[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ایک کامل کتاب قرار دیا ہے اور اس میں ہر چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے، جیسا کہ بعض علما مختلف آیات کے حوالے سے یہ بیان کرتے ہیں۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر قرآن مجید کے ساتھ کسی اور چیز کو دین کا ماخذ بنانے کی کیا ضرورت ہے؟(محمد علی سجاد خان)
جواب:قرآن مجید کی جن آیات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اس کتاب میں کوئی کمی نہیں ہے اور اس میں ہر چیز کو تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے، ان کا مطالعہ کرنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان میں دین و شریعت کے اجزا زیر بحث ہی نہیں ہیں، بلکہ ان میں یہ بات کسی اور پہلو سے کہی گئی ہے، یہ آیات درج ذیل ہیں۔
ارشادِ باری ہے:
۱۔ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ۔(الانعام۶: ۳۸)
’’ہم نے اپنی کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔‘‘
اس آیت کا مطلب ہے کہ:
’’...جس طرح یہ کائنات ان نشانیوں سے مملو (بھری ہوئی) ہے جو پیغمبر کی دعوت کی حقانیت کی شاہد ہیں، اسی طرح ہم نے قرآن میں بھی اپنے دلائل و براہین بیان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ایک ایک دعوے کو ایسے ناقابلِ انکار دلائل سے ثابت کیا ہے اور اتنے مختلف اسلوبوں اور پہلوؤں سے حجت قائم کی ہے کہ صرف عقل و دل کے اندھے اور بہرے ہی ان کے سمجھنے سے قاصر رہ سکتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۳/ ۴۹)
۲۔ لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ، مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَیْءٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ.(یوسف۱۲: ۱۱۱)
’’ان کی سرگزشتوں میں اہل عقل کے لیے بڑا سامانِ عبرت ہے۔ یہ کوئی گھڑی ہوئی چیز نہیں، بلکہ تصدیق ہے اس چیز کی جو اس سے پہلے موجود ہے اور تفصیل ہے ہر چیز کی اور ہدایت و رحمت ہے ایمان لانے والوں کے لیے۔‘‘
امین احسن اصلاحی اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’یعنی پچھلے انبیا اور ان کی قوموں کی سرگزشتوں میں اہل عقل کے لیے بڑا سامان عبرت موجود ہے۔ بشرطیکہ یہ عقل سے کام لیں اور ان سرگزشتوں کو صرف دوسروں کی حکایت سمجھ کر نہ سنیں، بلکہ ان سے خود اپنی زندگی کو درست کرنے کے لیے سبق حاصل کریں۔ یہ قرآن کوئی من گھڑت کہانی نہیں ہے، بلکہ جو پیشین گوئیاں اور جو حقائق آسمانی کتابوں میں پہلے سے موجود ہیں، یہ ان کی تصدیق، ہر متعلق چیز کی تفصیل، آغاز کے اعتبار سے رہنمائی اور انجام کے اعتبار سے رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائیں۔‘‘ (تدبر قرآن۴/ ۲۶۰)
۳۔ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ. (النحل ۱۶: ۸۹)
’’اور ہم نے تم پر کتاب اتاری ہے ہر چیز کو کھول دینے کے لیے اور وہ ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے فرماں برداروں کے لیے۔‘‘
امین احسن اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’...یہ اس چیز (قرآن مجید) کا حوالہ ہے جو اس دنیا میں حق کی گواہی اور لوگوں پر اتمام حجت کا ذریعہ ہے۔ فرمایا کہ تمھارے اس فرض منصبی کے تقاضے سے ہم نے تم پر کتاب اتار دی ہے جو شہادت حق کے لیے تمام پہلووں سے جامع اور مکمل اور (شہادت حق سے) ہر متعلق چیز کو اچھی طرح واضح کر دینے والی ہے تا کہ کسی کے لیے گمراہی پر جمے رہنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔‘‘ (تدبر قرآن۴ / ۴۳۸)
۴۔ وَکُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰہُ تَفْصِیْلًا.(بنی اسرائیل۱۷: ۱۲)
’’اور ہم نے ہر چیز کی پوری پوری تفصیل کر دی ہے۔‘‘
امین احسن اصلاحی صاحب فرماتے ہیں:
’’...یعنی آفاق کی ان نشانیوں کے علاوہ ہم نے تم پر یہ احسان بھی کیا ہے کہ اپنی اس کتاب میں بھی ہر ضروری چیز کی تفصیل کر دی ہے تا کہ غور کرنے والے کے اطمینان کے لیے یہ کتاب ہی کافی ہو جائے۔‘‘ (تدبر قرآن۴/ ۴۸۷)
درج بالا آیات کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید میں ہر چیز کے موجود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جو دعوت دی گئی ہے اور حق کی شہادت کے حوالے سے جو استدلال کیا گیا ہے ، اس میں کوئی کمی نہیں ہے اور وہ ہر پہلو سے جامع ہے۔ چنانچہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ کتاب اجزاے دین کے بیان اور ان کی تفصیلات کے پہلو سے مکمل ہے۔ اجزاے دین کے حوالے سے کئی چیزوں کو اس میں بیان ہی نہیں کیا گیا، مثلاً نماز کی رکعتیں، اوقات اور دیگر تفصیلات، زکوٰۃ کی شرحیں، مو نچھیں پست رکھنا، عید الفطر اور عید الاضحی وغیرہ۔ شریعت سے متعلق یہ اہم چیزیں قرآن مجید میں موجود ہی نہیں۔
چنانچہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ قرآن مجید اس پہلو سے جامع ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے دین کے سب اجزا بیان کر دیے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا دین ایک رسول کے ذریعے سے دیا ہے اور یہ بات ایک تاریخی سچائی ہے کہ اس رسول نے خدا کا یہ دین ہمیں علم کی صورت میں بھی دیا ہے اور عمل کی صورت میں بھی۔ جو دین ہمیں علم کی صورت میں ملا ہے، وہ سارے کا سارا قرآنِ مجید میں ہے اور جو عمل کی صورت میں ملا ہے، وہ وہ سنت ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت میں جاری کیا ہے۔
چنانچہ اگر ہم قرآن کے علاوہ سنت کے اس ذریعے کا انکار کرتے ہیں تو پھر ان سب اعمال کو ہم بطور دین قبول ہی نہیں کر سکتے۔بے شک ان میں سے بعض چیزوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، لیکن اس میں وہ ذکر اس طرح سے ہے کہ گویا یہ پہلے سے موجود اور متعارف چیزیں ہیں،جن پر لوگ عمل کر رہے ہیں اور قرآن محض کسی خاص پہلو سے ان کا ذکر کر رہا ہے۔ جب یہ حقیقت ہے تو پھر پورا دین حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن اور سنت دونوں کی طرف رجوع کریں۔
سوال: دنیا کے سبھی مذاہب کے لوگ اپنے اپنے ادیان سے گریزاں کیوں ہیں؟(محمد علی سجاد خان)
جواب:اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مادیت پرستی کا دور ہے اور اس میں مابعد الطبعیاتی تصورات قطع نظر اس سے کہ وہ مبنی بر دلیل ہوں یا مبنی بر وہم، بہرحال انسانی سوچ کے دائرے کی چیز نہیں رہتے۔ چنانچہ انسان مذہب سے اور مذہبی رسوم و رواج سے گریزاں ہو جاتا ہے۔
سوال:کیا کوئی خاتون فاتحہ پڑھنے کے لیے اپنے طہر کے زمانے میں قبرستان میں جا سکتی ہے؟(فاروق عالم صدیقی)
جواب: عورت طہر اور حیض دونوں زمانوں میں قبرستان میں جا سکتی ہے۔ قبرستان کا معاملہ مسجد کی طرح کا نہیں ہے۔ وہ کسی قبر پر کھڑے ہو کر دعاے مغفرت بھی کر سکتی ہے۔
فاتحہ پڑھنے کا عمل سنت سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ دعاے مغفرت کرنا بالکل درست ہے۔
سوال: کیا قبرستان کے ارد گرد دیوار تعمیر کی جاسکتی ہے؟(فاروق عالم صدیقی)
جواب:اگر کسی جگہ اس حد بندی کی ضرورت ہو تو بالکل ایسا کیا جا سکتاہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال: اگر بیوی نشوز اختیار کرتی ہے اور خاوند کی جان کی دشمن بن جاتی ہے تو کیا اس صورت میں بھی بیوی کے نان ونفقہ کی ذمہ داری مرد پر ہو گی؟(تلاوت شاہ)
جواب: جب تک نشوز اختیار کرنے والی عورت، بیوی کی حیثیت سے مرد پر انحصار کرتی ہے اور مرد نے اسے اپنے سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا، اس وقت تک وہ اس کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے۔
سوال:کسی قوم میں رسول کے عدالت بن کر آنے کا صحیح مطلب کیا ہے؟ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں بعض جگہ یہ کہتے ہیں کہ کسی رسول کا قتل ہونا ثابت نہیں اور بعض جگہ یہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے رسولوں کی تکذیب اور قتل کے جرائم کیے تھے۔یہ متضاد بیان ذہن کو اس معاملے میں الجھا دیتا ہے۔ یہ الجھن ان کی تفسیر میں موجود درج ذیل مقامات پر پیش آتی ہے:
۱۔ ’’...رسولوں کی اس امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کو یہ مہلت نہیں دیتا کہ وہ ان کو قتل کر دیں۔ چنانچہ رسولوں میں سے کسی کا قتل ہونا ثابت نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲ / ۱۰۶)
۲۔ ’’... اللہ نے یکے بعد دیگرے اپنے بہت سے رسول اور نبی بھی بھیجے، اس عہد کو انھوں نے توڑ دیا اور جو رسول اس کی تجدید اور یاددہانی کے لیے آئے ، ان کی باتوں کو اپنی خواہشات کے خلاف پا کر یا تو ان کی تکذیب کر دی یا ان کو قتل کر دیا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
۳۔ ’’...بنی اسرائیل نے رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل کے جو جرائم کیے، ان پر ان کی فوری پکڑ نہیں ہوئی تو وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب کوئی پکڑ ہو گی ہی نہیں، حالاں کہ اللہ کی سنت یہ نہیں کہ وہ لازماً ہر جرم کی سزا فوراً ہی دے، بلکہ وہ مجرموں کو ڈھیل دیتا ہے تا کہ وہ توبہ و اصلاح کر لیں اگر چاہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
(افتخار احمد)
جواب: پہلی بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید ہی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نبی اور رسول کے الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ درجِ ذیل آیت اس پر نصِ قاطع ہے:
ارشاد باری ہے :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ ... . ( الحج۲۲: ۵۲)
’’اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی...‘‘
اس آیت میں ’’نبی ‘‘اور’’ رسول‘‘ کے الگ الگ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ رسول الگ ہے اور نبی الگ ہے، تبھی تو دونوں کا الگ الگ ذکر کیا جا رہا ہے۔
’’رسول‘‘ اور ’’نبی‘‘ کے الفاظ جب اصطلاحی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں تو اس وقت ان کا کیا مفہوم ہوتا ہے اور رسول کے خدا کی عدالت ہونے کا کیا مطلب ہے، اسے واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب اپنی کتاب ’’دین حق‘‘ میں ص ۱۲۔۱۳ پر لکھتے ہیں:
’’قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان (پیغمبروں) میں سے بعض ’’نبوت‘‘کے ساتھ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر بھی فائز ہوئے تھے۔
’’نبوت‘‘ یہ ہے کہ بنی آدم میں سے کوئی شخص آسمان سے وحی پا کر لوگوں کو حق بتائے اور اس کے ماننے والوں کو قیامت میں اچھے انجام کی خوش خبری دے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرے ۔ قرآن اپنی اصطلاح میں اسے ’’انذار‘‘ اور ’’بشارت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے:
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ (اُنھوں نے اختلاف کیا ) تو اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے۔‘‘(البقرہ۲ : ۲۱۳)
’’رسالت‘‘ یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر فائز کوئی شخص اپنی قوم کے لیے اس طرح خدا کی عدالت بن کر آئے کہ اس کی قوم اگر اسے جھٹلا دے تو اس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اسی دنیا میں اس پر نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملاً اس پر قائم کر دے:
’’اور ان کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ہم تمھیں اِس سر زمین سے نکال دیں گے یا تم ہماری ملت میں واپس آؤ گے ۔ تب ان کے پروردگار نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں کو لازماً ہلاک کریں گے اور ان کے بعد تمھیں لازماً اس سرزمین میں بسائیں گے۔‘‘ (ابراہیم ۱۴: ۱۳۔۱۴)
’’بے شک ،وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں ، وہی ذلیل ہوں گے ۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک، اللہ قوی ہے ، بڑا زبردست ہے ۔‘‘(المجادلہ ۵۸: ۲۰۔۲۱)
رسالت کا یہی قانون ہے جس کے مطابق خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے:
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا کہ اسے وہ (سرزمین عرب کے) تمام ادیان پر غالب کردے، اگرچہ یہ بات (عرب کے) اِن مشرکوں کو کتنی ہی ناگوار ہو۔‘‘ (الصف ، ۶۱: ۹)
اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ ان کے ذریعے سے اسی دنیا میں برپا کر دیتے ہیں ۔ انھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اس کی جزا اور اس سے انحراف کریں گے تو اس کی سزا انھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الہٰی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا ان کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ اس کے ساتھ انھیں حکم دیا جاتا ہے کہ حق کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیں ۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ ’’شہادت‘‘ ہے ۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت ، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے اوران کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں ۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ خود قرآن مجید ہی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ’’نبی‘‘ اور’’ رسول‘‘ کے الفاظ اپنے اصطلاحی معنوں سے ہٹ کر محض خدا کا فرستادہ، ایلچی اور پیغمبر کے معنوں میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ درج ذیل آیات اس پر نص قاطع ہیں:
’’ میں تیرے رب ہی کا پیغام بر ہوں تا کہ تمھیں ایک پاکیزہ فرزند عطا کروں۔‘‘ (مریم۱۹: ۱۹)
اور
’’یہ سب ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر،ان کا اقرار ہے کہ ہم خدا کے رسولوں میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی۔‘‘ (البقرۃ۲: ۲۸۵)
ان دونوں آیات میں ’’رسول‘‘ کا لفظ فرستادہ ، ایلچی اور پیغمبر کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ چنانچہ جب ’’رسول‘‘ یا ’’نبی‘‘ کا لفظ اپنے غیر اصطلاحی مفہوم میں آتا ہے تو پھر قرآن میں نبی کے لیے’’ رسول‘‘ اور رسول کے لیے ’’نبی‘‘ کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ رسولوں کے قتل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کی قوم ان کی تکذیب کر کے ان پر غلبہ پا لے اور انھیں قتل کر دے۔
اب ہم ’’تدبر قرآن‘‘ کے درج ذیل ان تینوں اقتباسات کو دیکھتے ہیں، جن میں آپ نے تضاد محسوس کیا ہے:
۱۔ ’’...رسولوں کی اس امتیازی خصوصیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے دشمنوں کو یہ مہلت نہیں دیتا کہ وہ ان کو قتل کر دیں۔ چنانچہ رسولوں میں سے کسی کا قتل ہونا ثابت نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۰۶)
۲۔ ’’... اللہ نے یکے بعد دیگرے اپنے بہت سے رسول اور نبی بھی بھیجے، اس عہد کو انھوں نے توڑ دیا اور جو رسول اس کی تجدید اور یاددہانی کے لیے آئے ، ان کی باتوں کو اپنی خواہشات کے خلاف پا کر یا تو ان کی تکذیب کر دی یا ان کو قتل کر دیا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
۳۔ ’’...بنی اسرائیل نے رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل کے جو جرائم کیے، ان پر ان کی فوری پکڑ نہیں ہوئی تو وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب کوئی پکڑ ہو گی ہی نہیں، حالانکہ اللہ کی سنت یہ نہیں کہ وہ لازماً ہر جرم کی سزا فوراً ہی دے، بلکہ وہ مجرموں کو ڈھیل دیتا ہے تا کہ وہ توبہ و اصلاح کر لیں اگر چاہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۶۶)
ان تینوں اقتباسات میں سے پہلے میں رسالت کے بارے میں قانون کے حوالے سے بات ہوئی ہے کہ وہ قوم جس میں رسول آتا ہے ،وہ اگر اس کی تکذیب کرکے اسے قتل کرنا چاہے تو خدا انھیں اس کی مہلت نہیں دیتا۔
دوسرا اقتباس جس آیت کے تحت لکھا گیا ہے، اُس میں صرف ’’رسول‘‘ کا لفظ موجود ہے اور وہ بھی غیر اصطلاحی، یعنی ایلچی اور پیغمبر کے معنوں میں ہے۔ چنانچہ مولانا اصلاحی نے بھی اس آیت کے تحت ’’رسول‘‘ اور’’ نبی‘‘ کے الفاظ مترادفات کے طور پر استعمال کیے ہیں، یعنی یہاں ’’رسول‘‘ کا لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔
تیسرے اقتباس کا معاملہ بھی یہی ہے کہ یہاں ’’رسول‘‘ کا لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں ہے۔ چنانچہ اس میں موجود ’’رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل ‘‘کے الفاظ سے ان کی مراد بنی اسرائیل کے انبیا کی تکذیب اور ان کا قتل ہے، کیونکہ جس آیت کے تحت یہ شرح لکھی گئی ہے، اس میں ’’رسول‘‘ کا لفظ اپنے اصطلاحی معنی میں نہیں، بلکہ خدا کے فرستادہ اور ایلچی کے معنی میں ہے۔ ہماری اس بات کی دلیل اس آیت ہی میں موجود ہے۔ ارشاد باری ہے:
’’جب بھی ان کے پاس کوئی رسول ایسی بات لے کر آیا جو ان کی خواہش کے خلاف ہوئی تو ایک گروہ کی انھوں نے تکذیب کی اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔ ‘‘ (المائدہ ۵: ۷۰)
اس آیت میں رسولوں کی تکذیب اور ان کے قتل کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کی بات بنی اسرائیل کی خواہش کے خلاف ہوتی تھی۔ظاہر ہے کہ یہ محض رسولوں ہی کا معاملہ نہیں ہوتا کہ ان کی بات انسان کی خواہش کے خلاف ہوتی ہے، بلکہ نبیوں کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ آیت میں موجود ’’رسول‘‘ کے لفظ میں رسول اور نبی دونوں کو شامل سمجھا جائے۔
سوال: غامدی صاحب کے نزدیک سنت سے کیا مراد ہے اور یہ کون کون سی ہیں؟(اے کے فریدی)
جواب: سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ غامدی صاحب کی تحقیق کے مطابق یہ درج ذیل ہیں:
’’عبادات
۱۔ نماز ۔۲۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر ۔۳۔ روزہ و اعتکاف ۔۴۔ حج و عمرہ ۔۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں ۔
معاشرت
۱۔ نکاح و طلاق اور ان کے متعلقات ۔ ۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔
خورونوش
۱۔ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت ۔ ۲۔ اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ ۔
رسوم و آداب
۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ۔ ۲۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم ‘اور اس کا جواب۔۳۔ چھینک آنے پر ’الحمدللہ ‘اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ ‘ ۔ ۴ ۔نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت ۔ ۵۔مو نچھیں پست رکھنا ۔۶ ۔زیر ناف کے بال کاٹنا ۔ ۷۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۸۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا ۔ ۹۔لڑکوں کا ختنہ کرنا ۔ ۱۰۔ ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۱۔استنجا۔ ۱۲۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۳۔غسل جنابت ۔ ۱۴۔ میت کا غسل۔ ۱۵ ۔تجہیز و تکفین ۔ ۱۶۔تدفین ۔۱۷ ۔عید الفطر ۔ ۱۸۔ عید الاضحی ۔‘‘(اصول و مبادی۱۰۔۱۱)
سوال: کیا پینشن پر بھی اسی طرح پیداوار کی زکوٰۃ عائد ہو گی جیسے تنخواہ پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے؟(اے کے فریدی)
جواب:پینشن پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد نہیں ہو گی، کیونکہ یہ رقم نہ اصلاً محنت سے حاصل ہوئی ہے،نہ اصلاً سرمایے سے اور نہ ان دونوں کے تعامل سے، بلکہ یہ سابقہ خدمات کے صلے میں دیا جانے والا ایک Benefit ہے۔ البتہ اگر کسی کے ہاں سال گزرنے کے بعد یہی پینشن حد نصاب تک پہنچ جاتی ہے، تو پھر اس پر ڈھائی فی صد کے حساب سے مال کی زکوٰۃ لگے گی۔
سوال:حکومت نے حال ہی میں ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ بل پاس کیا ہے۔اس کے بارے میں بعض علما کا یہ کہنا ہے کہ اس بل کے نتیجے میں ملک میں جنسی آزادی جنم لے گی۔ اس میں آخر ایسی کیا غلطی ہے، جس کی بنا پر وہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس سے پہلے عورتوں کے حق میں قانون انصاف پر مبنی نہیں تھا اور اس سے انھیں تحفظ ملا ہے۔ (عاقب خلیل)
جواب: جن لوگوں نے ’’تحفظ حقوق نسواں‘‘ بل پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ جنسی آزادی کا باعث بنے گا، انھوں نے اس پر درج ذیل اعتراضات کیے ہیں۔
پہلا یہ کہ زنا بالجبر کی جو سزا قرآن و سنت نے بیان کی ہے اور جسے اصطلاح میں حد کہتے ہیں، اسے اس بل میں مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے، اس کی رو سے زنا بالجبر کے کسی مجرم کو کسی بھی حالت میں شرعی سزا نہیں دی جا سکتی، بلکہ اسے ہرحال میں تعزیری سزا دی جائے گی۔
دوسرا یہ کہ حدود آرڈی نینس میں جس جرم زنا کو موجب تعزیر کہا گیا تھا، اسے اس بل میں فحاشی (Lewdness) کا نام دے کر اس کی سزا کم کر دی گئی ہے اور اس کے ثبوت کو مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ثبوت کو مشکل تر بنانے کی وضاحت یہ ہے کہ اب زنا کے حوالے سے پولیس کوئی اقدام ہی تب کرے گی جب اسے دو گواہ میسر ہوں گے۔ نیز اس بل کے مطابق سولہ سال سے کم عمر خاتون، خواہ وہ حقیقتاً بالغ ہی کیوں نہ ہو، اس کے ساتھ اگر اس کی رضامندی کے بغیر یا رضا مندی کے ساتھ زنا کیا گیا ہے تو ہر دو صورتوں میں مرد کو زنا بالجبر کا مرتکب قرار دیا جائے گا اور اس خاتون کو بری قرار دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس بل میں اور بھی بعض ایسے مسائل موجود ہیں جو جرم زنا کے خلاف قانون کو سست اور کمزور بناتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ اس بل میں موجود یہ پہلو تشویش ناک ہیں۔
سوال: کسی دہریے کو ہم یہ کیسے ثابت کر سکتے ہیں کہ خدا موجود ہے؟(عاقب خلیل خان)
جواب: اصل سوال یہ نہیں کہ خدا کا وجود ثابت کیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ خدا کے وجود کا انکار کیسے ممکن ہے۔ انکار کرنے والوں کے ذہن میں عموماً اس کا جواب یہ آتا ہے کہ چونکہ وہ حواس خمسہ کی گرفت میں نہیں آتا، اس لیے وہ موجود ہی نہیں ہو گا، لیکن ان کی یہ بات درست نہیں، کیونکہ ہم سیکڑوں چیزوں کو حواس خمسہ سے نہیں، بلکہ عقل سے مانتے ہیں ۔ اسی طرح بے شمار چیزوں کو ہم وجدان کی بنا پر مانتے ہیں، نہ کہ حواس خمسہ سے۔
اصل بات یہ ہے کہ کیا ہم خدا کے تصور کے بغیر اپنا اور اس کائنات کا خیال بھی دل میں لا سکتے ہیں؛ کیا خدا کے تصور کے بغیر اس کائنات کی، انسان کی اور اس زندگی کی کوئی توجیہ ممکن ہے؟ اور کیا اس توجیہ کے بغیر اعلیٰ اخلاق پر قائم کوئی زندگی ممکن ہے؟ اگر کسی کے خیال میں ایسا ممکن ہے تو یہ ہے وہ چیز جس کے حق میں اسے دلائل دینے چاہییں اور اس کو ثابت کرنا چاہیے، کیونکہ اس کے نتیجے میں خدا کی نفی ہو جائے گی۔
خدا ابدہ البدیہات ہے ،اس کے بارے میں ثبوت اور دلائل کی ضرورت نہیں، وہ ثابت ہے۔ جو اس کی نفی کرنا چاہتا ہے، اس کے ذمے ہے کہ وہ اس کی نفی کے دلائل دے۔
سوال:سورۂ نساء کی آیت ۶۹ کا کیا مطلب ہے؟(عرفان)
جواب: سورہ نساء کی آیت ۶۹ درج ذیل ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفَیْقًا.(النسا۴: ۶۹)
’’ اور جو اللہ اور (اس کے )رسول کی اطاعت کریں گے وہی ہیں جو انبیا، صدیقین اور شہدا اور صالحین کے اس گروہ کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا فضل فرمایا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔‘‘
اس سے پچھلی آیات میں منافقین کو یہ توجہ دلائی جا رہی ہے کہ اگر وہ بھی اپنے خاندان، قبیلے اور گھردر کی وابستگیوں سے آزاد ہو کر پوری یک سوئی سے مسلمانوں کے معاشرے میں شامل ہو جائیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اسلام پر ان کے قدم جمانے میں یہ چیز نہایت کار گر ثابت ہو گی۔ پھر اس آیت میں اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے فرمایا کہ وہ یہ خیال نہ کریں کہ یہ کوئی تباہی اور خود کشی کا راستہ ہے، بلکہ اگر وہ اللہ کے لیے اپنے گھر در چھوڑیں گے تو اللہ ان کو خاص اپنے پاس سے اجر عظیم دے گا اور ان کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب کرے گا، جو لوگ سب سے کٹ کر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ان کو (آخرت میں) اللہ تعالیٰ اپنے انعام یافتہ بندوں انبیا ، صدیقین ،شہدا اور صالحین کی معیت و رفاقت میسر کرے گا اور یہ رفاقت وہاں بہت بڑا انعام ہو گی۔
سوال: کیا آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان تھے یا انسان کی تخلیق ان سے پہلے ہو چکی تھی، انسان کی تخلیق کیسے ہوئی تھی؟ کیا آدم علیہ السلام ہی پہلے نبی ہیں یا نوح علیہ السلام پہلے نبی ہیں۔ نیز فرشتوں کے آدم کو سجدہ کرنے کا واقعہ کیا کوئی حقیقی واقعہ ہے یا یہ قرآن کا ایک انداز تمثیل ہے؟(آصف بن خلیل و قمر اقبال)
جواب: یقیناًآدم علیہ السلام ہی دنیا کے پہلے انسان تھے۔
ارشاد باری ہے:
خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ.(آل عمران۳: ۵۹)
’’خدا نے اس (آدم) کو مٹی سے پیدا کیا، پھر اس سے کہا کہ تو ہو جا تو وہ ہو گیا۔‘‘
یعنی آدم کے ماں باپ نہ تھے۔ رہا یہ سوال کہ اللہ نے آدم کو مٹی سے کیسے بنایا، تو یہ اُن امور میں سے ہے، جن کا اللہ نے ہمیں مشاہدہ نہیں کرایا۔لہٰذا، ہم یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے، بس جتنے الفاظ قرآن میں آئے ہیں، انھی کو بیان کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ وہ مٹی جس سے آدم کو بنایا گیا تھا ،وہ پہلے گارا تھی پھر سوکھ کر کھنکھنانے لگی، پھر ایک مرحلے پر اس میں روح پھونکنے کا عمل ہوا تھا۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اس عمل کی حقیقت کیا تھی۔
یقیناً آدم علیہ السلام ہی پہلے نبی تھے، جیسا کہ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ.(آل عمران۳: ۳۳)
’’ بے شک اللہ نے منتخب فرمایا (نبوت کے لیے) آدم ، نوح اور آل ابراہیم کو۔‘‘
اس آیت میں آدم علیہ السلام کی نبوت کا ذکر ہے۔
فرشتوں کے سجدہ کرنے کا واقعہ تمثیلی نہیں ،بلکہ حقیقی ہے۔ اس کا حکم اللہ نے تخلیق آدم سے پہلے ہی فرشتوں کو دے دیا تھا۔ ارشادباری ہے:
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ.(الحجر۱۵: ۲۸۔۲۹)
’’ اور یاد کرو جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اس کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو تخلیق آدم سے پہلے ہی سجدے کا حکم دے دیا تھا۔ چنانچہ یہ بات تمثیلی نہیں ہو سکتی۔
________________