[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
مذکورہ آثار سے فارغ ہو کر میں ٹیکسی کے ذریعے سے امام شافعی کے مدفن تک پہنچا۔ یہ ایک وسیع قبرستان ہے جو امام شافعی کی قبر کی وجہ سے مقام الامام الشافعی کے نام سے مشہور ہے۔ قاہرہ کے جنوب میں جبل مقطم اور قدیم قاہرہ کے درمیان بائیں ہاتھ ایک میدان ہے جس میں ممالیک کے زمانہ کی خستہ حال جناز گاہیں نظر آتی ہیں۔ جب ہم جنوب کی طرف رخ کرتے ہیں تو بہت سی نئی قبروں کے درمیان خاکستری رنگ کا گنبد دکھائی دیتا ہے جس کے نیچے یہ عظیم امام محو خواب ہے۔ امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس قریشی مطلب بن عبد مناف کی اولاد سے ہیں۔ ۱۵۰ھ میں غزہ میں اس دن پیدا ہوئے جس دن امام ابو حنیفہ کی وفات ہوئی۔ دو برس کی عمر میں غزہ سے مکہ مکرمہ پہنچے اور وہیں ان کی والدہ نے ان کی تربیت کی۔ ۱۰ برس کی عمر میں ’’موطا‘‘ حفظ کی اور اور پندرہ برس کی عمر میں فتویٰ دیا۔ امام مالک سے ان کی ’’موطا‘‘ پڑھی۔ انھوں نے خلیفہ مامون عباسی کا زمانہ پایا۔ عربی لغت اور شعر کا ذوق سب ائمہ سے بڑھ کر تھا۔ دس برس قبیلہ ھذیل میں ٹھہرے رہے اور انھی سے عربی لغت اور فصاحت سیکھی۔ اصمعی جو لغت و نحو کے امام تھے، ان کے پاس رہ کر ھذیلیوں کے اشعار پڑھتے رہے۔ وہ اصول فقہ کے موجد ہیں۔ اس فن پر سب سے پہلی کتاب امام شافعی کی ’’الرسالہ‘‘ ہے۔ امام احمد بن حنبل مسلسل چالیس برس تک ان کے لیے نماز میں دعا مانگتے رہے۔ انھی کا قول ہے کہ پہلی صدی کے مجدد عمر بن عبدالعزیز ہیں اور دوسری صدی کے مجدد امام شافعی ۔ ۱۹۹ھ یا ۲۰۰ھ میں مصر میں داخل ہوئے اور وہیں کے ہو رہے۔ ان کا قیام فسطاط میں تھا۔ انھوں نے سیدہ نفیسہ رحمۃ اللہ علیہا سے حدیث سنی، جامع عمرو بن العاص کی مسند تدریس پر بیٹھ کر اپنا مذہب املا کراتے رہے۔ ان کا مسلک اہل الرائے اور اہل الحدیث کے بین بین ہے۔ ان کی وفات رجب کے آخری دن جمعرات یا جمعہ کے دن ۵۴ برس کی عمر میں ۲۰۴ھ (۸۱۹ء) میں مصر میں ہوئی۔
مرقد کا دروازہ ایک پکی سڑک پر کھلتا ہے جس کے ارد گرد احمد بن طولون کے وقت کی عمارتیں ہیں۔ چار دروازوں سے گزر کر اندر جانا پڑتا ہے۔ بیرونی دروازے کے اوپر پتھر کی سل پر یہ شعر رقم ہے:
وإن رمتَ فضل الشافعی
من مسند قدصح قدما
ہو من قریش عالم
یملأ طباق الارض علما
’’اگر تو کسی قدیم اور صحیح مسند سے امام شافعی کی فضیلت جاننے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ قریش کے عالم تھے جنھوں نے زمین کی تہوں (روئے زمین) کو علم سے بھر دیا۔‘‘
قبر ہال کمرے کے اندر ہے۔قبر کے ایک طرف نقدی، کپڑوں اور کاغذ کے رقعوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے جنھیں غالباً عقیدت مندوں نے وہاں پھینکا تھا۔ کہاں امام شافعی اور کہاں یہ خرافات ، وہ امام شافعی جن کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ مجھے حدیث کے ناسخ و منسوخ کا علم اس وقت تک نہ ہوا جب تک میں امام شافعی کے پاس نہ بیٹھا۔
یہ محل محمد علی پاشا کے پوتے محمد علی کا ہے اور قاہرہ میں مینیل نامی علاقہ میں واقعہ ہے۔ بڑے گیٹ سے دائیں طرف ایک کلاک ٹاور ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی خوب صورت مسجد ہے جس کی چھت یوں دکھائی دیتی ہے جیسے آسمان پرتارے ٹمٹما رہے ہوں۔ مسجد کے ساتھ ہی شکار کا میوزیم ہے جو اپنی نوعیت میں منفرد ہے۔ تمام شکار کیے ہوئے جانوروں کی کھال کو بھر (Stuff) کر ان کو اصلی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اس میں ہر قسم کے پرندے اور درندے موجود ہیں۔ میوزیم کے آخر میں ایک جنگل میں شیر کا مجسمہ دکھایا گیا ہے۔
یہاں سے فارغ ہو کر ہم محل کی عمارت کی طرف گئے جو کچھ فاصلہ پر تھی۔ داخل ہوتے ہی ایک بڑا ہال تھا جس کے ارد گرد زائرین کے لیے کمرے بنے ہوئے تھے۔ تعمیر میں شاہانہ جلال اور دبدبہ تھا۔ محل دو منزلہ تھا۔ نچلی منزل دیکھ چکے تو دربان نے اوپر والی منزل دیکھنے کی اجازت نہ دی۔ کچھ بخشیش دے کر اوپر والی منزل پر گئے۔ سیڑھیوں کی دیوار پر بڑے محمد علی کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ اس منزل پرشہزادوں اور شہزادیوں کی رہایش تھی۔ پرائیویٹ بیڈ روم، مسہریاں اور سنگ مر مر کے بنے ہوئے حمام تھے۔ ایک کمرا موسیقی کے لیے مخصوص تھا جس پر بیٹھنے کے لیے قالین اور غالیچے بچھے ہوئے تھے۔ آلات طرب بھی موجود تھے۔ موسیقاروں کے لیے ایک پلیٹ فارم بنا ہوا تھا۔ اس زمانے کا فرنیچر اور برتن سبھی محفوظ تھے۔
محل دیکھنے کے بعد ٹیکسی والا ہمیں مسجد سیدہ نفیسہ لے گیا۔ امام شافعی کے مرقد سے نکل کر باب سیدہ نفیسہ کے راستے قاہرہ کا رخ کریں تو دائیں ہاتھ ایک پرانے دروازے کے قریب ایک پکی سڑک ہے جس کے آخر میں ایک خوب صورت نو تعمیر شدہ مسجد ہے بس یہی سیدہ نفیسہ کی مسجد ہے۔ اس مسجد کی بنیاد الحسن الانور بن زید الابلج بن الامام حسن بن علی بن ابی طالب نے رکھی۔ سیدہ نفیسہ بنت ابی محمد الحسن بن زید بن الحسن بن علی قریشی ہاشمی ہیں۔ وہ مکہ میں پیدا ہوئیں، ان کے والد مدینہ منورہ میں پانچ برس تک خلیفہ منصور کی نیابت کرتے رہے۔ بعد میں کسی بات پر ناراض ہو کر خلیفہ نے ان کو بغداد میں قید کر لیا اور ان کی ساری جائداد ضبط کر لی۔ خلیفہ مہدی نے اپنی خلافت میں آزاد کر کے ساری جائداد واگزار کرا دی۔ ان کی وفات ۸۵ برس کی عمر میں حاجر (مدینہ سے پانچ میل دور) کے مقام پر ہوئی۔ امام نسائی نے ان کی ایک روایت عکرمہ اور ابن عباس کے حوالہ سے نقل کی ہے: ’ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم احتجم وہو محرم‘، ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں پچھنے لگوائے‘‘۔ ابن معین اور ابن عدی نے ان کو ضعیف کہا ہے جبکہ ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔ زہیر بن بکار نے ان کی سیادت اور شرافت کی تعریف کی ہے۔ سیدہ نفیسہ امام جعفر الصادق کے بیٹے اسحاق کی بیوی تھیں اور انھی کے ہمراہ ۱۹۳ھ میں مصر میں داخل ہوئیں اور وہیں کی ہو رہیں۔ وہ ایک عالم، متقی اور پاک باز عورت تھیں، صاحب ثروت تھیں، اس لیے لوگوں کے ساتھ عام طور پر اور مریضوں کے ساتھ خاص طور پرحسن سلوک کیا کرتی تھیں۔ جامع عمرو بن العاص میں امام لیث بن سعد کے بعد مسند تدریس پر فائز رہیں۔ جب امام شافعی مصر میں داخل ہوئے تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر حدیث سنی۔ وہ امام شافعی کے ساتھ حسن سلوک کرتیں اور ابن کثیر نے لکھا ہے کہ امام شافعی اکثر رمضان المبارک میں ان کے یہاں نماز پڑھتے۔ جب امام موصوف کا انتقال ہوا تو سیدہ نفیسہ نے ان کے جنازہ کو لانے کا حکم دیا اور اپنے گھر میں ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ اس بات کا ذکر ابن کثیر اور ابن خلکان، دونوں نے کیا ہے۔ روایت ہے کہ جب تک امام صاحب کی قبر نہ بنی، ان کی میت سیدہ نفیسہ کے گھر میں رہی۔
ایک دفعہ جب انھوں نے مکہ واپس جانے کا ارادہ کیا تو والی مصر نے ان کے لیے ایک بہت بڑا گھر وقف کر دیا۔ اور ان سے درخواست کی کہ وہ وہاں عبادت کریں۔ اور صرف دو دن تعلیم و تربیت کے لیے مخصوص کر دیں تاکہ لوگ ان کے علم و فضل سے مستفید ہوتے رہیں۔ جس جگہ یہ گھر تھا وہ درب السباع کے نام سے مشہور تھا۔ اب سیدہ کی قبر کے سوا وہاں کچھ باقی نہیں بچا۔ ان کی وفات اسی گھر میں رمضان ۲۰۸ھ بمطابق ۸۲۳ء میں ہوئی اور وہیں دفن ہوئیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے شوہر اسحاق بن جعفر نے میت مدینہ منورہ لے جانی چاہی تو مصر کے شیوخ و علما نے اصرار کیا کہ آپ کو مصر میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ آپ کو اسی گھر میں دفن کر دیا گیا۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ:
’’سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا کی قبر قبولیت دعا کے لیے مشہور ہے اور یہ بات آزمودہ ہے۔‘‘
مسجد بہت ہی خوب صورت بنی ہوئی ہے۔ خواتین کے لیے مسجد میں داخل ہونے کا راستہ الگ ہے۔ جب میں مسجد میں داخل ہوا تو نماز ظہر کا وقت قریب تھا۔ یہ ذہن میں رہے کہ پورے مصر میں نماز ظہر اول وقت یعنی سوا بارہ یاساڑھے بارہ بجے ہوتی ہے۔ مسجد میں مصری قاری کی خوب صورت آواز میں تلاوت ہو رہی تھی۔ نماز باجماعت ادا کی۔ سیدہ نفیسہ جس کمرے میں رہتی تھیں، وہیں مدفون ہیں۔ قبر کے ارد گرد برونز کی جالی ہے۔ میں نے قبر پر جا کر دعا کی۔ زائرین بالخصوص خواتین کا ہجوم تھا۔ کیا مرد اور کیا عورتیں سب گڑ گڑا کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ سیدہ کا زمانہ دوسری صدی ہجری صحابہ اور تابعین کرام کا زمانہ تھا۔ عورت کے احترام کا یہ عالم تھا کہ امام شافعی کے رتبے کا فاضل ایک عورت کے سامنے زانوے تلمذ تہ کر رہا ہے۔ جب ان کی وفات ہوتی ہے تو مصر کے مشائخ اور علما ضد کرتے ہیں کہ ان کو مصر ہی میں دفن کیا جائے اور ان کی قبر پر دعا مانگنے کو باعث سعادت سمجھتے ہیں اور ہمارے یہاں کے مذہبی پیشوا ابھی تک عورت پر مرد کی فضیلت کو ثابت کر رہے ہیں:
ببیں تفاوت راہ است از کجا تابہ کجا
زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا۔ وہ اہل مصر کے حدیث، فقہ اور عربی زبان کے امام تھے۔
وہ ۹۴ھ میں مصر میں قلقشندہ (زیریں مصر۔ ڈیلٹا) میں پیدا ہوئے۔ ۱۱۲ھ میں بیس برس کی عمر میں حج کیا۔ اور نافع مولیٰ ابن عمر سے حدیث سنی۔ امام شافعی کا قول ہے کہ امام لیث امام مالک سے بڑے فقیہ تھے، مگر ان کے شاگردوں نے انھیں ضائع کر دیا۔ ابن وہب امام شافعی کو امام لیث کے مسائل پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ ایک مسئلہ میں کسی اجنبی نے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام لیث امام مالک کے جوابات سن کر جواب دیتے تھے تو ابن وہب نے اسے ٹوک کر کہا، بلکہ امام مالک امام لیث کے جوابات سن کر جواب دیتے تھے۔ صاحب حیثیت تھے اور ہاتھ کے بڑے کھلے (سخی) تھے۔ ان کو اپنی زمین سے پانچ ہزار دینار اور ایک روایت کے مطابق اسی ہزار دینار سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔ ’’البدایہ والنہایہ‘‘ (۱۰/ ۱۶۶) میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ’’امام مالک نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر عصفر یعنی زعفران کاذب (Saf flower) امام لیث سے ہدیۃً منگوا بھیجا تو آپ نے اس کے تیس پیکٹ بھجوا دیے۔ امام مالک نے اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق لے لیا۔ کچھ پانچ سو دینار میں بیچ دیے اور کچھ ان کے پاس باقی بچ گئے۔ جب امام لیث حج پر آئے تو امام مالک نے ایک بڑی طشتری میں تازہ کھجوریں بھیجیں۔ امام لیث نے اسی طشتری میں ایک ہزار دینار بھجوا دیے۔ اسی طرح ایک ہزار دینار کی رقم تو وہ اپنے اصحاب میں سے کسی کو بھی بھیجتے رہتے تھے۔ وہ اور ان کے ساتھی کشتی میں سوار ہو کر اسکندریہ جاتے تھے اور کشتی ہی میں کھانے پینے کا بندو بست ہوتا تھا۔‘‘
وہ نصف شعبان بروز جمعہ ۱۷۵ھ میں فوت ہوئے اور اسی روز انھیں القرافۃ الصغریٰ (چھوٹے قبرستان) میں دفن کر دیا گیا۔ ابن خلکان نے ان کے ایک شاگرد کا قول نقل کیا ہے کہ جب ہم نے امام کو دفن کر دیا تو ہاتف غیبی کو یہ شعر پڑھتے سنا:
ذہب اللیث فلا لیث لکم
و مضی العلم قریبا و قبر
’’لیث چل دیے اور تمھارے لیے کوئی لیث (شیر) نہیں اور ابھی ابھی علم چل دیا اور قبر میں دفن کر دیا گیا۔‘‘
اس جلیل القدر امام کا مقبرہ جامع سیدہ نفیسہ کے قریب ایک چھوٹے اور خستہ حال حوش (احاطہ) میں واقع ہے۔ زیارت کے لیے گیا تو مقبرہ مرمت کے لیے بند تھا۔ نئی چھتوں کے لیے شٹرنگ کی ہوئی تھی۔ سرہانے کھڑے ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کہ اللہ ہمارے علم میں اضافہ کرے۔ ہمارے یہاں کی طرح یہاں بھی مزار پر خادم (مجاور) بخشیش (زکوٰۃ) مانگتے ہیں۔ ایک کو دو تو تین اور آپ کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں۔ ایک خادم نے ایک قبر کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ امام کے پوتے کی قبر ہے۔ اس کے بعد ٹیکسی والا ہمیں دو عظیم مسجدیں دکھلانے لے گیا۔
شارع محمد علی کے ایک کنارے قلعہ کے دامن میں دو بلند و بالا عظیم الشان مسجدیں آمنے سامنے واقع ہیں، ان کے درمیان گزرنے والی سڑک یوں دکھائی دیتی ہے جیسے کہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی۔
مسجد سلطان حسن مصر کی خوب صورت ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ اس کا بے مثال گنبد، اس کے میناروں کی رفعت اور اس کی بے شمار وسعت اس کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ ایک افسانوی روایت کے مطابق جب سلطان حسن نے اس عمارت کو دیکھا تو وہ اتنا متاثر ہوا کہ اس نے حکم دیا کہ اس فن تعمیر کے ماہر کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں جس نے اس کا ڈیزائن بنایا تھا تاکہ وہ اس جیسی کوئی اور عمارت ڈیزائن نہ کر سکے۔
ناصر بن قلادون کا ساتواں بیٹا الملک الناصر حسن ۱۳۴۷ء میں تخت نشین ہوا۔ مسجد کی تعمیر ۷۵۸ھ (۱۳۵۶ء) میں شروع ہوئی اور تین برس میں مکمل ہوئی۔ تین برس تک روزانہ ۲۰ ہزار سونے کے درہم خرچ ہوتے رہے۔ اس کا کل رقبہ تقریباً ۱۱۰۰ میٹر مربع ہے۔ بیرونی دیواروں کی اونچائی ۴۰ میٹر سے زیادہ ہے اور بڑے گیٹ کے قریب دیواروں کی موٹائی ۸ میٹر ہے۔ جنوب مشرقی گوشہ میں مینار کی اونچائی ۸۰ میٹر ہے اور گنبد کی اونچائی ۵۵ میٹر ہے۔ اندر داخل ہونے والے زائر پر مسجد کی شکوہ دیکھ کر ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ مسجد کے ہال سے پہلے بہت بڑا صحن ہے جس کے چاروں طرف چار بڑے برآمدے ہیں، جہاں مذاہب اربعہ کے مطابق درس دیا جاتا تھا۔ صحن کے وسط میں وضو کے لیے بہت بڑا تالاب ہے جس کے اوپر پیاز کی شکل کا گنبد ہے جو آٹھ نیلے ستونوں پر کھڑا ہے۔ مرکزی تالاب کے ایک طرف فوارہ ہے جس میں وضو کے لیے ٹونٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ محراب کی داخلی زیب و زینت بڑی سادہ ہے۔ اس کے ایک طرف ۴ چھوٹے مرمری ستون ہیں جن کے اطراف میں پتوں کی شکلیں کھدی ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے ایک چبوترہ ہے جو تین بڑے اور آٹھ چھوٹے ستونوں پر کھڑا ہے۔ جہاں پر قاری حضرات اور فقہا بیٹھتے ہوں گے۔ منبر عام سا ہے۔ سلطان حسن (گائیڈ کے مطابق اس کے بیٹے) کی قبر مربع شکل کے ایک کمرے میں ہے۔ اس کے ایک کنارے پر لکڑی کے ایک بڑے ٹکڑے پر گل کاری کی ہوئی ہے۔ لوح قبر پر ۷۶۴ھ (۱۳۶۳ء) لکھا ہوا ہے۔ مسجد میں موجود ایک گائیڈ نے بتایا کہ سلطان حسن ایک معرکہ میں قتل ہو گیا تھا۔ اس کی قبر نامعلوم ہے۔ یہ اس کے بیٹے کی قبر ہے۔ فرانسیسیوں نے ۲۱ اکتوبر ۱۷۹۷ میں قاصرہ کی شورش کے درمیان اسی مسجد میں پناہ لی تھی۔
سلطان حسن کی جامع مسجد مصر کی وہ تنہا یادگار ہے جو جوں کی توں محفوظ ہے۔ ساڑھے چھ سو سال کے عرصہ نے ان موٹی دیواروں پر جو اہرام کے مواد سے بنی ہوئی ہیں، ذرہ برابر بھی اثر نہیں کیا اگرچہ داخلی آرایش اپنی اصلی حالت میں نہیں رہی۔
مسجد سلطان حسن کے بالکل سامنے سڑک کی دائیں جانب مسجدالرفاعی ہے۔ اس کی کرسی نسبتاً اونچی ہے۔ داخل ہونے کے لیے کافی سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ یہ مسجد اپنی بلندی اور ضخامت میں مسجد حسن کی مانند ہے۔ مسجد کے اندر ہوا کی آمد و رفت کا اتنا خوب صورت قدرتی انتظام ہے کہ نماز کے ہال میں بغیر پنکھوں کے ہوا کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں۔
یہ مسجد خدیو اسماعیل کی والدہ ہوشیار خانم کے حکم سے ۱۲۸۶ھ (۱۸۶۹ء) میں پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ فن تعمیر کے ماہر حسین پاشا فہمی الرفاعی نے اس مسجد کا ڈیزائن بنایا۔ وہ اس مسجد میں مدفون ولی اللہ علی ابی الشباک کی اولاد سے تھا جو عراق میں مدفون الرفاعی الکبیر کے نواسے تھے، اسی لیے اس مسجد کا نام مسجد الرفاعی ہے۔ مسجد کے اندر داخل ہو کر دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی۔ مسجد کے اندر علی بن ابی الشباک، خدیو اسماعیل پاشا، اس کی بیگمات اور اس کی والدہ ہوشیار خانم، شاہ فاروق اول اور شاہ فواد اول کی سنگ مرمر کی بنی ہوئی ترکی طرز تعمیر کے مطابق اونچی اونچی قبریں ہیں۔ ان قبروں کے ایک گوشہ میں پہلوی خاندان کا عظیم شہنشاہ رضا شاہ محو خواب ہے۔ اتنی طاقت اور دبدبے کے باوجود اسے اپنے ملک میں دفن ہونے کے لیے دو گز زمین تک نہ ملی، کیونکہ ایران کے عوام ایسا نہیں چاہتے تھے۔ امریکا کا چہیتا ہونے کے باوجود امریکا نے اسے پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ یہ قبر سبز سنگ مرمر سے ایک سادہ سے پلیٹ فارم پر بنی ہوئی ہے۔ سر بالیں ایرانی جھنڈا لہرا رہا ہے اور پھولوں کا ایک گلدستہ پڑا ہوا ہے۔ بقول غالب:
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
یہ رہے وہ مدافن و مساجد یا بالفاظ دیگر اسلامی فن پارے جن کو میں اپنے قیام کے دوران میں دیکھ پایا۔ تمام مساجد میں قدر مشترک یہ ہے کہ محراب یا تو دیوار کو کھوکھلا کر کے بنایا گیا ہے یا کبھی کبھار ایک گوشے میں جیسے مسجد و مدفن شافعی میں۔ محراب کے قریب منبر ہوتا ہے، اس کی سیڑھیاں تین یا پھر دس بارہ بھی ہو سکتی ہیں۔ محراب کے سامنے پتھر یا لکڑی کا بنا چبوترہ ہوتا ہے جس پر مبلغ یا مکبر بیٹھتا ہے۔ صحن کے وسط میں وضو کے لیے قدیم مسجدوں میں تالاب تھے یا پھر ان کے ساتھ ساتھ فوارے جہاں ٹونٹیاں لگی ہوتی ہیں۔ بعض مساجد میں محراب کو روزانہ مقفل کر دیا جاتا ہے۔
میں قاہرہ میں جس جس دکان پر گیا وہاں زیادہ تر لڑکیوں کو کام کرتے دیکھا۔ مسلمان خواتین کی نشانی یہ ہے کہ یہ سر پر سکارف پہنتی ہیں جس سے وہ سر کے بالوں ، کانوں اور گلے کو چھپاتی ہیں، اسے ہی وہ حجاب کانام دیتی ہیں۔ ان کے یہاں چہرے کے چھپانے کا کوئی تصور نہیں۔ خواتین کا تعلق خواہ وہاں کی دینی تنظیم اخوان المسلمین سے ہو، وہ چہرہ قطعی نہیں چھپاتیں۔
پندرہ دسمبر جمعۃ المبارک کو شام کو ہماری واپسی تھی۔ یہ دن ہم نے ہوٹل میں گزارا، جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کی۔ خطیب سوٹ اور ٹائی میں ملبوس تھا اور بے ریش تھا۔ فقہ شافعی کے علما کی اکثریت کے نزدیک ڈاڑھی لباس کی طرح سنت عادیہ ہے، حلال و حرام سے اس کا قطعی کوئی تعلق نہیں۔ ان کے نزدیک ڈاڑھی کے بارے میں روایت سے پتا چلتا ہے کہ جس نے ڈاڑھی رکھنی ہے وہ مہذب اور خوب صورت طریقے سے ڈاڑھی رکھے۔ موجودہ دور میں فقہ کے میدان میں امام ابو زہرہ کا بڑا نام ہے، انھوں نے اپنی کتاب ’’اصول الفقہ‘‘ میں اسے السنۃ العادیہ قرار دے کر بتایا ہے کہ اس کا تعلق کلچر سے ہے، دین یا شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لکھتے ہیں:
’’کچھ باتیں ایسی ہیں جن کو لوگ مندوب تصور کرتے ہیں، حالانکہ وہ مذکورہ ان سنتوں (سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ) سے کم تر ہیں۔ رسم و رواج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کا تعلق نہ تو اللہ کے دین سے ہے اور نہ شریعت سے، جیسا کہ آپ کا لباس، کھانا پینا اور ڈاڑھی بڑھانا اور مونچھیں کٹوانا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کے طور پر ان پر عمل کرنا اچھی بات ہے، لیکن ان پر عمل نہ کرنے سے نہ تو انسان عتاب کا مستحق ہوتا ہے اور نہ ندامت و ملامت کا اور جو ان باتوں کو دین کا جز سمجھ کر اختیار کرتا ہے یا اسے لازمی طور پر امر مطلوب تصور کرتا ہے، وہ دین میں بدعت پیدا کرتا ہے۔‘‘ (۳۵)
عبداللہ النواری اپنی کتاب ’’سألونی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جہاں تک ڈاڑھی مونڈنے کا تعلق ہے، اس کی حیثیت ظاہری شکل و صورت سے ہے۔ حلال و حرام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ لباس، سر منڈوانے، عقال (رومال کے اوپر باندھنے والا بند) کوفیہ (سر پر لپیٹنے والا رومال) اور عباء کی مانند ہے۔‘‘(۲/ ۵۳)
اخوان کے مشہور رہنما اور مفسر قرآن سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ بھی بے ریش تھے۔
شام کو ٹریول ایجنسی کا نمائندہ ہوٹل آیا اور ہمیں لے کر قاہرہ کے ہوائی اڈے کی طرف چل دیا۔ امیگریشن کی کارروائی پوری کر کے وہ ہمیں ڈیپارچر لاؤنج تک چھوڑ کر ہم سے رخصت ہو گیا۔
رات بارہ بج کر پچیس منٹ پر دبئی ائرپورٹ پہنچے۔ وہاں سے ۳ بج کر ۴۰ منٹ پر روانہ ہو کر سات بج کر ۲۵ منٹ پر لاہور پہنچ گئے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ دن بخیر و عافیت گزر گئے۔
_________________