[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:ہم چار بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ میری بڑی بہن (نسرین) آٹھ سال کی عمر میں ۱۹۴۶ء میں فوت ہو گئیں۔ میری والدہ ۵۷ سال کی عمر میں۱۹۷۷ء میں فوت ہوئیں۔ میرے بڑے بھائی ۵۶ سال کی عمر میں ۱۹۹۵ء میں فوت ہوئے۔اب میرے والد ۹۳ سال کی عمر میں مئی۲۰۰۶ میں فوت ہوگئے ہیں۔ میرے مرحوم بھائی اپنے پیچھے ایک بیوہ(سلیمہ)اور دوبیٹے سلمان(۳۵) سال اور عدنان(۳۰) سال چھوڑ گئے ہیں۔سلمان اور عدنان، دونوں شادی شدہ ہیں۔ انجینئر ہیں اور یو۔ایس۔ اے میں اچھی تنخواہ لے رہے ہیں۔ خالد کی بیوہ کراچی میں ہیں۔ ایک اچھے فلیٹ کی مالک ہیں اور ان کے پاس گزر اوقات کے لیے کافی بچتیں بھی ہیں۔ بیٹے بھی ان کو پیسے بھیجتے رہتے ہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا سلیمہ ، سلمان اور عدنان کا میرے باپ کی جائداد میں حصہ ہے اور اگر ہے تو کتنا؟(شاہد افضال)
جواب:آپ کا سوال سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ جو بیٹا والد کی موجودگی میں فوت ہو جائے کیا اس کی اولاد دادا کی وراثت کی حق دار ہے ؟
قرآن مجید میں جب وراثت کا حکم بیان ہوا تو اس میں اولاد ،والدین ،بیوی، شوہر اور بہن بھائیوں کے حصے بیان ہوئے ہیں۔ ان حصوں کو بیان کرنے کے لیے انھی الفاظ کے عربی مترادفات آئے ہیں۔ میری مراد یہ ہے کہ یتیم پوتے کی وارثت کا براہ راست ذکر نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ یہ پوتا اپنے والد کے حصے کا حق دار نہ ہو۔ آپ نے جو صورت حال لکھی ہے، اس سے غالباً آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انھیں وراثت کے اس مال کی ضرورت نہیں ہے۔ یا آپ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ باقی لوگ ان کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہیں۔ معاملہ کچھ بھی ہو اس سے قانون وراثت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک آپ کے بھتیجے اور بھابھی آپ کے والد کی وراثت میں اپنے والد، یعنی آپ کے بھائی کے حصے کے حق دار ہیں۔ آپ کی لکھی ہوئی تفصیل کے مطابق چار بھائی اور تین بہنیں وارث ہیں۔ جائداد گیارہ حصوں میں تقسیم ہو گی۔ ہر بھائی کو دوحصے اور ہر بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ مراد یہ کہ اگر ترکہ۶۶ روپے ہو تو بھائیوں کو۱۲، ۱۲ روپے اور بہنوں کو ۶، ۶ روپے دیے جائیں گے (۱۲ + ۱۲ + ۱۲ + ۱۲ + ۶ + ۶ + ۶ = ۶۶)۔ مرحوم بھائی کے۱۲ روپے ان کی بیوہ اور بیٹوں کو ان کے حصوں کے مطابق دیے جائیں گے۔ یعنی آپ کی بھابھی سلیمہ کو ۲ روپے اور سلمان اور عدنان کو ۵، ۵ روپے ادا کیے جائیں گے۔
سوال:میری بیوی اس خیال کے تحت کہ نماز کے لیے بازو کہنی تک ڈھانپنا کافی ہے، نماز پڑھتی رہی ہے۔ اسے کسی نے بتایا ہے کہ عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز میں کلائیاں بھی ڈھانپے۔ مجھے ان دونوں آرا کا استدلال معلوم نہیں ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیے۔(عامر شہزاد)
جواب:فقہا کے نزدیک بحث کا انحصار ستر کے تعین پر ہے۔ نماز میں نمازی کے لیے ستر ڈھانپنا واجب ہے۔ عورت اور مرد کے ستر میں فرق ہے۔ عام فقہا کے نزدیک عورت کا ستر ہاتھ اور چہرہ چھوڑ کر باقی سارا جسم ہے۔وہ قرآن مجید کی آیت ’ولا یبدین زینتہن الا ما ظہر‘(عورتیں اپنی زینتیں ظاہر نہ کریں سوائے ان کے جو آپ سے آپ ظاہر ہوں)سے استدلال کرتے ہیں ۔’الا ما ظہر‘ کا اطلاق ان کے نزدیک ہاتھوں اور چہرے پر ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ.(الاعراف۷: ۳۱)
’’ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنے لباس پہنو۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبر قرآن‘‘ میں اس ارشاد کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’’خذوا زینتکم‘ میں زینت سے مراد لباس فاخرہ نہیں،بلکہ مجرد لباس ہے۔ لباس کو زینت کے لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہاں یہ ہے کہ طواف میں عریانی اختیار کرنے کا فلسفہ یہی تراشا گیا تھا کہ لباس زیب وزینت میں داخل ہے اور زیب وزینت اس عبادت کے شایان شان نہیں ہے۔ حج اور احرام میں فی الجملہ زہد ودرویشی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد سے چلی آرہی ہے اور یہ حج کی خصوصیات میں سے ہے ۔ لیکن عربوں نے دور جاہلیت میں جہاں اور بہت سی بدعات ایجاد کیں وہیں، یہ بدعت بھی ایجاد کر ڈالی کہ احرام کی سادگی اور درویشی کو عورتوں اور مردوں، سب کے لیے عریانی کی حد تک پہنچا دیا۔ قرآن نے اسی بدعت کی اصلاح کی۔ فرمایا کہ یہ عریانی بے حیائی ہے۔ اپنے لباس ہر مسجد کی حاضری کے وقت پہنو۔ جس طرح کوئی مسجد غیراللہ کے لیے نہیں ہو سکتی اسی طرح کوئی مسجد ایسی نہیں ہو سکتی جس کی حاضری کے لیے یہ شرط ٹھہرا لی جائے کہ آدمی وہاں کپڑے اتار کر حاضر ہو۔’ کل مسجد‘ فرما کر اس حکم کو عام کر دیا کہ حرم اور غیر حرم کی تخصیص نہ رہ جائے۔ یہ اس جوگ اور رہبانیت کی کلی نفی ہے جو عریانی کو تقرب الٰہی اور وصول الی اللہ کا ذریعہ ٹھہراتی ہے۔ ‘‘(۳/ ۲۵۱)
اس ہدایت سے معلوم ہوا کہ نماز میں لباس پہنا جائے گا۔ برہنہ نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔ لیکن اس سے ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ یہ لباس کم از کم کتنا ہو۔ البتہ روایات میں اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔مردوں کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یصلی احدکم فی الثوب الواحد لیس علی عاتقیہ منہ شئ.(مسلم، رقم ۲۹۹۵)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کوئی چیز نہ ہو۔‘‘
عورتوں کے ضمن میں آپ نے فرمایا:
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال:لا یقبل اللّٰہ صلوٰۃ حائض الا بخمار.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ دوپٹے کے بغیر بالغ عورت کی نماز قبول نہیں کرتے۔‘‘(ابوداؤد، رقم۵۱۶)
اسی طرح آپ کا ارشاد ہے:
عن ام سلمۃ رضی اللّٰہ عنہا انہا سألت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أتصلی المرأۃ فی درع وخمار لیس علیہا أزار؟ قال: إذا کان الدرع سابغا یغطی ظہور قدمیہا.(ابوداؤد، رقم۶۴۰)
’’حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت قمیص اور دوپٹے کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: صرف اس صورت میں جب لمبی قمیص نے پاؤں کی پشت کو ڈھانپا ہوا ہو۔‘‘
ان روایات سے وہ کم از کم اہتمام معلوم ہوتا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ استاد محترم نے ان ساری تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے نماز کے آداب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’شایستہ اور مناسب لباس پہن کر نماز پڑھے۔‘‘(قانون عبادات ۸۶)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ آپ کی اہلیہ کی نماز کے ادا ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے فقہا کا رجحان یہ ہے کہ جس لباس اور جس اخفاے زینت کا تقاضا اللہ تعالیٰ نے مردوں کے سامنے آنے پر کیا ہے، وہی اہتمام نماز میں بھی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے ۔یہ بات لازم تو نہیں کی جا سکتی، لیکن اگر اس کا اہتمام کیا جائے تو یقیناً پسندیدہ ہو گا۔
سوال: پچھلے دنوں مجھے کسی نے جاوید احمد صاحب غامدی کی یہ رائے بتائی کہ اب ’’اسلامی مہینوں کے تعین کے لیے چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ چاند کی مختلف اوقات میں مختلف حالتیں مشینوں کے ذریعے سے ہم پر عیاں ہیں۔‘‘ براہ کرم واضح فرمائیے کہ عید کم از کم ایک ملک میں اور زیادہ سے زیادہ عالم اسلام میں ایک دن میں کیسے کی جائے۔ نیز اختلاف مطالع کے باعث ہوائی سفر میں نماز اور روزہ کے اوقات کا حساب کیسے کیا جائے؟(فریدہ یوسف)
جواب:قرآن مجید میں رمضان میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی طے ہے کہ روزے اور حج کے مہینے قمری تقویم، یعنی چاند کی ماہانہ گردش سے طے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قمری مہینے کا تعین کیسے ہو۔سامنے کی بات یہ ہے کہ یہ کام چاند دیکھ کر کیا جائے گا۔لیکن انسان نے بہت پہلے یہ بات جان لی تھی کہ چاند کی گردش معین ہے اور ہلال کے طلوع کو حساب کتاب سے متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قمری مہینے کے ہونے اور نہ ہونے کا تعین دونوں طریقوں سے ممکن ہے۔ رؤیت ہلال سے بھی اور گردش قمر کے حساب سے بھی۔ اب یہ حساب کتاب اتنا یقینی ہو چکا ہے کہ اہل فن سیکنڈ کے حساب سے چاند کے طلوع ہونے کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دین میں چاند کے تعین میں کسی خاص طریقے کو ترجیح دی گئی ہے۔قرآن مجید میں اس حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ چنانچہ مدار بحث ایک روایت ہے۔ آپ کا ارشاد ہے:
صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ فان غمی علیکم فأکملوا العدد.(مسلم، رقم۱۰۸۱)
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔اگر مطلع صاف نہ ہو تو گنتی پوری کرو۔‘‘
اس روایت کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ رمضان اور عید کا تعین صرف چاند دیکھ کر کرنا چاہیے۔ دراں حالیکہ یہ بات اس جملے سے لازم نہیں آتی۔روزے کے حوالے سے سحری اور افطار کا تعین بھی طلوع فجر اور غروب آفتاب سے متعلق ہے۔ لیکن وہاں ہم نے کسی رؤیت صبح صادق اور تعین غروب آفتاب کا اہتمام نہیں کیا۔ سورج کی گردش کے متعین حساب کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اوقات متعین کر دیے گئے ہیں اور لوگ گھڑیاں دیکھ کر سحر اور افطار کرتے ہیں۔حالانکہ قرآن مجید نے یہاں بھی دو مظاہر فطرت کو آغاز صوم اور اختتام صوم کا نشان قرار دیا تھا۔استاد محترم کے نزدیک جس طرح یہاں سورج کی گردش کے حساب پر اعتماد کیا گیا ہے اسی طرح چاندکی گردش کے حساب پر اعتماد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشا اس صورت میں بھی بتمام وکمال پورا ہوتا ہے۔
قدیم علما بھی جب مطلع صاف نہ ہو اور رؤیت ممکن نہ رہے تو حساب کتاب ہی کو فیصلے کا مدار قرار دیتے ہیں۔ اس باب میں دو آرا ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور دوسری رائے یہ ہے کہ گردش کا حساب دیکھ کر طے کیا جائے کہ آج طلوع ہلال ممکن تھا یا نہیں۔ جو رائے قائم ہو اس پر عمل ہونا چاہیے۔یہ دوسری رائے امام شافعی سے بھی مروی ہے۔ اس رائے میں بھی بنیادی اصول یہی کار فرما ہے کہ اصل مسئلہ آغاز رمضان یا اختتام رمضان کا تعین ہے۔ رؤیت ہلال اس کا ذریعہ ہے، اس کی شرط نہیں ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اختلاف مطالع کے باعث مختلف علاقوں میں عید اور رمضان کے اوقات بدل جاتے ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟ ہمارے نزدیک سارے عالم اسلام یا سارے ملک میں ایک ہی دن عید کرنے کی کوئی دینی وجہ نہیں ہے۔جن علاقوں کا مطلع مختلف ہے، ان میں عید کا دن مختلف ہی ہونا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قمری گردش کو مذہبی تقویم قرار دیا ہے تو یہ فرق اسی کا نتیجہ ہے۔
ہوائی سفر میں نماز اور روزے کا حساب ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ جس علاقے سے سفر شروع کیا گیا ہے۔ وقت کا فرق کم ہو تو اس علاقے کے اوقات ملحوظ رکھنے چاہییں۔ لیکن اگر فرق زیادہ ہو تو جس علاقے سے جہاز گزر رہا ہو یا پہنچنے والا ہو، اس کا اعتبار بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسافر کی صواب دید پر ہے، وہ جسے بھی اختیار کرے گا امید یہی ہے کہ اس کے روزے اور نماز کے مقبول ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔
سوال:ذوق مطالعہ کس طرح پیدا ہوتا ہے۔مطالعہ کس طریقے سے کرنا چاہیے۔مطالعہ کے بعد مطالعہ شدہ باتیں کیسے یاد رکھتے ہیں۔ایک فارغ التحصیل عالم کے لیے درس نظامی کے علاوہ آج کے دور کے جدید تقاضوں کے مطابق کن کن چیزوں کا مطالعہ کرنا چاہیے؟(سید عنایت اللہ شاہ ہاشمی)
جواب:مولانا امین احسن اصلاحی کے استاد جناب مولانا حمید الدین فراہی اپنے شاگردوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ ہمیشہ اعلیٰ کتابیں پڑھنی چاہییں۔ اعلیٰ کتابیں ہی مطالعے کا صحیح ذوق پیدا کرتی ہیں۔کتابوں کی بھی دو سطحیں ہوتی ہیں اور طالب مطالعہ کے بھی دو درجے ہوتے ہیں: ایک وہ دور ہوتا ہے جب ایک پڑھنے لکھنے والا آدمی ہر فن کی واجبی واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس فن کے ماہرین سے پوچھ لے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب کون سی ہے۔ آدمی کو اس مرحلے میں اسی کا مطالعہ کرنا چاہیے۔جب آدمی اس مرحلے سے گزر جائے تو اسے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ فن اس کی دل چسپی کا ہے یا نہیں۔ اگر اس کی دل چسپی کا ہو تو اسے اس فن کی اعلیٰ کتابوں میں سے کسی ایک جامع کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اس کی مشکلات کو سمجھنے کے لیے اس فن کے کسی استاد سے رابطہ رکھنا چاہیے۔ ایک مذہبی عالم کو نیچرل سائنس کی چیزوں سے اتنا واقف ضرور ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے فنون میں ان کے حوالے سے آنے والی بات کو سمجھ سکے۔ لیکن اسے معیشت، معاشرت، تاریخ،قانون، تہذیب وتمدن، فلسفہ، نفسیات وغیرہ تمام انسانی علوم سے اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔ بطور خاص وہ علوم جو جدید انسان کی سوچ اور طرز زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان کی اچھی واقفیت کے بغیر دین کی دعوت اور دین کے دفاع کا کام کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
اس سلسلے میں آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیت کی سطح، اپنی طبیعت کے رجحان اور اپنے ماحول کے داعیات کو سامنے رکھ کر اپنے لیے لائحۂ عمل بنانا چاہیے۔ یہ سب خدا کے فیصلے ہیں اور انھی پر راضی ہونا بندے کے شایان شان ہے۔ ان کے ساتھ لڑائی ایک تو آدمی کو نتائج سے محروم کر دیتی ہے اور دوسرے خود اس کی اخلاقی شخصیت کے لیے ضرر کا باعث بنتی ہے۔
باقی رہا پڑھی ہوئی باتوں کا یاد رہنا تو اس کا تعلق یادداشت کی قوت اور اس علم سے واسطہ پڑتے رہنے سے ہے۔ اس کے لیے کسی اضافی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ جب کسی کتاب سے گزر جاتے ہیں تو اس میں بیان کردہ باتوں کا ایک تاثر آپ کو ذہن میں ضرور قائم رہتا ہے۔ جب کبھی ضرورت پڑے تو تفصیلی معلومات کو آدمی دوبارہ تازہ کر لیتا ہے۔
سوال:اگر بخاری شریف اور مسلم شریف کی احادیث قطعی ہیں تو صحیح اور مرفوع احادیث سے تمام اختلافی مسائل کی صرف اور صرف ایک ہی صورت ثابت ہے ۔ دوسری متضاد صورت کے ثبوت کے لیے غیر صحیح، موقوف اور مقطوع احادیث سے استدلال کی کیا ضرورت ہے؟(پرویز قادر)
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ کے سوال میں جو دو بنیادی مقدمات بیان ہوئے ہیں۔ وہ مقدمات درست نہیں ہیں۔ پہلا یہ کہ بخاری اور مسلم کی تمام احادیث قطعی ہیں۔ دوسرا یہ کہ ان سے تمام اختلافی مسائل کا ایک ہی حل ملتا ہے۔چنانچہ ان مقدمات کے نتیجے پر مبنی آپ کا سوال اصلاً کوئی بنیاد نہیں رکھتا۔ وہ لوگ جو احادیث کو بنیادی ماخذ کی حیثیت دیتے ہیں، وہ بھی اصولاً صحیح حدیث ہی کو اصل کی حیثیت دیتے ہیں۔ موقوف، مقطوع اور ضعیف احادیث کو تائید کے طور پر ہی لایا جاتا ہے۔البتہ عملاً اس سے انحراف بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ ان لوگوں کی اس کوتاہی پر اپنے سوال میں تنقید کرنا چاہتے ہیں تو یہ تنقید ٹھیک ہے، لیکن یہ اصل بحث نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ پہلے اصول ومبادی کی متعلقہ بحثیں سمجھ لیں، اس سے آپ کو واضح ہو جائے گا کہ اس معاملے میں بنیادی بات کیا ہے۔
سوال:اگر قرآن کے معنی مراد بتانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری ہے تو نجم ، نمل، احزاب، بقرہ، آل عمران اور جمعہ میں نطق، ذکر اور حکمت کے معانی کس کس مرفوع حدیث سے ثابت ہیں؟(پرویز قادر)
جواب: بنیادی بات تو یہ ہے کہ روایات میں قرآن مجید کے الفاظ کی شرح یا تفسیر کی بہت ہی کم چیزیں نقل ہوئی ہیں۔ جو الفاظ آپ نے لکھے ہیں، ان کے معنی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قول منقول نہیں ہے۔حکمت کا لفظ حدیثوں میں دانائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور یہ اس کے معروف لغوی معنی ہیں۔اسی طرح نطق اور ذکر کے حوالے سے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی تفسیری قول موجود نہیں ہے۔ حدیثوں میں یہ لفظ بھی اپنے عام لغوی معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ ان سے قرآن مجید کی محولہ آیات کے معنی طے کرنے میں براہ راست کوئی مدد نہیں ملتی۔لیکن سوال یہ ہے کہ آپ احادیث سے یہ معنی کیوں معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لفظ عربی زبان کے معروف الفاظ ہیں اور سیاق وسباق کی روشنی میں ان کا اطلاق بھی بآسانی واضح ہے۔باقی رہے امت میں ان کے حوالے سے مباحث تو وہ قرآن میں کسی مشکل کی وجہ سے نہیں ہیں۔حدیث کی اہمیت کی بحث میں یہ آیات بھی مدار استدلال بنی ہیں۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان کے معنی میں وہ پہلو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو کافی بعید ہیں۔
________________