بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ، وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی، یُرَآئُ وْنَ النَّاسَ، وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلاَّقَلِیْلاً{۱۴۲} مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْْنَ ذٰلِکَ، لَآ اِلٰی ہٰٓـؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ہٰٓـؤُلَآئِ، وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ سَبِیْلاً{۱۴۳}
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ، اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْْکُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا{۱۴۴} اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ، وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا{۱۴۵} اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللّٰہِ وَاَخْلَصُوْا دِیْنَہُمْ لِلّٰہِ فَاُولٰٓـئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَسَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا{۱۴۶}
مَا یَفْعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمْ اِن شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ، وَکَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیْمًا {۱۴۷}
لاَ یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَہْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَ، وَکَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا{۱۴۸} اِنْ تُبْدُوْا خَیْْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓئٍ، فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا{۱۴۹}
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ، وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ، وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ، وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً{۱۵۰} اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا، وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا{۱۵۱} وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ، وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ، اُولٰٓـئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ، وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا{۱۵۲}
یہ منافق خدا سے دھوکا کرنا چاہتے ہیں، دراں حالیکہ اُسی نے اِنھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ (تم اِنھیں دیکھتے ہو) یہ جب نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو جی ہارے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اُٹھتے ہیں۔ یہ خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔ درمیان ہی میں لٹک رہے ہیں، نہ اِدھر ہیں نہ اُدھر ہیں۔ ۲۱۹ (اِن کے جرائم کی پاداش میں اِنھیں اللہ نے گمراہی میں ڈال دیا ہے) اور جسے اللہ گمراہ کر دے، اُس کے لیے تم کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ ۱۴۲-۱۴۳
ایمان والو، (اِن کی باتوں میں آکر) تم مسلمانوں کو چھوڑ کر (پیغمبر کے) منکروں کو اپنا دوست نہ بنائو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ کو اپنے خلاف صریح حجت دے دو۔ (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) یہ منافق دوزخ کے سب سے نیچے طبقے میں ہوں گے اور تم اِن کے لیے کوئی مددگار نہ پائو گے۔ ہاں، جو توبہ کریں گے اور (اپنے طرزعمل کی) اصلاح کر لیں گے اور اللہ کو مضبوط پکڑیں گے اور اپنی اطاعت کو اللہ کے لیے خالص کر لیں گے، ۲۲۰ وہ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ مومنوں کو عنقریب اجر عظیم عطا فرمائے گا۔۱۴۴-۱۴۶
(خدا کے بندو)، اگر تم شکرگزاری اختیار کرو اور سچے مومن بن کر رہو ۲۲۱ تو اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمھیں عذاب دے۔ اللہ تو بڑا قبول کرنے والا اور (ہر چیز کا) جاننے والا ہے۔ ۲۲۲ ۱۴۷
(ایمان والو، یہ منافق تم پر زیادتی کریں اور تم جواب دینا چاہو تو دے سکتے ہو، اِس لیے کہ) اللہ مظلوم کے سوا کسی کا بُری بات کہنا پسند نہیں کرتا اور اللہ سمیع و علیم ہے۔۲۲۳ (لیکن اِس کے بجائے) اگر ظاہر و باطن میں نیکی ہی کیے جائو گے یا (کم سے کم) برائی سے درگزر کرو گے (تو یہی بہتر ہے)، اِس لیے کہ اللہ (کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ) معاف کرنے والا ہے، (اِس کے باوجود کہ) بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔ ۱۴۸-۱۴۹
(یہ حقیقت، البتہ واضح رہنی چاہیے کہ) جو لوگ اللہ اور اُس کے رسولوں کے منکر ہو رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہیں مانیں گے اور چاہتے ہیں کہ ایمان اور کفر کے بیچ میں کوئی راہ نکالیں، وہ پکے منکر ہیں اور ہم نے اِن منکروں کے لیے رسوا کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (اِس کے برخلاف) جو اللہ اور اُس کے رسولوں کو مان رہے ہیں اور اُن میں سے کسی کے درمیان اُنھوں نے کوئی تفریق نہیں کی ہے، اُن کو اللہ ضرور اُن کا اجر عطا فرمائے گا اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ۱۵۰-۱۵۲
۲۱۹؎ یعنی نہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ اُن منکروں کے ساتھ جن کی وکالت کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ہوتے ہیں تو اُنھیں اطمینان دلاتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ہیں اور منکروں سے ملتے ہیں تو اُنھیں یقین دلاتے ہیں کہ اُن کے ساتھ ہیں،حالاں کہ دل سے کسی کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ قرآن نے اِن کے لیے ’کُسَالٰی‘، ’یُرَآؤُنَ‘ اور ’مُذَبْذَبِیْنَ‘، کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ تینوں حال واقع ہوئے ہیں۔ اِن کی حالت کا پورا نقشہ، اگر غور کیجیے تو اِن سے آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’مطلب یہ ہے کہ یہ منافقین صرف اللہ کے بندوں ہی کو دھوکا نہیں دے رہے ہیں، بلکہ خدا کو بھی دھوکا دینا چاہتے ہیں، حالاں کہ جو خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے، وہ خدا کو دھوکا نہیں دیتا، بلکہ خود اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے، اِس لیے کہ خدا اُس کی رسی دراز کر دیتا ہے جس سے وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے خدا کو دھوکا دے دیا ہے، حالاں کہ دھوکا اُس نے خدا سے کھایا۔ ’وَاِذَا قَامُوْا اِلَی الصَّلٰوۃِ‘، یہ اِن کی اِس دھوکا بازی کی مثال ہے، یعنی نماز کے لیے اُٹھتے ہیں تو طبیعت پر جبر کر کے، الکسائے ہوئے، مارے باندھے محض اِس ڈر سے اُٹھتے ہیں کہ اگر شریک جماعت نہ ہوئے تو مسلمانوں کے رجسٹر سے نام ہی خارج ہو جائے گا۔ یہ محض دکھاوے کی نماز ہوتی ہے کہ مسلمان اِن کو اپنے اندر شامل سمجھیں، اس وجہ سے اِس میں اللہ کا ذکر اتنا ہی ہوتا ہے، جتنا مجبوری اور دکھاوے کی نماز میں ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اللہ کے ساتھ صریح دھوکا بازی ہے۔ فرمایا: یہ خدا کے راندے ہوئے ہیں، اُس نے اِن کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور جن کو خدا نے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا ہو، اب اُن کو راہ پر کون لا سکتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۴۱۱)
۲۲۰؎ اصل میں ’اَخْلَصُوْا دِیْنَہُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’دین‘ کا لفظ اطاعت کے معنی میں ہے۔ سورۂ زمر (۳۹) کی آیت ۱۱ میں بھی یہ اِسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔
۲۲۱؎ اس آیت میں، اگر غور کیجیے تو شکر ایمان پر مقدم ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فلسفۂ دین کے لحاظ سے شکر ہی سچے ایمان کا سرچشمہ ہے۔
۲۲۲؎ اِس لیے اگر صحیح رویہ اختیار کرو گے تو وہ اُس کی قدر کرے گا اور تمھاری توقعات سے بڑھ کر اُس کا صلہ دے گا۔ وہ ہر شخص کے ایمان و عمل سے واقف ہے، لہٰذا تمھارا یہ رویہ بھی اُس سے چھپا نہ رہے گا۔
۲۲۳؎ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ کہو گے یا کرو گے، اُس کے بارے میں متنبہ رہو، اِس لیے کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ