HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]


قرآن مجید میں گرامر اور املا کی غلطی کا دعویٰ

سوال:ڈاکٹر طٰہٰ حسین (وزیر تعلیم مصر) کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے کہ قرآن مجید میں املا اور گرامر کی غلطیاں ہیں۔ کچھ اور محققین نے بھی اس طرح کے دعوے کیے ہیں۔اس ہرزہ سرائی کی کیا حقیقت ہے؟(محمد عارف جان)

جواب:املا اور گرامردو الگ الگ موضوعات ہیں۔ املا میں صحابہ کے بعد بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ظاہر ہے تلفظ اور مادے کی رعایت سے کی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں بعض جگہ پر صحابہ رضوان اللہ علیہم کی املا ان تبدیلیوں کے مطابق نہیں ہے، لیکن قرآن مجیدمیں ان کے حوالے سے تبدیلی نہیں کی گئی تاکہ قرآن مجید کی صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ساتھ نسبت پوری طرح قائم رہے ۔

باقی رہا گرامر کا معاملہ تو اس میں طٰہٰ حسین اور اس کے ہمنواؤں کی بات بالکلیہ غلط ہے۔ گرامر کے قواعد اہل زبان کے تعامل کو سامنے رکھ کر متعین کیے جاتے ہیں۔ ان کی صحت وعدم صحت اہل زبان کے عمل کی کسوٹی پر پرکھ کر طے کی جاتی ہے، ان کی روشنی میں اہل زبان کو غلط قرار نہیں دیا جاتا۔ قرآن مجید میں کوئی ایک جملہ بھی ایسا نہیں ہے جو عربوں کے معروف اسالیب اور تراکیب کے مطابق نہ ہو۔زمخشری ، سیبویہ اور ابن ہشام جیسے نحوی اپنے قواعد کے لیے سب سے محکم شاہد قرآن مجید کے جملوں کو قرار دیتے ہیں اور اعتماد کے ساتھ قرآن مجید سے مثالیں نقل کرتے ہیں۔ یہ اہل فن کے ہاں مسلم ہے کہ گرامر کی کوئی کتاب زبان کے تمام امکانات کا احاطہ نہیں کرتی۔ چنانچہ نئے ماہرین اس کمی کی تلافی کا کام جاری رکھتے ہیں۔ اگر کسی کو قرآن مجید کا کوئی جملہ اپنی مزعومہ گرامر کے مطابق نظر نہیں آتا تو اسے چاہیے کہ اسے اپنے علم کی کمی سمجھے۔ یہاں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ آج تک نحوی غلطیوں کی جو مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں ان کا تجزیہ کرکے بتا دیا گیا ہے کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔


قلب کی حقیقت

سوال:مجھے یہ سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ ’قلب‘ کیا ہے۔ میں اپنا اشکال تفصیل سے بیان کر رہا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس کا مطالعہ کرکے میرا یہ مسئلہ حل کر دیں۔سورۂ بقرہ کی آیت ۱۰ میں ہے: ’’ان کے دلوں میں بیماری ہے اور اللہ نے ان کی بیماری بڑھا دی۔‘‘

ہم نے لفظ ’قلب‘ کا ترجمہ دل کیا ہے۔ یہ لفظ قرآن مجید میں کئی مرتبہ آیا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے پرانے فلسفی اور مذہبی کتابیں بھی دل کا ذکر مرکز احساسات کے طور پر کرتے ہیں، لیکن جدید نفسیات کے مطابق یہ بات بالکلیہ غلط ہے:

’’قدیم فلسفی اور مقبول عام تصور دل کو جذبات کا محل قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس جدید سائنسی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دماغ ہی محرکات، داعیات اور جذبات کی آماج گاہ ہے۔‘‘ (Psychology for VCE, Valerie Clarke & Susan Gillet, Chapter3, Page 48)

محبت جیسی چیز کو بھی اب دماغ کے ایک حصے میں خون کے بہاؤ کی پیمایش سے متعین کر لیا گیا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:’’The Science of Love, Charles Pasternak‘‘۔

اب بتائیے کہ قرآن کے قلب کی تعریف (Defination) کیسے کی جائے گی۔ اگر ہم صوفیہ کے اس قول کو مان لیتے ہیں کہ قلب انسانی روح کا ایک لطیف جز ہے جس کے ساتھ انسان کے بہت سے خصائص وابستہ ہیں تو اس چیز کو بھی جدید نفسیات غلط قرار دیتی ہے:

’’سترویں صدی عیسوی میں فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ نے دہرے پن کا تصور پیش کیا، یعنی ذہن(یا روح) اور جسم الگ الگ چیزیں ہیں۔
ذہن اور جسم کا الگ الگ آزاد وجود انھی فلسفیوں کو معقول دکھائی دیتا ہے جنھیں انسانی جسم کی پیچیدگیوں کا کچھ بھی اندازہ نہیں تھا۔ انیسویں صدی عیسوی کے دوران میں ہم نے دماغ کی کارکردگی کو بہتر طور پر سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ اس کا آغاز غالباً ۱۸۶۰ء میں بروکا (Broca) کی دریافت سے ہوا تھا، یعنی دماغ کا وہ حصہ جس میں گفتگو وجود پاتی ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کی سائنسی دریافتیں دہرے پن کے تصور کو رد کرکے وحدت کا تصور پیش کرتی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ کوئی شے اس وقت تک ذہنی نہیں ہوتی جب تک وہ جسمانی نہ ہو۔‘‘ (Psychology for VCE, Valerie Clarke & Susan Gillet, Chapter3, Pa) (جنید حسین)

جواب:آپ کے سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں لفظ قلب کا استعمال محاورے کے طور پر ہوا ہے۔ اہل عرب کچھ افعال کو قلب سے منسوب کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس تصور کی تردید کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی اورانسانی شخصیت کے کچھ خصائص کے لیے وہی الفاظ اور اسالیب استعمال کیے ہیں جو عرب کرتے تھے۔ گویا قرآن دماغ اور قلب کی دوئی کا قائل نہیں ہے۔ قرآن کے پیش نظر چونکہ صرف ہدایت ہے، اسے عربوں کی نفسیات، فلکیات، بائیالوجی اور حیوانیات وغیرہ میں اصلاح سے کوئی غرض نہیں تھی، اس لیے اس نے انسانی شخصیت کی ایک جہت یا انسانی دماغ کے ایک وظیفے کے لیے جو اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، مروج لفظ قلب کو اپنے مدعا کے اظہار کے لیے استعمال کیا تاکہ اس کی بات کماحقہ مخاطب تک پہنچ سکے۔

آپ کے سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ سائنس اور نفسیات کی مجبوری یہ ہے کہ وہ صرف اسی شے کا تجزیہ کرے جو نظر آتی ہے۔ انسان کی اصل شخصیت اگر اس کے مادی جسم سے الگ کوئی غیر مرئی چیز ہے تو یہ سائنس کی گرفت میں نہیں آسکتی، اس لیے وہ اس کے بارے میں کوئی حکم لگانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔ انسانی دماغ ایک مادی چیز ہے، لہٰذا سائنس دانوں نے اس کا مطالعہ کرکے حیرت انگیز چیزیں دریافت کی ہیں۔ آپ کی یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ جسم اور ذہن کی دوئی کے بجائے وحدت کے تصور کے قائل ہیں، لہٰذا وہ دماغ ہی کو تمام فکری یا نفسیاتی اعمال کا مرکز قرار دیتے ہیں۔ سائنس دانوں کی اس مجبوری کو ہم مان لیتے ہیں اور ان کی ان دریافتوں کو بھی درست قرار دینے میں فی الحال کوئی حرج نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا قرآن بھی اسی وحدت کا قائل ہے۔ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ دیکھیے موت کے واقعے کو بیان کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:

وَلَوْ تَرٰٓی إِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآءِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْْرَ الْحَقِّ.(الانعام۶: ۹۳)
’’اور اگر تم دیکھ پاتے اس وقت کو جب یہ ظالم موت کی جان کنیوں میں ہوں گے اور فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے مطالبہ کر رہے ہوں گے کہ تم اپنی جانیں ہمارے حوالے کرو۔ آج تم ذلت کا عذاب دیے جاؤ گے، اس لیے کہ تم اللہ پر ناحق تہمت جوڑتے تھے۔‘‘

اس آیت میں واضح ہے کہ موت جسم سے کسی شے کے الگ ہونے کا نام ہے۔ سائنس دان کے نزدیک موت اس کے سوا کوئی چیز نہیں ہو سکتی کہ اس جسم کی مشینری کسی سبب سے بند ہو گئی ہے۔ بہرحال جس چیز کے لیے قرآن نے جان کا لفظ بولا ہے، وہ اس جسم سے الگ ایک چیز ہے۔ ظاہر ہے جسم ہی کی طرح اس کے بھی کچھ افعال واعمال ہیں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ یہ اپنے افعال واعمال کے لیے اسی جسم کو استعمال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ اس جسم سے الگ ہوتی ہے تو اس کے اعمال وافعال کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے۔

جدید ماہرین کو جسم کی یہی کار کردگی نظر آتی ہے اور وہ اپنی محدودیت کے باعث اسی کو کل سمجھنے پر مجبور ہیں۔ ہم بھی سائنس کی حاکمیت کو ضرور مان لیتے، لیکن اللہ تعالیٰ کے واضح بیان کی روشنی میں ہم سائنس دانوں کے اس فیصلے کی تغلیط کرتے ہیں۔

جب ہم نے یہ مان لیا کہ انسانی شخصیت کے دو حصے ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کی یکجائی کی نوعیت کیا ہے؟ کیا جان پورے جسم میں سرایت کیے ہوئے ہے یا یہ کسی ایک جگہ سے سارے جسم کو استعمال کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اس کے بارے میں کوئی بات بیان نہیں ہوئی۔ البتہ اس میں یہ بات ضرور بیان ہوئی ہے کہ قلب کہاں ہے۔ سورۂ احزاب میں ہے:

مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّن قَلْبَیْْنِ فِیْ جَوْفِہٖ. (۳۳: ۴)
’’اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے۔‘‘

اسی طرح سورۂ حج میں ہے:

اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ.(۲۲: ۴۶)
’’کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ایسے ہو جاتے کہ یہ ان سے سمجھتے یا ان کے کان ایسے ہو جاتے کہ یہ ان سے سنتے، کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘

میرا رجحان یہ ہے کہ یہ دونوں آیتیں قلب کے محاورۃً استعمال ہونے کے تصور کی نفی کرتی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی دل جو سینے میں ہے، کچھ اعمال کا محمل ہے۔ اس رجحان کی وجہ یہ ہے کہ اگر حقیقت اس کے برعکس ہوتی، یعنی دماغ ہی سارے افعال واعمال کا مرکز ہوتا تو قرآن مجید میں دل کا لفظ تو استعمال ہوتا، لیکن اس کے بارے میں اس طرح کے تصریحی جملے نہ ہوتے۔

مثال کے طور پرقرآن کے زمانے میں زمین کو ساکن اور سورج کو اس کے گرد چکر لگانے والا سمجھا جاتا تھا۔ قرآن مجید نے اس تصور کی کہیں تردید نہیں کی، لیکن جب اجرام فلکی کا ذکر کیا تو سب کے بارے میں کہا کہ وہ اپنے اپنے مدار میں گرداں ہیں۔ دل کے معاملے میں بھی یہی ہوناچاہیے تھا۔ جب اس کی عملی حقیقت کو بیان کیا جاتا تو اسے دماغ سے منسوب کیا جاتا۔

ان آیات سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ انسان کی اس صلاحیت کا مرکز کہاں ہے۔ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ اصل میں وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں تو وہ یہ بات واضح کر دیتا ہے کہ اصل میں انسان جو فیصلے کر رہا ہے، اس کی حق قبول کرنے کی صلاحیت اس کے دل کے صحیح کام کرنے پر منحصر ہے۔ دماغ کے عمل اور دل کے عمل کے فرق کی نوعیت وہی ہے جو مشین کے عمل اور آپریٹر کے عمل کے فرق کی ہے۔ یہ درست ہے کہ پروڈکشن دماغ ہی میں ہوتی ہے جسے سائنس دان دیکھتے ہیں، لیکن اس کو وجود میں لانے والی شے اور ہے۔


اسکول کے بچوں کو جنسی تعلیم

سوال:ہائی اسکول کے بچوں کو سیکس کی تعلیم دینے سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ اسلامی شریعت اس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟(شاہ زیب خان)

جواب:بچوں کی تعلیم کے دو مقاصد ہیں: ایک دینی اور ایک دنیوی۔ دینی مقصد یہ ہے کہ بچے اپنے دین سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ انھیں معلوم ہو کہ اصل میں یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے جو اس میں کامیاب ہو گا، وہ آخرت میں اجر پائے گا اور جو اس میں ناکام ہو گا، اسے سزا ملے گی۔ دین کی تمام تعلیمات دراصل اسی امتحان میں کامیابی کو پیش نظر رکھ کر دی گئی ہیں۔

دنیوی مقصد دو ہیں:ایک یہ کہ بچے اپنے بڑوں کے علم، عمل اور روایات کے امین بنیں اور دوسرا یہ کہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے کوئی صلاحیت پیدا کر لیں۔

جنس کی تعلیم ظاہر ہے اس دنیوی مقصد ہی کے ذیل کی چیز ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس حوالے سے ٹوٹکوں، معالجوں اور تصورات کی صورت میں بہت سی غلط چیزیں رائج ہیں اور اس کے لیے مناسب رہنمائی کا اہتمام ہونا چاہیے۔

رہا دین تو وہ ہمیں ہماری دنیا کے مسائل کا حل سکھانے نہیں آیا۔ اس میں ہمیں اپنی عقل پر اعتماد کرنا ہے۔ اوپر بیان کردہ دونوں مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں ہی طے کرنا ہے کہ سیکس کی تعلیم کا مناسب وقت اور تدبیر کیا ہے۔

ہمارا خیال یہ ہے کہ اسکول کے بچوں کو یہ تعلیم اپنے اندر کچھ مفاسد رکھتی ہے۔ اس کے لیے کوئی دوسری صورت اختیار کرنی چاہیے۔


سید لڑکی کی کسی غیر سید سے شادی

سوال:کیا ایک سید لڑکی کی غیر سید سے شادی ہو سکتی ہے حالانکہ سید زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔ اگر یہ شادی ہو جائے تو ان کے بچوں کا کیا ہوگا۔ اگر وہ مستحق ہوں تو کس بنا پر زکوٰۃ لیں گے، اس لیے کہ وہ غیر سید کی اولاد ہیں جبکہ روز قیامت انھیں ماں ہی کے نام سے پکارا جانا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی خاندان میں متضاد قواعد رائج ہوں۔ ان بچوں کو سید کہا جائے گا یا نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کی خصوصی تکریم ہے۔ بچوں میں والد اور والدہ، دونوں کی خصوصیات منتقل ہوتی ہیں۔ ان بچوں کی حیثیت کیا ہے؟(عزیز عالم شاہ)

جواب:سید اور غیر سید کی باہم شادی ہو سکتی ہے۔ پچھلی صدیوں میں اس خاندان کی ہر شاخ میں یہ کام ہوتا رہا ہے اور آیندہ بھی جاری رہے گا۔ شادی نہ کرنے کا تصور برصغیر میں جاگیردارانہ کلچر کی پیداوار ہے۔ میرے علم کی حد تک عربوں میں اس طرح کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ شاید اب پایا جاتا ہے۔ اسلام کسی ہستی کے ساتھ وابستگی کی بنا پر کسی فضیلت کو روا نہیں رکھتا۔ جہاں تک سید ہونے کے مدعی شخص کی عزت کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا مظہر ہے۔ اس سے مسلمانوں کو تو فائدہ حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کا اس سید کو کوئی فائدہ ملنے والا نہیں ہے۔

باقی رہا آپ کا یہ اشکال کہ سید زکوٰۃ نہیں لے سکتا، چنانچہ یہ بچے زکوٰۃ لے سکیں گے یا نہیں؟ عرض ہے کہ ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو زکوٰۃ لینے سے روکنے کا سبب صدیاں ہوئیں ختم ہو چکا ہے۔ استاد محترم نے اپنی کتاب ’’قانون عبادات‘‘ میں اس ضمن میں لکھا ہے:

’’دوسری یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لینے کی ممانعت فرمائی تو اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ تھی کہ اموال فے میں سے ایک حصہ آپ کی اور آپ کے اعزہ واقربا کی ضرورتوں کے لیے مقرر کر دیا گیا تھا۔ یہ حصہ بعد میں بھی ایک عرصے تک باقی رہا۔ لیکن اس طرح کا کوئی اہتمام، ظاہر ہے کہ نہ ہمیشہ کے لیے ہو سکتا ہے اور نہ اسے کرنے کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا بنی ہاشم کے فقراومساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰۃ کے اموال سے اب بغیر کسی تردد کے پور ی کی جا سکتی ہیں۔‘‘(۱۳۰)

قیامت کے روز ماں کے نام سے پکارے جانے کا معاملہ اگر یہ خبر درست ہے تو ہر انسان سے متعلق ہے اور قیامت کے ساتھ خاص ہے۔ اس سے دنیا کے معاملات میں استنباط کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

آپ کا یہ خیال درست ہے کہ ہمارے ہاں خاندان باپ کی نسبت سے طے ہوتا ہے۔ یہ ایک کلچرل مسئلہ ہے۔ اسلام نہ اسے درست قرار دیتا ہے اور نہ غلط۔


موسیقی، ولیمہ اور سنت

سوال:غامدی صاحب نے ٹی وی پروگرام میں ولیمے کے متعلق کہا تھا کہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگوں نے سنت کی غلط تاویلات کی ہیں۔ کیا میں غامدی صاحب سے پوچھ سکتا ہوں کہ سنت کا لغوی مطلب کیا ہے اور سنت نبوی سے کیا مراد ہے۔ صرف قرآن ہی کے بتانے کو سنت مان لیا جائے تو پھر حدیث کا کیا فائدہ۔ انھوں نے موسیقی کے بارے میں بھی کہا تھا کہ یہ کوئی برا عمل نہیں ہے اگر اسے صحیح استعمال کیا جائے۔ ایک تو انھوں نے موسیقی اور شاعری کو ایک ہی پیمانے میں ڈال دیا۔ پھر مجھے یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے؟ (طارق بن یامین)

جواب:پہلی بات تو میں یہ واضح کر دوں کہ آپ نے جن الفاظ میں استاد محترم کا مدعا بیان کیا ہے، وہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے نقطۂ نظر کی صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ بہرحال ان سے آپ کی الجھن سمجھ میں آتی ہے۔

سنت کے لغوی معنی طریقے اور راستے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اس کے معنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ دینی طریقے کے ہیں۔ استاد محترم نے اپنی کتاب ’’اصول ومبادی‘‘ میں سنت کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۔‘‘

اس تعریف سے پہلے انھوں نے قرآن کے ساتھ سنت کو بھی باقاعدہ ماخذ کی حیثیت سے بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اس (دین) کے ماخذ کی تفصیل ہم اس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی وعملی تواتر سے منتقل ہو ا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے:
۱۔ قرآن مجید
۲۔ سنت۔‘‘

ان اقتباسات سے بالکل واضح ہے کہ استاد محترم صرف قرآن مجیدہی کو دین کا ماخذ نہیں سمجھتے اور سنت سے بھی اسی طرح دین اخذ کرتے ہیں جس طرح قرآن مجید سے کرتے ہیں۔ امید ہے ان اقتباسات سے آپ کے یہ اشکال دور ہو گئے ہوں گے۔

ولیمہ کے بارے میں یہ اختلاف ہمیشہ سے ہے کہ یہ کوئی مستقل دینی حکم ہے یا نہیں۔فقہ کی مشہور کتاب ’’بدایۃ المجتہدونہایۃ المقتصد‘‘ میں فقہی آرا کا خلاصہ ان الفاظ میں منقول ہے:

’’ایک گروہ نے جس میں ظاہری علما شامل ہیں، عقیقہ کو واجب قرار دیا ہے۔ جمہور نے اسے سنت کہا ہے۔ امام ابوحنیفہ اسے فرض مانتے ہیں نہ سنت۔ ان کی بات کا ماحصل یہ ہے کہ یہ نفل ہے۔ ‘‘

استاد محترم کی رائے امام ابوحنیفہ کے موافق ہے۔ وہ بھی اسے ایک نفلی قربانی سمجھتے ہیں۔

موسیقی کے حوالے سے آپ کا اشکال یہ ہے کہ موسیقی کا صحیح استعمال کیا ہے۔ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ موسیقی کی رائج صورتوں میں تو قباحت ہی قباحت نظر آتی ہے۔ یہ درست ہے کہ گانوں کی شکل میں جو موسیقی ہر جگہ سنی اور سنائی جا رہی ہے، اسے قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے نزدیک بھی اس طرح کی موسیقی سے پرہیز ہی کرنا چاہیے، لیکن دین کے ایک عالم کو اصولی بات بھی بتانا پڑتی ہے۔ اصولاً موسیقی کو ناجائز قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ موسیقی کے عمومی استعمال میں جو قباحت موجود ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے استاد محترم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ اگر استعمال درست نہ ہو تو یہ گنا ہ ہے۔ جائز موسیقی کی بعض صورتیں ہمارے ہاں بھی موجود ہیں۔ جیسے جنگی اور ملی ترانے، حمدیہ اور نعتیہ کلام، اچھے مضامین کی حامل غزلیں اور نظمیں جنھیں آلات موسیقی کے ساتھ اور فن موسیقی کے مطابق گایا جاتا ہے، موسیقی کے صحیح استعمال کی مثالیں ہیں۔

شاعری اور موسیقی دو الگ الگ فن ہیں، لیکن ان کو یکجا بھی پیش کیا جاتا ہے، اس لیے ان کا ذکر ایک ساتھ ہو جاتا ہے۔ ان میں ایک اور حوالے سے بھی مشابہت ہے۔ موسیقی کی طرح شاعری بھی ایک فن لطیف ہے۔ جس طرح شاعری میں اعلیٰ اور ادنیٰ، علمی، عاشقانہ اور سماجی معاملات نظم کیے جاتے ہیں اسی طرح موسیقی بھی عمدہ اور کم تر مظاہر رکھتی ہے۔ جس طرح شاعری کی بعض صورتیں گناہ ہیں۔ اسی طرح موسیقی کی بعض صورتیں بھی گناہ ہیں۔ غرض یہ کہ فنون لطیفہ تلوار کی طرح ہیں۔ استعمال کرنے والا چاہے تو اسے جہاد میں استعمال کرکے جنت خرید لے اور چاہے تو اسے کسی بے گناہ کو قتل کر کے جہنم واصل ہو۔

___________________

B