HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ایمانیات (۱۷)

(گذشتہ سے پیوستہ)

روز جزا پر ایمان

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا، وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا، وَقَالَ الْاِنْسَانُ: مَالَہَا؟ یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا، بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا، یَوْمَءِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتاً لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ، فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْْرًا یَّرَہٗ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ. (الزلزال۹۹: ۱۔۸)
’’(یہ اُس دن کو یاد رکھیں) جب زمین ہلا دی جائے گی، جس طرح اُسے ہلانا ہے۔ اور زمین اپنے سب بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی، اور انسان کہے گا: اس کو کیا ہوا؟ اُس دن تیرے پروردگار کے ایما سے، وہ اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی۔ اُس دن لوگ الگ الگ نکلیں گے، اِس لیے کہ اُن کے اعمال اُنھیں دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہے، وہ بھی اُسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے، وہ بھی اُسے دیکھ لے گا۔‘‘

دین جن حقائق کو ماننے کا مطالبہ کرتا ہے، ان میں روز جزا کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت میں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ تمام شریعت، نیکی اور خیر کی اساس یہی عقیدہ ہے۔ نبوت و رسالت کی بنا اسی پر قائم ہے۔ نبی اس لیے نبی ہے کہ وہ اس نباء عظیم کی خبر دیتا ہے۔ رسول اس لیے رسول ہے کہ وہ اس کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یوحنا و مسیح اور ابراہیم و موسیٰ، سب نے اس کی منادی کی ہے۔ تورات میں اس کے اشارے ہیں، زبور میں اس کی تصریحات ہیں۔ انجیل میں سیدنا مسیح نے خبر دار کیا ہے کہ اس دن وہی لوگ خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں گے جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتے ہیں۔ قرآن اسی روز جزا کے لیے ایک صحیفۂ انذار و بشارت ہے۔ وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ جس طرح تم سو کر اٹھ جاتے ہو؛ ۸۸؂ جس طرح مردہ زمین پر پانی برستا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے زندہ ہو جاتی ہے؛ ۸۹؂ جس طرح تم کچھ نہیں ہوتے، مگر ایک قطرۂ آب سے جیتے جاگتے انسان بن جاتے ہو، ۹۰؂ اسی طرح ایک دن قبروں سے اٹھا کر زندہ کر دیے جاؤ گے۔ اس میں تمھارے پروردگار کو ذرا بھی مشکل پیش نہ آئے گی۔ اس کے مخاطبین اسے مستبعد سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ان سڑی ہوئی بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہی جس نے پہلی مرتبہ انھیں بنایا تھا۔ ۹۱؂ ایک لفظ بولنا جتنا آسان ہے، اس کے لیے یہ اتنا ہی آسان ہے:

فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ، إِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ أَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَ.(الذاریات۵۱: ۲۳)
’’پس زمین و آسمان کے پروردگار کی قسم، یہ واقع ہو کر رہے گی، بالکل اسی طرح، جس طرح تم بول دیتے ہو۔‘‘

وہ کہتا ہے کہ یہ تمھاری فطرت کا تقاضا ہے، تمھارے اندر خیر و شر کے شعور کا تقاضا ہے، انصاف کے لیے تمھاری طلب کا تقاضا ہے۔ تم خدا کو مانتے ہو تو یہ اس کے عدل کا تقاضا ہے، اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، اس کی رحمت، قدرت اور حکمت کا تقاضا ہے، اس کے قوانین اور سنن کا تقاضا ہے۔ اس پر ایمان کے بغیر دین خواہش نفس کے سوا کچھ نہیں۔ نیکی، تقویٰ، عدل و قسط اور جزا و سزا کے تمام تصورات بالکل بے معنی ہیں۔ یہ دن نہ ہو تو کائنات کھلنڈرے کا کھیل، رام کی لیلا اور یزداں کی تماشا گاہ بن کر رہ جائے۔

اس دن کے شواہد، علامات اور احوال و مقامات قرآن و حدیث، دونوں میں مذکور ہیں۔ انھیں ہم یہاں بیان کریں گے۔

شواہد

پہلی چیز انسان کے اندر خیر و شر کا شعور ہے۔ یہ اسی شعور کا نتیجہ ہے کہ اس کے ضمیر میں ایک نگران ہر وقت اس کی برائیوں پر اسے متنبہ کرتا رہتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی عدالت ہے جو انسان کے اندر قائم ہے اور ہر موقع پر اپنا بے لاگ فیصلہ سناتی ہے۔ انسان اس فیصلے کو مانے یا نہ مانے، وہ فکر و خیال اور علم و عمل کی ہر لغزش کے بعد اسے سنتا ضرور ہے، یہاں تک کہ اس کی بد نفسی اس قدر بڑھ جائے کہ اعمال کی سیاہی اس کے دل کا احاطہ کر کے اس کو بالکل اندھا بہرا کر دے۔ یہ انسان کے اوپر خود اس کے باطن کی گواہی ہے جسے نفس لوامہ کی شہادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن اسے پیش کرتا اور انسان کو بتاتا ہے کہ تم کوئی شتر بے مہار نہیں ہو کہ جو چاہے کر تے رہو، تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح یہ قیامت صغریٰ خود تمھارے اندر برپا ہے، اسی طرح پوری کائنات کے لیے بھی ایک قیامت لازماً برپا ہو گی جس میں تم اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہ ٹھیرائے جاؤ گے اور جو کچھ تم نے کیا ہو گا، اس کے لحاظ سے تمھارے لیے جزا و سزا کا فیصلہ ہو گا۔ تم اسے نہیں مانتے تو اپنے آپ کو جھٹلاتے اور اپنے ضمیر کے روبرو شرارت کرتے ہو:

لَا اُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمۃِ، وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ، اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَہٗ؟ بَلٰی قٰدِرِیْنَ عَلٰٓی اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ، بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَہٗ، یَسْءَلُ اَیَّانَ یَوْمُ الْقِیَمَۃِ؟ فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ، وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ، یَقُوْلُ الْاِنْسَانُ: یَوْمَءِذٍ اَیْْنَ الْمَفَرُّ؟ کَلَّا لَا وَزَرَ، إِلَی رَبِّکَ یَوْمَءِذٍ الْمُسْتَقَرُّ، یُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ یَوْمَءِذٍ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ، بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ، وَّلَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ.(القیامہ۷۵: ۱۔۱۵)
’’نہیں، میں قیامت کے دن کو گواہی میں پیش کرتا ہوں اور نہیں، میں (تمھارے) اِس نفس لوامہ کو گواہی میں پیش کرتا ہوں۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہ کر سکیں گے؟ کیوں نہیں، ہم تو اس کی پور پور درست کر سکتے ہیں۔ (نہیں، یہ بات نہیں)، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انسان اپنے ضمیر کے روبرو شرارت کرنا چاہتا ہے۔ پوچھتا ہے: قیامت کب آئے گی؟ لیکن اُس وقت، جب دیدے پتھرائیں گے اور چاند گہنائے گا اور سورج اور چاند، (یہ دونوں) اکٹھے کر دیے جائیں گے تو یہی انسان کہے گا کہ اب کہاں بھاگ کر جاؤں ہرگز نہیں، اب کہیں پناہ نہیں! اُس دن تیرے رب ہی کے سامنے ٹھیرنا ہو گا۔ اُس دن انسان کوبتایا جائے گا کہ اُس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔ (نہیں، وہ اسے نہیں جھٹلا سکتا)، بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے، اگرچہ کتنے ہی بہانے بنائے۔‘‘

دوسری چیز انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ عدل کو چاہتا اور ظلم سے نفرت کرتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کے باوجود وہ ظلم کرتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان ظلم اور عدل میں فرق کرنے سے قاصر ہے یا ظلم سے محبت کرتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ جذبات و خواہشات سے مغلوب ہو کر وہ اپنے نفس کا توازن کھو بیٹھتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ انسان دوسروں کے گھر میں نقب لگاتا ہے، مگر کبھی نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس کے گھر میں نقب لگائے، دوسروں کو قتل کرتا ہے، مگر کبھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کی یا اس کے اعزہ و اقربا میں سے کسی کی جان لے، دوسروں کے لیے کم تولتا ہے، مگر کم تلوانے کے لیے کبھی راضی نہیں ہوتا۔ انھی چورو ں، قاتلوں اور ڈنڈی مارنے والوں سے پوچھیے تو وہ اعتراف کریں گے کہ ان میں سے ہر چیز ایک جرم ہے اور اسے ختم ہونا چاہیے۔ لہٰذا کوئی انسان بہ قائمی ہوش و حواس اس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ نیک و بد کو یکساں سمجھا جائے اور دونوں سے ایک ہی معاملہ کیا جائے۔ قرآن یہ حقائق سامنے رکھتا اور منکرین قیامت سے پوچھتا ہے:

اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ؟ مَا لَکُمْ، کَیْْفَ تَحْکُمُوْنَ؟(القلم۶۸: ۳۵۔۳۶)
’’پھر کیا ہم فرماں برداروں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسا حکم لگاتے ہو؟‘‘

تیسری چیز انسان اور کائنات، دونوں کی ناتمامی ہے۔ انھیں جس پہلو سے دیکھیے، صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف ان کے ایک ایک جزو سے ان کے بنانے والے کی عظیم قدرت اور عظیم حکمت نمایاں ہے۔ ہر چیز میں اتھاہ معنویت، بے نظیر نظم و ترتیب، بے مثال ریاضی اور اقلیدس، غیر معمولی اہتمام اور بے پناہ تخلیقی حسن علم و عقل کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ دوسری طرف بحیثیت مجموعی ان دونوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے تو آخری درجے میں مایوس کر دینے والی ناتمامی اور بے مقصدیت سامنے آتی ہے۔ تمہیدی مباحث میں ہم اس کے ایک ایک پہلو کی تفصیل کر چکے ہیں۔ اس کے بعد دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ اس کارخانۂ ہستی کو عبث قرار دے کر فیصلہ کیا جائے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ اس کو ایک روز جزا اور خدا کی اس ابدی بادشاہی کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے جس کی منادی انبیا علیہم السلام نے کی ہے۔ علم و عقل کا فیصلہ کیا ہے؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثاً، وَّاَنَّکُمْ اِلَیْْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ، فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ، رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ.(المومنون۲۳: ۱۱۵۔ ۱۱۶)
’’تو کیا یہ گمان رکھتے ہو کہ ہم نے تمھیں بے مقصد پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟ سو بڑی ہی برتر ذات ہے اللہ بادشاہ حقیقی کی، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش کریم کا مالک ہے۔‘‘
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وََالْاَرْضَ، وَمَا بَیْْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ، لَوْ أَرَدْنَآ أَنْ نَّتَّخِذَ لَہْوًا، لَّاتَّخَذْنَاہُ مِنْ لَّدُنَّآ، اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَ.(الانبیاء۲۱: ۱۶۔۱۷)
’’اور زمین و آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ہم نے کھیل تماشے کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ ہم کوئی کھیل بنانا چاہتے تو اپنے پاس ہی بنا لیتے، اگر ہم یہی کرنے کا ارادہ کر لیتے۔‘‘

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... یہ اس (بات) کی دلیل بیان ہوئی ہے کہ اگر اس دنیا کے پیچھے کوئی روز جزا و سزا نہیں ہے۔ یہ یوں ہی چلتی آئی ہے اور یوں ہی ہمیشہ چلتی رہے گی۔ کوئی نیکی کرے یا بدی، ظلم کرے یا انصاف، اس کے خالق کو اس کے خیر و شر سے کوئی بحث نہیں ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس نے یہ محض اپنا جی بہلانے کے لیے ایک کھیل تماشا بنایا ہے، جب تک وہ چاہے گا، اس سے جی بہلائے گا اور جب اکتا جائے گا، اس کی بساط لپیٹ کر رکھ دے گا اور اپنی دل چسپی اور اوقات گزاری کے لیے کوئی نیا کھیل ایجاد کر لے گا۔ فرمایا کہ ہم نے ان آسمان و زمین اور اس کے مابین کی چیزوں کو اس طرح کے کسی کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ یہ کارخانۂ کائنات اپنے وجود سے شاہد ہے کہ یہ ایک عادل و حکیم اور رحمن و رحیم کا بنایا ہوا کارخانہ ہے۔ نہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے، نہ یہ دیوتاؤں کی رزم گاہ ہے اور نہ یہ کسی بھگوان کی لیلا ہے، بلکہ اس پر حکمت کارخانے کی ایک ایک چیز شاہد ہے کہ اس کے خالق نے اس کو ایک عظیم مقصد و غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کے عدل و حکمت کا یہ بدیہی تقاضا ہے کہ ایک ایسا دن آئے ، جس میں اس کا مقصد ظہور میں آئے۔‘‘ (تدبر قرآن۵/ ۱۳۲)

چوتھی چیز صفات الٰہی ہیں جن کے آثار اس کائنات کے ذرے ذرے میں نمایاں ہیں۔ ربوبیت اور رحمت کی صفات ان میں بالخصوص قابل توجہ ہیں۔ عالم کے پروردگار کی طرف سے انسان کی پرورش کا جو غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے، اسے دیکھنے کے بعد کوئی عاقل کس طرح باور کر سکتا ہے کہ اس کا خالق اسے غیر مسؤل چھوڑ دے گا اور رحمن و رحیم خدا سے یہ توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ جن لوگوں نے دنیا کو ظلم و عدوان کا گھر بنا دیا ہے، وہ انھیں کوئی سزا نہ دے گا۔ قرآن نے اسی بنا پر جگہ جگہ توجہ دلائی ہے کہ قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت، ربوبیت اور قدرت و حکمت کا تقاضا ہے۔ خدا کو ماننے کے بعد کوئی شخص اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

انعام میں فرمایا ہے:

کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ، لاَ رَیْْبَ فِیْہِ.(۶: ۱۲)
’’اُس نے اپنے اوپر رحمت لازم کر رکھی ہے۔ وہ تمھیں ضرور جمع کر کے قیامت کے دن کی طرف لے جائے گا، جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے۔‘‘

سورۂ نبا میں ہے:

اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہٰدًا، وَالْجِبَالَ اَوْتَادًا، وَخَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجاً، وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتاً، وَّجَعَلْنَا الَّیْْلَ لِبَاساً، وَّجَعَلْنَا النَّہَارَ مَعَاشاً، وَّبَنَیْْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعاً شِدَادًا، وَّجَعَلْنَا سِرَاجاً وَّہَّاجاً، وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجاً، لِّنُخْرِجَ بِہٖ حَبّاً وَّنَبَاتاً، وَّجَنَّاتٍ اَلْفَافاً، اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتاً.(۷۸: ۶۔۱۷)
’’(یہ دیکھیں توسہی)، کیا ہم نے زمین کو گہوارہ اور پہاڑوں کو (اِس کی) میخیں نہیں بنایا؟ اور تم کو جوڑوں کی صورت میں پیدا نہیں کیا؟ اور (تمھارے لیے) تمھاری نیند کو باعث راحت نہیں بنایا؟ اور رات کو لباس اور دن کو وقت معاش نہیں بنایا؟ اور تمھارے اوپر سات محکم (آسمان) نہیں بنائے؟ اور (اِن میں) ایک دہکتا چراغ، (یہ سورج) نہیں بنایا؟ اور نچڑتی بدلیوں سے چھاجوں مینہ نہیں برسایا کہ اِس سے اناج اور سبزہ اور گھنے باغ اگائیں؟ (یہ سب، منادی کر رہا ہے کہ) بے شک فیصلے کا دن مقرر ہے۔‘‘

اسی طرح ق میں فرمایا ہے:

اَفَلَمْ یَنظُرُوْٓا اِلَی السَّمَآءِ فَوْقَہُمْ، کَیْْفَ بَنَیْْنٰہَا وَزَیَّنّٰہَا، وَمَا لَہَا مِن فُرُوْجٍ، وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا، وَاَلْقَیْْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ، وَاَنبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیْجٍ، تَبْصِرَۃً وَذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ، وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَکًا، فَاَنبَتْنَا بِہٖ جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِیْدِ، وَالنَّخْلَ بَاسِقٰتٍ لَّہَا طَلْعٌ نَّضِیْدٌ، رِّزْقاً لِّلْعِبَادِ، وَأَحْیَیْْنَا بِہٖ بَلْدَۃً مَّیْْتاً، کَذٰلِکَ الْخُرُوْجُ.(۵۰: ۶۔ ۱۱)
’’پھر کیا اِنھوں نے اپنے اوپر آسمان کو نہیں دیکھا، کس طرح ہم نے اُسے بنایا اور اُسے سنوارا ہے اور (نہیں دیکھا کہ) اُس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں ہے۔ اور زمین کو ہم نے بچھایا اور پہاڑ گاڑ دیے اور اُس کے اندر ہر طرح کی خوش منظر نباتات اگا دیں۔ ہر اُس بندے کی بصیرت اور یاد دہانی کے لیے جو رجوع کرنے والا ہو۔ اور آسمان سے ہم نے برکتوں والا پانی برسایا ہے، پھر اُس سے باغ اُگائے اور فصل کے غلے اور کھجوروں کے بلند و بالا درخت بھی جن میں تہ بر تہ خوشے لگتے ہیں، بندوں کی روزی کے لیے۔ اور اُس سے مردہ زمین کو زندہ کر دیا۔ (زمین سے تمھارا) نکلنا بھی اسی طرح ہو گا۔‘‘

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’یہ اللہ تعالیٰ نے مکذبین قیامت کو اپنی قدرت، ربوبیت اور حکمت کی ان بدیہی نشانیوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو اوپر اور نیچے ہر جگہ نظر آتی ہیں اور ہر اس شخص کے اندر بصیرت اور یاد دہانی پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں جس کے سینے میں اثر پذیر اور متوجہ ہونے والا دل ہو۔
سب سے پہلے اپنی عظیم قدرت و حکمت کی طرف توجہ دلائی کہ کیا انھوں نے کبھی اپنے اوپر آسمان کی طرف نگاہ نہیں اٹھائی کہ دیکھتے کہ کس طرح ہم نے اس کو بلند کیا، اس کو ستاروں سے سجایا اور ہماری قدرت و حکمت کا اعجاز ہے کہ ایسی ناپید اکنار چھت میں کہیں کسی رخنہ کی نشان دہی وہ نہیں کر سکتے۔ مطلب یہ ہے کہ جس کی قدرت و حکمت کا یہ کرشمہ وہ اپنے سروں پر دیکھتے ہیں، کیا اس کے لیے ان کے مرنے کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کر دینا مشکل ہو جائے گا؟
اس کے بعد قدرت و حکمت کے ساتھ اپنی ربوبیت اور پرورش کے اہتمام کی طرف بھی توجہ دلائی۔ فرمایا کہ وہ اپنے نیچے دیکھیں کہ کس طرح ہم نے زمین کو ان کے قدموں کے نیچے بچھایا ہے اورا س کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے اس کے اندر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دی ہیں اور اس میں طرح طرح کی چیزیں اگا رکھی ہیں جو ان کی غذا کے کام آتی ہیں اور جن کی خوش منظری ان کی باصرہ نوازی بھی کرتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس پروردگار کی قدرت و حکمت اور جس کی پروردگاری کی یہ شانیں وہ دیکھ رہے ہیں، کیا اس کے لیے دشوار ہے کہ وہ ان کے مر جانے کے بعد ان کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے؟ کیا جس پروردگار نے ان کی پرورش کا یہ اہتمام کر رکھا ہے، وہ ان کو اسی طرح چھوڑے رکھے گا کہ وہ کھائیں، پئیں، عیش کریں، ان سے کبھی اس باب میں کوئی پرسش نہیں ہو گی؟‘‘ (تدبر قرآن ۷/ ۵۳۸)

پانچویں چیز دنیا میں خداکی دینونت کا ظہور ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ان کی قوموں کے لیے ایک قیامت صغریٰ اسی دنیا میں برپا کر دی جاتی ہے۔ ایمان و عمل کی بنیاد پر قیامت میں جزا و سزا کے جس معاملے کی خبر دی گئی ہے، وہ ان کی قوموں کے ساتھ اسی دنیا میں ہو جاتا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی اللہ تعالیٰ نے صدیوں سے اسی دینونت کا نمونہ بنا رکھا ہے۔ اس کے لیے سنت الٰہی یہ ہے کہ یہ اگر حق پر قائم ہو اور اسے بے کم و کاست دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتی رہے تو ان کے نہ ماننے کی صورت میں اللہ تعالیٰ ان قوموں پر اسے غلبہ عطا فرماتے ہیں اور اس سے انحراف کرے تو انھی کے ذریعے سے ذلت او رمحکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل، دونوں اس وقت اسی عذاب سے دوچار ہیں۔ اس سنت الٰہی کے بارے میں قرآن کے ارشادات ہم اس سے پہلے نقل کر چکے ہیں۔ یہ اس بات کی قطعی شہادت ہے کہ انبیا علیہم السلام نے جس قیامت کی خبر دی ہے، وہ بھی اسی طرح ایک دن برپا ہو کر رہے گی۔

[باقی]

———————

۸۸؂ الزمر۳۹: ۴۲۔

۸۹؂ الاعراف۷: ۵۷۔ فاطر۳۵: ۹۔

۹۰؂ القیامہ ۷۵: ۳۶۔۴۰۔

۹۱؂ یٰس۳۶: ۷۸۔

——————————————

B