HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]

 

غلامی کا خاتمہ کیوں نہ ہو سکا؟

سوال: لونڈیوں کے خاتمے کی فوری یا بتدریج کوئی حد کیوں مقرر نہیں کی گئی؟کوئی برائی اتنی دیر تک برداشت نہیں کی جا سکتی کہ تیرہ چودہ سوسال جاری رہے۔(محمد عارف جان)

جواب: قرآن مجید میں نئے لونڈی اور غلام بنانے کی اجازت ختم کر دی گئی اور پرانے غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتبت کا طریقہ رائج کر دیا۔غلام آزاد کرنے کو ایک بڑی نیکی قرار دیاگیا۔ کئی گناہوں کے ضمن میں غلام آزاد کرنے کو کفارہ قرار دیاگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ غلاموں کی وہ نسل ختم ہوتے ہی غلامی ختم ہو جاتی، لیکن معاملہ صرف اسلامی دنیا ہی کا نہیں تھا۔ ساری دنیا میں غلام بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ غلاموں کی نسلیں بھی اسی طرح غلامی قبول کیے رہیں۔ قرآن مجید کے احکامات نے اصل میں غلامی کا دروازہ ہی بند کر دیا تھا ۔یہ خارجی حالات ہیں جن کے باعث یہ مکروہ کاروبار جاری رہا۔

قرآن مجید نے موجود غلاموں کو بیک قلم آزاد اس لیے نہیں کیا کہ ہزاروں اور سینکڑوں لوگوں کی زندگیوں کا معاملہ تھا۔ یہ آزادی ان لوگوں کے لیے رحمت کے بجائے شدید اذیت اور زحمت کا باعث ہوتی۔آپ کی یہ خواہش کہ غلامی کے خاتمے کا کوئی وقت مقرر ہونا چاہیے تھا، ایک نیک خواہش ضرور ہے، لیکن جس معاشی سیٹ اپ کا سارا انحصار غلامی کے ادارے پر ہواور آزادی کی صورت میں غلاموں کے لیے باعزت معیشت کی کوئی صورت موجود نہ ہو وہاں سیٹ اپ تبدیل کیے بغیر غلاموں کو آزادی دے دینا، ہزاروں لوگوں کو بے موت مار دینے کے مترادف ہے۔ اصل میں یہ مسلمان حکمرانوں کی غلطی ہے کہ وہ قرآن کی روح کو نہیں سمجھے اور جب وہ اس پوزیشن میں آئے کہ بین الاقوامی سطح پر اس مکروہ کاروبار کے سد باب کے لیے اقدامات کریں تو وہ اس کے شعور ہی سے عاری تھے۔آپ نے یقیناًپڑھا ہو گا کہ ابراہیم لنکن کو غلامی کو عملاً ختم کرنے کے لیے جنگیں بھی لڑنی پڑی ہیں۔ یہ سعادت اگر مسلمان حاصل کرتے تو بہت اچھا ہوتا۔ اس سماجی برائی کی درستی کی جو راہ قرآن نے متعین کی تھی، غلامی کا خاتمہ اس کا یقینی نتیجہ تھا۔ لیکن عباسی اور عثمانی حکمران قرآن کے اس منشا سے آگاہ ہی نہیں تھے، غلامی کیسے ختم ہوتی۔

 

جمع قرآن کے متعلق آیات

سوال:کیا قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت ہے جو یہ بات بیان کرتی ہو کہ جس ترتیب سے موجودہ قرآن مجید ہے اسی ترتیب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی مدون ہوا تھا؟

مزید براں آپ ان روایات پر بھی اپنی قیمتی رائے سے مستفیض فرمائیں جو قرآن مجید کے دو طرح سے مرتب ہونے کو بیان کرتی ہیں۔ایک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ کمیٹی کی ترتیب جس پر اب یہ قرآن مروج ہے۔ دوسرے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ترتیب جس میں انھوں نے زمانۂ نزول کے حوالے سے تاریخی ترتیب سے قرآن مرتب کیا تھا۔

اب جب میں قرآن مجید سے استفادہ کرتا ہوں تو مجھے نزولی ترتیب کی معلومات بہت مفید لگتی ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ کسی حکم کے فلاں موقع پر نازل ہونے کی حکمت کیا تھی اور اس میں تدریج کے کیا پہلو پیش نظر تھے۔(عاطف ارشد)

جواب:ہمارے نزدیک قرآن مجید جس ترتیب میں ہمارے ہاں موجود ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی ترتیب سے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اسے مرتب کر کے گئے تھے۔ یہ ترتیب اس انداز سے کی گئی ہے کہ اب اسے سمجھنے اور اس کی حکمتوں تک پہنچنے کے لیے کسی خارجی ذریعے کی ضرورت نہیں ہے۔ استاد محترم نے اپنی کتاب ’’اصول ومبادی‘‘ میں اس حوالے سے لکھا ہے:

’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
سَنُقْرِؤُکَ فَلَا تَنسٰی إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہُ إِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَہْرَ وَمَا یَخْفَی.(الاعلیٰ۸۷ :۶۔۷)
’’عنقریب (اسے) ہم (پورا) تمھیں پڑھا دیں گے تو تم نہیں بھولو گے، مگر وہی جو اللہ چاہے گا۔ وہ بے شک، جانتا ہے اس کو بھی جو اس وقت (تمھارے) سامنے ہے اور اسے بھی جو (تم سے) چھپا ہوا ہے۔‘‘
لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ. إِنَّ عَلَیْْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ، فَإِذَا قَرَأْنَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ، ثُمَّ إِنَّ عَلَیْْنَا بَیَانَہُ.(القیامہ۷۵ :۱۶۔۱۹)
’’اس (قرآن) کو جلد پا لینے کے لیے، (اے پیغمبر)، اپنی زبان کو اس پر جلدی نہ چلاؤ۔ اس کو جمع کرنا اور سنانا، یہ سب ہماری ہی ذمہ داری ہے۔ اس لیے جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو (ہماری) اس قرأت کی پیروی کرو۔ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ (تمھارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو)اس کی وضاحت کر دیں۔‘‘
ان آیتوں میں قرآن کے نزول اور اس کی ترتیب وتدوین سے متعلق اللہ تعالیٰ کی جو اسکیم بیان ہوئی ہے، وہ یہ ہے:
اولاً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا کر کے یہ قرآن جس طرح آپ کو دیا جا رہا ہے، اس کے دینے کا صحیح طریقہ یہی ہے،لیکن اس سے آپ کو اس کی حفاظت اور جمع وترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی جو قرأت اس کے زمانۂ نزول میں اس وقت کی جارہی ہے، اس کے بعد اس کی ایک دوسری قرأت ہو گی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت اس میں سے کوئی چیز اگر ختم کرنا چاہیں گے تو اسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اس طرح پڑھا دیں گے کہ اس میں کسی سہو ونسیان کا کوئی امکان باقی نہ رہے گا اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کر دیا جائے گا۔
ثانیاً، آپ کو بتایا گیا ہے کہ یہ دوسری قرأت قرآن کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دینے کے بعد کی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی آپ اس بات کے پابند ہو جائیں گے کہ آیندہ اسی قرأت کی پیروی کریں۔ اس کے بعد اس سے پہلے کی قرأت کے مطابق اس کو پڑھنا آپ کے لیے جائز نہ ہو گا۔
ثالثاً، یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کے کسی حکم سے متعلق اگر شرح ووضاحت کی ضرورت ہوگی تو وہ بھی اس موقع پر کر دی جائے گی اور اس طرح یہ کتاب خود اس کے نازل کرنے والے ہی کی طرف سے جمع وترتیب اور تفہیم وتبیین کے بعد ہر لحاظ سے مکمل ہو جائے گی۔‘‘(۲۶)

اس اقتباس سے یہ واضح ہے کہ قرآن مجید جس شکل میں ہمارے سامنے ہے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دی ہوئی ہے اور اب اس کی خلاف ورزی کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسرے یہ بات بھی اس میں بیان ہو گئی ہے کہ تدریج اور حکمت جو کچھ بھی ہم کسی حکم کے بارے میں جاننا چاہیں وہ اس میں بیان کر دیا گیا ہے، اس کے لیے اب ہمیں کسی روایت یا شان نزول کی ضرورت نہیں ہے۔

باقی رہی وہ روایات جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نزولی ترتیب سے قرآن مرتب کرنے کی نسبت کی گئی ہے، انھیں ہم قرآن کی محولہ بالا آیات کی روشنی میں رد کر سکتے ہیں۔ جب قرآن میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ترتیب کا پابند کر دیا گیا ہے تو حضرت علی کی طرف اس کی خلاف ورزی کی نسبت کس طرح قبول کی جا سکتی ہے۔


پیغمبر کے علاوہ وحی

سوال:کیا پیغمبر کے علاوہ بھی وحی آسکتی ہے یا اس کی کوئی صورت نبی بنے بغیر کسی آدمی کو پیش آسکتی ہے؟ (عرفان)

جواب:قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دینی رہنمائی کا سلسلہ بند کیا جا رہا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اب کسی شخص کو خدا کی طرف سے کسی دینی رہنمائی کے ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جو لوگ اس طرح کے دعوے کرتے ہیں ان کی بات بالکل بے بنیاد ہے اور وہ شیطان کے بہکاوے میں آئے ہوئے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے فرمایا تھا:

عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لم یبق من النبوۃ الا المبشرات. قالوا: وما المبشرات؟ قال: الرؤیا الصالحۃ.(بخاری، رقم۶۵۸۹)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نبوت (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رابطے کے پہلو سے) مبشرات کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ لوگوں نے پوچھا: یہ مبشرات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: اچھا خواب۔‘‘

اچھے خواب سے بھی دینی رہنمائی مراد نہیں لی جا سکتی، اس لیے کہ یہ معنی لینے کی صورت میں یہ روایت قرآن مجید کے خلاف چلی جائے گی۔


احمدیت کی سچائی

سوال:احمدیت تمام دنیا میں فروغ پا رہی ہے۔ کیا یہ اس کے سچا مذہب ہونے کی دلیل نہیں ہے؟(عرفان)

جواب:دنیا میں کامیابی اگر حق ہونے کی دلیل ہے تو وہ پیغمبر جنھیں ان کی قوموں نے جھٹلا دیااور چند نفوس کے سوا کسی نے ان کی بات نہ سنی ان کے بارے میں دوسری رائے قائم کرنا پڑے گی۔ دنیا میں فروغ کے اسباب دوسرے ہیں۔ ہمارے مسلمانوں میں شرک کی بعض صورتیں رائج ہیں اور ان کو ماننے والے اپنے آپ کو سواد اعظم کہتے ہیں۔ کیا ان کی یہ دلیل بھی درست ہے۔ اس وقت بھی عیسائی مذہب کے ماننے والے سب سے زیادہ ہیں اور انھیں دنیوی غلبہ بھی حاصل ہے۔ تثلیث کا عقیدہ ان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ کیا یہ عقیدہ ان کی اس ترقی اور فروغ کی وجہ سے صحیح مان لیا جائے۔

حق صرف وہ ہے جسے قرآن حق قرار دے۔ خواہ اس بات کو ماننے والا آدمی دنیا میں ایک ہو اور اس کی بات کو ساری دنیا رد کردے۔

 

وبائی امراض اور احادیث

سوال:کیا وبائی مرض کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہے۔ میں نے سنا ہے کہ حضور نے فرمایا تھا:جو آدمی وبائی مرض کے علاقے میں ہو وہ اس علاقے کو نہ چھوڑے اور جو اس مرض سے فوت ہو گا، وہ شہید ہو گا۔ اس حدیث کی صحت کے بارے میںآپ کی رائے کیا ہے؟ اس ضمن میں کچھ اور احادیث ہیں تو ان سے بھی آگاہ کیجیے۔(فہد صدیقی )

جواب:آپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ طاعون کے مرض کے حوالے سے ہے۔ یہ روایت متعدد کتب حدیث میں آئی ہے۔ میں یہاں بخاری سے ایک متن نقل کرتا ہوں:

عن سعد رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تدخلوہا وإذا وقع بأرض وأنتم بہا فلا تخرجوا منہا.(رقم۵۳۹۶)
’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اور تم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔‘‘

اس حدیث کو بخاری اور مسلم، دونوں کی تصحیح حاصل ہے، لہٰذا سند کے اعتبار سے یہ ایک قوی حدیث ہے۔ اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ اور ارشادات بھی کتب حدیث میں مروی ہیں، ہم ان میں سے دو یہاں نقل کر رہے ہیں۔ بخاری ہی میں ہے:

عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا عدوی، ولا طیرۃ، ولا ہامۃ ولا صفر. وفر من المجذوم کما تفر من الأسد.(رقم۵۳۸۰)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:نہ متعدی بیماری سے بیماری ہوتی ہے۔ نہ بدفال کوئی چیز ہے۔ نہ مقتول کی روح پیاسا پرندہ بنتی ہے اور نہ پیٹ میں بھوک لگانے کا کوئی جانور ہے۔ مجذوم سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘

مسلم میں اس روایت کی پہلی بات پر ایک سوال اور آپ کا جواب بھی نقل ہوا ہے:

...فقال أعرابی: یا رسول اللّٰہ، فما بال الإبل تکون فی الرمل کأنہا الظباء. فیجئ البعیر الأجرب. فیدخل فیہا. فیجربہا کلہا. قال: من أعدی الأول.(رقم۲۲۲۰)
’’ ...(آپ کی بات سن کر ) ایک بدو نے پوچھا:ان اونٹوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو صحرا میں بالکل ہرنوں کی طرح صاف ہوتے ہیں۔ پھر ایک خارش زدہ اونٹ آتا ہے اور ان میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس طرح سب کو خارش زدہ کر دیتا ہے۔ آپ نے کہا: یہ بتاؤ: پہلے کو کس نے خارش لگائی تھی۔‘‘

اس سوال جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ متعدی بیماری بھی اللہ ہی کے اذن سے کسی کو لگتی ہے۔


اسلام اور تفریح

سوال:اسلام میں تفریح کا کیا تصور ہے۔ اس سے متعلق ایک چیز خوشی منانا بھی ہے۔ خوشی کیا چیز ہے۔ ہم اس کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں یا اسے کیسے منا سکتے ہیں۔ کیا خو شی منانے پر کچھ قدغنیں عائد کی گئی ہیں۔ عید کے موقع پر دورکعت نماز اور خیرات کی تعلیم کیا خوشی منانے کی دوسری صورتوں کی نفی کرتی ہے؟(آفتاب احمد معروف)

جواب:اسلام اصل میں باطن اور ظاہر کی پاکیزگی کی تعلیمات کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا پہننے، کھانے، پینے، رہنے بسنے، رسوم ورواج، تفریحات غرض ہر ہر دائرے اور موقع کے لیے اسلام فحاشی ، منکرات اور محرمات سے گریز کا تقاضا کرتا ہے۔ پھر خدا کے ایک بندے کی حیثیت کو بھی اس نے نمایاں کیا ہے۔ چنانچہ دونوں عیدوں پر ایک اضافی نماز کو رائج کیا گیا ہے اور اسے خوشی کے اس دن کا نقطۂ آغاز بنا دیا ہے۔ عید الفطر میں صدقۂ فطر عائد کیا تاکہ غربا کے لیے عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کی صورت پیدا ہو جائے۔ عید الاضحی میں گوشت کی تقسیم سے یہی مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ ایک پہلو سے یہ دونوں عبادتیں خدا سے جوڑتی ہیں اور دوسرے پہلو سے انسان سے۔ فحاشی، منکرات اور محرمات سے گریز انسان کے اخلاقی وجود کو مفاسد سے محفوظ رکھتا ہے اور عبادت اور خیرات سے اسے قوت اور جلا حاصل ہوتی ہے۔

اسلام نے تفریحات پر پابندی عائد نہیں کی، بلکہ انھیں صحیح رخ پر استوار کر دیا ہے۔ جائز حدود میں رہ کر خوشی منائی جا سکتی ہے، لیکن اسے ایسی صورت نہیں دینی چاہیے جو انسان کے اخلاقی وجود کے لیے غلاظت اور زوال کا ذریعہ ہو۔

 

ترکے کی تقسیم

سوال:درج ذیل سوالات کے جواب عنایت فرمایے:

۱۔ مرحوم بیٹے کے ورثہ کی تقسیم کیا ہوگی، جبکہ اس کے والدین، بیوی اور بچے زندہ ہوں۔

۲۔ مرحوم بیٹے کے ورثہ کی تقسیم کیا ہوگی، جبکہ اس کی ماں، بیوی اور بچے زندہ ہوں۔

۳۔ مرحوم بیوی کے ورثہ کی تقسیم کیا ہوگی، جبکہ اس کا شوہر اور بچے زندہ ہوں۔(عمران عظیم)

جواب:پہلی صورت میں مرحوم کے ورثا تین ہیں۔ والدین، بیوی اور بچے۔ ہم نے یہ مان لیا ہے کہ بچے کا لفظ صرف لڑکیوں کے لیے نہیں بولا گیا اور اس میں لڑکے اور لڑکیاں، دونوں شامل ہیں۔ میت پر کوئی قرض نہیں تھا اور نہ اس نے کوئی وصیت کی تھی۔ اب ہمارے نزدیک سب سے پہلے والدین اور بیوی کا حصہ نکالا جائے گا۔ والدین میں سے ہر ایک کو کل ورثے کا چھٹا حصہ دے دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ترکہ ۷۲ روپے تھا تو والد کو بھی بارہ روپے ملیں گے اور والدہ کو بھی بارہ روپے دیے جائیں گے۔ بیوی کو کل ترکے کا آٹھواں حصہ دیا جائے گا۔ مراد یہ ہے کہ بیوی کو ۷۲ میں سے نو روپے دیے جائیں گے۔ باقی بچنے والے روپے بچوں کو اس طرح دیے جاتے ہیں کہ بیٹی سے بیٹے کا حصہ دگنا ہو۔ ہماری مثال کے مطابق ۷۲ میں ۲۴ والدین کو اور ۹ روپے بیوی کو دینے کے بعد ۳۹ روپے بچے ہیں۔ اب اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے تو بیٹی کو ۱۳ روپے اور بیٹے کو ۲۶ روپے ملیں گے۔

دوسری صورت میں بھی وہی تین ہی وارث ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ والدین میں سے والد موجود نہیں ہیں۔ قاعدہ وہی ہے۔ پہلے والدہ کو کل ترکے کا چھٹا حصہ اور پھر بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی رقم بچوں میں مذکورہ طریقے کے مطابق تقسیم ہو گی ۔ ۷۲ میں سے ۱۲ روپے والدہ کو اور نو روپے بیوی کو ادا کرنے کے بعد باقی ۵۱ روپے بچیں گے۔ اوپر والی مثال کے مطابق اگر ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے تو بیٹے کو ۳۴ روپے اور بیٹی کو ۱۷ روپے دیے جائیں گے۔

تیسری صورت میں مرنے والی بیوی ہے اور اس کا ترکہ شوہر اور بچوں میں تقسیم ہونا ہے۔ بیوی کی اگر اولاد ہو تو شوہر کا حصہ ترکے کا چوتھائی ہے۔ باقی ترکہ بچوں میں مذکورہ قاعدے کے مطابق تقسیم ہونا ہے۔ ۷۲ میں سے ۱۸ روپے شوہر کو ملیں گے اور باقی بچنے والے ۵۴ روپے میں سے ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی صورت میں ۱۸ روپے بیٹی کو اور ۳۶ روپے بیٹے کو دیے جائیں گے۔

 

طلاق کی عدت کا آغاز

سوال:میری شادی کو چھ سال ہوئے ہیں۔ اس دوران میں کئی بار جھگڑے ہوئے ہیں اور میری بیوی بار بار روٹھ کر میکے جاتی رہتی ہے۔ اب بھی آٹھ ماہ سے وہ میکے میں ہے۔ اس سے پہلے بھی میں نے ایک رجعی طلاق دی تھی جس کے بعد رجوع بھی کر لیا تھا۔ اب بھی منانے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں۔ لیکن ان کی طرف سے طلاق کے بار بار اصرار پر میں نے ایک طلاق کا نوٹس بھیجا تھا۔ جس میں دس دن کے بعد دوسری طلاق واقع ہو جاتی اور تیس دن گزرنے پر تیسری طلاق واقع ہو جاتی۔ تیس دن گزرنے سے پہلے میں نے تیسری طلاق واقع ہونے کی شق ختم کردی۔ آپ یہ بتائیے کہ دوسری طلاق کب واقع ہوئی اور اس کی عدت کیا ہے؟ یہ بھی بتائیے کہ کیا اس عدت میں رجوع ہو سکتا ہے؟(عبداللہ)

جواب:آپ کے خط میں جو کچھ لکھا ہوا ہے، وہ آپ کا بیان ہے۔ اگر فریقین میں نزاع ہو تو کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دونوں فریقین کے بیانات لیے جائیں اور وہ شخص فیصلہ سنائے جسے دونوں فریق بطور ثالث قبول کر چکے ہوں۔ آپ کے خط کو میں ایک علمی سوال کی حیثیت سے لے رہا ہوں اور اس میں آپ کی بیان کردہ صورت کو بھی جواب دینے کے لیے درست تسلیم کر رہا ہوں۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ اس جواب کو ایک علمی رائے سمجھ کر پڑھیں۔

میرے نزدیک نوٹس بھیجنے کے دسویں دن دوسری طلاق کی عدت شروع ہو گئی تھی۔ تیسرے حیض تک آپ رجوع کر سکتے اور آپ کی اہلیہ واپس آ سکتی ہیں۔ یہ صرف تیسری طلاق کی عدت ہے جس میں رجوع نہیں ہو سکتا۔ آپ کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ دوسری طلاق سے رجوع کر لیں اور اس کے لیے بھی زبانی بات چیت کے بجائے آپ اسی طرح تحریری نوٹس بھیجیں۔ اس صورت میں طلاق ختم ہو جائے گی اور آپ جب چاہیں گے صلح کر سکتے ہیں۔ خواہ اس میں کئی مہینے لگ جائیں۔ دوسری یہ کہ آپ عدت گزرنے دیں ۔ عدت گزرتے ہی آپ کی بیوی آزاد ہوگی، وہ چاہے تو کسی اور سے نکاح کرلے یا آپ ہی سے دوبارہ نکاح کرلے۔یہاں میں قرآن مجید کی ایک ہدایت کی یاددہانی بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ طلاق دینے کے بعد بیوی کا جہیز کا سامان ہو یا آپ کی طرف سے دیے ہوئے تحائف ہوں انھیں فراخ دلی کے ساتھ بیوی کو لے جانے دینا چاہیے۔ یہ بات اگر آپ کے لیے قابل قبول نہ ہو تو بیوی کی رضامندی سے آپ کچھ چیزیں روک سکتے ہیں۔ اس معاملے میں زبر دستی کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔

 __________________

B