HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

قاہرہ میں چند روز علمی مشاہدات (۲)

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حجری ستون

Dennis Bratcher کہتا ہے:

’’حجری ستون میں پہلی دفعہ لفظ اسرائیل کا تذکرہ ہوا۔ علما اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ اسرائیلی مرنفتاح کے عہد حکومت تک کنعان میں جم کر آباد ہو چکے تھے، کیونکہ اس عبارت میں اسرائیل کا اسی طریقے سے ذکر ہے۔‘‘

علامہ عبداللہ یوسف علی سورۂ اعراف کے آخر میں ضمیمہ چہارم کے صفحہ ۴۰۶ پر لکھتے ہیں:

’’مصریات میں حضرت یوسف اور حضرت مو سیٰ علیہما السلام کا کوئی حوالہ نہیں ملتا۔اسرائیل کے بارے میں واحد حوالہ مرنفتاح یا منفتاح (۱۲۲۵ قبل از مسیح) میں ملتا ہے۔ یہ حوالہ فلسطین میں اسرائیلیوں کے بارے میں ہے نہ کہ مصر میں اسرائیلیوں کے بارے میں... پہلے یقینی نقطۂ نظر یہی معلوم ہوتا تھا کہ رمسیس ثانی اسرائیلیوں کو عذاب میں مبتلا کرنے والا فرعون تھا اور اس کا بیٹا مرنفتاح (منفتاح) خروج کے وقت تعاقب کرنے والا... مگر یہ تاریخ بہت بعد کی معلوم ہوتی ہے۔ اب دلائل اس بات کی طرف اشارہ کر تے ہیں کہ اسرائیلی پہلے ہی کنعان میں آباد ہو چکے تھے۔‘‘

انھوں نے کتاب مقدس کی مذکورہ بالا روایت کے مطابق تحتمس اول (Tuthomosis i) (۱۵۴۰ قبل از مسیح) کو عذاب دینے اور تعاقب کرنے والا قرار دیا ہے جس کی اوپر تردید کی جا چکی ہے۔

اس نقطۂ نظر کے سب سے بڑے مؤید ’’بائیبل، قرآن اور سائنس‘‘ کے مصنف نے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بڑا زور مارا ہے کہ حجری ستون میں مذکور لفظ اسرائیل ایک عام اصطلاح ہے، کسی علاقے سے مخصوص نہیں اور یہ کہ کنعان میں خروج سے پہلے بھی اسرائیلی آباد تھے، مگر بات بنی نہیں، وہ حجری ستون میں مذکور تاریخی حقائق کو خاص طور پر یہودی انسائیکلو پیڈیا میں مذکور عبارت کو جھٹلا نہیں سکے۔ رہی بائیبل کی وہ روایت کہ موسیٰ علیہ السلام مدین میں تھے جب مصر کا فرعون مر گیا تو Father de vaux اپنی کتاب’’ The Ancient History of Israel‘‘ میں اس روایت کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔ بنو اسرائیل کی نجات کے بارے میں گفتگو کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عمر کی روایت بھی اسی قبیل کی ہے۔ ان روایتوں کی ایک اور توجیہ بھی ہے جس کا ذکر بعد میں کروں گا۔

تیسرا نقطۂ نظر ’’انسائیکلوپیڈیا بریطانیکا‘‘ مطبوعہ ۱۹۷۷ء (۱۲/۴۸۷) میں بیان کیا گیا ہے کہ اسرائیلیوں پر ظلم ڈھانے والا فرعون جس کا ذکربائیبل کتاب خروج (۲۳:۲، ۲:۱) میں ہے وہ سیتی اول (SettiI) (۱۳۰۴۔ ۱۳۱۸قبل از مسیح) تھا اور خروج کے وقت ڈوب مرنے والا رمسیس (۱۲۳۷۔۱۳۰۴قبل از مسیح) تھا۔ یہ نقطۂ نظر درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس سے ’’بائیبل، قرآن اور سائنس‘‘ کے مصنف کے وہ اعتراضات جو اس نے کتاب مقدس کی روایات کی بنا پر کیے ہیں، دور ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مدین میں قیام کے دوران میں جس بادشاہ مصر کی موت ہوئی، وہ رمسیس ثانی کا باپ سیتی اول ہو اور مدین سے واپسی پر جس بادشاہ کو انھوں نے اسی برس کی عمر میں بنو اسرائیل کی نجات کے بارے میں مخاطب کیا، وہ رمسیس ثانی ہو، کیونکہ عام مآخذ خروج کی تاریخ تیرہویں صدی قبل از مسیح کے نصف یا آخر میں لکھتے ہیں اور یہ تاریخ رمسیس ثانی کے عہد حکومت میں شامل ہے۔

چوتھا نقطۂ نظر یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا فرعون ایک ہی ہے اور اس کا نام رمسیس ثانی ہے۔

رمسیس ثانی کے دور کی چار مختلف تقویمات کا پتا چلتا ہے:

۱۔ Drionon کی کرونولوجی، ۱۳۰۱۔ ۱۲۳۴ قبل از مسیح۔

۲۔ Rowton کی کرونولوجی، ۱۲۹۰۔ ۱۲۲۴ قبل از مسیح۔

۳۔ انسائیکلو پیڈیا بریطانیکا ۱۹۷۷ء کی کرونولوجی، ۱۳۰۴۔۱۲۳۷قبل از مسیح۔

۴۔ وہ لوح جو مصری عجائب گھر میں ممی کے سر بالین نصب ہے، ۱۲۷۹۔ ۱۲۱۳قبل از مسیح۔

یہ سب تقویمیں غیر یقینی ہیں، کیونکہ تاریخ سے ما قبل دور میں تاریخ کا تعین ممکن نہ تھا۔ ان میں سے Rowton کی کرونولوجی، یعنی ۱۲۹۰ سے ۱۲۲۴ قبل از مسیح مستند ترین معلوم ہوتی ہے۔

جناب عبدالستار غوری صاحب ’’المورد‘‘ سے وابستہ ہیں۔ اسرائیلیات، مصریات، یہودیت اور عیسائیت پر ان کی نظر بڑی گہری ہے۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں اس موضوع پر کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ شاید لاہور کی کسی بھی لائبریری میں اس موضوع پر اتنی کتابیں نہ ہوں۔ انھوں نے انگریزی جریدے رینی ساں (Renaissance) کے دسمبر ۲۰۰۳ کے شمارہ میں صفحہ ۳۱ سے لے کر ۴۲ تک ’’A Clear Cut Prophecy‘‘ کے عنوان سے ایک محققانہ مضمون لکھا ہے، جس سے یہ گتھی کسی حد تک سلجھ گئی ہے۔ اس مضمون میں وہ ’’Oxford Bible Atlas‘‘ مطبوعہ ۱۹۸۴ء صفحہ ۱۶ مصنفہ Herbert,G.May کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

’’امکان غالب ہے کہ اسرائیلیوں کی تعذیب اور مصر سے ان کا خروج رمسیس ثانی (۱۲۹۰۔۱۲۲۴ ) کے عہد میں ہوا۔‘‘

Bernard W, Anderson نے اپنی کتاب ’’Understanding the OT‘‘ مطبوعہ ۱۹۷۵ء صفحہ ۶۰۲ اور John Bright نے اپنی کتاب ’’A History of Israel‘‘ مطبوعہ ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۶۵ پر رمسیس ثانی کے عہد حکومت کی تاریخ ۱۲۹۰۔ ۱۲۲۴ قبل از مسیح لکھی ہے۔

’’New Bible Atlas‘‘ نے آثار قدیمہ کی تحقیق کی روشنی میں نتیجہ نکالا ہے کہ خروج کا واقعہ ۱۲۳۰/ ۱۲۲۰ قبل ازمسیح میں ہوا۔K.A.Kitchen اور T.C.Mitchill نے ’’New Bible Dictionary‘‘ مطبوعہ ۱۹۸۲ء صفحہ ۱۹۵ پر ایک مقالہ لکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’Chronology of the OT‘‘۔ اس مقالہ میں انھوں نے رمسیس ثانی کا عہد حکومت ۱۲۹۰۔ ۱۲۲۴قبل از مسیح بتایا ہے۔

ان حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ رمسیس ثانی کی کرونولوجی میں ۱۲۹۰۔ ۱۲۲۴ قبل از مسیح کو علما نے مستند ترین قرار دیا ہے۔ Father de vaux نے ’’The Ancient History of Israel‘‘ میں بڑے شد و مد سے رمسیس ثانی کو یہی ڈوب مرنے والا فرعون قرار دیا ہے۔

عبدالستار غوری صاحب اپنے محققانہ مقالہ کے آخر میں صفحہ ۴۱ پر لکھتے ہیں:

’’لہٰذا خروج ۱۲۲۴ قبل از مسیح میں ہوا اور یہی وہ سن ہے جب رمسیس ثانی اسرائیلیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ڈوب مرا۔‘‘

یہ اقرار کرنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ اگر محترم عبدالستار غوری اور ان کی رہنمائی نہ ہوتی، اگر ان کا کمرا اور ان کی کتابیں نہ ہوتیں تو میں واقعۂ خروج اور ڈوب کر مرنے والے فرعون کی حتمی تاریخ تک نہ پہنچ پاتا۔ اسرائیلیات اور مصریات کے تمام اہم مآخذ میں اس موضوع کو تشنہ چھوڑا گیا ہے۔

رمسیس کی ممی

شاہانہ ممیوں کے کمرے میں میں نے دو چکر لگائے۔ ممیائی ہوئی لاشیں لنن میں لپٹی ہوئی تھیں اور اکثر کے چہرے ڈھانپے ہوئے نہیں تھے، مگر شہزادی میرٹ امون (Merit Amun )کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ رمسیس ثانی کی ممی کا چہرہ صحیح سلامت تھا۔ ۱۸۸۱ء میں طیبہ کی وادی الملوک میں الدیرالبحری جگہ کے قریب ایک گہرے مقبرے سے ۴۰ ممیاں دریافت ہوئیں، ان میں رمسیس کی ممی تھی۔ اس وقت سے یہ ممی قاہرہ کے عجائب گہر میں پڑی ہوئی ہے۔ پہلی مرتبہ ۱۹۷۴ء میں اسے فنگس (Fungus) کے علاج کے لیے پیرس بھیجا گیا۔ پھر ۱۹۷۷ء میں اسے دوبارہ پیرس روانہ کیا گیا۔ قدیم مصری نسبتاً کوتاہ قامت تھے، اوسطاً ان کا قد ۵ فٹ ۳ انچ تھا، مگر رمسیس کا قد چھ فٹ تھا۔ یہ ایک بوڑھے آدمی کی ممی ہے جس کا چہرہ پچکا ہوا، ناک نمایاں اور خم دار اور جبڑے بڑے ہیں۔ ایکسرے سے پتا چلا کہ اس کے ایک کاندھے پر زخم کا نشان تھا جو دوران جنگ لگا اور پاؤں کے ایک انگوٹھے کی ہڈی ٹوٹ کر جڑ گئی تھی۔ اس کے بال قدرتی طور پر سرخ تھے سر بالیں تختی پر لکھا ہے کہ وہ وجع المفاصل اور ڈاڑھوں میں ریشہ (Abscess) جیسے بڑھاپے کے امراض میں مبتلا ہو گیا تھا۔ موت کے وقت اس کی عمر قریباً۱۰۰ تھی۔

بہت سے مفسرین مثلاً مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی لاہوری کی بھی یہی رائے ہے کہ ڈوب کر مرنے والا فرعون رمسیس ثانی تھا۔ بہرحال ڈوبنے والا فرعون تحتمس ثالث ہو یا رمسیس ثانی یا منفتاح، ان تینوں کی ممیاں قاہرہ کے عجائب خانہ میں موجود ہیں اور قرآنی آیت کی شہادت دے رہی ہیں کہ:

فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ.(یونس ۱۰: ۹۲)
’’سو آج ہم تیرے بدن کو بچائے دیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد کے آنے والوں کے لیے نشانی بن جائے اور درحقیقت بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔‘‘
اہرام مصر

عجائب گھر دکھانے کے بعد گائیڈ ہمیں جیزہ کے اہرام دکھانے لے گیا۔ یہ جیزہ قاہرہ کے مضافات میں ایک مستقل بستی ہے جس کی علیحدہ میونسپل کمیٹی ہے، یہ قاہرہ کے میدان ازبکیہ سے تقریباً ۱۲ کلو میڑ اور دریاے نیل سے ساڑھے آٹھ کلو میڑ کے فاصلہ پر ہے۔ یہاں پر تین بڑے اہرام ہیں۔ اورتینوں کا تعلق فراعنہ کے چوتھے خاندان سے ہے۔ پہلا اور سب سے بڑا ہرم بادشاہ خوفو (Cheops) کا ہے، دوسرا اس کے بھائی (گائیڈ نے غلطی سے اس کا بیٹا کہا) خفرع (Chephren) کا اور تیسرا خفرع کے بیٹے منقرع (Mikerines) کا ہے۔ ان اہرام کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہرم کی تعریف اور اس کے اوصاف بیان کر دیے جائیں۔

ہرم کی جمع اہرام ہے۔ علم ہندسہ کی رو سے ہرم (Pyramid) مخروطی شکل کی عمارت کو کہتے ہیں جس کی کرسی مثلث یا عموماً مربع یا کثیرا لاضلاع ہوتی ہے۔ اس کی چار دیواریں ہوتی ہیں، ہر دیوار مثلث شکل کی ہوتی ہے جس کا سر اوپر کو نکلا ہوتا ہے۔ چاروں دیواروں کے سر اوپر جا کر مل کر ایک ہی سر دکھائی دینے لگتے ہیں اور اسے ہرم کی چوٹی کہا جاتا ہے۔

اہرام کی غرض و غایت کیا ہے؟ اہرام بنیادی طور پر قبریں ہیں۔ یہ اس جنائزی کمپلیکس کا حصہ ہوتے ہیں جو فراعنہ کی حیات بعد الممات کے لیے بنائے جاتے تھے۔ فراعنہ کو چونکہ معبود کا درجہ حاصل تھا، اس لیے ان کی ممی اور اس کے ساتھ دفن خزانے کی حفاظت کا پورا سامان کیا جاتا تھا۔ حفاظت کے لیے تابوت کے گرد بڑے بڑے لکڑی کے تبرک خانوں میں معبودوں کے مجسمے رکھے جاتے تھے۔ وہاں طلسمی عبارتیں کندہ ہوتی تھیں جو موت کے بعد کی زندگی میں فراعنہ کی مددگار ہوتی تھیں۔ مشہور تھا کہ جو ان کو ہاتھ لگائے گا، وہ زندہ نہیں بچے گا۔ چنانچہ ’Lord Carnaron‘ جب توت انخ امون کی ممی کی دریافت کے چار ماہ بعد ہی مر گیا تو مشہور ہو گیا کہ اس پر ممی کی لعنت نازل ہوئی ہے۔ اس واقعہ کے کم و بیش ایک صدی گزرنے کے بعد بھی ہمارے یہاں لوگ فراعنہ کے پیدا کئے ہوئے اسی قسم کے اوہام میں مبتلا ہیں۔

ہرم کی تعمیر کا کام فرعون کی زندگی میں ہوتا رہتا تھا۔ لاکھوں مزدور بھاری بھر کم پتھر ڈھوتے رہتے۔ ہر تین ماہ کے بعد تازہ دم مزدور لائے جاتے۔ چٹان کو کھود کر تابوت کا کمرا بنایا جاتا۔ اس کے ارد گرد کئی دالان بنائے جاتے۔ چوروں اور لٹیروں کو دھوکا دینے کے لیے اس کمرے کے علاوہ بھی کمرے بنائے جاتے۔ ہر کمرے پر گمان گزرتا کہ یہ تابوت کا کمرا ہے۔ ہرم کے نیچے داخل ہونے کا دروازہ اس طرح بنایا جاتا کہ ممی کے حقیقی کمرے کا پتا نہ چلے۔ گرینائٹ کے دروازے اورکئی چھوٹی چھوٹی گزر گاہیں بنا دی جاتیں تاکہ ان لٹیروں کو روکا جا سکے جو فرعون کے ساتھ دفن ہونے والے خزانے کی تلاش میں داخل ہوں۔ بادشاہ کی وفات کے فوراً بعد اس کی حنوط شدہ لاش کمرے میں رکھ دی جاتی۔ پھر ارد گرد کے دالانوں کو پتھروں سے پاٹ دیا جاتا۔ آخر میں پورے ہرم کو نرم ریت سے ڈھانپ دیاجاتا جس سے داخل ہونے والا دروازہ بھی چھپ جاتا۔ ابتدا میں ہرم کو زینہ بہ زینہ بنایا جاتا پھر چٹانوں کو تراش خراش کر برابر کر دیا جاتا۔ چنانچہ سقارہ کا ہرم زینہ بہ زینہ ہی بنا ہوا ہے جو دنیا کی قدیم ترین پتھر کی بنی ہوئی عمارت ہے۔

اہرام لق و دق صحرا میں واقع ہیں، جہاں کوئی پتھر اور کوئی عمارت نظر نہیں آتی۔ لگتا ہے کہ انھیں کسی انسان نے نہیں بنایا، بلکہ کسی معبود نے اسے ریگ زار کے وسط میں لا کھڑا کیا ہے۔ چھ سات ہزار قبل از مسیح سے یہ پتھر اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں اور رہتی دنیا تک یوں ہی رہیں گے، اسی لیے ان کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے۔

طرز تعمیر میں اس قدر احتیاط کے باوجود ۱۰۰۰ قبل از مسیح تک اہرام کی ممیوں سمیت سب قیمتی چیزیں چوری ہو چکی تھیں۔ اس کا آغاز فارسی حملہ آور قمبیز(Cambyse) نے کیا جس نے خوفو کے ہرم کے خزانے کو لوٹ کر خارجی دروازہ بند کر دیا تاکہ آنے والی نسلوں کو اس کی وحشیانہ حرکت کا پتا نہ چلے۔

یوں تو مصر میں چھوٹے چھوٹے بہت سے ہرم ہیں، مثلاً ہرم ابو رواش، ابو صیر الاول، ابو صیرالثانی، سقارہ اور مصطبۃ الفیوم (فیوم کا چبوترہ)، مگر تین بڑے ہرم جیزہ میں واقع ہیں جن کو دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔

سب سے بڑا ہرم، ہرم خوفو (Cheops)

ہمارے قبطی گائیڈ نے ہمارے لیے ٹکٹ خریدا اور بڑے ہرم کے سامنے کھڑے ہو کر عربی میں ہرم اور صاحب ہرم کی مختصر تاریخ بتانے لگا۔ آج سے تقریباً پانچ ہزار برس پہلے خوفو نے مصر پر پچاس برس تک حکومت کی۔ وہ فراعنہ کے چوتھے خاندان کی ایک ممتاز شخصیت تھا۔ اور اس نے اپنی قبر کے لیے مصر کا سب سے بڑاہرم تعمیر کیا۔ ایک لاکھ مزدور مصر میں ’’طَرّہ‘‘ اور ’’تمرہ‘‘ کی کھدانوں سے پتھر نکال کر لاتے تھے۔

اس میں ۲۰۲ ملین پتھر استعمال ہوئے۔ پتھر کا وزن اڑھائی ٹن سے لے کر ۱۵ ٹن تھا۔ اتنے عرصے سے یہ پتھر اصل شکل میں موجود ہیں۔ اس حرم کی تعمیر میں بیس برس کا عرصہ لگا۔ اس کی بلندی ۱۴۸ میٹر (۴۸۰فٹ) ہے۔ اسے دیکھ کر انسان پر وحشت طاری ہو جاتی ہے۔یہ انسانوں کے ہاتھ کا بنا ہوا نہیں لگتا، ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے کسی دیوتا کے ہاتھ نے اسے ریگ زار کے درمیان کھڑا کر دیا ہو۔

اندر داخل ہونے کا دروازہ زمین سے ۱۸ میٹر اونچا ہے۔ میں سیڑھیوں کے ذریعہ سے دروازہ تک پہنچا۔ اندر جانے کے لیے غیر ملکیوں کو ۱۰۰ پونڈ مصری (تقریباً ۱۲۰۰ روپے) کی ٹکٹ خریدنا پڑتی ہے۔

مستطیل شکل کی چھتی ہوئی گزرگاہ سے گزر کر تابوت والے کمرے تک پہنچا جو بالکل خالی تھا، ان تینوں اہرام کی ممیاں اور خزانے چوری ہو چکے ہیں، عجائب گھر میں صرف ان کے مجسمے موجود ہیں۔

عربی مورخین لکھتے ہیں کہ ۸۲۰ء تک ہر ہرم موجود تھا اور سنگ خارا سے ڈھکا ہوا تھا، خلیفہ مامون کے حکم سے اس کے دروازے کو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ کھودتے کھودتے گرانیٹ کے چمک دار کمرے تک پہنچے، مگر وہ بالکل خالی تھا۔ یقینی بات تھی کہ خلیفہ کے کارندوں کے دخول سے پہلے ہرم لوٹا جا چکا تھا۔ چند سکوں اور ایک آدھ مجسمے کے علاوہ وہاں کچھ نہ ملا۔ عہد اسلامی سے پہلے رومانیوں اور یونانیوں کے عہد حکومت میں ہمیں کسی لوٹ مار کا سراغ نہیں ملتا۔ گمان غالب ہے کہ فارسی حملہ آور قمبیز (Cambyse) نے ۵۲۷ قبل از مسیح میں ایتھیوپیا (Ethiopia)کے ناکام حملہ کے بعد ممفیس کے معابد کو برباد کیا اور قدیم فراعنہ کی قبروں کو لوٹ کر خارجی دروازہ کو اس طرح ڈھانپ دیا کہ آنے والی نسلوں کو اس کی اس وحشیانہ حرکت کا پتا نہ چلے۔ بہرکیف تابوت کے خالی کمرے کو دیکھ کر لوٹ آیا۔ بڑے ہرم کے مغرب میں تین چھوٹے ہرم ہیں جن میں سے ایک اس کی بیٹی کا ہے۔

ہرم خفرع (Chephren)

خوفو کی موت کے بعد اس کا بھائی (نہ کہ اس کا بیٹا جیسا کہ غلط طور پر مشہور ہے) تخت نشین ہوا۔ اس نے چھپن برس حکومت کی۔ اس نے بھی خوفو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی قبر کے لیے ہرم بنایا۔ اس ہرم کی اونچائی ۱۳۷ میٹر ہے۔ اس کا اوپر والا حصہ ابھی تک نرم ریت سے اسی طرح ڈھکا ہوا ہے جیسا اصل میں تھا۔ اس کے دو دروازے ہیں ایک کی بلندی اتنی ہی ہے جتنی خوفو کے ہرم کے دروازے کی اور دوسرا دروازہ کرسی کی سطح پر ہے۔ بلزونی (Belzoni) نامی شخص نے اسے ۱۸۱۸ء میں دریافت کیا۔ تابوت والے کمرے کی لمبائی ۱۵ میٹر، چوڑائی ۵ میٹر اور اونچائی ۷ میٹرہے۔ یہ کمرا بلزونی کمرے کے نام سے مشہور ہے۔ بلزونی نے دیکھا کہ تابوت میں ممی کے بجائے بھینس کی ہڈیاں موجود تھیں۔ ہرم کے سامنے مغرب کی طرف کھنڈرات ہیں، ہو سکتا ہے کہ وہ خفرع کی قبر کے سامنے عبادت گاہ ہو، کیونکہ خفرع کو الٰہ سمجھ کر اس کی پوجا کی جاتی تھی۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ ہر فرعون اپنی زندگی میں کسی دیوتا کا اوتار ہوتا ہے۔

ہرم منقرع (Mikerines)

خفرع کے بعد اس کا بیٹا منقرع تحت نشین ہوا۔ اس نے اپنے باپ کے برعکس ملک میں دینی فضا قائم کی، عبادت گاہوں کو کھول دیا اور لوگوں کو دینی تہوار منانے کی اجازت دے دی۔ ملک میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہو گیا۔ لوگ اسے پسند کرتے تھے۔ اس ہرم کی بلندی ۶۶ میٹر ہے۔ یہ ہرم پہلے دو ہرموں کی نسبت زیادہ محفوظ ہے۔ اس کے اندرونی حصے میں ابھی تک گرینائٹ کا غلاف موجود ہے۔ ۱۱۱۶ء میں سلطان عزیز عثمان بن صلاح الدین کے کارندوں نے خفرع کے ہرم پر حملہ کیا تو بعض لوگوں نے سلطان کو مشورہ دیا کہ سب اہرام گرا دیے جائیں (جیسا کہ طالبان نے بامیان میں گوتم بدھ کے قدیم مجسموں کو گرانے کا حکم دیا) تو سلطان نے فوراً یہ حکم صادر کر دیا اور مزدور تیسرے ہرم، یعنی منقرع کے ہرم کو گرانے کے لیے پہنچے۔ پورے آٹھ ماہ تک ہرم کے ٹیلے پر رہے اور پورے دن میں ایک یا دو پتھروں سے زیادہ نہ توڑ سکے۔ جب ان کی ہمت جواب دے گئی۔ اور اس پراجیکٹ کے لیے مخصوص پیسا ختم ہو گیا تو یہ مجنونانہ حرکت بھی ختم ہو گئی۔ ۱۸۳۷ء میں کرنل وائز (Wyze) کی زیر قیادت اس ہرم میں داخل ہونے کا دروازہ دریافت ہوا۔ یہ دروازہ سطح زمین سے ساڑھے چار میٹر اونچا تھا۔ ۳۵۰ میٹر لمبی گزرگاہ سے گزر کر ایک ۱۰ میٹر لمبے اور ۴ میٹر چوڑے کمرے میں پہنچا گیا۔ اس میں لکڑی کے تابوت کے باقی ماندہ حصے ملے جس پر لکھا ہوا تھا: ’’اے بادشاہ اوزیرس (Osiris) یعنی منقرع، تو ابدالآباد تک زندہ رہے ! تیری ولادت آسمان سے ہوئی ہے، تیری ماں نے تیرے دشمنوں کو تباہ و برباد کر کے تجھے معبود بنایا ہے۔‘‘ او زیرس اس علاقہ کو بھی کہا جاتا ہے جہاں بہت سے قبرستان ہوں اور اسے زیر زمین بو سیدہ دنیا کا دیوتا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ مصری اپنے بادشاہ کو دیوتا کا اوتار سمجھتے تھے۔ اس کمرے کے نیچے دو اور کمرے تھے۔ ایک میں خالی تابوت تھا جس پر کچھ لکھا ہوا نہ تھا، اسے انگلینڈ بھیج دیا گیا اور دوسرے کی دیواروں میں تراشے ہوئے گڑھے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں حنوط شدہ لاشیں رکھی گئی ہوں۔ ہرم کے مشرقی جانب کھنڈرات ہیں جو منقرع کی خاص عبادت گاہ معلوم ہوتی ہے۔

اہرام کے دامن میں بازار لگے ہوئے تھے جہاں یاد گار چیزیں مثلاً فراعنہ کے مجسمے، اہرام کی تصویریں اور دیگر تحفے تحائف بیچے جا رہے تھے۔ سیاحوں کا ہجوم تھا، خوب ریل پیل تھی۔ ٹورزم اور سیاحت سے مصر خوب کماتا ہے۔

اہرام دکھانے کے بعد گائیڈ ہمیں ابوالہول (Sphinx) دکھانے لے گیا۔

ابوالہول

سفنکس یونانی دیو مالا کے مطابق ایک خطرناک اور تباہ کن نسوانی مخلوق ہے جو ان مردوں کو تباہ و برباد کر دیتی ہے جو اس کی پہیلی نہ بوجھ سکیں، مگر مصری روایات کے مطابق ’’سفنکس‘‘ کا جسم شیر کا اور سر انسانی حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ شیر کو سورج دیوتا کی تخلیق سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ حکمران کو بھی سورج دیوتاe) (R کا بیٹا گردانا جاتا ہے۔ شیر کی جسمانی طاقت حکمران کی جسمانی طاقت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس سے قوت اور عقل کے ساتھ ساتھ چلنے کا اشارہ بھی ہے۔ اس عمارت کو ۴۵۰۰ قبل از مسیح میں فرعون خفرع کے لیے تعمیر کیا گیا تاکہ اس کے ہرم کو جانے والے راستے کی حفاظت کرے۔ چنانچہ یہ خفرع کے ہرم کے مشرق کی طرف ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ایک روایت کے مطابق خفرع سے پہلے منف میں بسنے والے تیسرے خاندان نے اسے بنایا۔ اس مجسمہ کی لمبائی ۲۰ میٹر چوڑائی ۴ میٹر اور اونچائی ۳۹ میٹر ہے۔ سفنکس کو عرب ابوالہول یا ابوالخوف والفزع کے نام سے پکارتے ہیں، یعنی ہول ناک اور ڈراؤنا۔مرور زمانہ کے ساتھ ریت اس مجسمے کے گرد جمع ہو گئی تھی۔ تحتمس چہارم (Tuthomosis iv) نے اس مجسمے کے گرد سے ریت کو ہٹایا۔ ابوالہول کے پیچھے ۴ میٹر اونچا گرینائٹ کا بنا ہوا نوکیلا برج ہے جس پر اٹھارہویں خاندان کے فرعون تحتمس چہارم کی تصویر ہے جو ابوالہول کو دیوتا سمجھتے ہوئے ایک طرف دھونی دے رہا ہے او ردوسری طرف سے شراب کا جام پیش کر رہا ہے۔

عبدالرحمن ابن خلدون لکھتا ہے کہ ابوالہول کو ایک مقدس مورتی سمجھا جاتا تھا جو کھیتی باڑی کو صحرا کے ریتلے طوفانوں سے بچاتی تھی۔ اس کے بعض حصوں کو دسویں صدی میں سلطان برقوق کے عہد حکومت میں کسی متعصب مذہبی رہنما کے حکم سے توڑ دیا گیا۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ روایت کے مطابق جن دو آدمیوں نے اس دیوہیکل مجسمے کی ناک لوہے کے گرز سے توڑی وہ دونوں بڑے بڑے پتھروں کے بلاک پر گرے اور مر گئے۔ اسی وقت صحرا کی گرم تیز ہوا چلی تو لوگوں کو یقین ہو گیا کہ مورتی نے انتقام لے لیا ہے اور کوئی بھی اس کے غصے کے خوف سے اس کو چھوتا تک نہیں تھا۔ مقریزی اپنی کتاب ’’خطط مصر‘‘ میں اس مجسمے کو بڑی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک مجنون مسلمان شیخ تھا جس کا نام محمد اور لقب صائم الدھر (ہمیشہ روزہ دار) تھا۔ اس نے ازراہ حماقت اللہ کے قرب کی خاطر لوہے کے گرز سے مجسمے پر کئی ضربیں لگائیں تو مجسمے کے کچھ اجزا ٹوٹ گئے جن کی مرمت کبھی نہ ہو سکی۔ آج تک ان چوٹوں کے نشانات مجسمے پر باقی ہیں، اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ بارہویں صدی عیسوی تک یہ مجسمہ صحیح سلامت تھا۔

اہرام کا محافظ پتھر کا بنا ہوا یہ مجسمہ ہے جو آدھا مجسمہ ہے اور آدھا پہاڑ جس کا کچھ حصہ ٹوٹ چکا ہے۔ اپنے بڑے کانوں کے ساتھ سنتا بھی ہے اور گول گول آنکھوں کے ساتھ دیکھتا بھی ہے۔ ان کانوں سے وہ ماضی کی آواز سنتا ہے اور آنکھوں سے رازدارانہ انداز میں مستقبل کو دیکھتا ہے۔ ابوالہول ہیبت، سکون اور جمود کی علامت ہے۔ امیر الشعرا احمد شوقی نے ایک طویل قصیدہ میں ابوالہول کو مخاطب کرتے ہوئے موت و حیات کے فلسفہ کو بڑے سادہ الفاظ میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: اے ابوالہول بے مقصد لمبی زندگی سے بیزاری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور :

ان الحیاۃ تفل الحدید
اذ لبستہ و تبلی الحجر
’’ اگر زندگی کو لوہے کا لباس پہنا دیا جائے تو وہ بھی زنگ خوردہ ہو کر ٹوٹ پھوٹ جائے گا اور اگر اسے پتھر کا لباس پہنا دیا جائے تو وہ بھی رگڑ رگڑ کر گھس جائے گا (کیونکہ زندگی تغیر پذیر ہے)۔‘‘

ہر دم رواں پیہم دواں ہے۔ حرکت زندگی کا خاصہ ہے اورسکوت موت کا۔ زندگی کی قوت حرکت اور تغیر میں مضمر ہے، جبکہ موت نام ہے جمود اور سکوت کا۔ ابوالہول کے بارے میں ان کا یہ شعر بڑا معنی خیز ہے:

تحرک ابا الہول ھذا الزماں
تحرک مافیہ حتی الحجر
’’اے ابوالہول، اس زمانے میں تو پتھر بھی حرکت کر رہے ہیں تو کیوں حرکت نہیں کرتا۔‘‘

اس شعر میں انھوں نے ابوالہول کو علامت کے طور پر استعمال کر کے ان ظلمت پسندوں (Obscurantists) کو مخاطب کیا ہے جو طرز کہن پر اڑتے اور آئین نو سے ڈرتے ہیں۔ زندگی آگے بڑھتی ہے، پیچھے نہیں ہٹتی۔ یہی قانون فطرت ہے اور یہی سنت الٰہیہ:

اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ.(الرعد۱۳: ۱۱)
’’اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت میں اس وقت تک تغیر نہیں لاتا جب تک وہ خوداپنی حالت میں تغیر نہیں لاتی۔‘‘

۱۰ دسمبر ۲۰۰۶ کو ابو الہول کا مجسمہ دیکھنے کے بعد گائیڈ ہمیں بردی (Papyrus) کا کارخانہ دکھانے لے گیا جو جیزہ ہی میں واقع ہے۔ بردی کا پودا سر کنڈے سے ملتا جلتا ہے، یہ دریاے نیل کے کنارے پر اگتا ہے۔ اس کی لمبائی ۱۳ فٹ کے قریب ہوتی ہے۔ اس کا تنا لمبا، نرم اور گودے دار ہوتا ہے۔ اس سے ٹوکریاں اور چٹائیاں بنائی جاتی ہیں۔ قدیم مصری اس سے کاغذ بناتے تھے۔ تنے کو چار پانچ ٹکڑوں میں کاٹ کر آپس میں جوڑ لیا جاتا ہے پھر ان ٹکڑوں کو ایک شکنجے میں ڈال کر پریس کیا جاتا ہے جس سے پانی نکل جاتا ہے۔ پھر ان جڑے ہوئے ٹکڑوں کو خشک ہونے دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ یہ سب ٹکڑے پچک کر آف وائٹ (Off White) رنگ کے موٹے کھردرے کاغذ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ان پر فراعنہ مصر کی تصویریں بنا کر یا اہرام کی منظر کشی کر کے یا قرآن حکیم کی آیات لکھ کر تزیین و آرایش کے لیے ’’بردیات‘‘ کے نام سے مہنگے داموں بیچا جاتا ہے۔ اس کارخانہ میں بہت بڑا شوروم تھا جس میں ہر سائز کی بردیات فروخت ہوتی تھیں۔ ان کی قیمت میں گائیڈ کی کمیشن بھی شامل ہوتی ہے۔

بہرکیف سیاحت کا پہلا دن خوب مصروف گزرا۔ شام کے وقت تھکے ہارے ہم ایجنسی کی گاڑی سے ہوٹل لوٹ آئے۔ ہوٹل کے ڈائننگ ہال کے برابر میں بار روم (میکدہ) تھا جہاں سیاحوں کو مے نوشی کی کھلے عام اجازت تھی۔

سیاحت کا پہلا دن یوں گزرگیا اور بقول تلوک چند محروم عمر راہ وفا کی منزل اوّل ہوئی تمام۔

اگلے روز، یعنی ۱۱ دسمبر ۲۰۰۶ کو جزیرہ ایجنسی کا نمائندہ قبطی گائیڈ سمیت صبح دس بجے ہوٹل آیا۔ اور ہمیں سیاحت کے لیے لے گیا۔ اس روز ہمارے شیڈول میں قلعہ صلاح الدین ، مسجد محمد علی پاشا، مسجد سلیمان الخادم، مسجد احمد بن طولون اور مسجد عمرو بن العاص کی زیارت تھی۔

ساتویں صدی عیسوی میں مصر میں فرعونی ثقافت کی جگہ اسلامی ثقافت نے لے لی۔ مصر کی مساجد، مقابر اور قلعے عربی اور ترکی کی اسلامی ثقافت کا مظہر ہیں۔ فرعونی ثقافت عبارت ہے جان داروں کے بھاری بھر کم، ہیبت ناک مجسموں اور پر اسرار معابد سے جبکہ اسلامی ثقافت کو جان داروں کی شکلوں کے بجائے پھولوں، پتیوں اور بندسی شکلوں کے بڑے دقیق نمونوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ اور انھی سے گل کاری (Arabesque) کی جاتی ہے یا پھر روغنی مٹی، شیشوں اور پتھروں کو بچھا کر پچی کاری (Mosaic) کی جاتی ہے، جس طرح دین اسلام روز روشن کی طرح عیاں ہے، اس میں کوئی چیز پر اسرار نہیں، اسی طرح اسلامی ثقافت واضح اور روشن ہے۔ اس میں لطافت اور نزاکت ہے، فرعونی تہذیب جیسا بھاری پن اور راز داری نہیں۔ ہاں، بازنطینی، فارسی اور ہندی طرز تعمیر اسلامی طرز تعمیر پر اثرانداز ہوا ہے۔

قلعہ صلاح الدین

یوں تو قلعہ کی مختصر تاریخ قلعہ کے بڑے دروازے پر بھی عربی میں رقم تھی، مگر ہمارے گائیڈ نے حسب عادت قلعہ میں داخل ہونے سے پہلے اس کی مختصر تاریخ بیان کی۔

یہ قلعہ جبل مقطم کے ایک بلند و بالا اور گول قطعہ زمین پر تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کے جنوب مشرق سے پورا قاہرہ نظر آتا ہے۔ رمیلہ کے میدان سے قلعہ میں داخل ہونے کے دو مختلف دروازے ہیں: ایک نیا دروازہ جہاں پارکنگ کے لیے وسیع جگہ ہے اور دوسرا باب العزب جو زمانۂ وسطیٰ کے دو برجوں کے درمیان ایک تنگ گزرگاہ پر کھلتا ہے جسے چٹان کو تراش کر بنایا گیا ہے۔ یہ وہی گزرگاہ ہے جس میں یکم مارچ ۱۸۱۱ کو محمد علی پاشا نے سینکڑوں ممالیک کو تہ تیغ کیا۔ عید کے موقع پر ان کو کھانے کے لیے بلایا گیا۔ جب وہ اس گزرگاہ سے گزرنے لگے تو انھیں دھوکا سے ذبح کر ڈالا گیا۔

بارہویں صدی عیسوی میں امیر بہاؤالدین، جس کا لقب قرقوش (کالی چڑیا) تھا، نے سلطان صلاح الدین کے حکم سے قلعہ بنایا۔ اس جگہ طولونیوں کے زمانہ کا قدیم قلعہ تھا۔ قلعہ کی تعمیر کے بعد فصیل کھینچتے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا کہ دیواریں نہ صرف دارالحکومت، بلکہ فسطاط کی بھی حفاظت کریں۔ قلعہ کی تعمیر کے لیے مواد جیزہ کے چھوٹے اہرامات او رمنف کے آثار سے حاصل کیا گیا ۔ اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا تو لوگوں نے امیر بہاؤالدین کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے، وہ نوبی (Nubian) تھا، اس لیے اسے قرقوش (کالی چڑیا) کا لقب دے دیا۔

قلعہ میں سب سے نمایاں جگہ صلاح الدین کا محل تھا۔ جو دکّۃ یوسف (یوسف کا چبوترہ) کہلاتا تھا۔ وہ گل کاری اور پچی کاری کا اعلیٰ نمونہ تھا جسے ۱۸۲۹ء میں گرا دیا گیا۔ اس جگہ اور گری ہوئی جامع طولون کے قریب محمد علی پاشا نے اپنا محل اور مسجد تعمیر کی۔ صلاح الدین کا قلعہ تین اجزا میں منقسم ہے: ایک کو العزب، دوسرے کو الانکشاریہ اور تیسرے کو القلعہ کہا جاتا ہے جو بلند ترین ہے۔ ہر جز کے گرد فصیل اور نوک دار برج بنے ہوئے ہیں۔قلعہ کا مضبوط ترین حصہ وہ ہے، جہاں سے شہر نظر آتا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مصر کے سلطان، پاشا اور امرا خارجی حملوں سے حفاظت کے بجائے انقلاب اور خانہ جنگیوں کے خوف سے اس قلعہ کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا کرتے تھے۔ اس وقت پرانی دیواروں کے سوا قلعہ میں کوئی قدیم چیزموجود نہیں۔ قلعہ کے اندر ایک جنگی عجائب گھر ہے جس میں اس زمانہ کے ہتھیاروں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ قلعہ کے اندر گھوڑے پر سوار ابراہیم پاشا کا مجسمہ ہے۔ یہی مجسمہ قاہرہ کے محلہ از بکیہ کے جنوب مشرقی حصہ میں بھی کھڑا ہے۔ قلعہ کے اندر تین مسجدیں ہیں: جامع احمد بن طولون، جامع سلیمان الخادم اور جامع محمد علی۔

جامع احمد بن طولون

اسے احمد بن طولون نے ۲۶۲ھ (۸۷۶ء) میں، یعنی قاہرہ کی بنیاد سے ایک صدی پہلے تعمیر کیا۔ وہ مصر کا خود مختار حاکم تھا، مگر خطبہ عباسی خلیفہ معتمد بن متوکل کے نام کا پڑھتا تھا۔ یہ قاہرہ کی چار دیواری کے اندر قدیم ترین اثر ہے۔ فسطاط کے مضافات میں المیدان (Al-Meidan) نامی شہر کو بسانے کے لیے ایک ایسے ٹیلے کا انتخاب کیا گیا جو نیل کے مشرقی کنارے سے لے کر جبل مقطم کے دامن تک پھیلا ہوا ہے۔ پرانے شہر کے آثار ابھی تک موجود ہیں اور یہ قدیم مسجد اس شہر کی عظمت و جلال کا زندہ شاہد ہے۔ اس کی تعمیر میں اٹھارہ برس لگے۔ احمد بن طولون ایک ایسی مسجد بنوانا چاہتا تھا جو جامع عمرو بن العاص سے خوب صورت اور وسیع تر ہو اور اس میں کم از کم تین سو ستون ہوں جو مسجد کے دروازوں کو سہارا دیں، مگر اتنے ڈھیر سارے ستون پورے مصر میں ممفیس کے آثار کے علاوہ کہیں موجود نہ تھے۔ چنانچہ ایک قبطی ماہر فن تعمیر نے اسے مشورہ دیا کہ اتنی ہی خوب صورت مسجد بغیر کسی ستون کے تعمیر ہو سکتی ہے۔ صرف محراب میں ستون استعمال ہوں گے۔ چنانچہ اس کی نگرانی میں مسجد کی تعمیر ہوئی۔ رمضان ۲۶۳ھ میں احمد بن طولون نے مسجد کو نمازیوں کے لیے کھول دیا، مگر کوئی بھی نمازی اس خوف سے مسجد میں داخل نہ ہوا کہ کہیں اس کی تعمیر پر ناجائز طریقوں سے اکٹھا کیا ہوا پیسا خرچ نہ ہوا ہو، حاکم نے حلفیہ بیان دیا کہ ایساکوئی پیسا خرچ نہیں ہوا تب جا کر لوگوں کو اطمینان ہوا اور وہ مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانے لگے۔

مسجد کے گرد دو دیواریں ہیں تاکہ نماز ادا کرتے وقت بیرونی آوازیں مخل نہ ہوں۔ چھت کے نیچے لکڑی کے ایک ٹکڑے پر پورا قرآن خط کوفی میں کندہ ہے۔ عرب مورخین کا خیال ہے کہ لکڑی کا یہ ٹکڑا اس سفینۂ نوح کا حصہ ہے جس کے کچھ حصے احمد بن طولون کو ارمینیہ کے جبل ارارط پر ملے تھے۔ صحن کے عین وسط میں ایک گنبد آٹھ مرمری ستونوں پر کھڑا ہے۔ گنبد کی اندرونی چھت آسمانی رنگ کی ہے جس پر سنہری ستارے ٹمٹا رہے ہیں۔ مسجد کے بڑے دروازے کے قریب ایک چبوترہ سا ہے جس پر کھڑا ہو کر احمد عام نمازیں ادا کیا کرتا تھا۔ یہ چبوترہ ایک کمرے سے متصل ہے جس میں امیر اور اس کا خاندان تقریبات میں بیٹھا کرتے تھے۔ دیوار کے جنوب مغرب میں ایک مدرسہ کی جگہ ہے جہاں معلم بچوں کو دین اور شریعت کی تعلیم دیا کرتا تھا۔

جامع طولون عربی فن تعمیر کا نمونہ ہے، چاروں طرف برآمدے اس فن تعمیر کی شناخت ہیں۔ محراب چار ستونوں پر قائم ہے جن میں دو کالے سنگ مر مر کے بنے ہیں۔

منبر بندق (Hazel) کی لکڑی کا بنا ہوا ہے جس پر ہاتھی دانت کا کام ہوا ہے۔ وضو کا تالاب آج کل اسی جگہ پر واقع ہے جو ۷۹۴ھ (۱۲۹۴ء) میں جل گئی تھی۔ وضو کے تالاب کے اوپر ایک گنبد ہے جو جھکے ہوئے ستونوں پر کھڑا ہے جن پر خط نسخ میں تحریر موجود ہے۔ جامع مسجد کے تین مینار تھے جو منہدم ہو چکے ہیں۔ چونکہ اس مسجد میں نمازیں ادا نہ کی جاتی تھیں، اس لیے محمد علی پاشا نے ۱۸۴۷ ء میں اس مسجد کو بڑی عمر کے لوگوں اور سدا بیمار لوگوں کے لیے ضیافت خانہ میں تبدیل کر دیا۔

آج کل یہ عظیم مسجد ویران ہے۔ اس کی وسیع دیواروں کے درمیان اذان کی آواز نہیں گونجتی۔ پتھر ہیں کہ لڑھک رہے ہیں، چھتیں ہیں کہ گر رہی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مرور وقت کے ساتھ ساتھ عظمت رفتہ کی یہ نشانی مٹ جائے۔

جامع سلیمان الخادم

مسجد سلیمان الخادم بھی قلعہ کے اندر ہے۔ اس کا سن تعمیر ۹۳۵ھ (۱۵۲۵ء) ہے۔ طرز تعمیر ترکی ہے۔ دوسری مساجد کی نسبت چھوٹی ہے۔ قلعہ کے احاطہ کے اندر کچھ چھوٹی چھوٹی قبریں ہیں جو فوجی پہرے داروں کی معلوم ہوتی ہیں۔

جامع محمد علی

مسجد محمد علی پاشا یہ مصر کی خوب صورت ترین اور بلند ترین مسجد ہے جس پر اہل مصر بجا طور فخر کرتے ہیں۔ اس کا طرز تعمیر خالص ترکی ہے۔ مسجد کی عمارت کے اوپر ایک بلند گنبد ہے جس کے اردگرد چار نصف گنبد ہیں جو بازنطینی طرز کے ہیں۔ قاہرہ میں آپ جس جگہ سے بھی دیکھیں آپ کو یہ گنبد نظر آتے ہیں۔ گنبد کے ساتھ دو انتہائی بلند اور نوکیلے مینار ہیں۔ ہندسی شکل میں ہر مینار کے آٹھ ضلعے ہیں۔ ہر مینار کے دو برآمدے ہیں جن کی چھت مخروطی شکل کی ہے۔ صحن کے ارد گرد بڑے دروازے ہیں جو خوب صورت شفاف سنگ مر مر کے بنے ہوئے ہیں۔ درمیان میں وضو کے لیے فوارہ ہے جس کے ارد گرد آٹھ گول ستون ہیں۔ برج مربع شکل کا اور سنہری ہے۔ شمال مغربی برآمدے کے اوپر وہ گھڑی لگی ہے جو فرانس کے بادشاہ لوئس فلپ (Luis Philip) نے محمد علی کو ہدیۃً دی تھی۔

جامع مسجد کے اندر داخل ہونے کا دروازہ سفید ، شفاف اور ٹھنڈے سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔ نماز کے وسیع ہال میں ہلکی سی روشنی روشن دانوں سے اور گنبد میں لگے ہوئے رنگ برنگے شیشوں کے پرتو سے پڑتی ہے۔ محراب جس میں عام طور پر خوب صورت پچکاری اور نقش و نگار بنے ہوتے ہیں، دیواروں کی مانند سادہ ہے تاکہ نمازی کی نماز میں خلل واقع نہ ہو۔ فرش پر ایرانی قالین بچھے ہوئے ہیں۔ دروازے کے دائیں طرف بانی کی قبر ہے، اس کے ارد گرد لوہے کی جالی ہے جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا ہے۔ اس میں سات سوراخ ہیں جن کے اوپر نیلی زمین پر عربی کی تحریریں رقم ہیں۔ وہ محل جس میں محمد علی رہتا تھا، مشرق کے باقی محلات کی طرح باہر سے سادہ اور اندر سے عمدہ اور اچھوتا ہے۔ وہ یورپی جلال کا مظہر ہے۔ کرسیاں، میز اور شیشے سب پیرس سے منگوائے ہوئے ہیں۔ بہت ہی خوب صورت سنگ مر مر کی بنی ہوئی رہ گزریں اور سفید شفاف سنگ مر مر کے بنے ہوئے واش روم اعلیٰ ذوق کی غمازی کرتے ہیں۔ وہاں سے آپ پورے قاہرہ شہر کا گنبدوں اور میناروں سمیت مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ دور سے دریاے نیل کے ساتھ ساتھ سر سبز و شاداب باغیچے عجیب منظر پیش کرتے ہیں۔ کہیں کہیں کھجوروں کے باغات نظر آتے ہیں۔ دور بہت دور پر سکون صحرا حد نظر تک پھیلا ہوا ہے۔

مسجد سے باہر کھلا میدان ہے جہاں ایک کھوکھے سے ہم تینوں، یعنی میں، میری بیوی اور گائیڈ نے مشروبات لیے اور تھوڑی دیر سستائے۔ اس میدان کے کونے میں ایک کنواں ہے جو بئریوسف کے نام سے مشہور ہے، یوسف سلطان صلاح الدین ایوبی کے چچا کا لقب تھا۔ یہ مربع شکل کا دو منزلہ کنواں ہے جو ایک چٹان میں کھدا ہوا ہے۔ اس کی گہرائی ۳۰.۸۸میٹر ہے۔ اس کا بالائی حصہ قلعہ کا بلند ترین نقطہ ہے۔ ایک دائری راستہ آہستہ آہستہ ڈھلوان سے اتر کر اس سطح پر پہنچتا ہے جہاں دو منزلیں علیحدہ ہو جاتی ہیں۔ یہ راستہ بھی چٹان کو تراش کر بنایا ہوا ہے۔ اس راستہ پر جالی لگی ہوئی ہے جو نیچے جانے والے راستہ کو روشن کرتی ہے۔ اگر اس زمانہ کو ذہن میں رکھا جائے جب یہ کنواں کھودا گیا تھا تو یہ حیرت انگیز کام معلوم ہوتا ہے۔ یہ کافی عرصہ تک پانی فراہم کرتا رہا ہے، لیکن جب سے پانی کی بڑی بڑی ٹینکیاں بنی ہیں، اس کی اہمیت کم ہو گئی ہے۔

قلعہ اور اس کی مساجد کی سیر کے بعد گائیڈ ہمیں جامع عمرو بن العاص کی طرف لے گیا۔

[باقی]

________________

B