بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
وَاعْبُدُوا اللّٰہَ، وَلاَ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْْئاً، وَّبِالْوَالِدَیْْنِ اِحْسَانًا، وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ، وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنْبِ، وَابْنِ السَّبِیْلِ، وَمَا مَلَکَتْ اَیْْمَانُکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرًا{۳۶} الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ، وَیَکْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ، وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَاباً مُّہِیْنًا{۳۷} وَالَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ رِئَـآئَ النَّاسِ، وَلاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَمَنْ یَّکُنِ الشَّیْْطٰنُ لَہٗ قَرِیْنًا، فَسَآئَ قَرِیْنًا{۳۸} وَمَاذَا عَلَیْْہِمْ، لَوْ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الاْٰخِرِ، وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ، وَکَانَ اللّٰہُ بِہِمْ عَلِیْمًا{۳۹} اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ، وَاِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا، وَیُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ اَجْرًا عَظِیْمًا{۴۰}
فَکَیْْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِیْدٍ، وَجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓـؤُلَآئِ شَہِیْدًا{۴۱} یَوْمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، وَعَصَوُا الرَّسُوْلَ، لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُ، وَلاَ یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا{۴۲}
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْتُمْ سُکٰرٰی، حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ، وَلاَ جُنُباً، اِلاَّ عَابِرِیْ سَبِیْلٍ، حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا، وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ، اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ، اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ، فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا، فَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِکُمْ وَاَیْْدِیْکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًا{۴۳}
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھیراؤ،۸۸ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ۸۹اور قرابت مندوں،۹۰ یتیموں، مسکینوں۹۱ اور پڑوسی رشتہ داروں ، اجنبی ہم سایوں اور ہم نشینوں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔ (اِسی طرح) مسافروں اور لونڈی غلاموں کے ساتھ جو تمھارے قبضے میں ہوں۔۹۲ اللہ اُن لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اتراتے اور اپنی بڑائی پر فخر کرتے ہیں،۹۳ جو خود بھی بخل کرتے اور دوسروں کو بھی اسی کا مشورہ دیتے ہیں اور اللہ نے اپنے فضل میں سے جو کچھ اُنھیں دیا ہے، اُسے چھپاتے ہیں۔۹۴ ایسے ناشکروں کے لیے ہم نے ذلیل کر دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے ـــجو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور نہ اللہ کو مانتے ہیں اور نہ قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ (اِن کا ساتھی شیطان ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔ اِن کا کیا نقصان تھا، اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ نے جو کچھ اِنھیں بخشا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ اِن سے خوب با خبر ہے۔۹۵ اللہ کسی کی ذرہ برابر حق تلفی نہ کرے گا اور کسی کی ایک نیکی ہو گی تو اُسے کئی گنا بڑھائے گا اور (اِس کے ساتھ) خاص اپنے پاس سے اُس کو بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا۔۳۶-۴۰
اُس دن یہ کیا کریں گے، جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور اِن لوگوں پر، (اے پیغمبر) تمھیں گواہ بنا کر کھڑا کریں گے۔ اُس دن وہ لوگ جو (اتمام حجت کے باوجود) منکر ہوئے اور جنھوں نے رسول کی نافرمانی کی ہے، تمنا کریں گے کہ کاش، زمین اُن پر اُن کے سمیت برابر کر دی جائے اور وہاں وہ اپنی کوئی بات بھی اللہ سے چھپا نہ سکیں گے۔۹۶ ۴۱-۴۲
ایمان والو، (خدا کی بندگی کا جو حکم تمھیں اوپر دیا گیا ہے، اُس کا سب سے بڑا مظہر نماز ہے، اِس لیے) تم نشے میں ہو تو نماز کی جگہ کے قریب نہ جاؤ،۹۷ یہاں تک کہ جو کچھ کہہ رہے ہو، اُسے سمجھنے لگو اور اِسی طرح جنابت کی حالت میں بھی، جب تک غسل نہ کر لو، الاّ یہ کہ صرف گزر جانا پیش نظر ہو۔ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کرکے آئے ۹۸یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو، پھر پانی نہ ملے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔ (اللہ نے تمھارے ساتھ یہ رعایت فرمائی ہے)، اس لیے کہ اللہ درگزر کرنے والا اور بخشش فرمانے والا ہے۔۹۹ ۴۳
۸۸؎ یہ اخلاق کے فضائل و رذائل کا بیان ہے۔ اس کی ابتدا قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی اللہ کی عبادت کرتے رہنے کی ہدایت سے ہوئی ہے۔ یہ عبادت اللہ کا حق ہے اور خالق و مالک اور جہانوں کا پروردگار ہونے کی وجہ سے اسی کا حق سب سے بڑا ہے۔ اس کی حقیقت خضوع اور تذلل ہے جس کا اولین ظہور پرستش کی صورت میں ہوتا ہے۔ پھر انسان کے عملی وجود کی رعایت سے یہی پرستش اطاعت کو شامل ہو جاتی ہے۔ پہلی صورت کے مظاہر تسبیح و تحمید، دعا و مناجات، رکوع و سجود، نذر نیاز، قربانی اور اعتکاف ہیں۔ دوسری صورت میں آدمی کسی کو مستقل بالذات شارع و حاکم سمجھ کر اس کے لیے تحلیل و تحریم اور امر و نہی کے اختیارات مانتا اور اس کے حکم پر سر تسلیم خم کرتا ہے۔ اللہ، پروردگار عالم کا فیصلہ ہے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی اس کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ساتھ ہی تاکید کر دی ہے کہ خدا کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھیرایا جائے۔ یہ تنہا خدا کا حق ہے۔ اس میں کسی دوسرے کو شریک کیا جائے تو یہ باطل ہو کر رہ جاتی ہے۔
۸۹؎ اصل میں ’وبالوالدین احسانا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ ان میں ’ب‘ اس بات پر دلیل ہے کہ ’احسانا‘ یہاں ’بر‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔یعنی یہ حسن سلوک اداے حقوق کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کی تعلیم تمام الہامی صحائف میں دی گئی ہے۔ قرآن مجید نے یہاں اور اس کے علاوہ بنی اسرائیل(۱۷) کی آیت ۲۳، عنکبوت (۲۹) کی آیت ۸، لقمان (۳۱) کی آیات ۱۴-۱۵ اور احقاف(۴۶)کی آیت ۱۵ میں یہی تلقین فرمائی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ چنانچہ اللہ کی عبادت کے بعد سب سے پہلے اسی کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے والدین ہی اس کے وجود میں آنے اور پرورش پانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لقمان اور احقاف میں یہ حکم جس طرح بیان ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بھی ماں کا حق زیادہ ہے۔ بچے کی پرورش کے معاملے میں باپ کی شفقت بھی کم نہیں ہوتی، لیکن حمل، ولادت اور رضاعت کے مختلف مراحل میں جو مشقت بچے کی ماں اٹھاتی ہے، اس میں یقینا اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بنا پر ماں کا حق باپ کے مقابلے میں تین درجے زیادہ قرار دیا ہے۔
۹۰؎ اس سے واضح ہے کہ والدین کے علاوہ جو تعلقات اس دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ان میں پہلا حق اعزہ و اقربا کا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن سے حسن سلوک کو صلۂ رحمی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسانوں کے مابین وجہ تعلق ہم عمری بھی ہو سکتی ہے، ہم درسی، ہم سایگی، ہم نشینی، ہم مذاقی، ہم پیشگی اور ہم وطنی بھی، لیکن ان تمام تعلقات میں سب سے بڑھ کر وہی تعلق ہے جو رحم مادر کے اشتراک سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے جسے توڑنا انسان کے لیے کسی طرح زیبا نہیں ہے، لہٰذا اس کے حقوق کی نگہداشت بھی سب سے مقدم ہے۔
۹۱؎ اعزہ و اقربا کے بعد یہ یتامیٰ و مساکین کو اس حکم میں شامل کیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ گویا یہ بھی قرابت مندوں ہی کے زمرے میں ہیں، لہٰذا ہر مسلمان کو انھیں اسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور اسی جذبے سے ان کی خدمت اور سرپرستی کرنی چاہیے۔
۹۲؎ تمدن کی تبدیلی کے باوجود مسافر تواب بھی کسی نہ کسی صورت میں ضرورت مند ہو جاتے ہیں، لیکن غلامی اس زمانے میں ختم ہو چکی ہے۔ اسلام نے جو اقدامات اسے ختم کرنے کے لیے کیے، ان کی تفصیلات ہم اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’قانون معاشرت‘‘ کے زیر عنوان بیان کر چکے ہیں۔ پڑوسی کے بارے میں، البتہ قرآن کا تصور مذہب و اخلاق کی تاریخ میں ایک بالکل ہی منفرد تصور ہے۔ عام طور پر تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ پڑوسی وہ ہے جس کا مکان آپ کے مکان سے ملا ہوا یا اس کے قریب ہے، لیکن قرآن نے اس آیت میں بتایا ہے کہ پڑوسی تین قسم کا ہوتا ہے:
ایک وہ جو پڑوسی بھی ہے اور قرابت مند بھی۔ اسے ’الجار ذی القربیٰ‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کا ذکر سب سے پہلے ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے پڑوسیوں کے مقابلے میں یہ حسن سلوک کا زیادہ حق دار ہے۔
دوسرا وہ جو قرابت مند تو نہیں، لیکن پڑوسی ہے۔ اس کے لیے ’الجار الجنب‘ یعنی اجنبی پڑوسی کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ اجنبیت رشتہ و قرابت کے لحاظ سے بھی ہو سکتی ہے اور دین ومذہب میں اختلاف کے باعث بھی ہو سکتی ہے۔ قرابت مند پڑوسی کے بعد اسی کا درجہ ہے۔
تیسرا وہ جو سفر و حضر میں کسی جگہ آدمی کا ساتھی یا ہم نشین بن گیا ہے۔ قرآن نے اسے ’الصاحب بالجنب‘ سے تعبیر کیا ہے اور اس کے لیے اسی طرح حسن سلوک کی ہدایت فرمائی ہے جس طرح دوسرے پڑوسیوں کے لیے فرمائی ہے۔
۹۳؎ اداے حقوق اور احسان کی تاکید کے بعد یہ اس کے منافی ذہنیت کا بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو خود اپنی قابلیت اور اپنی تدبیر و حکمت کا کرشمہ سمجھنے لگتے ہیں، ان کے اندر تواضع اور شکرگزاری کے جذبے کے بجائے اترانے اور اپنی بڑائی پر فخر کرنے کی ذہنیت پیدا ہو جاتی ہے۔
۹۴؎ یہ اترانے اور بڑائی مارنے والوں کی چند مزید خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے ان کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پہلی یہ کہ یہ خود بھی بخیل ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کا مشورہ دیتے ہیں۔ ’’بخیل‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں تنگ دل ہو۔ جو شخص دوسروں کے حقوق فیاضی اور کشادہ دلی کے ساتھ ادا کرتا ہے، لیکن خود اپنی ذات کے معاملے میں احتیاط و تنگی برتتا ہے، اس کو بخیل نہیں کہتے۔ بخالت کا بڑا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے مال و اسباب کو خدا کی دین سمجھنے کے بجائے خود اپنی تدبیر و قابلیت کا کرشمہ سمجھنے لگتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے اندر تواضع اور شکر گزاری کا وہ جذبہ ہی مردہ ہو جاتا ہے جو فیاضی اور جودوکرم کا اصل محرک ہے۔
بخیل آدمی دوسروں کو بھی بخالت کا مشورہ دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کی فیاضی سے خود اس کی بخالت کا راز فاش ہوتا ہے۔ اپنے اس عیب پر پردہ ڈالے رکھنے کے لیے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس طرح وہ دوسروں کے حقوق دبائے بیٹھا ہے، اسی طرح دوسرے بھی بیٹھے رہیں کہ نہ کوئی ناک والا ہو گا، نہ ا س کو نکوبننا پڑے گا۔ قاعدہ ہے کہ جو آدمی بزدل ہوتا ہے، وہ دوسروں کو بھی بزدلی ہی کا درس دیتا ہے تاکہ خود اس کی بزدلی کا بھانڈا نہ پھوٹے۔
دوسری یہ کہ یہ اللہ کے اس فضل کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے ان کو دے رکھا ہے ــ یہ بخیل مال داروں کے ایک نہایت مخفی نفسیاتی پہلو کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ بخیل مال داروں کی خواہش ایک طرف تو یہ ہوتی ہے کہ ہر شخص پر ان کی ریاست و امارت کی دھونس جمی رہے، دوسری طرف یہ کوشش بھی وہ کرتے رہتے ہیں کہ کوئی شخص اداے حقوق کے معاملے میں ان کو کوئی ملامت نہ کر سکے۔ چنانچہ یہ ہر ملنے جلنے والے اور ہر طالب وسائل کے سامنے اپنے وسیع اخراجات ، کاروبار میں نقصانات، اپنی پھیلی ہوئی ذمہ داریوں اور طالبوں اور سائلوں کی کثرت کا دکھڑا روتے رہتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ ہے تو یہ شخص غنیِ دریا دل، لیکن بے چارہ کیا کرے، بڑی بھاری ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس وجہ سے ہزاروں لاکھوں کی آمدنی رکھنے کے باوجود اس کے پاس بچتا بچاتا کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۲۹۹)
۹۵؎ یہ اظہار افسوس کا اسلوب ہے جو ان بخل کرنے والوں کو ان کی بدقسمتی پر توجہ دلانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔
۹۶؎ اس گواہی کی پوری حقیقت سیدنا مسیح علیہ السلام کی اس گواہی سے واضح ہوتی ہے جس کا ذکر سورئہ مائدہ کے آخر میں ہوا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ ایک عظیم شرف کا بیان ہے، لیکن غور کیجیے تو اس کے ساتھ یہ آپ کے لیے ایک عظیم ذمہ داری کا بیان بھی ہے۔ چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سناتے ہوئے یہ آیت پڑھی تو آپ شدت تاثر سے آب دیدہ ہو گئے۔
۹۷؎ اصل میں ’لا تقربوا الصلٰوۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ان کے ساتھ دو قرینے موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں ’صلٰوۃ‘ کا لفظ موضع صلوٰۃ، یعنی مسجد پر بھی مشتمل ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ ایک تو یہ کہ فرمایا نشے اور جنابت کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ پھٹکو ۔ظاہر ہے کہ اگر صلوٰۃ سے مراد مجرد نماز ہوتی تو اس کے لیے ’نماز نہ پڑھو‘ کہہ دینا کافی تھا۔’ لَا تَقْرَبُوْا ‘کے الفاظ سے اس مطلب کو ادا کرنے کا کوئی خاص فائدہ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرا یہ کہ اس کے ساتھ’ اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ‘ کا استثنا بھی ہے۔یعنی اگر نماز کی جگہ سے مجرد گزر جانا مدنظر ہو تو اس میں مضائقہ نہیں۔ یہ گزر جانا ، نماز کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا، بلکہ اس کی واضح مناسبت ہو سکتی ہے تو موضع نماز ہی کے ساتھ ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں نے اسی عدم مناسبت سے بچنے کے لیے ’عَابِرِیْ سَبِیْلٍ‘ سے مراد حالت سفر کو لیا ہے، لیکن یہ محض تکلف ہے۔ اول تو سفر کے لیے یہ تعبیر بالکل اجنبی ہے، دوسرے یہ کہ حالت سفر کے لیے جو رخصت ہے، وہ اسی آیت میں ’اَوْ عَلٰی سَفَرٍ‘ کے الفاظ سے مستقلاً بیان ہوئی ہے۔ پھر یہاں اس کے ذکر کی کیا ضرورت تھی۔ ‘‘(تدبرقرآن۲/ ۳۰۲)
۹۸؎ اصل الفاظ ہیں: ’اوجاء احد منکم من الغائط‘۔لفظ ’غائط‘ عربی زبان میں نشیبی زمین کے لیے آتا ہے۔ یہاں یہ رفع حاجت سے کنایہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاتی زندگی میں لوگ اس مقصد کے لیے بالعموم نشیبی زمینوں ہی میں جاتے ہیں۔
۹۹؎ اوپر جس طرح عبادت اور احسان و انفاق کو باطل کر دینے والی چیزوں، شرک اور ریا وغیرہ کا ذکر فرمایا تھا، اسی طرح سلسلۂ بیان کے آخر میں اب یہ عبادت الٰہی کے سب سے بڑے مظہر نماز کے مفسدات بیان کیے ہیں۔ آیت پر غور کیجیے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ نشے اور جنابت کو اس میں یکساں مفسد نماز قرار دیا گیا ہے، اس لیے کہ یہ دونوں حالتیں نجاست کی ہیں۔ بس اتنا فرق ہے کہ نشہ عقل کی نجاست ہے اور جنابت جسم کی۔ ہر شخص جانتا ہے کہ شراب جس طرح عقل کو معطل کر دیتی ہے، اسی طرح جنابت کا انقباض بھی اس انشراح اور حضور قلب کو ختم کر دیتا ہے جو نماز کے لیے مطلوب ہے۔ اس میں اتنی رخصت،البتہ اللہ تعالیٰ نے رکھ دی ہے کہ اس حالت میں کوئی شخص اگر کسی ضرورت کے باعث مسجد کے اندر سے محض گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے۔ فرمایا ہے کہ جنابت کی اس حالت کے بعد غسل ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اس غسل کے لیے آیت میں ’تغتسلوا‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اسے پورے اہتمام کے ساتھ کیا جائے۔ تاہم اس کے ساتھ اجازت دی ہے کہ سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی صورت میں وضو اور غسل، دونوں مشکل ہو جائیں تو آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ اس کا طریقہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی پاک جگہ دیکھ کر اس سے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لیا جائے۔ نیز صراحت فرمائی ہے کہ تیمم ہر قسم کی نجاست میں کفایت کرتا ہے۔ وضو کے نواقض میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو اس کے بعد بھی کیا جا سکتا ہے اور مباشرت کے بعد غسل جنابت کی جگہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مرض میں وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے، اس وجہ سے یہ رعایت ہوئی ہے۔ اسی طرح سفر میں مختلف حالتیں ایسی پیش آ سکتی ہیں کہ آدمی کو تیمم ہی پر قناعت کرنی پڑے۔مثلاً یہ کہ پانی نایاب تو نہ ہو، لیکن کمیاب ہو۔ اندیشہ ہو کہ اگر غسل وغیرہ کے کام میںلایا گیا تو پینے کے لیے پانی تھڑ جائے گا یا یہ ڈر ہو کہ اگر نہانے کے اہتمام میں لگے تو قافلے کے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں گے، یار یل اور جہاز کا ایسا سفر ہو کہ غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۳۰۳)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تیمم سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اصل طریقۂ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو شبہی صورت میں اس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ