[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
حضرت عمرو بن العاص نے رومیوں کے بچے کھچے لشکر کو اسکندریہ میں شکست دینے کے بعد مصر کو آغاز محرم ۲۰ھ (۸ نومبر ۶۴۱ء) میں فتح کرلیا تو انھوں نے نئے دارالحکومت فسطاط کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اس شہر میں کوئی قلعہ تعمیر نہ کیا، کیونکہ اہل مصر اپنی مرضی سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے، اس لیے ان سے دشمنی کا کوئی خوف نہ تھا۔ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ فتح کے بعد سب سے پہلے جامع مسجد تعمیر کی جائے۔ اسی حکم کے تحت بصرہ، کوفہ، فسطاط اور شام کی جامع مسجدوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ۲۱ھ (۶۴۲ء) یعنی قاہرہ کی بنیاد سے تین سو سال پہلے جامع مسجد عمرو بن العاص کی بنیاد رکھی گئی۔
فسطاط کے عین درمیان قیسیہ بن کلثوم کا باغ تھا۔ حضرت عمر نے باغ کی قیمت پیش کی، مگر قیسیہ نے معاوضہ لینے سے انکار کر دیا اور اپنی زمین بلامعاوضہ دے دی۔ اس جگہ کے شمال مغرب میں دریاے نیل آب و تاب سے بہ رہا ہے۔ چار صحابہ یعنی حضرت ابو ذر غفاری، ابو بصرہ، محمیۃ بن جزء زبیدی اور نبیہ بن صواب بصری نے اس کی تعمیر کی نگرانی کی۔ ۸۰ کے قریب صحابۂ کرام نے قبلہ کی حد بندی میں حصہ لیا۔ ان میں ربیعہ بن شرجیل، عمرو بن علقمہ قرشی، زبیر بن العوام، مقداد بن اسود، عبادہ بن صامت، رافع بن مالک، ابوالدرداء فضالہ بن عبیداللہ اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔
ابتدا میں اس مسجد کا طول ۹.۳۸ میٹر اور عرض ۳۴.۱۷ میٹر یعنی کل رقبہ تقریباً ۶۷۵ میٹر تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی توسیع ہوتی گئی، اس کے چھ دروازے تھے۔ دو دروازے مشرق کی جانب حضرت عمرو بن العاص کے گھر کے سامنے، دو دروازے شمال کی جانب اور دو دروازے مغرب کی جانب۔ چھت نیچی تھی جو کھجور کی شاخوں اور گارے سے بنائی گئی تھی اور کھجور کے تنوں پر کھڑی تھی۔ دیواریں مٹی، گارے اور اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں، مسجد کا کوئی صحن نہ تھا۔ موسم گرما میں مسجد کے اندر کا درجۂ حرارت شدید ہوتا تھا۔ زمین پر کنکریاں بچھی ہوئی تھیں۔ وضو کے لیے ایک کنواں تھا جو ’’البستان‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ جب حضرت عمرو بن العاص نے منبر بنایا تو امیر المومنین عمر بن الخطاب نے ان کو خط لکھا: ’’کیا یہی کافی نہیں کہ تم کھڑے ہو اور مسلمان تمھارے قدموں میں بیٹھے ہوں‘‘۔ حضرت عمرو بن العاص نے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے منبر ہٹا دیا۔ مسجد میں کوئی مینار نہ تھا اور نہ ہی اندر اور باہر کوئی آرایش۔ محراب سپاٹ تھا نہ کہ خول دار۔
وقت کے ساتھ ساتھ مسجد کا رقبہ بڑھتا رہا۔ مسجد سات بار گری اور سات بار بنی۔ ۵۳۰ء تک مسجد میں کوئی اضافہ نہ ہوا۔ عہد اموی میں معاویہ بن ابی سفیان، عبدالملک بن مروان، ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں مسجدمیں اضافے ہوئے۔ عہد عباسی میں خلیفہ ہارون الرشید اور مامون کے زمانے میں اضافے ہوئے۔ خلیفہ مامون کے زمانہ میں عبداللہ بن عامر نے قابل قدر اضافہ کیا۔ ۲۷۵ھ (۸۸۸ء) میں مسجد کو آگ لگ گئی۔ احمد بن طولون کے بیٹے خارویہ نے اس کی تجدید کا حکم دیا۔ فاطمیوں کے زمانہ میں اگرچہ جامع ازہر کا اہتمام زیادہ کیا گیا، مگر جامع عمرو بن العاص کو نظر انداز نہ کیا گیا۔ خلیفہ العزیز باللہ، خلیفہ الحاکم بامراللہ اور خلیفہ المستنصر کے زمانہ میں مسجد میں فوارے،لکڑی کے ستونوں کے بجائے سنگ مرمر کے ستون، برآمدے اور مینار بنوائے گئے۔ ۴۳۸ھ میں خلیفہ المستنصر کے حکم سے قبلہ کے دو ستونوں پر چاندی چڑھائی گئی اور اوپر والے حصہ کو چاندی کے ٹکڑے سے مزین کیا گیا جس پر بڑے حروف میں خلیفہ عمر بن الخطاب کا نام کندہ تھا۔
۵۶۴ھ میں فسطاط میں جو آگ لگی، اس میں مسجد بھی برباد ہو گئی۔ ۵۴ دن تک مسجد میں آگ لگی رہی۔ دیواروں کے سوا کچھ نہ بچا۔ ۵۶۸ھ میں صلاح الدین ایوبی نے قبلہ اور محراب کی از سر نو تعمیر کی۔ فرش پر سنگ مر مر لگوایا۔ اور جب انھوں نے شیعی مسلک کے خاتمہ کے لیے جامع ازہر میں نماز اور درس و تدریس کا سلسلہ معطل کیا تو انھوں نے مصر میں سنی مسلک کی دوبارہ ترویج کے لیے جامع عمرو بن العاص میں خاص دل چسپی لی اور وہاں درس و تدریس کے حلقے قائم کیے۔
ممالیک کے عہد میں سلطان عز الدین ایبک، ظاہر بیبرس اور منصور قلادون نے خوب صورت اضافے کیے۔ محمد بن قلادون کے زمانہ (۷۰۲ھ) میں زلزلہ کی وجہ سے مسجد کو کافی نقصان پہنچا تو سلطان نے منہدم حصوں کو اصل کی مانند ازسرنو بنوایا۔ سلطان قایتبائی نے ۷۸۶ھ میں دیواروں اور چھت کی مرمت کرائی۔
عثمانی عہد میں مراد بن محمد نے مسجد کو گرانے کا حکم دیا، کیونکہ اس کی چھت اور ستون گر چکے تھے اور اس کے ہال کا مغربی حصہ ٹیڑھا ہو چکا تھا۔ اس نے مسجد کو از سر نو تعمیر کیا اور دو مینار بنا ئے جو ابھی تک قائم ہیں۔ چھتوں پر سنگ مرمر لگوایا اور فرش پر قالین بچھائے۔ اس مسجد کے خدو خال اپنی اصل حالت سے بالکل تبدیل ہو گئے۔ مرمت کے بعد مسجد کا افتتاح اس طرح کیا گیا کہ رمضان ۱۲۱۲ھ (۱۷۹۷ء) میں الجمعۃ الیتیمہ(آخری جمعہ) وہاں پڑھا گیا، اس موقع پر چار تاسیسی تختیاں نصب کی گئیں جو تاحال باقی ہیں۔ مسجد میں رمضان کا آخری جمعہ ادا کر کے مراد بک نے اس رسم کو زندہ کیا جو فاطمیوں کے عہد میں قائم ہوئی تھی۔ فرانسیسیوں کے دخول سے مسجد برباد ہو گئی۔ انھوں نے اس کی سب قیمتی چیزیں لوٹ لیں۔ محمد علی پاشا نے کچھ اصلاحات کیں اور رمضان کے آخری جمعہ کی رسم کو جاری رکھا۔ خدیو توفبق کے زمانہ میں ۱۳۰۰ھ (۱۸۸۲ء) میں مسجد کی مرمت کی گئی۔ یلوکیت کے زمانہ میں تھوڑی بہت مرمت صرف اس وقت ہوتی تھی جب بادشاہ اور وزیر اعظم آخری جمعہ کی ادائیگی کے لیے اس مسجد میں آتے تھے۔ جمہوری دور میں حالت بد سے بدتر ہو گئی، کیونکہ اس مسجد میں رمضان کا آخری جمعہ پڑھنے کی روایت بھی ختم ہو گئی۔ یہاں تک کہ فضیلۃ الشیخ محمد غزالی ۱۹۷۱ء میں اس مسجد کے خطیب بنے۔ ان کی کاوشوں سے قاہرہ کے گورنر حمدی عاشور نے مسجد کو جانے والے راستہ کو پختہ کیا اور ایک فوارہ لگوایا۔ پرانے مرادبک کے زمانہ کے منبر کے بجائے نیا منبر بنوایا۔ صدر محمد انوار السادت کے زمانہ میں تین نئے ہال بنے۔ گرنے والے مرمری ستونوں کی جگہ کنکریٹ کے ستون بنائے گئے اور صرف ایوان قبلہ میں مرمری ستون باقی رہے۔ اسی طرح وضو کے لیے موجود کنویں کو پاٹ کر ٹونٹیاں لگوائی گئیں۔ مسجد میں صوتی نظام نصب کیا گیا۔ شیشے کے فانوس لٹکائے گئے جن پر قرآنی آیات لکھی گئیں۔ یہ وہی شیخ محمد الغزالی ہیں جو مدینہ یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے جن کو علمی خدمات کی بنیاد پر شاہ فیصل ایوارڈ ملا اور جو اخوان المسلمین کے سرکردہ رہنما تھے۔ جب انھوں نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’السنۃ النبویۃ بین اہل الفقہ واہل الحدیث‘‘ لکھی تو سعودی عرب میں اس کتاب پر پابندی لگا دی گئی، کیونکہ ان کی رائے میں عورت کے لیے چہرہ ڈھانپنا واجب نہیں اور یہ کہ عورت کے لیے وزیر اعظم بننے میں کوئی شرعی پابندی نہیں۔ یہ کتاب میرے پاس بھی ہے اور ’’المورد‘‘ کی لائبریری میں بھی موجود ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالحمید رضوان کی خطابت کے زمانہ میں صحن کے وسط میں ٹونٹیوں کو ہٹا کر مسجد سے باہر جانب قبلہ وضو کے لیے الگ جگہ بنا دی گئی۔ قبلہ کے ایوان میں غالیچے بچھوا دیے گئے اور پہلی مرتبہ پوری مسجد میں بجلی کے پنکھے لگا دیے گئے۔ ۱۹۸۰ء میں پہلی مرتبہ مسجد میں رمضان شریف کے دوران میں مائدۃ الرحمان (رحمانی دستر خوان) کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالصبور شاہین کے دور خطابت میں مسجد کی تزیین و آرایش کا کام مکمل ہوا تو صدر محمد حسنی مبارک نے ۲۹ رمضان ۱۴۰۶ھ (۶ جون ۱۹۸۶ء) میں آخری جمعہ مسجد میں پڑھا۔ چنانچہ حسنی مبارک جمہوری دور کا پہلا صدر ہے جس نے مسجد کی ترمیم و تجدید کی طرف توجہ دی اور رمضان کا الجمعۃ الیتیمہ (آخری جمعہ) وہاں ادا کیا۔ خواتین کے لیے لکڑی کی سکرین کی جگہ لوہے کی آڑ بنائی گئی۔ وقتاً فوقتاً مخیر حضرات مسجد کی ترمیم و تجدید میں شریک ہوتے رہے۔ درجن کے قریب لکڑی کی شیلفیں ہیں جن میں عطیہ کے طور پر دی گئی بنیادی کتابیں اور ملک فہد کے پریس کے قرآن حکیم کے نسخے رکھے ہوئے ہیں۔ دیار کی لکڑی کا بنا ہوا بہت بڑا منبر ہے جو خطیب ڈاکٹر عبدالصبور شاہین کے نام سے موسوم ہے۔ وضو خانہ کے قریب جامع مسجد کے قبلہ کے رخ پر تقریبات کے لیے ایک ہال بنا ہوا ہے جو فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے جس کی آرایش اسلامی نقش و نگار اور قرآنی آیات سے کی گئی ہے۔ منبر کے قریب اعلیٰ صوتی نظام کے لیے ایک کمرا ہے جسے صرف جمعہ کے روز یا ماہ رمضان میں کھولا جاتا ہے اور باقی دنوں میں پرانے صوتی نظام سے کام لیا جاتا ہے۔ خواتین کے لیے وضو کی علیحدہ جگہ ہے جو مردوں کے مقام وضو سے دور ہے۔ مسجد کے جنوب کی طرف مسجد کے خدام کے رہنے کے لیے کمرا ہے۔ ڈاکٹر عبدالصبور شاہین کی درخواست پر ملک فہد نے پوری مسجد میں قالین بچھوا دیے۔ ایوان قبلہ کی چھت اور ستونوں کو ادھیڑ کر ان کو از سر نو جوڑا گیا۔ اب ستونوں کی کل تعداد ۳۵۰ ستون ہو گئی ہے۔ طرز تعمیر حرم کی مانند ہے، اسی لیے ستونوں کی اتنی بڑی تعداد ہے۔ لکڑی کی چھت کو دوبارہ جوڑ کر اس کا فرش سنگ مرمر کے بجائے سفید پتھر کا بنا دیا گیا ہے۔ کرسٹل کے ۱۲۰۰ فانوس لٹکا ئے گئے ہیں۔ مسجد کے صحن کے فرش پر سنگ مرمر لگا دیا گیا ہے۔ اس کے وسط میں بیت المال کے گنبد کی تجدید کر کے اس کے نیچے چھ واٹر کولر رکھ دیے گئے ہیں۔ مسجد کے تین محراب اور بارہ دروازے ہیں۔ بڑے محراب کے ساتھ جنوبی دیوار میں ایک دروازہ خطیب کے آنے جانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ سب مرمتیں اکتوبر ۲۰۰۲ میں مکمل ہوئیں۔
اس مسجد کو عربی مورخین نے مختلف ناموں سے یاد کیا ہے۔ مثلاً الجامع العتیق (پرانی جامع مسجد)، تاج الجوامع (سب جامع مسجدوں کا تاج)، مسجد النصر (کامیابی کی مسجد)، مسجد الفتح (فتح کی مسجد)، مسجد اھل الرای الاعظم (عظیم اہل رائے کی مسجد)، قطب سماء الجوامع (جامع مسجدوں کے آسمان کا مدار)۔
تاریخ اسلام میں مسجد نبوی، جامع بصرہ اور جامع کوفہ کے بعد یہ چوتھی جامع مسجد ہے، جبکہ مصر اور براعظم افریقہ میں پہلی جامع مسجد ہے۔ سیاسی، اقتصادی، اجتماعی اور تعلیمی لحاظ سے یہ مسجد مصر میں تاریخ اسلام کی علامت ہے۔ یہ الازہر، زیتونہ اور قیروان کی یونیورسٹیوں سے قدیم تر یونیورسٹی ہے۔ جہاں صحیفۂ صادقہ کے مرتب عبداللہ بن عمرو بن العاص جیسے جلیل القدر صحابی تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں امام لیث بن سعد،امام شافعی، سیدہ نفیسہ، ابن حجر عسقلانی، سلطان العلما عزبن عبدالسلام جیسے علما عربی زبان اور دینی علوم پڑھاتے رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جامع عمرو بن العاص قاہرہ میں تہذیب اسلامی کی علامت ہے جس کی پہلی اینٹ ۸۰ کے قریب صحابۂ کرام نے رکھی۔ اس کی بقا فتح مصر سے لے کر اب تک مصر کی تاریخ اور جغرافیہ کی بقاہے۔ زمانۂ قدیم میں جب بھی دریاے نیل میں سیلاب آتا اور قحط کا خطرہ بڑھ جاتا تو ائمہ، شیوخ، کیتھولک پادری، کاہن، قبطی، یونانی اور یہودی جامع عمرو بن العاص کا رخ کرتے اور ہر گروہ اپنے پیرو کاروں کے ساتھ مسجد سے باہر گڑ گڑا کر دعائیں کرتا اور آسمانی مدد کا طلب گار ہوتا۔ بڑے نظم و ضبط سے اس تقریب کا اہتمام کیا جاتا۔ ہر مذہب دوسرے مذہب کا اس طرح احترام کرتا گویا ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔
اس مسجد کی اہمیت کے پیش نظر اس کے ساتھ مندرجہ ذیل بدعتیں وابستہ ہو گئیں:
ایوان قبلہ میں قاری کے چبوترہ کے قریب عمود المدینۃ (مدینہ کے ستون) کے ارد گرد ایک پیچ دار لکیر تھی جس کے متعلق مشہور تھا کہ یہ لکیر امیرالمومنین عمر بن الخطاب کے کوڑے کی ضرب کا نشان ہے۔ جب مزدوروں نے اس ستون کو مدینہ سے اٹھا کر فسطاط لانا چاہا تو وہ ان سے اٹھایا نہ گیا، مگر جب عمر بن الخطاب نے اس کو ضرب لگائی تو اس نے حکم مانا اور مزدوروں کے لیے اس کا اٹھانا ممکن ہو گیا۔ مشہور ہو گیا کہ لا علاج مریض اگر کئی دفعہ اپنی زبان اس ستون پر پھیرے تو شفایاب ہو جاتا ہے۔ اسی لیے وزارت اوقاف نے اس ستون کے گرد لوہے کا جنگلا لگا دیا تاکہ لوگ ان خرافات سے رکے رہیں۔ ۱۹۸۶ء کی مرمتوں میں اس جنگلے کو ہٹا دیا گیا اور ستون سے اس پیچ دار لکیر کو بھی مٹا دیا گیا، بعد میں اس ستون کو بھی ہٹا دیا گیا۔
ایوان قبلہ میں جنوب مشرق کی طرف ایک کنواں (بئرالعقم) ہے جو قدیم زمانے میں وضو بنانے کے کام آتاتھا۔ مرور ایام کے ساتھ یہ کنواں خشک ہو گیا ماسوائے تھوڑے سے پانی کے جو باقی رہ گیا۔ان پڑھ عورتوں میں مشہور ہو گیا کہ یہ پانی اگر بانجھ عورت کی پیٹھ پر گرا دیا جائے تو بانجھ پن ختم ہو جاتا ہے۔ محکمۂ آثار قدیمہ نے اس کنویں کو ڈھانپ دیا۔ جب مسجد کے ارد گرد زیر زمین پانی کا پراجیکٹ شروع ہوا تو یہ بچا کھچا پانی بھی سوکھ گیا۔
ایوان قبلہ میں شمال مشرق کی جانب آخری آرکیڈ میں چھوٹا سا محراب اینٹوں اور سنگ مرمر سے بنا ہوا تھا۔ یہ قبر کے بالمقابل تھا۔ اس جگہ سیدہ نفیسہ عبادت کیا کرتی تھیں۔ آخری مرمت سے پہلے یہاں عورتیں نماز پڑھا کرتی تھیں اور رمضان کے آخری جمعہ میں ان پڑھ عورتیں ا س محراب کو چوما کرتی تھیں۔ آخری مرمت کے بعد اس محراب کو ہٹا دیا گیا۔
مسجد کے اندر ایک قبر ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کی بتائی جاتی ہے۔ ’’اسدالغابہ‘‘ (۳/ ۲۲۵) میں لکھا ہے کہ ان کی وفات ۶۳ھ یا ۶۵ھ میں مصر یا مکہ یا طائف میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر ۷۲ یا ۷۳ برس تھی۔ ’’الاصابہ‘‘ (۲/ ۳۵۲) میں قطعی طور پر لکھا ہے کہ روایت ہے کہ وہ مصر میں اپنے گھر میں دفن ہوئے۔ آخری عمر میں وہ نابینا ہو گئے تھے۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ حضرت عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے کے گھر مسجد کے سامنے تھے۔ بعد میں یہ دونوں گھر مسجد میں شامل کر لیے گئے، اس لیے احتمال یہی ہے کہ یہ قبر عبداللہ بن عمرو بن العاص ہی کی ہو۔ چنانچہ میں نے قبر کے قریب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
’’اسد الغابہ‘‘ (۴/ ۱۱۶) میں حضرت عمرو بن العاص کے بارے میں لکھا ہے کہ صحیح ترین روایت ہے کہ ان کی وفات ۴۳ھ عیدالفطر کے روز ہوئی۔ ان کے بیٹے عبداللہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ ان کو جبل المقطم میں دفن کیا گیا۔ ان کے بعد ان کے بیٹے مصر کے والی ہوئے، مگر امیر معاویہ نے ان کو ہٹا کر اپنے بھائی عتبہ بن ابی سفیان کو والی بنا دیا۔ مسجد کے موقع و محل کے سوا اب اس میں کوئی قدیم چیز باقی نہیں رہی۔
ان مقامات کی سیاحت کے بعد ٹریول ایجنسی والوں نے دریاے نیل کے کنارے واقع ہیپی ڈولفن(Happy Dolphen)ریسٹورنٹ میں کھانا کھلایا۔ کھلا آسمان، نیل کا پر سکون پانی اور لذیذ کھانا۔ خوب مزہ آیا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم ہوٹل لوٹ آئے۔
ٹریول ایجنسی کے شیڈول کے مطابق اگلا دن یعنی ۱۲ دسمبر ۲۰۰۶ فارغ تھا، اس لیے اس دن ہم نے پرائیویٹ ٹیکسی لی اور درج ذیل مقامات کی سیاحت کو نکل گئے:
یہ قاہرہ کے مشرق میں حی الازہر میں واقع ہے۔ اسے فاطمی خلیفہ معزلدین اللہ کے سپہ سالار جو ہرالصقلی نے ۳۶۲ھ (۸۷۳ء) میں یعنی قاہرہ کی بنیاد کے تین برس بعد تعمیر کیا۔ معز کا دعویٰ تھا کہ وہ فاطمۃ الزہرا کی اولاد سے ہے، اس لیے جامع کا نام الازھر رکھا گیا۔ معز کے لیے عزیز باللہ اور اس کے بعد حکم نے اس مسجد میں شان دار لائبریری قائم کی تو وہاں درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا جہاں دور دراز سے مسلمان طالب علم دینی علوم پڑھنے آتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ مسجد یونیورسٹی میں تبدیل ہو گئی اور اب یہ یونیورسٹی اسلامی ممالک کی قدیم ترین اور مشہور ترین یونیورسٹی ہے اور ہمارے دینی مدارس کے برعکس یہاں اقتصادیات، تجارت، سائنس، میڈیکل اور انجینئرنگ کے تمام مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ ۷۰۲ھ (۱۳۰۲ء) میں زلزلہ کی وجہ سے یہ جامع ڈھ گئی تو بادشاہ ناصر بن قلادون نے اسے ازسرنو بنایا۔ قایتبائی ابو النصر نے ۱۴۸۳ء میں اس میں ایک بہت بڑا تالاب اور فوارہ بنایا۔ اس کے بعد بھی خلافت عثمانیہ کے زمانہ میں ۱۵۹۵ء، ۱۷۳۰ء، ۱۷۸۵ء اور ۱۸۵۹ء میں مسجد کی ترمیم و تزیین کاکام ہوتا رہا۔ ۲۱ اکتوبر ۱۷۹۸ میں فرانسیسی حملہ کے دوران میں ۱۰ ہزار انقلابیوں نے مسجد میں پناہ لی۔ تو جنرل بون (Bon) نے ان کو سڑکوں پر لا کر کچل دیا۔ مسجد میں سوائے ستونوں اور ڈاٹ دار چھتوں کے کچھ باقی نہ رہا۔ بعد کے مرحلوں میں یہ مسجد ٹھوس پتھروں سے بنائی گئی ۔ موجودہ عمارت کثیر الاضلاع ہے، اس کے طویل ترین حصہ کی لمبائی ۱۰ میٹر ہے۔ مسجد کے چھ دروازے ہیں۔ مغرب کی جانب سب سے بڑا دروازہ باب المزینین ہے، شمال کی جانب باب الجوہریہ اور مشرق کی جانب باب الشوریہ ہے۔ جنوب کی جانب تین دروازے باب الصعیدیہ (صعید مصر)، باب الشوام (سوریوں کا دروازہ) اور باب المغاریہ (شمال افریقی دروازہ) ہے۔ مغربی دروازے سے داخل ہوں تو ایک کھلا صحن ہے۔ اس صحن کے اردگرد برآمدے ہیں۔ ان برآمدوں میں کسی زمانہ میں ہر ملک اور ہر رنگ کے طالب علم پڑھا کرتے تھے۔ اگرچہ اب مسجد کے پچھواڑے میں الازہر کے نام سے مستقل یونیورسٹی بن چکی ہے، مگر اب بھی ان برآمدوں میں شیوخ دینی علم پڑھاتے ہیں۔ ایک کمرے میں میں نے ایک استاد کو پڑھاتے دیکھا۔ استاد کھڑا تھا لڑکے آگے قالین پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پیچھے لڑکیاں بغیر کسی اوٹ کے بیٹھی ہوئی تھیں۔ کوئی دس کے قریب لڑکیاں تھیں جن میں سے صرف دو آج کل کے ’’شرعی پردے‘‘ میں تھیں یعنی ان کی آنکھیں کھلی تھیں باقی آٹھ کھلے چہرے کے ساتھ مرد طالب علموں کے پیچھے استاد کا لیکچر سن رہی تھیں۔ جب تک علیحدہ یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی تھی مذاہب اربعہ کے استاد پڑھایا کرتے تھے، اس وقت کل اساتذہ کی تعداد ۳۰۸ تھی جن میں ۱۴۵ شافعی مسلک کے، ۹۲ مالکی مسلک کے، ۶۷ حنفی مسلک کے اور ۴ حنبلی مسلک کے تھے۔ جامع ازہر اقامتی درس گاہ تھی۔
صحن کے مشرقی جانب مسجد کا بڑا ہال ہے جو متوازی الاضلاع ہے اور اس کی لمبائی تقریباً ۳۰۰ مربع میٹر ہے۔ اس میں نو قطاروں میں ۱۷۲ ستون ہیں۔ کتابوں اور مصاحف کے لیے الماریاں ہیں۔ منبر اپنی سیڑھیوں کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ لکڑی کو کھود کر اس پر گل کاری کی گئی ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ مصر کی قدیم مساجد میں دس دس بارہ بارہ زینوں والے منبر ہیں صرف دو ایک مساجد میں میں نے تین سیڑھیوں والے منبر دیکھے۔ منبر کے سامنے چبوترہ ہے جس پر قراء بیٹھتے ہیں۔ دائیں بائیں ائمۂ اربعہ کے مسلک کے مطابق چار محرابیں ہیں۔
جامع الازہر بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے، یہاں ہر ملک کے مسلمان طلبہ تعلیم حاصل کرنا فخر سمجھتے ہیں۔ جب دمشق اور بغداد کی یونیورسٹیوں کا چراغ گل ہو چکا تھا، جامع الازہر نے علم کی شمع روشن کی۔ یہ جامع اب جامعہ میں تبدیل ہو چکی ہے، جہاں دینی علوم کے پہلو بہ پہلو جدید ترین علوم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں کے دینی مدارس کے برعکس یہاں عصری تقاضوں کے پیش نظر طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں پر زور دیا جاتا ہے جو فکری ارتقا کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے دینی مدارس میں جدید علوم پر قدغن ہے۔ یہاں تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنے کے بجائے طالب علموں کے ذہنوں پر دقیق معلومات کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جس سے عقل و ذہانت دب جاتی ہے ۔ نئے افکار سے شناسائی کے بجائے وہ قدیم اساتذہ کی کتابیں اور ان کے حاشیے پڑھتے اور رٹتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان کا علم جامد اور ذہن پتھر کی مانند غیر متحرک ہوتا ہے اور وہ وقت کا ساتھ دینے کے بجائے اٹھارہویں صدی کے ماحول میں جیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عصری مسائل پر ان کی درس گاہوں سے جاری ہونے والے فتووں اور جامع الازہر سے جاری فتووں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ الازہر یونیورسٹی کو ہم نے باہر سے دیکھا۔ اندر اس لیے نہ جا سکے کہ وہاں طلبہ کا ہجوم تھا۔ ابھی دو دن پہلے یعنی ۱۰ دسمبر اتوار کو کچھ طلبہ نے جامعہ کے کیمپس میں ہنگامہ کیا تھا، کیونکہ اخبار ’’الاہرام‘‘ کے مطابق یونیورسٹی نے آٹھ طلبہ کو غیر پسندیدہ سرگرمیوں کے باعث نکال دیا تھا۔ دو سال ہوئے اخوان المسلمین نے یونیورسٹی میں لجنۃ الروع (مزاحمتی کونسل) قائم کی۔ اس کونسل کی سرپرستی میں طلبہ نے حماس کے کالے نقاب پہن کر اور جنگی اسلحہ ہاتھ میں پکڑ کر مظاہرہ کیا۔ مین گیٹ کو توڑ دیا۔ بعض اساتذہ اور طالب علموں کو مارا پیٹا، جن کو علاج کے لیے ہسپتال بھیج دیا گیا۔ پولیس نے ۱۴ کے قریب طلبہ اور اخوان المسلمین کے نائب مرشد انجینئر خیرت شاطر سمیت کئی لیڈروں کو گرفتار کیا۔ گرفتار طلبہ کے ہوسٹل پر چھاپہ مار کر اسلحہ ، ملکی اور غیر ملکی کرنسی اور اخوان المسلمین کا لٹریچر قبضے میں لے لیا۔ ’’الاہرام‘‘، بابت جمعہ ۱۵ دسمبر ۲۰۰۶ میں ’’اسامہ سرایا‘‘ نے ایک مقالہ لکھا ہے کہ کس طرح دو برس سے اخوان المسلمین نے اس درس گاہ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث کر رکھا ہے اور جامعۃ الازہر جو اعتدال کی علامت تھی، اس کو تطرف اور شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ وہاں طالب علم ہاتھوں میں ہتھیار پکڑ کر جہاد کے ترانے گا کر جلوس نکالتے ہیں۔ اس مقالہ کے آخر میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اب لگتا ہے کہ اپنے عقیدے کی اشاعت کے لیے فتووں کے ہتھیار سے ان کی تسلی نہیں ہوئی، چنانچہ اب انھوں نے جنگی ہتھیار تھام لیے ہیں، ان کے ہاتھ بے گناہ انسانوں کے خون سے تو لتھڑے ہوئے ہیں، مگر دشمن کے مقابلہ میں ان کو دفاع کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔‘‘
جامع الازہر کے تقریباً سامنے سڑک کے دوسرے کنارے حی الجمالیہ میں جامع الحسین واقع ہے۔ اس کا گول خوب صورت مینار دور سے نظر آتا ہے۔ لوہے کی دو بالکونیاں اسے زینت بخشتی ہیں۔ ان کی چھت مخروطی ہے جس کے اوپر سنہری ہلال بنا ہوا ہے۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ایک بہت بڑے اور اونچے پلیٹ فارم سے گزرنا پڑتا ہے۔ بیرونی دیوار پر سنگ مرمر کی تختی ثبت ہے، جس میں بخاری کی ’’الادب المفرد‘‘اور ’’ترمذی‘‘ کے حوالہ سے یہ حدیث کندہ ہے: ’الحسین منی و انا من الحسین‘ (حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں)۔ مسجد کے اندر بھی دیواروں پر امام حسین کے مناقب میں احادیث اور آثار لکھے ہوئے ہیں۔ فرش پر ایرانی قالین بچھے ہوئے ہیں۔ ستون سنگ مرمر کے ہیں جو پانچ قطاروں میں بنی ڈاٹ دار محرابوں کو سہارا دے رہے ہیں۔ اوپر کنکریٹ کی چھت ہے۔ ڈاٹ دار محرابیں لکڑی کی پلیوں کے ذریعہ سے ایک دوسرے سے مرتبط ہیں اور ان پلیوں پر شمع دان اور فانوس لٹک رہے ہیں۔ وضو کے لیے سفید سنگ مر مر کا بنا ہوا فوارہ ہے جس کے اوپر جست سے بنا ہوا گنبد ہے جو انجینئرنگ کے نقطۂ نظر سے جدید طرز تعمیر کی اعلیٰ مثال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کی بنیاد المعزلدین اللہ کے قدیم محل پر رکھی گئی۔ نیچے موجود کمرا اس خلیفہ کے خاص کمروں میں سے ایک کمرا تھا۔ اس کمرے میں امام حسین کا سر دفن ہے۔ ۹ محرم کو یہاں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ اس قبر کے گرد زائرین کا ہجوم تھا، ایک طرف خواتین جالی پر سر رکھے آہ و بکا کر رہی تھیں۔
تاریخی طور پر یہ ثابت نہیں کہ یہاں امام عالی مقام کا سر دفن ہے۔ حافظ ابن کثیر نے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ مطبوعہ مکتب المعارف میں ایک عنوان باندھا ہے:’ (أمّا) رأس الحسین رضی اللّٰہ عنہ‘ ’’جہاں تک حسین کے سر کا تعلق ہے:‘‘اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
’’مورخین اور سیرت نگاروں کے یہاں مشہور ہے کہ ابن زیاد نے یہ سر یزید بن معاویہ کے پاس بھیج دیا۔ کچھ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، مگر میری رائے میں یہی بات زیادہ مشہور ہے۔ پھر اس بارے میں ان میں اختلاف ہے کہ سر کہاں دفن ہوا؟ محمد بن سعد (صاحب طبقات) نے روایت کی ہے کہ یزید نے یہ سر نائب مدینہ عمرو بن سعد کے پاس بھیجا جس نے اسے ان کی والدہ کے پاس جنت البقیع میں دفن کر دیا۔ اور ابن ابی الدنیا نے عثمان بن عبدالرحمن اور اس نے محمد بن عمر بن صالح (دونوں راوی ضعیف ہیں) سے روایت کی ہے کہ سر یزید کی سیف (صندوق) میں پڑا رہا۔ جب وہ فوت ہوا تو سر کو سیف سے نکال کر اسے کفن پہنا کر دمشق کے باب الفرادیس میں دفن کر دیا گیا۔ میں کہتا ہوں کہ باب الفرادیس ثانی کے اندر ہے اس جگہ کا نام آج کل مسجد الرأس (سر والی مسجد) ہے۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں یزید بن معاویہ کی دایہ ’’ریّا‘‘ کی زندگی کے حالات میں ذکر کیا ہے کہ یزید کے سامنے امام حسین کا سر رکھا گیا۔ اس نے تین روز تک اس کو دمشق میں لٹکایا پھر اسے اسلحہ خانہ میں رکھ دیا۔ یہاں تک کہ خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے زمانہ میں اسے اس کے پاس لایا گیا۔ وہ سفید ہڈی بن گیا تھا۔ اس نے اسے کفن پہنایا، خوشبو لگائی ، نماز جنازہ پڑھی اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دیا۔ جب بنو عباس آئے تو وہ اسے قبر سے نکال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اور ابن عساکر نے ذکر کیا ہے کہ یہ دایہ بنو امیہ کی خلافت کے بعد بھی زندہ رہی۔ اس کی عمر سو سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ واللہ اعلم۔
فاطمی ۴۰۰ ھ سے قبل سے لے کر ۶۶۰ھ کے بعد تک مصر پر حکمران رہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امام حسین کا سردیارمصر میں بھیجا گیا۔ انھوں نے اسے وہاں ۵۰۰ ھ کے بعد دفن کر کے اس پر مزار بنا دیا۔ جسے تاج الحسین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کئی ایک اہل علم ائمہ کا قول ہے کہ (ان کی) یہ بات بے اصل ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح وہ اپنے نسب کی ترویج کریں۔ وہ اس بارے میں جھوٹے اور خائن ہیں۔ فاطمیوں کے زمانہ میں ۴۰۰ھ کے قریب قاضی باقلانی اور کئی ایک دوسرے علما نے ان کے دعویٰ کو باطل قرار دیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ لوگ اکثر اس قسم کی باتیں رائج کر دیتے ہیں۔ وہ کوئی سر لے آئے ہوں گے، انھوں نے اسے مذکورہ مسجد میں کسی جگہ رکھ دیا ہو گا۔ اور کہہ دیا کہ یہ حسین رضی اللہ عنہ کا سر ہے تو یہ بات چل نکلی۔ واللہ اعلم۔‘‘(۸/ ۲۰)
خان الخلیلی سے میری دل چسپی نجیب محفوظ کے ناول ’’خان الخلیلی‘‘ سے پیدا ہوئی جس میں مصنف نے خان الخلیلی میں دوڑتی ہوئی زندگی کا نقشہ کھینچ کر اسے امر کر دیا ہے۔ اس محلہ اور بازار کا نام اس کے بانی خلیل کے نام پر ہے۔ یہ جامع الحسین کے بائیں طرف واقع ہے۔ اس میں ایک قہو ہ خانہ ہے، جس کا نام مقہی الفشاوی ہے جس کو بجا طور پر فخر حاصل ہے کہ یہاں عربی ادب کا واحد نوبل انعام یافتہ ادیب عام لوگوں میں بیٹھ کر گپ شپ لگایا کرتاتھا۔ اس ادیب کا نام نجیب محفوظ ہے۔
جامع الحسین کے دائیں بائیں کئی قہوہ خانے ہیں۔ مسجد سے نکل کر میں نے مقامی سپاہی سے مقہی الفشاوی کا پتا پوچھا تو وہ ہمیں اس قہوہ خانہ میں چھوڑ آیا۔ وہاں بیٹھ کر ہم نے قہوہ پیا۔ قہوہ خانہ کے مالک کے ساتھ نجیب محفوظ کی تصویر دیکھی۔ قہوہ خانوں کی اہمیت پر فریم میں لگی ہوئی اس کی تحریر پڑھی۔ جو عربی رسالے ’’النقاش‘‘ ۱۹۹۸ء سے ماخوذ تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں: ’’قہوہ خانوں نے میری زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ میرے لیے انسانی افکار و شخصیات کا خزانہ ہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں قہوہ خانوں کا کثرت سے ذکر کیا ہے۔ سب سے پہلے وہ حی الظاہر میں شارع قشتمر (مملوکی وزیر کا نام) پر واقع مقہی قشتمر میں بیٹھا کرتے تھے۔ جو مشہور قہوہ خانہ ’’عرابی‘‘ سے ٹرام کے ایک اسٹیشن کے فاصلہ پر واقع تھا۔ اس کے تین مشہور ناولوں (ثلاثیات) میں سے ’’قصر الشوق‘‘ نامی ناول میں احمد عبدہ کے قہو ہ خانہ اور دوسری کتاب ’’زقاق المدق‘‘ میں قہوہ خانہ ’’کرشۃ‘‘ کا ذکر ہے۔ خان الخلیلی میں قہوہ خانہ رکس جس کا نام بعد میں مقہی الا دریس پڑ گیا کا تذکرہ ہے اور ’’کرنک‘‘ نامی ناول میں قہوہ خانہ کرنک کا ذکر ہے۔ نجیب محفوظ اگست ۲۰۰۶ میں ۹۴ برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ ۱۹۳۹ء میں ان کی پہلی تصنیف نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس وقت سے لے کر وفات تک ان کے ۳۲ ناول اور ۱۳ افسانوں کے مجموعے شائع ہوئے، وہ انسانی نفسیات کو خوب سمجھتے تھے اور اپنے افسانوں اور ناولوں کے ہیروز کا نقشہ اس خوب صورتی سے کھینچتے تھے کہ افسانے پر حقیقت کا گمان گزرتا تھا۔ ایک طرف تو انھوں نے عام آدمی کی زندگی کا نقشہ پیش کیا ہے جو چاروں طرف مسائل سے گھرا ہوا ہے تو دوسری طرف عورت کی بے بسی اور مرد کے شاونزم کا نقشہ پیش کیا ہے۔ عورت جسے مال و متاع (Chattle) تصور کیا جاتا تھا اور جس کا کام شاونیت زدہ مرد کی جنسی تسکین سمجھا جاتا تھا۔ غالباً اسی لیے ایک مذہبی جنونی نے اس نابغہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ شکر ہے کہ اللہ نے انھیں بچا لیا۔
مقہی الفشاوی کے پچھواڑے ایک تنگ بازار ہے۔ یہ لاہور میں واقع دلی دروازے کے ڈبی بازار سے ملتا جلتا ہے۔ اسی طرز کی چھوٹی چھوٹی کھوکھا نما دکانیں جن میں سامان کا انبار لگا ہوا تھا۔ اس میں مصری دست کاری، کشمیری شالوں اور ترکی کے کمبل اور چنیوٹ کی طرز کا کلاسیکل بیل بوٹوں والا فرنیچر سب کچھ موجود تھا۔ غیر ملکیوں کو قیمت بہت بتائی جاتی ہے۔ میں نے چند ایک بردیات خریدیں ، کچھ پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں۔اور کچھ پرفراعنہ مصر کی تصویریں بنی تھیں۔
[باقی]
_______________