میں ایک ہیں۔ وہ ایمان جو شرط نجات ہے، وہ دائرۂ دین میں داخل ہونا ہے۔ ظاہر ہے اس میں جہاں ماننے کی چیزیں شامل ہیں، وہاں کرنے کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ مسلمان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی اس کائنات کے خالق کو مانے، اس زندگی کے بارے میں اس کی بنائی ہوئی اسکیم کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور اپنے پروردگار کے اوامر ونواہی کا کار بند ہونے کا فیصلہ کرے۔ شارحین نے جو بات بیان کی ہے، وہ اصولاً درست ہے ،لیکن ان کے اس بیان میں ایمان وعمل کے باہمی تعلق کے ناگزیر ہونے کا پہلو نظر انداز ہو گیا ہے۔ قرآن مجید نے جہاں بھی نجات کے حوالے سے بات کی ہے، وہاں ایمان کے ساتھ اعمال صالح کا بھی ذکر کیا ہے۔ ایمان اور اعمال صالح میں باطن اور ظاہر کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ جس طرح اگر ایمان نہ ہو تو اعمال صالح کامیزان میں کوئی وزن نہیں ہے، اسی طرح اگر اعمال صالح نہ ہوں تو ایمان کے معدوم ہو جانے کا امکان پیدا ہوجاتا ہے۔

اس روایت میں دوسری بات یہ بیان ہوئی ہے کہ تم اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہو سکتے جب تک باہم محبت نہ کرو۔یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ایمان کس معنی میں ہے۔ شارحین نے یہاں بھی دو تعبیرات اختیار کی ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں ایمان کا لفظ کامل ایمان کے معنی میں آیا ہے، یعنی وہ شخص کامل ایمان والا نہیں ہو سکتا جو اپنے مسلمان بھائیوں سے محبت نہ رکھتا ہو۔دوسری یہ کہ یہاں عملی ایمان مراد ہے، یعنی اس جملے میں ایمان کے اسی پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے جو ایمان کے ستر سے کچھ زیادہ شعبوں والی روایت میں ملحوظ ہے۔

ایمان کے شعبوں والی روایت ہو یا ایمان سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے ارشادات، کم وبیش ہر بیان میں ایمان اور عمل صالح کے باہم ناگزیر ہونے کا پہلو نمایاں ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس ارشاد میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان کا لفظ اس کے بدیہی تقاضوں کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں۔محض کچھ عقائد کا مان لینا نہ پہلے جملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہے اورنہ دوسرے جملے ہی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کچھ اور ہے۔ یہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ رہے ہیں کہ خدا کی بندگی اور آخرت کی جواب دہی کا صحیح شعور پیدا ہو گیا ہے، ناگزیر ہے کہ اس کے ہاں دوسرے کے بارے میں ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات پیدا ہوں۔ یہی چیز ہے جس کے لیے اس روایت میں ’تحاببتم‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔

اس روایت میں تیسری بات یہ بیان ہوئی ہے کہ باہم محبت پیدا کرنے کا ذریعہ السلام علیکم کے کلمے کا مسلم معاشرے میں عام ہونا ہے۔ السلام علیکم کا کلمہ ایک دعا ہے۔ جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملتا ہے تو اس کے حفاظت اور امن امان کی دعا دیتا ہے۔ یہ دعا اگر صحیح شعور کے ساتھ دی جائے تو ہمدردی اور محبت کے جذبات اس دعا کا باعث بھی ہیں اور اس دعا سے یہ جذبات قوت بھی پاتے ہیں۔ جس شخص سے ملتے وقت ہم نے اس کے لیے سلامتی کی دعا کی ہے، اس کی بد خواہی اور اس سے نفرت ہم کیسے کر سکتے ہیں۔ جب ہم ہر ملنے والے سے اس دعا کے ساتھ ملنے کی عادت بنا لیں گے تو باہمی محبت کی یہ منزل کا حاصل ہونا ناگزیر ہے۔

یہ روایت بھی اعلیٰ اخلاق اور ایمان کے باہمی تعلق کو واضح کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں میں اعلیٰ اخلاقی رویوں کی آبیاری اور اخروی اعتبار سے ان کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے متعدد اسالیب اختیار کیے ہیں: ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں ‘‘۔ ’’ایمان کا ادنیٰ شعبہ یہ ہے کہ راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹا دی جائے۔‘‘ یہ اور اس طرح کی تمام روایتیں ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور وہ یہ کہ اعلیٰ اخلاق اور ایمان لازم وملزوم ہیں۔

متون

بعض متون سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی فرمائی تھیں۔ مثلاً ایک روایت میں اس جملے سے پہلے ’لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہُ ‘کا جملہ بھی نقل ہوا ہے۔ اسی طرح ایک روایت میں ’دَبَّ اِلَیْکُمْ دَاءُ الْاُمَمِ قَبْلَکُمْ اَلْحَسَدُ وَالْبَغْضَاءُ وَالْبَغْضَاءُ ہِیَ الْحَالِقَۃُ اَمَا اِنِّیْ لَا اَقُوْلُ تَحْلِقُ الشَّعْرَ وَلٰکِنْ تَحْلِقُ الدِّیْنَ ‘کی بات بھی بیان کی گئی ہے۔کچھ راویوں نے اس جملے کو روایت کے شروع میں نقل کیا ہے اور کچھ نے روایت کے آخر میں نقل کیا ہے۔ ان کے علاوہ زیر بحث متن کے الفاظ میں بھی جزوی اختلافات ہیں۔ ’لَا تَدْخُلُوْنَ‘ کی جگہ ’لاَ تَدْخُلُوْا‘ کا صیغہ بھی آیا ہے۔ ایک متن ’حَتّٰی تُؤْمِنُوْا‘ کے بجاے ’حَتّٰی تُسَلِّمُوْا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ بعض متون میں روایت کا آغاز ’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہِ‘ کی قسم سے ہوا ہے۔ ’اَوَلَا اَدُلُّکُمْ عَلٰی شَیْءٍ اِذَا فَعَلْتُمُوْہُ‘ کا جملہ بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ روایت ہوا ہے۔ ’اَوَلَا‘ کی جگہ ’اَفَلَا‘ ، ’اَلاَ‘ ، ’ہَلْ‘ ، ’اِنْ شِءْتُمْ‘ ، ’شَیْءٍ‘ کی جگہ ’اَمْرٍ‘ اور ’فَعَلْتُمُوْہُ‘ کی جگہ ’اَتَیْتُمُوْہُ‘ آیا ہے۔

کتابیات

مسلم، رقم ۵۴؛ ابوداؤد، رقم۵۱۹۳؛ ترمذی، رقم۲۶۸۸؛ ابن ماجہ، رقم۶۸؛ احمد، رقم۹۲۳۶، ۹۷۰۷، ۱۰۱۸۰، ۱۰۶۵۸؛ ابن حبان، رقم۲۳۶؛ بیہقی، رقم ۲۰۸۵۳؛ معجم کبیر، رقم ۷۷۹۸، ۱۰۳۹۶؛اسحاق بن راہویہ، رقم ۳۸۵، ۵۳۴؛ الادب المفرد، رقم۲۶۰، ۹۸۰؛ مسند الشامیین، رقم۱۷۱، ۱۷۲؛ عبد بن حمید، رقم۹۷۔

__________

۱؂ مسلم، رقم ۹۔ ’فقال یا رسول اللّٰہ ما الایمان. قال ان تومن باللّٰہ وملائکتہ وکتابہ ولقاۂ ورسلہ وتؤمن بالبعث الآخر‘ (پوچھا: یا رسول اللہ ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتاب پر، اس سے ملاقات پر اور دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان لائے)۔

________________

B