HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

ایمان اہل حجاز میں

جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُولُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غِلَظُ الْقُلُوْبِ وَالْجَفَاءُ فِی الْمَشْرِقِ وَالْاِیْمَانُ فِیْ أَہْلِ الْحِجَازِ.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دل کی سختی اور جفا مشرق میں ہے اور ایمان اہل حجاز میں ہے۔
لغوی مباحث

غِلَظُ الْقُلُوْبِ‘: دلوں کی سختی۔ ہم اس سے پہلے والی حدیث کی شرح میں اس لفظ کی وضاحت میں لکھ چکے ہیں کہ لفظ ’غلظۃ‘ ’رقۃ‘ (باریکی) کے متضاد کے طور پر آتا ہے۔ لیکن یہ معنوی پہلو سے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کے معنی سخت مزاجی کے ہیں۔ مثلاً سورۂ توبہ (۹: ۱۲۳) میں ہے: ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً‘ (اے ایمان والو، تمھارے گردوپیش میں جو کفار ہیں، ان سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تمھارے رویے میں سختی محسوس کریں)۔

اَلْجَفَاءُ‘: سختی، جور اور ظلم۔ ’غِلَظُ الْقُلُوْبِ‘ کے ساتھ جفا کا لفظ ظاہری اور باطنی رویے کی یکسانی کو واضح کرنے کے لیے آیا ہے۔

اَہْلِ الْمَشْرِقِ‘: اہل مشرق سے وہ قبائل مراد ہیں جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی شدید مخالفت کی تھی۔ پچھلی روایت میں ربیعہ اور مضر قبائل کا ذکر اسی ضمن میں ہوا تھا۔ یہاں اس روایت میں ان قبائل کا نام لینے کے بجائے ان کے علاقے کا حوالہ دیا گیا ہے۔اس روایت کے بعض متون میں ان ناموں کی تصریح بھی ہے۔

اَہْلِ الْحِجَازِ‘: حجاز سے وہ علاقہ مراد ہے جس میں مکہ، مدینہ اور طائف کے شہر موجود ہیں۔حجاز کے لفظی معنی ’’روک‘‘ کے ہیں۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ اسے حجاز اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ علاقہ نجد اور تہامہ کے درمیان آڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اہل حجاز سے مکہ، مدینہ اور طائف کے رہنے والے مراد ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرکز کی حیثیت انھی شہروں کو حاصل رہی اور انھی میں سے وہ جلیل القدر ہستیاں اسلامی تاریخ کا حصہ بنیں جنھیں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی حیثیت سے جانتے ہیں۔

معنی

یہ روایت اور پچھلی روایت ایک ہی مضمون کی حامل ہیں۔ اس میں اہل یمن کے ایمان کا ذکر ہوا ہے اور اس میں اہل حجاز کے ایمان لانے کی مدح کی گئی ہے۔ ہم نے پچھلی روایت میں واضح کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ بیانات اپنے زمانے میں دین کی دعوت میں ملنے والی حمایت اور ہونے والی مخالفت کے حوالے سے ہیں۔ یہ کوئی مستقل وصف نہیں ہے جو ان قوموں یا علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ حجاز جہاں سے عظیم المرتبہ ساتھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میسر آئے، وہیں بوجہل و بولہب جیسے دین کے دشمن بھی موجود رہے جنھوں نے دین کی مخالفت میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ بہرحال حجاز کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ عالمی سطح کا مرکز توحید ہے۔ اسی کی جلیل القدر ہستیوں نے خلافت راشدہ کا ادارہ وجود پذیر کیا جو ہمیشہ کے لیے اجتماعی عدل اور اجتماعی فلاح کے طالبوں کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ایمان وعمل حقیقت میں کسی علاقے اور قوم کا خاصہ نہیں ہیں، لیکن وہ لوگ بہرحال قابل ستایش ہیں جو اپنے معاشرے کے تعصبات، نفسیاتی رکاوٹوں اور رسوم و رواج سے بلند ہو کر حق کو محض حق ہونے کی بنیاد پر قبول کرتے اور اپنے جان ومال کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔مکہ اور مدینہ نے ایک معتد بہ تعداد ایسے لوگوں کی میسر کی جنھوں نے دین کی خاطر ہر طرح کے مصائب سہے، دین کی مدد کے لیے مال وجان کو نچھاور کیا اور جب عروج اور ترقی حاصل ہوئی تب بھی انھیں سب سے زیادہ فکر آخرت کی تھی۔ کسی علاقے کا یہ وصف اس کو مستحق بنا دیتا ہے کہ اس کا پیغمبر اس کے رہنے والوں کو ’اَلْاِیْمَانُ فِیْ اَہْلِ الْحِجَازِ‘ کے الفاظ سے تحسین کرے۔

اس روایت میں بھی اہل مشرق کی سخت دلی کا تذکرہ ہوا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جو بالکل آخری زمانے میں اسلام لایا اور قبل ازیں اس نے قریش مکہ کا اسلام کی مخالفت میں بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ہم عرض کر چکے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بیان اپنے زمانے کی نسبت سے ہے۔ بعد ازاں اس کے اہل ایمان نے بھی اسلام کی خدمت میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔

متون

اس روایت کے متون اور پچھلی روایت کے متون کے بعض جملے مشترک ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ یہ ایک ہی موقع کا کلام ہے یا الگ الگ مواقع پر کہی گئی باتیں ہیں۔اس روایت کے بعض متون میں اہل مشرق کے لیے ’فِی الْفَدَّادِیْنَ‘ کی ترکیب بھی استعمال ہوئی ہے۔ اسی طرح ’فِیْ اَہْلِ الْمَشْرِقِ ‘ کے بجائے ’قِبَلَ الْمَشْرِقِ ‘ کی تعبیر بھی اختیار کی گئی ہے۔ مزید براں اہل مشرق کے لیے ’قسوۃ‘ کا لفظ بھی آیا ہے اور ربیعہ اور مضر کی تصریح بھی ہوئی ہے۔ ’اَہْلِ الْوَبَرِ‘ اور ’عِنْدَ اُصُوْلِ اَذْنَابِ الْاِبِلِ‘ کی تعبیریں بھی ان کے لیے ان متون میں آئی ہیں۔

اہل حجاز کے حوالے سے ایمان کے ساتھ سکینت کالفظ بھی ان متون میں مروی ہے۔ اسی طرح ’فِیْ اَہْلِ الْحِجَازِ‘ کے بجائے ’فِیْ اَرْضِ الْحِجَازِ‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔

کتابیات

مسلم، رقم ۵۳۔ احمد، رقم۱۴۵۹۸، ۱۴۶۳۵، ۱۴۷۵۷۔ ابن حبان، رقم۷۲۹۶۔ ابویعلیٰ، رقم ۱۸۹۳، ۱۹۳۵، ۲۳۰۹۔ معجم اوسط، رقم۸۶۳، ۹۰۷۱۔ ابن ابی شیبہ، رقم۳۲۴۳۴۔

________________

B