HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۱۳۵-۱۴۱ (۲۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلّٰہِ، وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ، اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقَیْرًا، فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا، فَلاَ تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا{۱۳۵} یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ، وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً بَعِیْدًا{۱۳۶} اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا، لَّمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَ لَہُمْ وَلاَ لِیَہْدِیَہُمْ سَبِیْلاً{۱۳۷} بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا{۱۳۸} الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ، اَیَبْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ، فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا {۱۳۹} 
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَاُ بِہَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ، حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْْرِہٖٓ، اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ، اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَہَنَّمَ جَمِیْعًا{۱۴۰} الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ، فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ، قَالُوْٓا: اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ، وَاِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ، قَالُوْٓا: اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ، فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً{۱۴۱} 
ایمان ۲۱۰ والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے،۲۱۱  اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کے لیے زیادہ حق دار ہے، اِس لیے (خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر) تم خواہشوں کی پیروی نہ کرو کہ اِس کے نتیجے میں حق سے ہٹ جائو اور (یاد رکھو کہ) اگر (حق و انصاف کی بات کو) بگاڑنے یا (اُس سے) پہلو بچانے کی کوشش کرو گے۲۱۲  تو جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔ ایمان والو، اللہ پر ایمان لائو۲۱۳ اور اُس کے رسول پر ایمان لائو اور اُس کتاب پر جو اُس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور اُس کتاب پر بھی جو وہ اِس سے پہلے نازل کر چکا ہے۲۱۴ اور (جان رکھو کہ) جو اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں اور اُس کے حضور میں پیشی کے دن کے منکر ہوں، وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر اِسی کفر میں بڑھتے چلے گئے،۲۱۵ تو اللہ نہ اُن کی مغفرت کرنے والا ہے اور نہ اُنھیں کبھی راہ دکھائے گا۔ اِن منافقوں کو خوش خبری دو، (اے پیغمبر)، جو ایمان والوں کو چھوڑ کر (تمھارے) منکرین کو اپنا دوست بنائے ہوئے ہیں کہ اِن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ یہ اُن کے ہاں عزت چاہتے ہیں؟ (حقیقت یہ ہے کہ) عزت تو تمام تر اللہ ہی کے لیے ہے۔ ۱۳۵-۱۳۹
وہ اِسی کتاب میں تم پر یہ ہدایت نازل کر چکا ہے کہ جہاں تم سنو کہ آیات الہٰی کا انکار کیا جا رہا ہے اور اُن کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہاں اُن(مذاق اڑانے والوں) کے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں، ورنہ تم بھی اُنھی کی طرح ہو جائو گے۔۲۱۶  اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اِس طرح کے منافقوں اور منکروں کو جہنم میں ایک ہی جگہ جمع کر دے گا، اِن کو جو تمھارے لیے گردشوں کے منتظر ہیں۔۲۱۷  چنانچہ اللہ کی طرف سے تمھاری کوئی فتح ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر تمھارے منکروں کی جیت ہو جائے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تمھیں گھیرے میں لیے ہوئے نہیں رہے اور ہم نے مسلمانوں سے تم کو بچایا نہیں ہے؟ سو تمھارے درمیان اب اللہ ہی قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور اللہ (کا فیصلہ ہے کہ وہ) اِن منکروں کو ایمان والوں کے خلاف ہرگز کوئی راہ نہ دے گا۔۲۱۸  ۱۴۰-۱۴۱

۲۱۰؎ یتیموں کی مائوں سے نکاح کے بارے میں استفتا کا جواب پچھلی آیت پر ختم ہوا۔ یہاں سے آگے آیت ۱۵۲ تک اب اُن لوگوں کے خیالات پر تبصرہ ہے جو دوستی، تعلقات اور رشتہ و پیوند کو حق کے مقابلے میں ترجیح دیتے اور منکرین کے ہاں اپنے مقام و مرتبہ اور اپنی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے باربار پوچھتے تھے کہ بیچ کی راہ تلاش کر لینے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ یہ کیوں ضروری ہے کہ اہل کتاب کے منکرین کو بھی اُنھی کافروں کی صف میں کھڑا کیا جائے جنھیں قرآن عذاب الہٰی کا مستحق قرار دے رہا ہے؟ اُن کا خیال تھاکہ اہل کتاب بہت کچھ مانتے ہیں۔ اِس کی رعایت سے اُن کے ساتھ رعایت ہونی چاہیے؟ اِس سورہ کے مباحث سے متعلق اِس طرح کے سوالات اُن کے ذہنوں میں پیدا ہوتے تھے۔ قرآن نے اِن کے جواب میں پوری وضاحت کے ساتھ بتایا ہے کہ اِس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اِس لیے کہ کفر صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص صریح الفاظ میں اللہ اور اُس کے رسولوں کا انکار کرے، کفر اور صریح کفر یہ بھی ہے کہ اللہ اور اُس کے رسولوں کو اللہ کے شرائط پر نہیں، بلکہ اپنے شرائط پر ماننے کے لیے اصرار کیا جائے۔ چنانچہ خدا کا فیصلہ سننا چاہتے ہو تو سن لو کہ تمھیں ہر حال میں حق کہنا ہے، حق کی گواہی دینی ہے اور پورے دین کو بے کم و کاست جس طرح کہ وہ ہے، قبول کرنا ہے۔ اِس کے سوا ہر رویہ منافقت کا رویہ ہے اور منافقت اور کفر میں اللہ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے۔ 

۲۱۱؎ یعنی مجرد یہی نہیں کہ تمھیں حق و انصاف پر قائم رہنا ہے، بلکہ دوسروں کے سامنے اِس کی گواہی بھی دینی ہے۔

۲۱۲؎ یعنی اُس سے گریزوفرار کی کوئی راہ تلاش کرنے کی کوشش کرو گے۔

۲۱۳؎ اصل الفاظ ہیں: ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اٰمِنُوْا‘۔ ان میں پہلا فعل اپنے ابتدائی اور دوسرا کامل معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی ایمان کا دعویٰ کرنے والو، اللہ پر ایمان لائو جس طرح کہ ایمان لانے کا حق ہے۔

۲۱۴؎ اِس آیت میں تورات کے لیے ’اَنْزَلَ‘ اور قرآن کے لیے ’نَزَّلَ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔جو لوگ عربی زبان کی باریکیوں سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ’اَنْزَلَ‘ کا مفہوم تو مجرد اتار دینا ہے، لیکن ’نَزَّلَ‘ کے اندر اہتمام اور تدریج کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ لفظوں کا یہ فرق تورات اور قرآن، دونوں کے اُتارے جانے کی نوعیت کو واضح کر رہا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۰۸)

۲۱۵؎ یہ بیان واقعہ ہے۔ اِس کی صورت یہ تھی کہ یہ لوگ آگے بڑھ کر ایمان کا اقرار کرتے اور اِس کے بعد قرآن، اسلام اور پیغمبر کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ اِن کے اِسی رویے کو یہاں کفر سے تعبیر کیا ہے۔

۲۱۶؎ یہ سورۂ انعام (۶) کی آیت ۶۸ کا حوالہ ہے جس میں ہدایت کی گئی ہے کہ جب لوگ اللہ کی آیتوں میں کج بحثیاں کر رہے ہوں تو اُن ظالموں کے پاس نہ بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں: 

’’جن مجلسوں میں اللہ کے دین اور اُس کی شریعت کا تہتک ہو ،اُن میں اگر کوئی مسلمان شریک ہو تو یہ اُس کی بے حمیتی اور بے غیرتی کی دلیل ہے۔ اگر کوئی شخص اِن میں شرکت کو اپنے لیے وجہ عزت و شرف سمجھے تو یہ صرف بے حمیتی کی ہی نہیں، بلکہ اُس کے مسلوب الایمان ہونے کی بھی دلیل ہے۔ اِس قسم کے منافقوں کا حشر اُنھی لوگوں کے ساتھ ہو گا جن کے ساتھ خدا کے دین کے استہزا میں یہ شریک رہے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۴۱۰)

۲۱۷؎ اصل میں ’یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ عربی زبان کا محاورہ ہے، یعنی ’یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمُ الدَّوَا ئِرَ۔

۲۱۸؎ یعنی اُس دن تمھارے مقابل میں اِن کی کوئی پیش نہ جائے گی اور جس طرح یہ لوگ یہاں ’اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ‘ (کیا ہم تمھارے ساتھ نہ تھے) کہنے کی جسارت کرتے ہیں، وہاں اِس کا تصور بھی نہ کر سکیں گے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B