اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ میں نے اِس دین کو جس طرح سمجھا ہے، اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ یہ اِسی کتاب کا خلاصہ ہے جس میں کتاب کا نفس مضمون اُس کے علمی مباحث اور اُن کے استدلالات سے الگ کر کے سادہ طریقے پر پیش کر دیا گیا ہے۔جاوید
دین کا مقصد تزکیہ ہے ۔ اِس کے منتہاے کمال تک پہنچنے کا ذریعہ اللہ اور بندے کے درمیان عبد و معبود کے تعلق کا اُس کے صحیح طریقے سے قائم ہو جانا ہے۔ یہ تعلق جتنا محکم ہوتا ہے، انسان اپنے علم و عمل کی پاکیزگی میں اتنا ہی ترقی کرتا ہے۔ محبت، خوف، اخلاص و وفا اور اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نعمتوں اور بے نہایت احسانات کے لیے احساس و اعتراف کے جذبات، یہ اِس تعلق کے باطنی مظاہر ہیں۔ انسان کے شب و روز میں اِس کا ظہور بالعموم تین ہی صورتوں میں ہوتا ہے: پرستش، اطاعت اور حمیت و حمایت۔ انبیا علیہم السلام کے دین میں عبادات اِسی تعلق کی یاددہانی کے لیے مقرر کی گئی ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ پرستش ہے۔ قربانی اور عمرہ کی حقیقت بھی یہی ہے۔ روزہ و اعتکاف اطاعت اور حج اللہ تعالیٰ کے لیے حمیت و حمایت کا علامتی اظہار ہے ۔
اِن میں اہم ترین عبادت نما زہے۔ دین کی حقیقت، اگر غور کیجیے تو معبود کی معرفت اور اُس کے حضور میں خوف و محبت کے جذبات کے ساتھ خضوع و تذلل ہی ہے۔ اِس حقیقت کا سب سے نمایاں ظہور پرستش ہے۔ تسبیح و تحمید، دعا و مناجات اور رکوع و سجود اِس پرستش کی عملی صورتیں ہیں۔ نماز یہی ہے اور اِن سب کو غایت درجہ حسن توازن کے ساتھ اپنے اندر جمع کر لیتی ہے۔
دین میں اِس عبادت کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ ایمانیات میں جو حیثیت توحید کی ہے، وہی اعمال میں نماز کی ہے۔ یہ خدا کی یاد کو قائم رکھنے کے لیے فرض کی گئی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات الٰہی کی تذکیر سے خدا کی جو معرفت حاصل ہوتی ہے اور اُس سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت اور شکرگزاری کے جو جذبات انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں یا ہونے چاہییں، اُن کا پہلا ثمرہ یہی نماز ہے۔ یہ اسلام کا ستون ہے، دنیا اور آخرت میں آدمی کے مسلمان سمجھے جانے کی شرائط میں سے ہے، دین پر قائم رہنے کا ذریعہ ہے، مشکل کشا ہے، گناہوں کو مٹاتی ہے، دعوت حق کی پہچان ہے، راہ حق میں استقامت کی بنیاد ہے، کائنات کی فطرت ہے، حقیقی زندگی ہے۔ خدا کی معرفت، اُس کا ذکر و فکر اور اُس کی قربت کا احساس جب منتہاے کمال کو پہنچتا ہے تو نماز بن جاتا ہے۔ دنیا کے سب عارفوں کا فیصلہ ہے کہ اصل زندگی دل کی زندگی ہے اور دل کی زندگی یہی معرفت، ذکر و فکر اور قربت الٰہی ہے۔ یہ زندگی انسان کو صرف نماز سے حاصل ہوتی ہے اور نماز ہی سے باقی رہتی ہے۔
اِس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی خود مذہب کی ہے۔ اِس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے اور اِس کے مراسم اور اوقات بھی کم و بیش متعین رہے ہیں۔ ہندووں کے بھجن، پارسیوں کے زمزمے، عیسائیوں کی دعائیں اور یہودیوں کے مزامیر، سب اِسی کی یادگاریں ہیں۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبروں نے اِس کی تعلیم دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جس دین ابراہیمی کی تجدید کے لیے ہوئی، اُس میں بھی اِس کی حیثیت سب سے نمایاں ہے۔ قرآن نے جب لوگوں کو اِس کا حکم دیا تو یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ وہ اِس کے آداب و شرائط اور اعمال و اذکار سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ اِس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن اِس کی تفصیلات بیان کرتا۔ دین ابراہیمی کی ایک روایت کی حیثیت سے یہ جس طرح ادا کی جاتی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے حکم پر بعض ترامیم کے ساتھ اِسے ہی اپنے ماننے والوں کے لیے جاری فرمایا اور نسلاً بعد نسلٍ، وہ اُسی طرح اِسے ادا کر رہے ہیں۔
نماز کے لیے جن چیزوں کا اہتمام ضروری ہے، وہ یہ ہیں:
نماز پڑھنے والا نشے میں نہ ہو،
وہ اگر عورت ہے تو حیض و نفاس کی حالت میں نہ ہو،
وہ باوضو ہو اور حیض و نفاس یا جنابت کے بعد اُس نے غسل کر لیا ہو،
سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں، یہ دونوں مشکل ہو جائیں تو وہ تیمم کر لے،
قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز کے لیے کھڑا ہو۔
وضو کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے منہ دھویا جائے، پھر کہنیوں تک ہاتھ دھوئے جائیں، پھر پورے سر کا مسح کیا جائے اور اِس کے بعد پاؤں دھو لیے جائیں۔
وضو اگر ایک مرتبہ کر لیا جائے تو اُس وقت تک قائم رہتا ہے، جب تک کوئی ناقض حالت آدمی کو پیش نہ آ جائے۔ چنانچہ وضو کی یہ ہدایت اُس حالت کے لیے ہے، جب وضو باقی نہ رہا ہو، الاّ یہ کہ کوئی شخص نشاط خاطر کے لیے تازہ وضو کر لے۔
اِس کے نواقض درج ذیل ہیں :
۱۔ پیشاب کرنا ۔
۲۔پاخانہ کرنا۔
۳۔ ریح کا خارج ہونا، خواہ آواز سے ہو یا آہستہ ۔
۴۔ مذی یا ودی کا خارج ہونا۔
سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں وضو اور غسل، دونوں مشکل ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی پاک جگہ دیکھ کر اُس سے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لیا جائے۔ یہ ہر قسم کی نجاست میں کفایت کرتا ہے۔ وضو کے نواقض میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو اِس کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے اور مباشرت کے بعد غسل جنابت کی جگہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ مرض اور سفر کی حالت میں پانی موجودہوتے ہوئے بھی آدمی تیمم کر سکتا ہے۔
اِس سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اگر غور کیجیے تو اصل طریقۂ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو جائے تو شبہی صورت میں اُس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔
نماز کے لیے جو اعمال مقرر کیے گئے ہیں، وہ یہ ہیں:
نماز کی ابتدا رفع یدین سے، یعنی دونوں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھا کر کی جائے،
قیام کیا جائے،
پھر رکوع کیا جائے،
پھر آدمی قومہ کے لیے کھڑا ہو،
پھر یکے بعد دیگرے دو سجدے کیے جائیں،
ہر نماز کی دوسری اور آخری رکعت میں نماز پڑھنے والا دوزانو ہو کر قعدے کے لیے بیٹھے،
نماز ختم کرنا پیش نظر ہو تو قعدے کی حالت میں منہ پھیر کر نماز ختم کر دی جائے۔
نماز کے اذکار درج ذیل ہیں:
نماز شروع کرتے ہوئے ’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہا جائے،
قیام میں سورۂ فاتحہ کی تلاوت کی جائے، پھر اپنی سہولت کے مطابق باقی قرآن کے کچھ حصے کی تلاوت کی جائے،
رکوع میں جاتے ہوئے ’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہا جائے،
رکوع سے اٹھتے ہوئے ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘ کہا جائے،
سجدوں میں جاتے اور اُن سے اٹھتے ہوئے ’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہا جائے،
قعدے سے قیام کے لیے اٹھتے ہوئے بھی ’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہا جائے،
نماز ختم کرنے کے لیے ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘ کہا جائے۔
’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ (اللہ سب سے بڑا ہے)، ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ‘ (اللہ نے اُس کی بات سن لی جس نے اُس کی حمد کی) اور ’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘ (تم پر سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو) امام ہمیشہ بالجہر، یعنی بلند آواز سے کہے گا۔ مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتوں میں، اور فجر، جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں قرا ء ت بھی بلند آواز سے کی جائے گی۔ مغرب کی تیسری اور عشا کی تیسری اور چوتھی رکعت میں یہ ہمیشہ سری ہوگی۔ ظہر اور عصر کی نمازوں میں بھی یہی طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ اِن کی چاروں رکعتوں میں قرا ء ت سری ہوگی۔
نماز کے لیے شریعت کے مقرر کر دہ اذکار یہی ہیں اور اِن کی زبان عربی ہے، اِن کے علاوہ نماز پڑھنے والا جس زبان میں چاہے، تسبیح و تحمید اور دعا و مناجات کی نوعیت کا کوئی ذکر اپنی نماز میں کر سکتا ہے۔
نماز مسلمانوں پر شب و روز میں پانچ وقت فرض کی گئی ہے۔ یہ اوقات درج ذیل ہیں:
فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا۔
صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ ہو جائے تو یہ فجر ہے۔
ظہر سورج کے نصف النہار سے ڈھلنے کا وقت ہے۔
سورج مرأی العین سے نیچے آجائے تو یہ عصر ہے۔
سورج کے غروب ہو جانے کا وقت مغرب ہے۔
شفق کی سرخی ختم ہو جائے تو یہ عشا ہے۔
فجر کا وقت طلوع آفتاب تک، ظہر کا عصر، عصر کا مغرب، مغرب کا عشا اور عشا کا وقت آدھی رات تک ہے۔ سورج کے طلوع و غروب کے وقت چونکہ اُس کی عبادت کی جاتی تھی، اِس لیے یہ دونوں وقت نماز کے لیے ممنوع قرار دیے گئے ہیں۔ ابنیا علیہم السلام کے دین میں نماز کے اوقات ہمیشہ یہی رہے ہیں۔
نماز کے لیے جو رکعتیں مقرر کی گئی ہیں، وہ یہ ہیں:
فجر: ۲رکعت
ظہر: ۴رکعت
عصر: ۴رکعت
مغرب: ۳رکعت
عشا: ۴رکعت
نماز کی فرض رکعتیں یہی ہیں جن کے چھوڑنے پر قیامت میں مواخذہ ہوگا۔ چنانچہ اُن صورتوں کے سوا جن میں قصر کی اجازت دی گئی ہے، یہ لازماً پڑھی جائیں گی۔ اِن کے علاوہ باقی سب نمازیں نفل ہیں جن کا پڑھنا باعث اجر ہے، لیکن اُن کے چھوڑ دینے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی مواخذے کا اندیشہ نہیں ہے۔
نماز کا وقت کسی خطرے، پریشانی، افراتفری اور آپا دھاپی کی حالت میں آجائے تو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو، نماز پڑھ لی جائے۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ جماعت کا اہتمام نہیں ہوگا، قبلہ رو ہونے کی پابندی بھی برقرار نہ رہے گی اور نماز کے اعمال بھی بعض صورتوں میں اُن کے لیے مقرر کردہ طریقے پر ادا نہ ہو سکیں گے۔
اِس طرح کی صورت حال کسی سفر میں پیش آجائے تو قرآن نے مزید فرمایا ہے کہ لوگ نماز میں کمی بھی کر سکتے ہیں۔ اصطلاح میں اِسے قصر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے لیے یہ سنت قائم کی ہے کہ صرف چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھی جائیں گی۔ دو اور تین رکعت والی نمازوں میں کوئی کمی نہ ہو گی۔ چنانچہ فجر اور مغرب کی نمازیں اِ س طرح کے موقعوں پر بھی پوری پڑھیں گے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ فجر پہلے ہی دو رکعت ہے اور مغرب دن کے وتر ہیں، اِن کی یہ حیثیت تبدیل نہیں ہو سکتی۔
نماز میں تخفیف کی اِس اجازت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اِس طرح کے سفروں میں ظہرو عصر، اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔
نماز اگرچہ تنہا بھی ادا کی جا سکتی ہے،لیکن بہتر یہی ہے کہ اِس کو جماعت کے ساتھ اور ممکن ہو تو کسی معبد میں جا کر ادا کیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی مقصد سے یثرب پہنچ کر سب سے پہلے مسجد تعمیر کی اور مسلمانوں کی ہر بستی اور ہر محلے میں تعمیر مساجد کی روایت اِس کے ساتھ ہی قائم ہو گئی۔ اِن کی حاضری اور نماز باجماعت کا اہتمام بڑی فضیلت کی چیز ہے۔ عورتیں بے شک اِس سے مستثنیٰ ہیں، لیکن کسی مسلمان مرد کو بغیر کسی عذر کے اِس سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔
قیام جماعت کا طریقہ درج ذیل ہے:
۱۔ نماز سے پہلے اذان دی جائے گی تاکہ لوگ اِسے سن کر جماعت میں شامل ہو سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے جو کلمات مقرر فرمائے ہیں، وہ یہ ہیں:
اَللّٰہُ اَکْبَرُ؛ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ؛ اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَدً رَّسُوْلُ اللّٰہِ؛ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ؛ حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ؛ اَللّٰہُ اَکْبَرُ؛ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.
’’اللہ سب سے بڑا ہے؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے؛ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؛ نماز کی طرف آؤ؛ فلاح کی طرف آؤ؛ اللہ سب سے بڑا ہے؛ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔‘‘
۲۔ ایک ہی مقتدی ہو تو وہ امام کے دائیں جانب اُس کے ساتھ کھڑا ہو گا اور زیادہ ہوں تو امام درمیان میں ہوگا اور وہ اُس کے پیچھے صف بنا کر کھڑے ہوں گے۔
۳۔ نماز کھڑی کرنے کے لیے اقامت کہی جائے گی۔ اُس میں اذان ہی کے الفاظ دہرائے جائیں گے۔ اتنا فرق، البتہ ہو گا کہ ’حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘ کے بعد اقامت کہنے والا ’قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ‘ (نماز کھڑی ہو گئی ہے) بھی کہے گا۔
۴۔ اذان کے کلمات پیشِ نظر مقصد کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ دہرائے جائیں گے۔
۵۔ اقامت کے کلمات بھی اگر ضرورت ہو تو اِسی طرح دہرائے جا سکتے ہیں۔
نماز کے لیے جو اعمال و اذکار مقرر کیے گئے ہیں، اُن میں کوئی غلطی ہو جائے یا شبہ ہو کہ غلطی ہوئی ہے تو یہ سنت قائم کی گئی ہے کہ غلطی کی تلافی کرنا ممکن ہو تو تلافی کے بعد اور ممکن نہ ہو تو اِس کے بغیر ہی نماز کے آخر میں دو سجدے زیادہ کر لیے جائیں۔
جمعہ کے دن مسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے کہ نماز ظہر کی جگہ وہ اِسی دن کے لیے خاص ایک اجتماعی نماز کا اہتمام کریں گے۔ اِس نماز کا طریقہ یہ ہے:
یہ نماز دو رکعت پڑھی جائے گی،
نماز ظہر کے برخلاف اِس کی دونوں رکعتوں میں قرا ء ت جہری ہو گی،
نماز کے لیے تکبیر کہی جائے گی،
نماز سے پہلے امام حاضرین کی تذکیر و نصیحت کے لیے دو خطبے دے گا۔ یہ خطبے کھڑے ہو کر دیے جائیں گے۔ پہلے خطبے کے بعد اور دوسرا خطبہ شروع ہونے سے قبل امام چند لمحوں کے لیے بیٹھے گا،
نماز کی اذان اُس وقت دی جائے گی، جب امام خطبے کی جگہ پر آجائے گا،
اذان ہوتے ہی تمام مسلمان مردوں کے لیے ضروری ہے کہ اُن کے پاس اگر کوئی عذر نہ ہو تو اپنی مصروفیات چھوڑ کر نماز کے لیے حاضر ہو جائیں،
نماز کا خطاب اور اُس کی امامت مسلمانوں کے ارباب حل و عقد کریں گے اور یہ صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائے گی جو اُن کی طرف سے اِس نماز کی جماعت کے لیے مقرر کیے جائیں گے اور جہاں وہ خود یا اُن کا کوئی نمائندہ اِس کی امامت کے لیے موجود ہو گا۔
عید الفطر اور عید الاضحی کے دن بھی مسلمانوں پر لازم ہے کہ طلوع آفتاب کے بعد اور زوال سے پہلے وہ جمعہ ہی کی طرح ایک اجتماعی نماز کا اہتمام کریں۔ اِس کا طریقہ درج ذیل ہے:
یہ نماز دو رکعت پڑھی جائے گی،
دونوں رکعتوں میں قرا ء ت جہری ہو گی،
قیام کی حالت میں نمازی چند زائد تکبیریں کہیں گے،
نماز کے لیے نہ اذان ہو گی اور نہ تکبیر کہی جائے گی،
نماز کے بعد امام حاضرین کی تذکیر و نصیحت کے لیے دو خطبے دے گا۔یہ خطبے کھڑے ہو کر دیے جائیں گے۔ پہلے خطبے کے بعد اور دوسرا خطبہ شروع کرنے سے قبل امام چند لمحوں کے لیے بیٹھے گا۔
اِس نماز کا خطاب اور اِس کی امامت بھی نماز جمعہ کی طرح مسلمانوں کے ارباب حل و عقد ہی کریں گے اور یہ اُنھی مقامات پر ادا کی جائے گی جو اُن کی طرف سے اِس نماز کی جماعت کے لیے مقرر کیے جائیں گے اور جہاں وہ خود یا اُن کا کوئی نمائندہ اِس کی امامت کے لیے موجود ہو گا۔
مرنے والوں کے لیے جنازہ کی نماز بھی انبیا علیہم السلام کے دین میں ضروری قرار دی گئی ہے۔
میت کو نہلانے اور اُس کی تجہیز و تکفین کے بعد یہ نماز جس طریقے سے ادا کی جائے گی، وہ یہ ہے:
میت کو اپنے اور قبلہ کے درمیان رکھ کر مقتدی امام کے پیچھے صف بنا لیں گے،
رفع یدین کے ساتھ ’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہہ کر نماز شروع کی جائے گی،
عیدین کی طرح اِس نماز میں بھی چند زائد تکبیریں کہی جائیں گی،
قیام کی حالت ہی میں تکبیرات اور دعاؤں کے بعد سلام پھیر کر نماز ختم کر دی جائے گی۔
نماز کی صورت میں کم سے کم یہی عبادت ہے جس کا مسلمانوں کو مکلف ٹھیرایا گیا ہے۔ تاہم قرآن کا ارشاد ہے کہ جس نے اپنے شوق سے نیکی کا کوئی کام کیا، اُسے اللہ قبول کرنے والا ہے۔ اِسی طرح فرمایا ہے کہ مصیبت کے موقعوں پر صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ چنانچہ اِن ارشادات کے پیش نظر مسلمان اِس لازمی نماز کے علاوہ بالعموم نوافل کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ اِس طرح کے جو نوافل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھے ہیں یا لوگوں کو پڑھنے کی ترغیب دی ہے، اُن کی تفصیلات روایتوں میں دیکھ لی جا سکتی ہیں۔
نماز کے بعد یہ دوسری اہم ترین عبادت ہے۔ اپنے معبودوں کے لیے پرستش کے جو آداب انسان نے بالعموم اختیار کیے ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مال، مواشی اور پیداوار میں سے ایک حصہ اُن کے حضور میں نذر کے طور پر پیش کیا جائے۔ اِسے صدقہ، نیاز، نذرانے اور بھینٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انبیا علیہم السلام کے دین میں زکوٰۃ کی حیثیت اصلاً یہی ہے اور اِسی بنا پر اِسے عبادت قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن نے کئی جگہ اِس کے لیے لفظ صدقہ استعمال کیا ہے اور وضاحت فرمائی ہے کہ اِسے دل کی خستگی اور فروتنی کے ساتھ ادا کیا جائے۔ اِس کے بارے میں عام روایت یہ رہی ہے کہ نذر گزارنے کے بعد اِسے معبد سے اٹھا کر اُس کے خدام کو دیا جاتا تھا کہ وہ اِس سے عبادت کے لیے آنے والوں کی خدمت کریں۔ اب یہ طریقہ باقی نہیں رہا۔ اِس کی جگہ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ نظم اجتماعی کی ضرورتوں کے لیے یہ مال ارباب حل و عقد کے سپرد کر دیا جائے۔ تاہم اِس کی حقیقت میں اِس سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ خدا ہی کے لیے خاص ہے اور اُس کے بندے جب اِسے ادا کرتے ہیں تو اِس کی پذیرائی کا فیصلہ بھی اُسی بارگاہ سے ہوتا ہے۔
اِس کی تاریخ وہی ہے جو نماز کی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کی طرح اِس کا حکم بھی انبیا علیہم السلام کی شریعت میں ہمیشہ موجود رہا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جب مسلمانوں کو اِس کے ادا کرنے کی ہدایت کی تو یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔ دین ابراہیمی کے تمام پیرو اِس کے احکام سے پوری طرح واقف تھے۔ چنانچہ یہ پہلے سے موجود ایک سنت تھی جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے اور ضروری اصلاحات کے بعد مسلمانوں میں جاری فرمایا ہے۔
اِس کا مقصد، اگر غور کیجیے تو اِس کے نام ہی سے متعین ہو جاتا ہے۔ اِس لفظ کی اصل نمو اور طہارت ہے۔ لہٰذا اِس سے مراد وہ مال ہے جو پاکیزگی اور طہارت حاصل کرنے کے لیے دیا جائے۔ اِس سے واضح ہے کہ زکوٰۃ کا مقصد وہی ہے جو پورے دین کا ہے۔ یہ نفس کو اُن آلایشوں سے پاک کرتی ہے جو مال کی محبت سے اُس پر آسکتی ہیں، مال میں برکت پیدا کرتی ہے اور نفس انسانی کے لیے اُس کی پاکیزگی کو بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔ اللہ کی راہ میں انفاق کا یہ کم سے کم مطالبہ ہے جسے ایک مسلمان کو ہر حال میں پورا کرناہے، اِس لیے اِس سے وہ سب کچھ تو حاصل نہیں ہوتا جو اِس سے آگے انفاق کے عام مطالبات کو پورا کرنے سے حاصل ہوتا ہے، تاہم انسان کا دل اِس سے بھی اپنے پروردگار سے لگ جاتا اور اللہ تعالیٰ سے وہ غفلت بڑی حد تک دور ہو جاتی ہے جو دنیا اور اسباب دنیا کے ساتھ تعلق خاطر کی وجہ سے اُس پر طاری ہوتی ہے۔
زکوٰۃ کا قانون درج ذیل ہے:
۱۔ پیداوار، تجارت اور کاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی چیزوں اور حدنصاب سے کم سرمایے کے سوا کوئی چیز بھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہر مال، ہر قسم کے مواشی اور ہر نوعیت کی پیداوار پر عائد ہو گی اور ہر سال ریاست کے ہر مسلمان شہری سے لازماً وصول کی جائے گی۔
۲۔ اِس کی شرح یہ ہے:
مال میں ۲ /۱ ۲ فی صدی سالانہ ۔
پیداوار میں اگر وہ اصلاً محنت یا اصلاً سرمایے سے وجود میں آئے تو ہر پیداوارکے موقع پراُس کا ۱۰فی صدی، اور اگر محنت اورسرمایہ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو۵ فی صدی، اور دونوں کے بغیر محض عطےۂ خداوندی کے طور پر حاصل ہو جائے تو ۲۰ فی صدی ۔
مواشی میں
ا۔ اونٹ
۵سے ۲۴تک ،ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکر ی
۲۵سے ۳۵تک، ایک یک سالہ اونٹنی اور اگر وہ میسر نہ ہو تو دوسالہ اونٹ
۳۶ سے ۴۵تک، ایک دو سالہ اونٹنی
۴۶سے ۶۰تک، ایک سہ سالہ اونٹنی
۶۱ سے ۷۵تک، ایک چار سالہ اونٹنی
۷۶سے ۹۰تک، دو، دوسالہ اونٹنیاں
۹۱سے ۱۲۰تک، دو، سہ سالہ اونٹنیاں
۱۲۰سے زائد کے لیے ہر ۴۰ پر ایک دوسالہ اورہر ۵۰ پرایک سہ سالہ اونٹنی۔
ب۔گائیں
ہر ۳۰ پرایک یک سالہ اور ہر ۴۰پرایک دو سالہ بچھڑا۔
ج۔بکریاں
۴۰سے ۱۲۰ تک،ایک بکری
۱۲۱سے ۲۰۰ تک، دوبکریاں
۲۰۱ سے ۳۰۰ تک، تین بکریاں
۳۰۰ سے زائد میں ہر ۱۰۰ پرایک بکری۔
۳۔ زکوٰۃ کے جو مصارف قرآن میں بیان ہوئے ہیں، اُن کی تفصیل یہ ہے:
فقرا و مساکین کے لیے۔
ریاست کے تمام ملازمین کی خدمات کے معاوضے میں۔
اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تمام سیاسی اخراجات کے لیے۔
ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لیے۔
کسی نقصان، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لیے۔
دین کی خدمت اور لوگوں کی بہبود کے کاموں میں
مسافروں کی مدد اور اُن کے لیے سڑکوں، پلوں، سراؤں وغیرہ کی تعمیر کے لیے۔
۴۔ زکوٰۃ کی ایک قسم صدقۂ فطر بھی ہے۔ یہ ایک فرد کے لیے صبح و شام کا کھانا ہے جو چھوٹے بڑے ہر شخص کے لیے دینا لازم کیا گیا ہے اور رمضان کے اختتام پر نماز عید سے پہلے دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اِسے بالعموم اناج کی صورت میں ادا کیا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ نے اِس کی مقدار ایک صاع، یعنی تقریباً ڈھائی کلو گرام مقرر کر دی تھی۔
نماز اور زکوٰۃ کے بعد تیسری اہم عبادت روزہ ہے۔ عربی زبان میں اِس کے لیے ’ صوم‘ کا لفظ آتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رک جانے اور اُس کو ترک کردینے کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ خاص حدود وقیود کے ساتھ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اِسی کو روزہ کہتے ہیں۔ انسان چونکہ اِس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے، اِس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے اُس کا جذبۂ عبادت جب اُس کے عملی وجود سے متعلق ہوتا ہے تو پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہوجاتا ہے۔ روزہ اِسی اطاعت کا عملی اظہارہے۔ اِس میں بندہ اپنے پروردگار کے حکم پراور اُس کی رضا اور خوشنودی کی طلب میں بعض مباحات کو اپنے لیے حرام قرار دے کر مجسم اطاعت بن جاتا او راِس طرح گویا زبان حال سے اِس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے حکم سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ اگر قانون فطرت کی رو سے جائز کسی شے کو بھی اُس کے لیے ممنوع ٹھیرا دیتا ہے تو بندے کی حیثیت سے زیبا یہی ہے کہ وہ بے چون وچرا اِس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔
اللہ کی عظمت و جلالت اور اُس کی بزرگی اور کبریائی کے احساس واعتراف کی یہ حالت، اگر غور کیجیے تو اُس کی شکر گزاری کا حقیقی اظہار بھی ہے۔ چنانچہ قرآن نے اِسی بنا پر روزے کو خدا کی تکبیر اور شکر گزاری قرار دیا اور فرمایاہے کہ اِس مقصد کے لیے رمضان کا مہینا اِس لیے خاص کیا گیا ہے کہ قرآن کی صورت میں اللہ نے جو ہدایت اِس مہینے میں تمھیں عطا فرمائی ہے اور جس میں عقل کی رہنمائی اورحق وباطل میں فرق و امتیاز کے لیے واضح اورقطعی حجتیں ہیں، اُس پراللہ کی بڑائی کرو اور اُس کے شکرگزار بنو۔ روزے کی یہی حقیقت ہے جس کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ روزہ اللہ کے لیے ہے اور وہی اُس کی جزا دے گا۔ یعنی بندے نے جب بغیر کسی سبب کے محض اللہ کے حکم کی تعمیل میں بعض جائز چیزیں بھی اپنے لیے ممنوع قرار دے لی ہیں تو اب وہ ناپ تول کر اور کسی حساب سے نہیں، بلکہ خاص اپنے کرم اور اپنی عنایت سے اُس کا اجر دے گا اور اِس طرح بے حساب دے گا کہ وہ نہال ہوجائے گا۔
اِس کا منتہاے کمال یہ ہے کہ آدمی روزے کی حالت میں اپنے اوپر مزید کچھ پابندیاں عائد کر کے اوردوسروں سے الگ تھلگ ہو کر چند دنوں کے لیے مسجد میں بیٹھ جائے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرے۔ اصطلاح میں اِسے اعتکاف کہا جاتا ہے۔ یہ اگرچہ رمضان کے روزوں کی طرح لازم تو نہیں کیا گیا، لیکن تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ روزہ ونماز اور تلاوت قرآن کے امتزاج سے جو خاص کیفیت اِس سے پیدا ہوتی اور نفس پر تجرد وانقطاع اورتبتل الی اللہ کی جو حالت طاری ہو جاتی ہے، اُس سے روزے کااصلی مقصود درجۂ کمال پرحاصل ہوتا ہے۔
نماز کی طرح روزے کی تاریخ بھی نہایت قدیم ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ روزہ مسلمانوں پر اُسی طرح فرض کیا گیا، جس طرح وہ پہلی قوموں پرفرض کیا گیا تھا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ تربیت نفس کی ایک اہم عبادت کے طور پر اِس کا تصور تمام مذاہب میں رہا ہے۔
اس کا مقصد قرآن نے یہ بیان کیاہے کہ لوگ خدا کا تقویٰ اختیار کر لیں۔ قرآن کی اصطلاح میں تقویٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے شب وروزکو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حدود کے اندر رکھ کر زندگی بسر کرے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اِس بات سے ڈرتا رہے کہ اُس نے اگر کبھی اِن حدود کو توڑا تو اِس کی پاداش سے اللہ کے سوا کوئی اُس کو بچانے والا نہیں ہو سکتا۔
اِس کا قانون درج ذیل ہے:
روزے کی نیت سے اور محض اللہ کی خوشنودی کے لیے کھانے پینے اور بیویوں کے ساتھ تعلق سے اجتناب ہی روزہ ہے۔
یہ پابندی فجر سے لے کر رات کے شروع ہونے تک ہے، لہٰذا روزے کی راتوں میں کھانا پینا اور بیویوں کے پاس جانا بالکل جائز ہے۔
روزوں کے لیے رمضان کا مہینا خاص کیا گیا ہے، اِس لیے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو، اُس پر فرض ہے کہ اِس پورے مہینے کے روزے رکھے۔
بیماری یا سفر کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کے باعث آدمی اگر رمضان کے روزے پورے نہ کر سکے تو لازم ہے کہ دوسرے دنوں میں رکھ کر اُس کی تلافی کرے اور یہ تعداد پوری کر دے۔
حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ تاہم اِس طرح چھوڑے ہوئے روزے بھی بعدمیں لازماً پورے کیے جائیں گے۔
روزے کا منتہاے کمال اعتکاف ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر کسی شخص کو اِس کی توفیق دے تو اُسے چاہیے کہ روزوں کے مہینے میں جتنے دنوں کے لیے ممکن ہو، دنیا سے الگ ہو کر اللہ کی عبادت کے لیے مسجد میں گوشہ نشین ہو جائے اور بغیر کسی ناگزیر انسانی ضرورت کے مسجد سے باہر نہ نکلے۔
آدمی اعتکاف کے لیے بیٹھا ہو تو روزے کی راتوں میں کھانے پینے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن بیویوں کے پاس جانا اُس کے لیے جائز نہیں رہتا۔ اعتکاف کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے اِسے ممنوع قرار دیا ہے۔
یہ دونوں عبادات دین ابراہیمی میں عبادت کا منتہاے کمال ہیں۔ اِن کی تاریخ اُس منادی سے شروع ہوتی ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے مسجد حرام کی تعمیر کے بعد کی تھی کہ لوگ خداوند کی نذر چڑھانے کے لیے آئیں اور توحید پر ایمان کا جو عہد اُنھوں نے باندھ رکھا ہے، اُسے یہاں آکر تازہ کریں۔
اپنے معبود کے لیے جذبۂ پرستش کا یہ آخری درجہ ہے کہ اُس کے طلب کرنے پر بندہ اپنا جان و مال، سب اُس کے حضور میں نذر کر دینے کے لیے حاضر ہو جائے۔ حج و عمرہ اِسی نذر کی تمثیل ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کو ممثل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ اجمال ہے اور حج اِس لحاظ سے اُس کی تفصیل کر دیتا ہے کہ اِس سے وہ مقصد بھی بالکل نمایاں ہو کر سامنے آجاتا ہے جس کے لیے جان و مال نذر کر دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آدم کی تخلیق سے اُس کی جو اسکیم دنیا میں برپا ہوئی ہے، ابلیس نے پہلے دن ہی سے اُس کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ چنانچہ اللہ کے بندے اب قیامت تک کے لیے اپنے اِس ازلی دشمن اوراِس کی ذریت کے خلاف برسرجنگ ہیں۔ یہی اِس دنیا کی آزمایش ہے جس میں کامیابی اور ناکامی پر انسان کے ابدی مستقبل کا انحصار ہے۔ اپنا جان ومال ہم اِسی جنگ کے لیے اللہ کی نذر کرتے ہیں۔ ابلیس کے خلاف اِس جنگ کو حج میں ممثل کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل اس طرح ہے:
اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال ومتاع اوراُس کی لذتوں اورمصروفیتوں سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
پھر ’لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ‘ کہتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچتے اوربالکل مجاہدین کے طریقے پر ایک وادی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔
اگلے دن ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے، اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا و مناجات کرتے اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں۔
تمثیل کے تقاضے سے نمازیں قصر اورجمع کرکے پڑھتے اور راستے میں مختصر پڑاؤ کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ڈیروں پرپہنچ جاتے ہیں۔
پھر شیطان پرسنگ باری کرتے، اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنے آپ کو خداوند کی نذر کرتے، سرمنڈاتے اور نذر کے پھیروں کے لیے اصل معبد اورقربان گاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔
پھر وہاں سے لوٹتے اوراگلے دویا تین دن اِسی طرح شیطان پر سنگ باری کرتے رہتے ہیں۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو حج وعمرہ میں احرام اِس بات کی علامت ہے کہ بندۂ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اور مرغوبات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور دو اَن سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر وہ برہنہ سر اور کسی حد تک برہنہ پا بالکل راہبوں کی صورت بنائے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے۔
تلبیہ اُس صدا کا جواب ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت الحرام کی تعمیر نو کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر بلند کی تھی۔ اب یہ صدا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے اوراللہ کے بندے اُس کی نعمتوں کا اعتراف اور اُس کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے اِس صدا کے جواب میں ’ لَبَّیْکَ، اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ‘ کا یہ دل نواز ترانہ پڑھتے ہیں۔
طواف نذر کے پھیرے ہیں۔ دین ابراہیمی میں یہ روایت قدیم سے چلی آرہی ہے کہ جس کی قربانی کی جائے یا جس کو معبد کی خدمت کے لیے نذر کیا جائے، اُسے معبد یا قربان گاہ کے سامنے پھرایا جائے۔
حجراسود کا استلام تجدید عہد کی علامت ہے۔ اِس میں بندہ اِس پتھر کوتمثیلاً اپنے پروردگار کا ہاتھ قرار دے کر اِس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا اورعہد ومیثاق کی قدیم روایت کے مطابق اِس کو چوم کر اپنے اِس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اسلام قبول کرکے وہ جنت کے عوض اپنا جان ومال، سب اللہ کے سپرد کرچکا ہے۔
سعی اسمٰعیل علیہ السلام کی قربان گاہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیم نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اِس قربان گاہ کو دیکھا تھا اورپھر حکم کی تعمیل کے لیے ذرا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے مروہ کی طرف گئے تھے۔ چنانچہ صفا ومروہ کا یہ طواف بھی نذر کے پھیرے ہیں جو پہلے معبد کے سامنے اور اِس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔
عرفات معبد کا قائم مقام ہے، جہاں شیطان کے خلاف اِس جنگ کے مجاہدین جمع ہوتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا ومناجات کرتے ہیں۔
مزدلفہ راستے کا پڑاؤ ہے، جہاں وہ رات گزارتے اور صبح اُٹھ کر میدان میں اترنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر دعاومناجات کرتے ہیں۔
رمی ابلیس پر لعنت اور اُس کے خلاف جنگ کی علامت ہے۔ یہ عمل اِس عزم کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ بندۂ مومن ابلیس کی پسپائی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوگا۔ یہ معلوم ہے کہ انسان کا یہ ازلی دشمن جب وسوسہ انگیزی کرتا ہے تو اِس کے بعد خاموش نہیں ہوجاتا، بلکہ یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ تاہم مزاحمت کی جائے تو اِس کی تاخت بتدریج کمزور ہوجاتی ہے۔ تین دن کی رمی اوراِس کے لیے پہلے بڑے اور اِس کے بعد چھوٹے جمرات کی رمی سے اِسی بات کو ظاہر کیا گیا ہے۔
قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال مونڈنا اِس بات کی علامت ہے کہ نذرپیش کردی گئی اور اب بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اِس علامت کے ساتھ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر غیر معمولی عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پرزندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ فرض کی گئی ہے۔ اس کا مقصد وہی ہے جو اِس کی حقیقت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف، اُس کی توحید کا اقرار اوراِس بات کی یاد دہانی کہ اسلام قبول کر کے ہم اپنے آپ کو پروردگار کی نذر کرچکے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کی معرفت اور دل و دماغ میں جن کے رسوخ کو قرآن نے مقامات حج کے منافع سے تعبیر کیا ہے۔ یہ مقصد ذکر کے اُن الفاظ سے نہایت خوبی کے ساتھ واضح ہوتا ہے جو اِس عبادت کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ اِسی مقصد کو نمایاں رکھنے اور ذہنوں میں پوری طرح راسخ کردینے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں۔ چنانچہ احرام باندھ لینے کے بعد یہ الفاظ ہر شخص کی زبان پر مسلسل جاری رہتے ہیں:
لَبَّیْکَ، اَللّٰھمَّ لَبَّیْکَ؛ لَبَّیْکَ لَاشَرِیکَ لَکَ، لَبَّیْکَ؛ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ؛ لَاشَرِیکَ لَکَ.
’’میں حاضر ہوں، اے اللہ، میں حاضر ہوں؛ حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں؛ میں حاضر ہوں، حمد تیرے لیے ہے، سب نعمتیں تیری ہیں اوربادشاہی بھی تیرے ہی لیے ہے؛ تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
حج وعمرہ* کے لیے جو طریقہ مقرر کیا گیا ہے، وہ یہ ہے:
اِس عبادت کی نیت سے اِس کا احرام باندھا جائے۔
باہر سے آنے والے یہ احرام اپنی میقات سے باندھیں؛ مقیم خواہ وہ مکی ہوں یا عارضی طور پر مکہ میں ٹھیرے ہوئے ہوں، اِسے حدودحرم سے باہر کسی جگہ سے باندھیں؛ اورجو لوگ اِن حدود سے باہر، لیکن میقات کے اندر رہتے ہوں، اُن کی میقات وہی جگہ ہے، جہاں وہ مقیم ہیں، وہ وہیں سے احرام باندھ لیں اور تلبیہ پڑھنا شروع کردیں۔
بیت اللہ میں پہنچنے تک تلبیہ کا ورد جاری رکھا جائے۔
وہاں پہنچ کر بیت اللہ کا طواف کیا جائے۔
پھر صفا و مروہ** کی سعی کی جائے۔
ہدی کے جانور ساتھ ہوں تو اُن کی قربانی کی جائے۔
قربانی کے بعد مرد سر منڈوا کر یا حجامت کر اکے اورعورتیں اپنی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام کھول دیں ۔
یہ احرام ایک اصطلاح ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ اب وہ شہوت کی کوئی بات نہیں کریں گے؛ زیب و زینت کی کوئی چیز، مثلاً خوشبو وغیرہ استعمال نہیں کریں گے؛ ناخن نہیں تراشیں گے، نہ جسم کے کسی حصے کے بال اتاریں گے، نہ میل کچیل دور کریں گے، یہاں تک کہ اپنے بدن کی جوئیں بھی نہیں ماریں گے؛ شکار نہیں کریں گے؛ سلے ہوئے کپڑے نہیں پہنیں گے؛ اپنا سر، چہرہ اور پاؤں کے اوپر کا حصہ کھلا رکھیں گے، اور ایک چادر تہ بند کے طور پر باندھیں گے اور ایک اوڑھ لیں گے۔
عورتیں ، البتہ سلے ہوئے کپڑے پہنیں گی اور سراور پاؤں بھی ڈھانپ سکیں گی۔ اُن کے لیے صرف چہر ہ اور ہاتھ کھلے رکھنے ضروری ہیں۔
میقات اُن جگہوں کو کہتے ہیں جو حج و عمرہ کی غرض سے آنے والوں کے لیے حدود حرم سے کچھ فاصلے پر متعین کر دی گئی ہیں۔ اِن سے آگے وہ احرام کے بغیر نہیں جا سکتے۔ یہ جگہیں پانچ ہیں: مدینہ سے آنے والوں کے لیے ذوالحلیفہ، یمن سے آنے والوں کے لیے یلملم، مصروشام سے آنے والوں کے لیے جحفہ، نجد سے آنے والوں کے لیے قرن اور مشرق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق۔
تلبیہ سے مراد، ’لَبَّیْکَ، اَللّٰھمَّ لَبَّیْکَ؛ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ، لَبَّیْکَ؛ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ؛ لَاشَرِیْکَ لَکَ‘ کا ورد ہے جو احرام باندھتے ہی شروع ہوتا اور بیت اللہ میں پہنچنے تک برابر جاری رہتا ہے۔ حج وعمرہ کے لیے تنہا یہی ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔
طواف کا لفظ اُن سات پھیروں کے لیے بولا جاتا ہے جو ہر طرح کی نجاست سے پاک ہو کر بیت اللہ کے گرد لگائے جاتے ہیں۔ اِن میں سے ہر پھیرا حجر اسود*** سے شروع ہو کر اُسی پر ختم ہوتا ہے اور ہر پھیرے کی ابتدا میں حجر اسود کا استلام کیا جاتا ہے۔ یہ حجر اسود کو چومنے یا ہاتھ سے اُس کو چھو کر اپنا ہاتھ چوم لینے کے لیے ایک اصطلاح ہے۔ ہجوم کی صورت میں ہاتھ سے یا ہاتھ کی چھڑی سے یا اِس طرح کی کسی دوسری چیز سے اشارہ کر دینا بھی اِس کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔
سعی سے مراد صفا ومروہ کا طواف ہے۔ یہ بھی سات پھیرے ہیں جو صفا سے شروع ہوتے ہیں۔ صفا سے مروہ تک ایک اور مروہ سے صفا تک دوسر ا پھیرا شمار کیا جاتا ہے۔ اِن میں سے آخری پھیرا مروہ پرختم ہوتا ہے۔
قربانی کی طرح صفا ومروہ کی یہ سعی بھی بطور تطوع کی جاتی ہے۔ یہ عمرے کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے۔ عمرہ اِس کے بغیر بھی مکمل ہوجاتا ہے۔
ہدی کا لفظ اُن جانوروں کے لیے بولا جاتا ہے جو حرم میں قربانی کے لیے خاص کیے گئے ہوں۔ دوسرے جانوروں سے اُن کو ممیز رکھنے کے لیے اُن کے جسم پر نشان لگائے جاتے اورگلے میں پٹے ڈالے جاتے ہیں۔
عمرے کی طرح حج کے لیے بھی پہلا کام یہی ہے کہ اِس کی نیت سے اِس کا احرام باندھا جائے،
باہر سے آنے والے یہ احرام اپنی میقات سے باندھیں؛ مقیم خواہ وہ مکی ہوں یا عارضی طور پر مکہ میں ٹھیرے ہوئے ہوںیا حدود حرم سے باہر، لیکن میقات کے اندر رہتے ہوں، اُن کی میقات وہی جگہ ہے، جہاں وہ مقیم ہیں، وہ وہیں سے احرام باندھ لیں اور تلبیہ پڑھنا شروع کر دیں۔
۸؍ذوالحجہ کو منیٰ کے لیے روانہ ہوں اوروہاں قیام کریں۔
۹؍ذوالحجہ کی صبح عرفات کے لیے روانہ ہوں۔
وہاں پہنچ کر امام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ دے، پھر ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر کر کے پڑھی جائے۔
نماز سے فارغ ہوکر جتنی دیر کے لیے ممکن ہو، اللہ تعالیٰ کے حضور میں تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے۔
غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ کے لیے روانہ ہوں۔
وہاں پہنچ کر مغرب اورعشا کی نماز جمع اورقصر کر کے پڑھی جائے۔
رات کو اِسی میدان میں قیام کیا جائے۔
فجر کے بعد یہاں بھی تھوڑی دیر کے لیے عرفات ہی کی طرح تسبیح وتحمید، تکبیر وتہلیل اور دعا و مناجات کی جائے۔
پھر منیٰ کے لیے روانہ ہوں اوروہاں جمرۂ عقبہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ پڑھنا بند کر دیا جائے اور اِس جمرے کو سات کنکریاں ماری جائیں۔
ہدی کے جانور ساتھ ہوں یا نذر اور کفارے کی کوئی قربانی واجب ہوچکی ہو تو یہ قربانی کی جائے۔
پھر مر د سرمنڈوا کر یا حجامت کراکے اور عورتیں اپنی چوٹی کے آخر سے تھوڑے سے بال کاٹ کر احرام کا لباس اتار دیں،
پھر بیت اللہ پہنچ کر اُس کا طواف کیا جائے۔
احرام کی تمام پابندیاں اِس کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گی، اِس کے بعد اگر شوق ہو تو بطورتطوع صفا و مروہ کی سعی بھی کی جائے۔
پھر منیٰ واپس پہنچ کر دو یا تین دن قیام کیا جائے اورروزانہ پہلے جمرۃالاولیٰ، پھر جمرۃ الوسطیٰ اوراِس کے بعد جمرۃ الاخریٰ کو سات سات کنکریاں ماری جائیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج وعمر ہ کے مناسک یہی ہیں۔ قرآن نے اِن میں کوئی تبدیلی نہیں کی، صرف اتنا کیا ہے کہ اِن سے متعلق بعض فقہی مسائل کی توضیح فرما دی ہے۔
یہ احکام درج ذیل ہیں:
پہلا حکم یہ ہے کہ حج وعمرہ کے تعلق سے جو حرمتیں اللہ تعالیٰ نے قائم کردی ہیں، اُن کی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے، وہ ہر حال میں قائم رہنی چاہییں۔ تاہم کوئی دوسرا فریق اگر اُنھیں ملحوظ رکھنے سے انکار کردیتا ہے تو اِس کے بدلے میں مسلمانوں کو بھی حق ہے کہ وہ برابر کا اقدام کریں، اِس لیے کہ اِس طرح کی حرمتیں باہمی طور پر ہی قائم رہ سکتی ہیں، اُنھیں کوئی فریق اپنے طور پر قائم نہیں رکھ سکتا ۔
دوسرا حکم یہ ہے کہ اِس اجازت کے باوجود مسلمان اپنی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں کرسکتے۔ یہ اللہ کی حرمتیں ہیں، اِن کے توڑنے میں پہل ایک بدترین جرم ہے۔ اِس کا ارتکاب کسی حال میں بھی نہیں ہونا چاہیے۔
تیسرا حکم یہ ہے کہ حالت احرام میں شکار کی ممانعت صرف خشکی کے جانوروں کے لیے ہے، دریائی جانوروں کا شکار کرنا یا دوسروں کا کیا ہوا شکار کھا لینا، دونوں جائز ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ لوگ اِس رخصت سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ خشکی کا شکار ہرحال میں ممنوع ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے اِس گناہ کا ارتکاب کربیٹھتا ہے تواُسے کفارہ ادا کرنا چاہیے۔
اِس کی تین صورتیں ہیں :
جس طرح کا جانور شکار کیا گیا ہے، اُسی قبیل کا کوئی جانور گھریلو چوپایوں میں سے قربانی کے لیے بیت اللہ بھیجا جائے۔
اگر یہ ممکن نہ ہو تو اُس جانور کی قیمت کی نسبت سے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔
یہ بھی دشوار ہو تو اتنے روزے رکھے جائیں، جتنے مسکینوں کو کھانا کھلانا کسی شخص پر عائد ہوتا ہے۔
رہی یہ بات کہ جانوروں کا بدل کیا ہے یا اگر جانور کی قربانی متعذر ہے تو اُس کی قیمت کیا ہوگی یا اُس کے بدلے میں کتنے مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے یا کتنے روزے رکھے جائیں گے تواِس کا فیصلہ مسلمانوں میں سے دوثقہ آدمی کریں گے تاکہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اپنے نفس کی جانب داری کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
چوتھا حکم یہ ہے کہ حج وعمرہ کے لیے سفر کرنے والے اگر کسی جگہ گھر جائیں اوراُن کے لیے آگے جانا ممکن نہ رہے تو اونٹ، گائے، بکری میں سے جو میسر ہو، اُسے قربانی کے لیے بھیج دیں یا بھیجنا ممکن نہ ہو تو اُسی جگہ قربانی کر دیں اورسرمنڈوا کر احرام کھول دیں۔ اُن کا حج وعمرہ یہی ہے۔ اس معاملے میں یہ بات، البتہ واضح رہنی چاہیے کہ قربانی اِس طرح کی کسی جگہ پر کی جائے یا مکہ اورمنیٰ میں، اُس سے پہلے سر منڈوانا جائز نہیں ہے، الاّ یہ کہ کوئی شخص بیمار ہو یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اور وہ قربانی سے پہلے ہی سر منڈوانے پر مجبور ہوجائے۔ قرآن نے اجازت دی ہے کہ اِس طرح کی کوئی مجبوری پیش آجائے تو لوگ سر منڈوا لیں، لیکن روزوں یا صدقے یا قربا نی کی صورت میں اُس کا فدیہ دیں اور اُن کی تعداد اور مقدار اپنی صواب دید سے جو مناسب سمجھیں طے کر لیں۔
پانچواں حکم یہ ہے کہ باہر سے آنے والے اگر ایک ہی سفر میں حج وعمرہ ، دونوں کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔ اِس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے عمرہ کرکے احرام کھول دیں، پھر ۸؍ذوالحجہ کو مکہ ہی میں دوبارہ احرام باندھ کر حج کر لیں۔ یہ محض ایک رخصت ہے جو اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ سفر کی زحمت پیش آجانے کے پیش نظر باہر سے آنے والے عازمین حج کو عطا فرمائی ہے۔ لہٰذا وہ اِس کا فدیہ دیں گے۔ اِس کی دو صورتیں ہیں:
اونٹ، گائے اوربکری میں سے جو جانور بھی میسر ہو، اُس کی قربانی کی جائے۔
یہ ممکن نہ ہو تو دس روزے رکھے جائیں: تین حج کے دنوں میں اورسات حج سے واپسی کے بعد۔
اس سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر یہی ہے کہ حج کے لیے الگ اور عمرے کے لیے الگ سفر کیا جائے۔ چنانچہ قرآن نے صراحت کردی ہے کہ یہ رعایت اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جن کے گھر در مسجد حرام کے پاس ہوں۔
چھٹا حکم یہ ہے کہ منٰی سے ۱۲؍ ذوالحجہ کو بھی واپس آ سکتے ہیں اور چاہیں تو۱۳؍ ذوالحجہ تک بھی ٹھیر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ اِس لیے کہ اصل اہمیت اِس کی نہیں کہ لوگ کتنے دن ٹھیرے، بلکہ اِس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے، خدا کی یاد میں او راُس سے ڈرتے ہوئے ٹھیرے۔
دنیا کے تمام مذاہب میں قربانی اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ایک بڑا ذریعہ رہی ہے۔ اِس کی حقیقت وہی ہے جو زکوٰۃ کی ہے، لیکن یہ اصلاً مال کی نہیں، بلکہ جان کی نذر ہے جو اُس جانور کے بدلے میں چھڑا لی جاتی ہے جسے ہم اِس کا قائم مقام بنا کر قربان کرتے ہیں۔
اِس کی تاریخ آدم علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے۔ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ اُن کے دو بیٹوں،( ہابیل اور قابیل) نے اپنی اپنی نذر اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کی تو ایک کی نذر قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔بائیبل میں صراحت ہے کہ ہابیل نے اِس موقع پر اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلونٹے بچوں کی قربانی پیش کی تھی۔
یہ طریقہ بعد میں بھی، ظاہر ہے کہ قائم رہا ہو گا۔ چنانچہ اِس کے آثار ہم کو تمام مذاہب میں ملتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے بعد، البتہ جو اہمیت و عظمت اور وسعت و ہمہ گیری اِس عبادت کو حاصل ہوئی ہے، وہ اِس سے پہلے، یقیناًحاصل نہیں تھی۔ اُنھیں جب یہ ہدایت کی گئی کہ وہ بیٹے کی جگہ جانور کی قربانی دیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ہم نے اسمٰعیل کو ایک ذبح عظیم کے عوض چھڑا لیاہے۔اِس کے معنی یہ تھے کہ ابراہیم کی یہ نذر قبول کر لی گئی ہے اور اب نسلاً بعد نسلٍ لوگ اپنی قربانیوں کے ذریعے سے اِس واقعے کی یاد قائم رکھیں گے۔ حج و عمرہ کے موقع پر اور عیدالاضحی کے دن یہی قربانی ہے جو ہم ایک نفل عبادت کے طور پر پورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔
اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ ہم اپنی جان کا نذرانہ قربانی کے جانوروں کو اُس کی علامت بنا کر بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے ہیں تو گویا اسلام و اخبات کی اُس ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا اظہار سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے فرزند کی قربانی سے کیا تھا۔ اِس موقع پر تکبیر وتہلیل کے الفاظ اِسی مقصد سے ادا کیے جاتے ہیں۔
یہ، اگر غور کیجیے تو پرستش کا منتہاے کمال ہے۔ اپنا اور اپنے جانور کا منہ قبلہ کی طرف کر کے اور ’بِسْمِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ اَکْبَرُ‘ کہہ کر ہم اپنے جانوروں کوقیام یا سجدے کی حالت میں اِس احساس کے ساتھ اپنے پروردگار کی نذر کر دیتے ہیں کہ یہ درحقیقت ہم اپنے آپ کو اُس کی نذر کر رہے ہیں۔
قربانی کا قانون
اس کا قانون یہ ہے:
قربانی انعام کی قسم کے تمام چوپایوں کی ہو سکتی ہے۔
اِس کا جانور بے عیب اور اچھی عمر کا ہونا چاہیے۔
قربانی کا وقت یوم النحر۱۰ ؍ذو الحجہ کو عید الاضحی کی نماز سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے۔
اس کے ایام وہی ہیں جو مزدلفہ سے واپسی کے بعد منیٰ میں قیام کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ اصطلاح میں اِنھیں ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ قربانی کے علاوہ اِن ایام میں یہ سنت بھی قائم کی گئی ہے کہ ہر نماز کی جماعت کے بعد تکبیریں کہی جائیں۔ نمازوں کے بعد تکبیر کا یہ حکم مطلق ہے۔ اِس کے کوئی خاص الفاظ شریعت میں مقرر نہیں کیے گئے۔
قربانی کا گوشت لوگ خود بھی بغیر کسی تردد کے کھا سکتے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
* عمرہ کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ یہ پورے سال میں لوگ جب چاہیں، کر سکتے ہیں۔ حج کے لیے، البتہ ۸/ذوالحجہ سے ۳۱ ذوالحجہ تک کے ایام مقرر ہیں اور یہ اِنھی ایام میں ہو سکتا ہے۔
** یہ دو پہاڑیاں ہیں جو بیت اللہ کے بالکل قریب واقع ہیں۔ سیدنا اسمعٰیل کی قربانی کا واقعہ اِنھی میں سے ایک پہاڑی مروہ پر پیش آیا تھا۔
*** یہ بیت اللہ کی پرانی تعمیر کا پتھر ہے جسے تجدید عہد کی علامت کے طور پر اُس کے ایک گوشے میں نصب کیا گیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ