HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۴۴-۵۷ (۱۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یَشْتَرُوْنَ الضَّلٰلَۃَ، وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ تَضِلُّوا السَّبِیْلَ{۴۴} وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا، وَّکَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیْرًا{۴۵} 
مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ، وَیَقُوْلُوْنَ: سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا، وَاسْمَعْ غَیْْرَ مُسْمَعٍ، وَّرَاعِنَا لَیًّا بِاَلْسِنَتِہِمْ، وَطَعْنًا فِی الدِّیْنِ، وَلَوْ اَنَّہُمْ قَالُوْا: سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا، وَاسْمَعْ، وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْْرًا لَّہُمْ وَاَقْوَمَ، وَلٰکِنْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِہِمْ، فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ اِلاَّ قَلِیْلاً{۴۶} 
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ، اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰٓی اَدْبَارِہَآ، اَوْ نَلْعَنَہُمْ کَمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ، وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً{۴۷} 
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ، وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ، وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا{۴۸} اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ، بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ، وَلاَ یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً{۴۹} اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الکَذِبَ، وَکَفٰی بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا{۵۰} 
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ، وَیَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا: ہٰؤُلَآئِ اَہْدٰی مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلاً{۵۱} اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ، وَمَنْ یَّلْعَنِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہٗ نَصِیْرًا{۵۲} اَمْ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْکِ، فَاِذًا لاَّ یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا{۵۳} اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ، فَقَدْ اٰتَیْْنَآ اٰلَ اِبْرٰہِیْمَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ، وَاٰتَیْْنٰہُمْ مُّلْکًا عَظِیْمًا{۵۴} 
فَمِنْہُم مَّنْ اٰمَنَ بِہٖ، وَمِنْہُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْہُ، وَکَفٰی بِجَہَنَّمَ سَعِیْرًا{۵۵} اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًا، کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا{۵۶} وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ، خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، لَّہُمْ فِیْہَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ، وَّنُدْخِلُہُمْ ظِـلاًّ ظَلِیْلاً{۵۷} 
تم نے دیکھا نہیں۱۰۰ اُن لوگوں کو جو خدا کی کتاب سے بہرہ یاب ہوئے؟۱۰۱ (اُن کے سامنے اُسی پروردگار کی یہ شریعت پیش کی جاتی ہے تو اِس کے مقابلے میں) وہ گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راستہ گم کر دو۔ تمھارے اِن دشمنوں سے اللہ خوب واقف ہے۔ (تم اِن کی پروا نہ کرو) اور (مطمئن رہو کہ) تمھاری حمایت کے لیے اور تمھاری مدد کے لیے اللہ کافی ہے۔ ۴۴-۴۵
(پھر اِن میں سے بالخصوص) یہود کا ایک گروہ زبان کو توڑ موڑ کر اوردین پر طعن کرتے ہوئے ۱۰۲ لفظوں کو اُن کے موقع ومحل سے ہٹا دیتا ہے اور ’سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا‘، ’اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ‘ اور ’رَاعِنَا‘ کہتا ہے۔۱۰۳ دراں حالیکہ اگر وہ ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘، ’اِسْمَعْ‘ اور ’اُنْظُرْنَا‘ کہتے تو اُن کے لیے بہتر ہوتا اور موقع و محل کے مطابق بھی۔۱۰۴ لیکن اُن کے منکر ہو جانے کے باعث اللہ نے اُن پر لعنت کر دی ہے، اِس لیے وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔۱۰۵ ۴۶
اے وہ لوگو، جنھیں کتاب دی گئی، اُس چیز کو مان لو۱۰۶جو ہم نے اُن چیزوں کی تصدیق میں اتاری ہے جو خود تمھارے پاس موجود ہیں۔ (مان لو)، اِس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں ۱۰۷ اور اُن کو پیچھے کی طرف الٹ کر برابر کر دیں۱۰۸ یا اُن پر بھی (جن کے یہ چہرے ہیں) اُسی طرح لعنت کر دیں، جس طرح ہم نے سبت والوں پر لعنت کر دی تھی۱۰۹ اور (یاد رکھو کہ) خدا کی بات ہو کر رہتی ہے۔ ۴۷
(اِن کا خیال ہے کہ اِن کے عقائد واعمال خواہ کچھ ہوں، یہ لازماً جنت میں جائیں گے۔ اِنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) اللہ اِس بات کو نہیں بخشے گا کہ (جانتے بوجھتے کسی کو) اُس کا شریک ٹھیرایا جائے۔۱۱۰ اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے جو گناہ چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا، ۱۱۱ اور (اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ) جو اللہ کو شریک ٹھیراتا ہے، وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے۔ تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو (شرک جیسے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں اور اِس کے باوجود ) اپنے آپ کو پاکیزہ ٹھیراتے ہیں۔ ۱۱۲  (ہرگز نہیں)، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے (اپنے قانون کے مطابق) پاکیزگی عطا کرتا ہے۔۱۱۳ (یہ اپنے کرتوتوں کی سزا لازماً بھگتیں گے) اور اِن پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اِنھیں دیکھو، (اپنے اِن دعووں سے) یہ کیسا افترا باندھ رہے ہیں اور (حقیقت یہ ہے کہ) صریح گناہ ہونے کے لیے تو یہی کافی ہے۔ ۴۸-۵۰
تم نے دیکھا نہیں اِن لوگوں کو جو خدا کی کتاب سے بہرہ یاب ہوئے۔ یہ جبت اور طاغوت۱۱۴ پر عقیدہ رکھتے ہیں اور منکروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پر تو یہ ہیں۔ ۱۱۵  یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کر دی ہے اور جن پر اللہ لعنت کر دے، پھر تم اُن کا کوئی مددگار نہیں پا سکتے۔ کیا خدا کی بادشاہی میں اِن کا بھی کوئی حصہ ہے؟ ۱۱۶ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگوں کو پھوٹی کوڑی بھی دینے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ کیا یہ لوگوں سے اللہ کی اُس عنایت پر حسد کر رہے جو اُس نے اُن پر کی ہے؟۱۱۷ (یہی بات ہے تو سن لیں کہ) ہم نے تو اولاد ابراہیم (کی اِس شاخ) کو اپنی حکمت اور اپنی شریعت بخش دی اور اُنھیں ایک عظیم بادشاہی عطا فرما دی ہے۔۱۱۸ ۵۱-۵۴
(یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک اُنھوں نے اس کی قدر نہیں پہچانی)۔ سو اُن میں ایسے بھی ہیں جو اِس(حکمت اور اس شریعت) پر ایمان لائے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اِس سے منہ موڑ گئے ہیں۔ اِس طرح کے لوگوں کے لیے دوزخ کی بھڑکتی آگ ہی کافی ہے۔ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو ماننے سے انکار کر دیا ہے، اُنھیں ہم عنقریب ایک بڑی آگ میں جھونک دیں گے۔ اِن کی کھالیں جب پک جائیں گی، ہم اُن کی جگہ دوسری کھال پیدا کر دیں گے تاکہ وہ خوب عذاب کا مزہ چکھیں۔ بے شک، اللہ عزیزوحکیم ہے۔۱۱۹ اور جو لوگ (ہماری آیتوں پر) ایمان لائے اور نیک عمل کیے، اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اُس میں اُن کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اُنھیں ہم گھنی چھائوں میں رکھیں گے۔ ۵۵-۵۷

۱۰۰؎  اصل میں ’الم تر‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اسلوب مخاطبین کو فرداً فرداً متوجہ کرنے اور اظہار تعجب و افسوس کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔

۱۰۱؎  اصل الفاظ ہیں: ’الذین اوتوا نصیبًا من الکتاب‘۔ ان میں ’من‘ بیان کے لیے ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کے حصے میں کتاب الہٰی آئی اور دنیا کی سب قوموں کو چھوڑ کر وہ اس سے نوازے گئے۔

۱۰۲؎  یہود کی جن شرارتوں کا ذکر آگے ہوا ہے، وہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طنز کے لیے ہیں، لیکن قرآن نے ان کو ’طعنًا فی الدین‘ (دین پر طعن) سے تعبیر کیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ دین وشریعت اور نبی کی شخصیت اصل میں ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اس وجہ سے نبی پر طعن خود دین پرطعن کے مترادف ہے۔

۱۰۳؎  یہ ان شرارتوں کی طرف اجمالاً اشارہ کیا ہے جو یہود کے اشرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے ارادے سے اور آپ کے لائے ہوئے دین کو دوسروں کی نگاہ میں حقیر اور بے وقعت بنانے کے لیے کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال عرب کے مجلسی الفاظ میں ان کی تحریف تھی جو متکلم کی تحسین، سننے والوں کی طرف سے ذوق وشوق اور اعتراف و قبول کے اظہار کے لیے بولے جاتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔یہ الفاظ اصلاً تو اظہار تحسین یا اعتراف وقبول کے لیے ہیں، لیکن اگر کوئی گروہ شرارت اور بدتمیزی کرنا چاہے تو ذرا زبان کو توڑ مروڑ کر، تلفظ کو بگاڑ کر، یا لب ولہجہ میں ذرا مصنوعی انداز پیدا کر کے بڑی آسانی سے تحسین کو تقبیح اور اعتراف واقرار کو طنزواستہزا بنا سکتا ہے۔ اس سے متکلم کے وقار کو کوئی نقصان پہنچے یا نہ پہنچے، لیکن شرارت پسند اشخاص اس طرح اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کر کے خوش ہو جاتے ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۰۹)

۱۰۴؎  استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان الفاظ کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘ کے لفظی معنی ہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اہل عرب یہ اس موقع پر بولتے تھے جب اپنے کسی بڑے، کسی سردار، کسی بادشاہ کے حکم وارشاد پر اپنی طرف سے امتثال امر کے لیے آمادگی اور مستعدی کا اظہار کرنا چاہتے۔ عربی میںاس کے لیے ’طَاعَۃ‘ کا لفظ بھی ہے جو قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔ یہودی اشرار آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں جاتے تو اپنی سعادت مندی اور وفاداری کی نمایش کے لیے ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘ تو بات بات پر کہتے، لیکن لب ولہجہ کے تصرف سے اس کو ادا اس طرح کرتے کہ ’اَطَعْنَا‘ کو ’عَصَیْنَا‘ بنا لیتے۔ چونکہ دونوں کے حروف ہم آہنگ اور قریب المخرج ہیں، اس وجہ سے اس تحریف میں ان کو کامیابی ہوجاتی۔ اس طرح وہ تسلیم و اطاعت کے جملہ کو نافرمانی وسرکشی کے قالب میں ڈھال دیتے اور سمجھنے والے ان کی اس شرارت پر کوئی گرفت بھی نہ کر سکتے، اس لیے کہ وہ بڑی آسانی سے یہ بہانہ بنا سکتے تھے کہ ہم نے ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘ کہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں شریف اور خوددار آدمی بات کو سن اور سمجھ کر بھی خاموشی سے ٹال دینے ہی کو بہتر خیال کرتا ہے۔
اِسْمَعْ غَیْرَ مُسْمَعٍ‘ کے لفظی معنی ہیں: سنو وہ بات جو پہلے سنائی نہیں گئی۔ اس فقرے کا اچھا محل یہ ہے کہ مجلس میں متکلم یا خطیب کی کوئی حکیمانہ بات سن کر ایک سامع دوسرے سامع کو متوجہ کرے کہ یہ دانش مندانہ اور حکیمانہ بات سنیے، یہ بات پہلی بار ہمارے کانوں نے سنی ہے، اس سے پہلے یہ بات کبھی ہم نے نہیں سنی۔ظاہر ہے کہ یہ بات نہ صرف متکلم اور خطیب کی قدردانی کی دلیل ہے، بلکہ دوسروں کواس کی قدردانی کے لیے تشویق و ترغیب بھی ہے، لیکن کوئی شخص ہوٹنگ (hooting) کے انداز میں بانداز تمسخر یہی بات کہے تو اس کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ ’ذرا اس کی ناشنیدنی سنو، یہ کیسی بے پر کی اڑا رہا ہے، ایسی بات کاہے کو کبھی کسی نے سنی ہوگی!‘ ظاہر ہے کہ محض انداز اور لب ولہجہ کی تبدیلی نے اس نہایت اعلیٰ فقرے کو طعن وطنز کا ایک زہرآلودنشتر بنا دیا۔ لیکن اس پر بھی کوئی گرفت نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ گرفت ہو تو کہنے والا صفائی پیش کر سکتا ہے کہ میں نے تو طنز کے طور پر نہیں، بلکہ تحسین کے طور پر کہا ہے۔ چونکہ اس فقرے میں طنز کا پہلو ’غَیْرَ مُسْمَعٍ‘ کے الفاظ سے پیدا ہوتا تھا، اس لیے قرآن نے اس کی یہ نوک توڑ دی اور ہدایت کی کہ صرف ’اِسْمَعْ‘ کہا جائے۔
رَاعِنَا‘ کے لفظی معنی ہیں، ذرا ہماری رعایت فرمایے۔ اس لفظ کا اچھا محل استعمال یہ ہے کہ اگر مخاطب نے متکلم کی بات اچھی طرح سنی یا سمجھی نہ ہو یا بات ایسی لطیف اور حکیمانہ ہو کہ خود متکلم کی زبان سے اس کو مکرر سننا چاہے تو اس کو دوبارہ متوجہ کرنے کے لیے جس طرح ہمارے ہاں کہتے ہیں: پھر ارشاد ہو، پھر فرمایے، اسی طرح عربی میں ’رَاعِنَا‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ سامع کے ذوق وشوق اور اس کی رغبت علم کی دلیل ہے، لیکن یہودی اشرار ’لیّ لسان‘ یعنی زبان کے توڑ مروڑ کے ذریعے سے اس کو بھی طنز کے قالب میں ڈھال لیتے تھے۔ اس کی شکل یہ ہوتی کہ ’رَاعِنَا‘ میں ’ع‘ کے کسرہ کو ذرا دبا دیجیے تو یہ لفظ ’رَاعِیْنَا‘ بن جائے گا اور اس کے معنی ہوں گے: ’’ہمارا چرواہا‘‘۔ قرآن نے یہود کی اس شرارت کی وجہ سے اس لفظ کو سرے سے مسلمانوں کے مجلسی الفاظ ہی سے خارج کر دیا اور اس کی جگہ ’اُنْظُرْنَا‘ کے استعمال کی ہدایت فرمائی جس کے معنی ہیں: ذرا ہمیں مہلت عنایت ہو، ذرا پھر توجہ فرمایے۔ یعنی مفہوم کے لحاظ سے یہ ٹھیک ٹھیک ’رَاعِنَا‘ کا قائم مقام ہے اور اس میں لہجہ کے بگاڑ سے کسی بگاڑ کے پیدا کیے جانے کا کوئی موقع نہیں ہے۔‘‘ (تدبرقرآن۲/ ۳۰۹)

۱۰۵؎  یعنی ان میں سے شاذ کوئی مان لے تو مان لے، ایک گروہ کی حیثیت سے اب ان کے ایمان لانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس لیے کہ اتمام حجت کے باوجود جب انھوں نے رسول کی تکذیب کا فیصلہ کر لیا ہے تو ان کے اس جرم کی پاداش میں اللہ نے بھی ان پر لعنت کر دی ہے جس کے نتیجے میں یہ توفیق ہدایت سے محروم ہو چکے ہیں۔

۱۰۶؎  یہ تہدیدووعید کی آیت ہے۔ اس میں دعوت کا ذکر محض اتمام حجت کے لیے ہوا ہے۔

۱۰۷؎  اصل میں ’ان نطمس وجوہًا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔’طمس الشیٔ‘ کے معنی کسی چیز کے آثارو علامات مٹادینے کے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تمھارے چہروں پریہ آنکھ، کان، منہ اور ناک کے نشانات مٹا کر برابر کر دیں گے، اس لیے کہ یہ قوتیں جس مقصد سے عطا ہوئی ہیں، جب ان سے وہ کام نہیں لیا گیا تو انھیں باقی رکھنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس کے بعد تو یہی بہتر ہے کہ چہرے بھی اسی طرح سپاٹ بنا دیے جائیں، جس طرح سر کے پیچھے کا حصہ سپاٹ ہے ۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ’وجوہًا‘ کا لفظ اس جملے میں نکرہ آیا ہے۔ یہ نفرت وکراہت کے اظہار کے لیے ہے اور اس سے یہ اشارہ مقصود ہے کہ متکلم ان لعنت زدہ چہروں کا تعین کے ساتھ ذکر کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا ’وجوہہم‘ نہیں کہا، ان سے منہ پھیر کر ’وجوہًا‘ کہا ہے۔ اس کے بعد ’نلعنہم‘ کی ضمیر غائب بھی اسی رعایت سے آئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے مجھے باربار یہ خیال ہوتا ہے کہ چہروں کو بگاڑ دینے کی دھمکی جو ان کو دی گئی، اس میں عمل اور سزا کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اوپر والی آیت میں ان کی یہ حرکت جو بیان ہوئی ہے کہ پیغمبر کا مذاق اڑانے کے لیے منہ بنا بنا کر اور لہجے بگاڑ بگاڑ کر الفاظ کو کچھ سے کچھ کر دیتے ہیں اور اس منہ بنانے اور الفاظ کے بگاڑنے کو انھوں نے ہنر سمجھ رکھا ہے، اس کی بنا پر وہ مستحق ہوئے کہ واقعی ان کے چہرے مسخ ہی کر دیے جائیں۔ علیٰ ہذاالقیاس جنھوں نے حق سے منہ موڑنے ہی کو شیوہ بنا لیا ہے تو وہ سزاوار ہیں کہ ان کے چہرے پیچھے ہی کی طرف الٹ دیے جائیں۔‘‘(تدبرقرآن۲/ ۳۱۲)

۱۰۸؎  اس سے پہلے جو مضمون ’ان نطمس وجوہًا‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے، یہ اسی کی تفصیل ہے۔

۱۰۹؎  یعنی یہود کے جن لوگوں نے سبت کے دن کی بے حرمتی کی، ان پر لعنت کر دی تھی۔اس کی صورت یہ ہوئی کہ یہ ذلیل بندر بنا دیے گئے۔ قرآن میں یہ واقعہ جس طرح بیان ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ان کی سیرت مسخ ہوئی اور اس کے بعد ایک ظاہری فرق جو تھوڑا سارہ گیا تھا، وہ بھی بالآخر مٹ گیا۔ یہاں تک کہ اس لعنت نے ان کے ظاہروباطن، ہر چیز کا احاطہ کر لیا۔

۱۱۰؎  اس لیے کہ شرک خدا پر افترا ہے اور اس لحاظ سے سب سے بڑا ظلم ہے جس کا ارتکاب کوئی شخص خدا کی زمین پر کر سکتا ہے۔ اس سے توبہ اور رجوع کے بغیر کوئی شخص اگر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو خدا کی بارگاہ میں پھر اس کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

۱۱۱؎  اس سے واضح ہے کہ دوسرے گناہوں کے معاملے میں بھی کسی کو دلیر نہیںہونا چاہیے، اس لیے کہ یہ بھی اسی وقت معاف ہوں گے، جب خدا چاہے گا اور خدا کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ جو کچھ چاہتا ہے اپنی حکمت اور اپنے قانون کے مطابق چاہتا ہے۔ اس کی کوئی مشیت بھی الل ٹپ نہیں ہوتی۔ وہ علیم وحکیم ہے اور اس کی یہ صفات اس کی ہر مشیت کے ساتھ شامل رہتی ہیں۔

۱۱۲؎  یعنی اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ ہم چونکہ خدا کے محبوبوں کی اولاد اور اس کی برگزیدہ امت ہیں، اس لیے بڑے بڑے گناہوںکا مرتکب ہونے کے باوجود اس کی جنت میں داخل ہونے کے لیے جو پاکیزگی چاہیے، وہ ہمیں ہر حال میں حاصل رہتی ہے۔

۱۱۳؎  یعنی اپنے اس قانون کے مطابق کہ پاکیزگی ایمان وعمل اور بروتقویٰ سے وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ نعمت انھی کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے بغیر یہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔

۱۱۴؎  یہود جن معاملات میںشرک کے مرتکب ہوئے، یہ اس کی ایک مثال ہے۔ اس میں جبت سے مراد اعمال سفلیہ ہیں۔ ان میں چونکہ شیطانی قوتوں کو موثربالذات مانا جاتا ہے، اس لیے جبت کے ساتھ طاغوت کا ذکر بھی ہوا ہے۔ اس میں اور شیطان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ قرآن میں یہ دونوں بالکل ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔

۱۱۵؎  یعنی اس قدر پستی میں گر چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کھلم کھلا مشرکین عرب کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ قرآن کے بعض دوسرے مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے وہ کتاب الٰہی کی ان اصلاحات کو آڑ بناتے تھے جو ان بدعتوں اور تشددات کے خلاف تھیں جو ان کے فقہا نے خدا کی شریعت میں پیدا کر دیے تھے۔

۱۱۶؎  یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی بادشاہی اور اس کا اختیارواقتدار اسی کے پاس ہے۔ اس نے اس کا کوئی حصہ انھیں نہیں دے رکھا ہے کہ یہ جس کو چاہیں دیں اور جسے چاہیں محروم کر دیں۔

۱۱۷؎  یہ ان کے باطن سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ ان کا تمام غم وغصہ صرف اس بات پر ہے کہ نبوت تو ان کے خاندان کا حصہ تھی۔ یہ اس سے نکل کر بنی اسمٰعیل کے اندر کس طرح چلی گئی ہے؟

۱۱۸؎  یعنی ان کے حسد کے علی الرغم بنی اسمٰعیل کے حق میں نبوت اور نبوت کے ساتھ ایک عظیم بادشاہی کا بھی فیصلہ کر دیا ہے۔ یہ وہی بادشاہی ہے جو بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی۔ اس وقت یہ ایک پیشین گوئی تھی، لیکن چند ہی برسوں میں حقیقت بن گئی اور خدا کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں پوری شان کے ساتھ نافذ ہوگیا۔

۱۱۹؎  لہٰذا نہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑ سکتا ہے اور نہ اس کا کوئی کام انصاف اور حکمت سے خالی ہوسکتا ہے۔ اس کا قانون بے لاگ ہے، بنی اسرائیل ہوں یا بنی اسمٰعیل، وہ ہر ایک کے ساتھ اسی کے مطابق معاملہ کرے گا۔

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B