’’اشراق‘‘ کے اپریل ۲۰۰۶ کے شمارے میں ہم نے ’’غناء جاریتین کے واقعہ میں راویوں کے تصرفات‘‘ کے زیرعنوان صحیح بخاری کی ایک روایت میں، جس میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں دو لونڈیوں کے دف بجا کر گانا گانے کا واقعہ بیان کیا ہے، راویوں کے بعض تصرفات کی نشان دہی کی تھی۔ موقر معاصر’ ’الاعتصام‘‘ (۵۸/ ۲۹ و ۳۰) میں محترم مولانا ارشاد الحق اثری صاحب نے اس کے بعض نکات پر تنقید کی جس کے جواب میں ہماری معروضات ’’اشراق‘‘ کے ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارے میں شائع ہوئی تھیں۔ ہم مولانا محترم کے بے حد شکر گزار ہیں کہ انھوں نے اپنے متنوع علمی وتصنیفی مشاغل میں سے ہماری طالب علمانہ معروضات کے تنقیدی جائزہ کے لیے وقت نکالا ہے اور’’الاعتصام‘‘ (۵۹/ ۱۲ تا ۱۴) اور ’’محدث‘‘ (اپریل ۲۰۰۷) میں اپنی تحقیقات پیش فرمائی ہیں۔ مولانا محترم نے اگرچہ ایک خالص علمی بحث میں اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے جابجا مختلف قسم کی پھبتیاں کسنے کا اسلوب بھی اختیار فرمایا ہے، تاہم اس کے ساتھ ان کی تحریر علمی استدلال سے بھی مزین ہے جو ہمارے نزدیک ہر رنگ اور ہر انداز میں ایک نہایت قابل قدر چیز ہے، اس لیے ہم اس نوعیت کے تبصروں اور تعریضات سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی گزارشات کو مولانا محترم کے استدلالات کا جائزہ لینے تک محدود رکھیں گے۔
زیر بحث نکات میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ ہشام بن عروہ سے غناء جاریتین کا مذکورہ واقعہ روایت کرنے والے تلامذہ میں سے ایک شاگرد ابو اسامہ نے اپنے طریق میں یہ اضافہ بھی روایت کیا ہے کہ: ’قالت ولیستا بمغنیتین‘، یعنی ام المومنین نے فرمایا کہ گانا گانے والی یہ دونوں لونڈیاں پیشہ ور مغنیہ نہیں تھیں۔ ہم نے گزارش کی تھی کہ چونکہ ہشام بن عروہ سے اس واقعہ کو نقل کرنے والے باقی پانچ شاگرد شعبہ، حماد بن سلمہ، عبد اللہ بن نمیر، عبد اللہ بن معاویہ اور معمر اس جملے کو نقل نہیں کرتے، اس لیے اصول حدیث کی رو سے روایت کے متن میں اس جملے کو نقل کرنا ابو اسامہ کا وہم ہے جسے ام المومنین کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا محترم نے ہماری اس گزارش پر تین اعتراضات کیے تھے جن کا جواب ہماری طرف سے ’’اشراق‘‘ ستمبر ۲۰۰۶ میں شائع ہوا۔
پہلا اعتراض یہ تھا کہ جب راوی خود ’قالت‘ (یعنی ام المومنین نے کہا) کہہ کر اس جملے کی نسبت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف کر رہا ہے تو اسے راوی کا وہم قرار دینا درست نہیں، بلکہ ایسا کرنا راوی کی عدالت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوگا اور اس کا مطلب یہ بنے گا کہ اس نے اپنی بات غلط طور پر سیدہ عائشہ کی طرف منسوب کر دی۔ ہم نے اس کے جواب میں گزارش کی تھی کہ اگر کوئی راوی وہم اور غلطی کی بنا پر روایت کے متن میں کوئی ایسی بات شامل کر دے جسے وہ اپنے خیال میں اصل روایت ہی کا حصہ سمجھ رہا ہو تو اس کی طرف سے اس تصریح کا سامنے آ جانا کہ یہ جملہ فلاں راوی یا خود صحابی نے کہا ہے، کسی طرح باعث تعجب نہیں، اس لیے کہ وہ اپنی دانست میں اس بات کو درست سمجھ کر ہی ایسا کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں نہ تو یہ طریقہ درست ہوگا کہ محض اس کی تصریح کو دیکھتے ہوئے ان قرائن و شواہد کو نظر انداز کر دیا جائے جو اس کے بیان کردہ اضافے کے ’مدرج‘ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں اور نہ ایسا کرنا ہی جائز ہوگا کہ اس کی زیادت کو رد کرتے ہوئے خود راوی کے صدق وعدالت اور دیانت داری پر سوال اٹھادیا جائے۔
اپنے حالیہ مضمون میں مولانا محترم نے اس بات کے جواب میں کچھ ارشاد نہیں فرمایا جس سے یہ اخذ کرنا غالباً غلط نہیں ہوگا کہ انھوں نے ہماری گزارش سے اتفاق فرما لیا ہے۔
مولانا محترم نے دوسرا اعتراض یہ کیا تھا کہ ابو اسامہ کی زیر بحث زیادت پر کوئی سوال اٹھانا اس لیے درست نہیں کہ یہ حدیث کی کسی عام کتاب میں نہیں، بلکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے۔ اس کے جواب میں ہم نے مولانا محترم کی کتاب ’’توضیح الکلام‘‘ سے خود ان کا یہ ارشاد نقل کیا کہ صحیحین میں مروی روایات کے بحیثیت مجموعی صحیح ہونے کے باوجود اس بات کا امکان، بلکہ وقوع موجود ہے کہ کسی روایت کا کوئی ٹکڑا نقل کرنے میں راوی وہم کا شکار ہو گیا ہو۔ اس پر مولانا محترم کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ بات بطور اصول درست ہونے کے باوجود صحیحین کی کسی روایت میں راوی کے وہم کی نشان دہی کے لیے ضروری ہے کہ متقدمین اور ائمۂ فن میں سے کسی نے اس کی تصریح کی ہو۔ مولانا محترم کے اس اصرار پر ہم نے دریافت کیا تھا کہ اگر کسی حدیث کی صحت وضعف کو طے کرنے کا معیار نقد روایت کے اصول ہیں اور کسی روایت کی صحت یا ضعف کے باب میں ائمۂ فن کے فیصلوں کی بنیاد بھی دلائل و شواہد ہی پر ہوتی ہے تو دلائل وشواہد ہی کی روشنی میں ان کی رائے سے اختلاف کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ نیز یہ کہ ’’علم حدیث کے جس ذخیرے اور طرق واسانید کے جس مواد سے استفادہ کرتے ہوئے متقدمین رائے قائم کیا کرتے تھے، کیا وہ دنیا سے ناپید ہو چکا ہے اور اب ہمارے پاس متقدمین کے فیصلوں کو علمی معیار پر جانچنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناًنہیں ہے تو پھر محض خوش اعتقادی کی بنا پر متقدمین اور متاخرین میں فرق کیوں روا رکھا جا رہا ہے؟‘‘
مولانا محترم نے اپنے حالیہ مضمون میں یہ فرق روا رکھنے کا جواز یہ پیش فرمایا ہے کہ :
’’متقدمین کی نگاہوں میں ذخیرۂ احادیث تھا۔ ایک ایک روایت کی متعدد اسانید انھیں ازبر تھیں اور یوں لاکھوں احادیث کے وہ حافظ تھے، جیسا کہ تاریخ وتراجم کی کتابوں میں محفوظ ہے۔
اس کے برعکس چند مطبوعہ کتابوں کی ورق گردانی سے ان سابقین محدثین کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ دینا خود سری ہے۔‘‘ (الاعتصام ۵۹/ ۱۳/ ۱۸)
مولانا محترم کا یہ ارشاد محض ایک روایت،بلکہ روایت کے ایک جز کے رد وقبول تک محدود نہیں، بلکہ ذخیرۂ حدیث اور محدثین کی خدمات اور کاوشوں کے وسیع تر دائرے کے حوالے سے بھی ایک خاص زاویۂ نگاہ کا ترجمان ہے جو ہمارے زاویہ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ہمارے نزدیک روایات واحادیث کی تحقیق وتنقید کے باب میں اصل معیار کی حیثیت ایک مخصوص دور کی تحقیقات کے نتائج کو نہیں، بلکہ ان مسلمہ علمی وعقلی اصولوں کو حاصل ہے جن کو سامنے رکھتے ہوئے علم حدیث کے تشکیلی دور میں اکابر محدثین نے روایات کی بے لاگ تنقید کی شان دار روایت قائم کی اور راویوں کی ظاہری ثقاہت اور مقام ومرتبہ کی رعایت کیے بغیر فن روایت کے اصولوں کی روشنی میں ان کی روایات کاتجزیہ کیا۔ محدثین کی محنت اور کاوش کے غیر معمولی نتائج ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اصولی طور پر نہ محدثانہ تحقیق وتنقید کا دروازہ کبھی بند کیا جا سکتا ہے اور نہ یہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ متقدمین محدثین کے اخذ کردہ نتائج پر کوئی سوال اٹھانے یا ان کے مرتب کردہ مجموعوں میں درج روایات کی تحقیق و تفتیش کی ضرورت یا امکان ہر لحاظ سے ختم ہو چکا ہے۔ صحیح علمی رویہ یہ ہے کہ نقد روایت کے باب میں نئے تنقیدی زاویوں کے امکان کی نفی نہ کی جائے، بلکہ دلائل وشواہد پر مبنی کوئی بھی تنقید سامنے آنے پر متعلقہ روایات کا ازسر نو روایتاً ودرایتاً جائزہ لیا جائے اور رد و قبول کے مستند ترین معیارات کے مطابق ان کی صحت وسقم کا فیصلہ کیا جائے۔ محض حسن ظن کی بنا پر صحیحین کی روایات کی نقد و جرح کے دروازے کو بند کر دینا یا کسی روایت میں سامنے آنے والی کمزوری سے اس مفروضے کی بنیاد پر صرف نظر کر لینا کہ اس کو قبول کرنے کے حق میں شیخین کے پاس یقیناًکوئی نہ کوئی دلیل ہوگی، محض تحکم کا درجہ رکھتا ہے جو فن حدیث کے مزاج اور محدثین کے قائم کردہ بلند علمی وتحقیقی معیار کے بالکل خلاف ہے۔ اس ضمن میں متقدمین محدثین کے نتائج تحقیق سے اختلاف کی عملاً کس حد تک گنجایش موجود ہے، اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے کیا جا سکتا ہے۔
امام دارقطنی فن رجال اور علل حدیث کے جلیل القدر امام ہیں۔ علم حدیث میں ان کی وسعت نظر، مہارت اور اجتہادی بصیرت پوری طرح مسلم ہے جس کی بنا پر انھوں نے امام بخاری جیسے ماہر فن کی تحقیقات کو چیلنج کرتے ہوئے صحیح بخاری کی روایات پر اپنا معروف نقد پیش کیا۔ اس کے علاوہ ان کی ’’کتاب العلل‘‘ اہل علم کے مابین ایک مقبول اور متداول ماخذ ہے جس میں انھوں نے ذخیرۂ حدیث میں مختلف روایات کی اسانید اور متون میں پائے جانے والے علل اور اوہام کی نشان دہی کی ہے۔ امام دارقطنی کا تعلق متقدمین محدثین سے ہے ’’جن کی نگاہوں میں ذخیرۂ حدیث تھا، ایک ایک روایت کی متعدد اسانید انھیں ازبر تھیں اور یوں لاکھوں احادیث کے وہ حافظ تھے۔‘‘ تاہم دور حاضر کے ایک فاضل محقق الدکتور عبد اللہ بن محمد حسن دمفو نے امام دارقطنی کی ’’کتاب العلل‘‘ کی ڈیڑھ سو ایسی روایات کا جو امام زہری کی سند سے مروی ہیں، مطالعہ وتحقیق کے لیے انتخاب کیا اور ’’چند مطبوعہ کتابوں کی ورق گردانی‘‘ پر انحصار کرتے ہوئے ایسے دلائل وشواہد جمع کر دیے جن کی بنا پر ان روایات کے حوالے سے امام دارقطنی کے نتائج تحقیق سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ الدکتور عبد اللہ بن محمد حسن دمفو کی یہ تحقیق ریاض کے مکتبۃ الرشد نے ۱۴۱۸ھ میں ’’مرویات الامام الزہری المعلۃ فی کتاب العلل للدارقطنی‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں شائع کی ہے۔ اس کے خاتمۂ بحث میں فاضل محقق نے اپنی تحقیق کے بعض نمایاں نتائج کا ذکر یوں کیا ہے:
o امام دارقطنی نے جن چالیس روایات کی سند میں وصل وارسال کے اختلاف کی صورت میں ارسال کو راجح قرار دیا ہے، فاضل محقق کو ان میں سے صرف دو روایتوں کے بارے میں دارقطنی کی تحقیق سے اتفاق ہے۔
o جن پانچ روایات کو امام دارقطنی نے زہری کی تدلیس پر محمول کیا ہے، ان میں سے صرف دو کے بارے میں یہ امکان مانا جا سکتا ہے۔
o جن نو روایات میں امام دارقطنی نے زہری کو وہم یا اضطراب کا شکار قرار دیا ہے، ان میں سے بھی صرف دو کے بارے میں ان کی رائے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
فاضل محقق نے امام دارقطنی جیسے وسیع النظر محدث کی آرا سے اختلاف کے لیے جس نکتے کو بنیاد بنایا ہے، وہ بطور خاص قابل توجہ ہے۔ فرماتے ہیں:
من اکثر الاسباب التی جعلتنی اخالف الدارقطنی رحمہ اللّٰہ فی حکمہ علی نتیجۃ الاختلاف وقوفی علی روایات لم ترد فی کلامہ علی الاختلاف وربما لو وقف علیہا لم تکن ہناک مخالفۃ.(۴ /۲۳۱۵)
’’راویوں کے اختلاف کی صورت میں امام دارقطنی جن نتائج تک پہنچے، ان سے اختلاف کرنے کی وجہ بیش تر مقامات پر یہ تھی کہ میرے سامنے ایسی روایات بھی آ گئیں جن کا دارقطنی نے اپنی بحث میں ذکر نہیں کیا، اور اگر یہ روایات بھی ان کے علم میں ہوتیں تو غالباً (ان کے نتیجۂ تحقیق اور میری رائے میں) اختلاف نہ رہتا۔‘‘
امید رکھنی چاہیے کہ مولانا محترم، الدکتور عبد اللہ بن محمد حسن دمفو کو یہ طعنہ نہیں دیں گے کہ وہ ’’اپنے منہ میاں مٹھو‘‘ بننے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے کہ یہاں متقدمین کی تحقیق سے اختلاف کا نتیجہ امام زہری کی روایات کی تضعیف کی صورت میں نہیں، بلکہ ان کی تصحیح وتحسین کی صورت میں نکل رہا ہے۔
مولانا محترم نے صحیحین کی روایات میں کسی وہم کی نشان دہی کے لیے متقدمین کی تصریح فراہم کرنے پر اپنے اصرار کے حق میں علامہ انور شاہ کشمیری کا ایک اقتباس بھی نقل کیا ہے جس میں انھوں نے فرمایا ہے:
’’متاخرین کی تحسین اور تصحیح متقدمین کی تحسین کے برابر نہیں، کیونکہ متقدمین قرب عہد کی بنا پر راویوں کے احوال زیادہ جانتے تھے۔ وہ جو بھی فیصلہ فرماتے، پوری احتیاط اور اس کی جزئیات کو معلوم کرنے کے بعد فیصلے فرماتے تھے۔ (متاخرین کی طرح) وہ اوراق میں لکھے ہوئے راویوں کے احوال دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ اور تمھیں معلوم ہے ایک تجربہ کار اور حکیم کے مابین کیا فرق ہے! متقدمین کے پاس راویوں کو براہ راست پرکھنے کا جو علم تھا، اس کے مقابلے میں متاخرین کے نزدیک کتابوں میں لکھا ہوا علم فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ متقدمین کو براہ راست راویوں سے سابقہ پڑا ہے۔ وہ کسی اور سے پوچھنے اور سوال کرنے سے مستغنی تھے۔ وہی راویوں کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، لہٰذا انھی کی بات قابل اعتبار ہے۔‘‘ (فیض الباری ۴ /۴۱۴)
مولانا محترم نے کسی روایت میں راوی کے وہم کی نشان دہی سے متعلق اس بحث میں رواۃ کی تحسین وتضعیف سے بحث کرنے والا مذکورہ اقتباس نقل کر کے جو خلط مبحث پیدا کیا ہے، ہم ذرا تفصیل سے اس کی وضاحت کرنا چاہیں گے۔
اہل علم اس امر سے واقف ہیں کہ فن حدیث میں تین الگ الگ چیزیں قابل تحقیق ہوتی ہیں:
ایک راوی کی عدالت اور اس کا کردار، جس کے متعلق کوئی بھی فیصلہ ظاہر ہے کہ یا تو براہ راست مشاہدے کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے یا اس کے بارے میں نقل ہونے والی مستند اخبار وآرا کی روشنی میں۔ جن اہل علم کو تدوین حدیث کے عہد سے زمانی قرب حاصل ہے، انھیں اس معاملے میں ایک بدیہی فوقیت حاصل ہے اور انھی کے مشاہدات اور نقل کردہ آرا اور بیانات اس معاملے میں بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری کے مذکورہ اقتباس میں اصلاً اسی پہلو کو بیان کیا گیا ہے۔
دوسری، کسی راوی کا ضبط واتقان اور روایت حدیث میں اس کی احتیاط، مہارت اور پختگی۔ اس چیز کا فیصلہ اس کے احوال کا براہ راست مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نقل کردہ ذخیرۂ روایات کا بغور تنقیدی جائزہ لینے اور دیگر راویوں کی روایات کے ساتھ موازنہ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ ابن الصلاح اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
یعرف کون الراوی ضابطا بان نعتبر روایتہ بروایات الثقات المعروفین بالضبط والاتقان فان وجدنا روایاتہ موافقۃ ولو من حیث المعنی لروایاتہم او موافقۃ لہا فی الاغلب والمخالفۃ نادرۃ عرفنا حینئذ کونہ ضابطا ثبتا وان وجدناہ کثیر المخالفۃ لہم عرفنا اختلال ضبطہ ولم نحتج بحدیثہ.(مقدمۂ ابن الصلاح ۱/ ۱۰۶)
’’کسی راوی کا ضابط ہونا یوں معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ہم اس کی روایات کو ان ثقہ راویوں کی روایات پر پیش کریں جو ضبط اور اتقان میں معروف ہیں۔ پس اگر ا س کی روایات ان کی مرویات کے موافق ہوں، خواہ معنوی لحاظ سے ہی سہی یا اکثر وبیش تر ان کے موافق ہوں اور مخالفت بہت نادر ہو تو اس صورت میں ہم اس کا ضابط اور ثبت ہونا جان لیں گے، لیکن اگر وہ کثرت سے ثقہ راویوں کی روایات کے خلاف روایت کرے تو ہم سمجھ لیں گے کہ اس کے ضبط میں خلل ہے اور اس کی حدیث سے استدلال نہیں کریں گے۔‘‘
تیسری قابل تحقیق چیز کسی مخصوص روایت کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کہیں اس کے کسی راوی نے غلطی اور وہم کی بنیاد پر روایت کی سند یا اس کے متن میں کوئی تصرف تو نہیں کر دیا؟ ہم نے عرض کیا تھا کہ کسی روایت میں در آنے والے وہم یا خطا کا تعین کرنے کے لیے اسانید ومتون کا موازنہ ہی محدثین کے ہاں بنیادی وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے اور متقدمین ہوں یا متاخرین، دونوں اسی مواد کو استعمال کرتے ہوئے کسی روایت یا روایت کے کسی جز کے بارے میں رائے قائم کرتے ہیں۔
ابو اسامہ کی زیر بحث زیادت کے بارے میں ہم نے جو سوال اٹھایا ہے، وہ اسی تیسرے دائرے سے تعلق رکھتا ہے، لیکن مولانا محترم اس کے جواب میں اپنے موقف کی تائید کے لیے علامہ انور شاہ کشمیری کا وہ اقتباس پیش فرما رہے ہیں جو محدثانہ تحقیق وتفتیش کے دوسرے دائروں یعنی کسی راوی کی عدالت اور کردار یا اس کے ضبط واتقان کے بارے میں کوئی حکم لگانے اور اس کی بنیاد پر روایت کی تحسین یا تضعیف سے متعلق ہے اور اس طرح یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ علامہ انور شاہ کشمیری بھی ’متقدمین‘ اور ’ائمۂ فن‘ کی تصریح کے بغیر کسی روایت میں راویوں کے تصرف اور وہم کی نشان دہی کو درست نہیں سمجھتے، حالانکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ علامہ انور شاہ کشمیری نے نہ صرف یہ کہ سند کے لحاظ سے بظاہر صحیح دکھائی دینے والی روایات کے راویوں کے تصرفات واوہام سے محفوظ ہونے کے تصور کی جابجا سخت تردید کی ہے ،بلکہ خود اپنے مطالعہ وتحقیق کی روشنی میں بعض روایات کی صحت پر بھی کلام کیا ہے۔ مثال کے طور پر صحیح بخاری کی ایک روایت میں ذکر ہے کہ جو لوگ واقعۂ افک میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگانے میں ملوث ہوئے، ان میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ (بخاری، رقم ۴۱۴۱) علامہ انور شاہ کشمیری کو اس سے اختلاف ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
اعلم انہ یعلم من البخاری ان حسان کان ممن خاض فی حدیث الافک ولکن یعلم من ابیاتہ انہ لم یفہ بہ اصلا حیث یمدحہا ویبرئ نفسہ عما رمی بہ ... والعبرۃ عندی باخذ قول حسان نفسہ ولا عبرۃ بما یذاع بین الناس ویشاع فان حال الخبط فی الاخبار معلوم وبالجملۃ نسبۃ القذف الیہ عندی خلاف التحقیق.(فیض الباری ۵/ ۷۴، ۷۵)
’’جان لو کہ بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ حسان بھی حضرت عائشہ پر لگائے گئے بہتان کی اشاعت میں ملوث ہو گئے تھے، لیکن ان کے اپنے شعروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ بات کبھی زبان پر نہیں لائے، چنانچہ وہ ام المومنین کی مدح کرتے ہیں اور اپنے اوپر لگائے جانے والے الزام سے اپنی برأ ت کا اعلان کرتے ہیں... میرے نزدیک خود حسان کا اپنا بیان زیادہ قابل اعتماد ہے اور لوگوں میں پھیل جانے والی بات کا کوئی اعتبار نہیں، کیونکہ اخبار میں پیدا ہو جانے والی گڑبڑ کا حال معلوم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حسان کی طرف قذف کی نسبت کرنا میرے نزدیک خلاف تحقیق ہے۔‘‘
مولانا محترم کا تیسرا اعتراض یہ تھا کہ ’قالت ولیستا بمغنیتین‘ کی زیادت کو بیان کرنے والا راوی ابو اسامہ چونکہ ایک ثقہ راوی ہے اور زیادت ثقہ، محدثین کے نزدیک قابل قبول ہوتی ہے، اس لیے ابو اسامہ کے تفرد کی بنیاد پر اس روایت کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے اس کے جواب میں گزارش کی تھی کہ ’’اکابر محدثین ثقہ راویوں کی بیان کردہ زیادات کو مطلقاً نہیں،بلکہ بعض قیود کے ساتھ قبول کرتے ہیں جن میں سے ایک اہم قید یہ ہے کہ اگر راوی کسی روایت میں کوئی زائد بات بیان کرے، جبکہ اس کے مقابلے میں اس زیادت کے بغیر روایت کو نقل کرنے والے راوی تعداد میں زیادہ اور پختہ کار اور ضابط ہوں اور زیادت بھی اپنی معنوی اہمیت کے لحاظ سے نظر انداز کرنے کے قابل نہ ہو تو ایسے راوی کی بیان کردہ زیادت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ (اشراق، ستمبر ۲۰۰۶، ۳۴)
مولانا محترم اپنے تازہ مضمون میں اس کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’اگر وہ زیادت دوسری روایات کے منافی ہے تو مقبول نہیں، اگر منافی نہیں تو وہ مقبول ہے۔ یہ ہے متقدمین محدثین رحمۃ اللہ علیہم کا فیصلہ، جماعت کے مقابلے میں ایک کی روایت میں خطا کا بلاشبہ احتمال ہے۔ مگر یہ تب ہے جب وہ احفظ اور ثبت نہ ہو اور اس کی زیادتی دوسری روایت کے منافی ہو۔ اسی اصول کے مطابق محدثین نے ابواسامہ کی روایت کو قبول کیا اور اسے صحیح قرار دیا۔ انھوں نے کوئی بے اصولی نہیں کی، یہ بھی بایں طور کہ ابو اسامہ مطبوعہ کتابوں میں ہمیں تنہا نظر آتا ہے۔ احادیث تو محفوظ ہیں، مگر ان کے تمام طرق محفوظ نہیں۔‘‘ (الاعتصام ۵۹/ ۱۳/ ۲۰)
گویا مولانا محترم کے نزدیک متقدمین محدثین صرف اس صورت میں ثقہ راوی کی زیادت کو رد کرتے ہیں جب وہ احفظ اور ثبت نہ ہو اور اس کی زیادت اصل روایت کے منافی ہو۔ ہم بصد احترام گزارش کریں گے کہ یہ متقدمین محدثین کے اصول کی نہایت ناقص ترجمانی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ محدثین محض اس بنا پر کسی راوی کی زیادت کو رد نہیں کر دیتے کہ وہ اس کو نقل کرنے میں متفرد ہے، بلکہ اس ضمن میں مزید قرائن وشواہد کا تتبع کرتے ہیں۔ اگر کسی راوی کی بیان کردہ زیادت دیگر ثقہ راویوں کی روایت کے منافی ہو تو اس کے وہم ہونے کا احتمال تقریباً یقین میں بدل جاتا ہے، تاہم کسی زیادت پر وہم کا حکم لگانا اس کے اصل روایت کے منافی ہونے پر منحصر نہیں۔ اگر زیادت کے مبنی بر وہم ہونے کے دیگر قرائن وشواہد موجود ہوں تو پھر منافات کا نکتہ غیر اہم ہو جاتا ہے اور اکابر محدثین اس سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کی زیادت کو رد کر دیتے ہیں۔ شارح ترمذی، مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ متقدمین محدثین کے طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فان قلت فلم لم یقبل المحدثون المتقدمون کالشافعی واحمد بن حنبل وابن معین والبخاری وابی داود وابی حاتم وابی علی النیسابوری والحاکم والدارقطنی وغیرہم زیادۃ ’ثم لا یعود‘ فی حدیث ابن مسعود وزیادۃ ’فصاعدا‘ فی حدیث عبادۃ وزیادۃ ’واذا قرا فانصتوا‘ فی حدیث ابی ہریرۃ وابی موسی الاشعری ولم جعلوہا غیر محفوظۃ مع ان ہذہ الزیادات غیر منافیۃ لاصل الحدیث؟ قلت انما لم یقبلوا ہذہ الزیادات لانہ قد وضح لہم دلائل علی انہا وہم من بعض الرواۃ کما بینوہ واوضحوہ لا لمجرد ان راویہا قد تفرد بہا.(تحفۃ الاحوذی ۲ /۸۵)
’’اگر تم یہ سوال کرو کہ متقدمین محدثین، مثلاً شافعی، احمد بن حنبل، ابن معین، بخاری، ابو داؤد، ابو حاتم، ابو علی نیسابوری، حاکم اور دارقطنی وغیرہ نے ابن مسعود کی حدیث میں ’ثم لا یعود‘ کی زیادت کو، عبادہ کی حدیث میں ’فصاعدا‘ کی زیادت کو اور ابو ہریرہ اور ابو موسیٰ اشعری کی حدیث میں ’واذا قرا فانصتوا‘ کی زیادت کو کیوں قبول نہیں کیا اور انھیں غیر محفوظ کیوں قرار دیا، حالانکہ یہ زیادات اصل حدیث کے منافی نہیں ہیں؟ میں جواب میں کہوں گا کہ ان محدثین نے ان زیادات کو اس لیے قبول نہیں کیا کہ ان پر دلائل کی روشنی میں یہ واضح ہو گیا کہ یہ بعض راویوں کا وہم ہیں، جیسا کہ انھوں نے اس کو بیان اور واضح کیا ہے۔ (انھوں نے) محض اس بنا پر (ان میں سے کسی زیادت کو رد نہیں کر دیا) کہ اس کا راوی اس کو نقل کرنے میں متفرد ہے۔‘‘
محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کی اس تصریح سے واضح ہے کہ متقدمین محدثین کے نزدیک کسی زیادت کو رد کرنے کا مدار محض اس پر نہیں ہے کہ وہ اصل حدیث کے منافی ہو، بلکہ کسی غیر منافی زیادت کو بھی دیگر قرائن کی روشنی میں راوی کا وہم قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ کسی زیادت کو وہم قرار دینے کے معاملے میں اطمینان کے درجات متفاوت ہو سکتے ہیں۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زیادت ثقہ کے معاملے میں کوئی کلی ضابطہ بنانا ممکن نہیں۔ بعض اوقات کسی زیادت کے درست ہونے پر اطمینان حاصل ہو جاتا ہے، کبھی اس کے صحیح ہونے کا گمان غالب ہوتا ہے، بسا اوقات اس کے غلط ہونے کا یقین ہو جاتا ہے، کبھی اس کے غلط ہونے کی رائے ظن غالب کے درجے میں ہوتی ہے اور بعض مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان میں توقف سے کام لینا پڑتا ہے۔ (نصب الرایہ ۱/ ۳۳۶، ۳۳۷)
ہم نے ابو اسامہ کی جس زیادت کو اس کا وہم قرار دیا ہے، اس کے وہم ہونے کے کم وبیش یقینی قرائن موجود ہیں۔ اگر ام المومنین نے ’ولیستا بمغنیتین‘کہہ کر اہتمام کے ساتھ ان دونوں لونڈیوں کے پیشہ ور مغنیہ ہونے کے احتمال کی نفی کی ہوتی تو یہ جملہ اپنی معنوی اہمیت کے لحاظ سے کسی طرح نظر انداز کرنے کے قابل نہیں تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بھانجے عروہ بن زبیر سے اس واقعے کو نقل کرنے والے تین شاگردوں میں سے ابو الاسود اور ابن شہاب اس کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ محدثین ہشام بن عروہ کے مقابلے میں تنہا ابن شہاب کے حفظ اور تثبت پر زیادہ اعتماد رکھتے ہیں، (سنن الدارقطنی ۴/ ۱۵۵۔ معرفۃ السنن والآثار ۴/ ۶۷) جبکہ یہاں تو ابو الاسود کی روایت بھی ابن شہاب کی موید ہے۔ پھر جس شاگرد یعنی ہشام بن عروہ کی روایت میں یہ جملہ نقل ہوا ہے، ان کے بھی سات شاگردوں۱ میں سے صرف ایک یعنی ابو اسامہ اس زیادت کو روایت کرتے ہیں۔ ابو اسامہ بجائے خود یقیناً ایک ثقہ اور ثبت راوی ہیں، لیکن دیگر رواۃ، بالخصوص شعبہ بن الحجاج، حماد بن سلمہ اور معمر بن راشد کا حفظ اور تثبت مجموعی لحاظ سے زیادہ قابل اعتماد ہے، چنانچہ اس زیادت کو قبول نہ کرنا محدثین کے اصول کے عین مطابق ہے۔
مولانا محترم نے اپنے مذکورہ اقتباس کے آخر میں فرمایا ہے کہ ’’ابو اسامہ مطبوعہ کتابوں میں ہمیں تنہا نظر آتا ہے۔ احادیث تو محفوظ ہیں، مگر ان کے تمام طرق محفوظ نہیں۔‘‘ غالباً وہ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ مطبوعہ کتب کی صورت میں دستیاب ذخیرۂ حدیث چونکہ نامکمل ہے، اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ ’ولیستا بمغنیتین‘ کا جملہ نقل کرنے میں دیگر راویوں نے بھی ابو اسامہ کی متابعت کی ہو، لیکن یہ متابعت دستیاب کتب میں نقل ہونے کے بجائے ضائع ہو گئی ہو یا ان ماخذ میں کہیں موجود ہو جو ابھی زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مولانا محترم کا پیش کردہ یہ نکتہ فی نفسہٖ ایک معقول نکتہ ہے۔ ہم بھی اس امکان اور احتمال کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہم مولانا محترم کو توجہ دلانا چاہیں گے کہ علم وتحقیق کی دنیا میں فیصلہ امکانات اور احتمالات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ موجود اور میسر شواہد کی روشنی میں کیا جا تا ہے اور اس کے لیے ’’چند مطبوعہ کتابوں کی ورق گردانی‘‘ پر ہی انحصار کیا جاتا ہے۔ احادیث پر بحث وتنقید کے میدان میں قدم رکھنے کا یہی واحد ممکن طریقہ ہے۔ چنانچہ دستیاب ذخیرہ اگر یہ بتاتا ہے کہ ابو اسامہ، ہشام کے دیگر شاگردوں کے مقابلے میں زیر بحث زیادت کو نقل کرنے میں متفرد ہے تو اسے اس کا تفرد ہی قرار دیا جائے گا، نہ کہ ممکنہ اور احتمالی متابعات کو بمنزلۂ موجود فرض کرتے ہوئے اس کا دفاع کیا جائے گا۔ محدثانہ تحقیق وتفتیش کے نتیجے میں اگر اس کے برخلاف ٹھوس شواہد سامنے آ جاتے ہیں تو مولانا محترم اطمینان رکھیں کہ ہمیں اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے اور غلط ثابت ہونے پر اس سے رجوع کرنے میں، ان شاء اللہ، کوئی تامل نہیں ہوگا۔
زیادت ثقہ کے رد وقبول سے متعلق مذکورہ نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے گزارش کی تھی کہ مولانا محترم نے اسی اصول کے تحت ام المومنین کی زیر بحث روایت میں ایک دوسرے راوی کی بیان کردہ زیادت پر ہماری تنقید سے اتفاق فرمایا ہے۔ ابن شہاب زہری کے شاگردوں میں سے ایک راوی اسحاق بن راشد روایت میں یہ جملہ بیان کرتا ہے: ’فسبہما وخرق دفیہما‘ (ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں لونڈیوں کو برا بھلا کہا اور ان کے دف پھاڑ دیے)، جبکہ دیگر تلامذہ عقیل بن خالد، عمرو بن الحارث، مالک بن انس، معمر بن راشد اور اوزاعی اس جملے کو روایت نہیں کرتے جس سے اس کا بے اصل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مولانا محترم نے ہماری اس رائے سے اتفاق فرمایا جس پر ہم نے یہ دریافت کیا تھا کہ اگر اسحاق بن راشد کی زیادت، دیگر تلامذہ کے مقابلے میں متفرد ہونے کی بنا پر قابل قبول نہیں تو ابو اسامہ کی بیان کردہ زیادت کے ساتھ اس سے مختلف معاملہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ مولانا محترم نے اس سوال کے جواب میں اپنے تازہ مضمون میں فرمایا ہے:
’’کسی ثقہ راوی کے ہاں کچھ اوہام پائے جانے سے بلاشبہ اس کی تمام روایات ناقابل اعتبار نہیں ہوتیں، لیکن ثقہ راوی جب ایسے راوی سے روایت کرے، جس سے روایت کرنے میں محدثین نے اس پر کلام کیا ہو اور وہ اس سے روایت کرنے میں یا کوئی زیادت ذکر کرنے میں منفرد ہو تو اس کا تفرد قابل قبول نہیں ہوگا۔‘‘(الاعتصام ۵۹ / ۱۴/ ۱۹)
افسوس ہے کہ ہمارے سوال کا اصل نکتہ مولانا محترم کی توجہ سے محروم رہا ہے۔ ہم یہی تو دریافت کر رہے ہیں کہ اگر اسحاق بن راشد کے ہاں کچھ اوہام کے پائے جانے سے اصولاً یہ لازم نہیں آتا کہ زہری سے نقل کردہ اس کی تمام روایات اور زیادات ناقابل اعتبار قرار پائیں تو پھر ’فسبہما وخرق دفیہما‘ کی زیادت کے بارے میں کس بنیاد پر یہ رائے قائم کی جا رہی ہے کہ یہ محل نظر ہے؟ اسحاق کی بعض دیگر روایات میں وہم کے پائے جانے سے یہ کیسے لازم آیا کہ زیر بحث زیادت میں بھی وہ وہم کاشکار ہوا ہے؟ ہم نے گزارش کی تھی کہ اس کے لیے واحد قرینہ یہ ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے والے زہری کے دیگر تمام تلامذہ اس جملے کو نقل نہیں کرتے جو اس بات کی دلیل ہے کہ زہری نے روایت میں یہ جملہ بیان نہیں کیا۔ ہمارے نزدیک اسی اصول کا اطلاق ہشام کے شاگردوں میں سے ابو اسامہ کی بیان کردہ زیادت ’قالت ولیستا بمغنیتین‘ پر بھی ہونا چاہیے۔ کوئی راوی اگر ایسی زیادت بیان کرتا ہے جو معنوی اہمیت کے لحاظ سے نظر انداز کرنے کے قابل نہیں، لیکن دیگر ثقہ اور ثبت راویوں نے، جو تعداد میں بھی زیادہ ہیں، اسے بیان نہیں کیا تو وہ زیادت محل نظر ہے، قطع نظر اس سے کہ اس راوی کی باقی روایات میں اوہام پائے جاتے ہیں یا نہیں۔ نہ کسی راوی کی باقی مرویات میں اوہام کا پایا جانا اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ کسی مخصوص زیادت کے بیا ن کرنے میں بھی وہم کا شکار ہوا ہو اور نہ کسی مخصوص زیادت کے نقل کرنے میں اس کے تفرد کو وہم قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی دیگر مرویات میں بھی اوہام پائے جاتے ہوں۔
ہشام بن عروہ کی مرویات کے حوالے سے ہم نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں منقول امام یعقوب بن شیبہ کے ارشاد کی روشنی میں یہ گزارش کی تھی کہ عراق جانے کے بعد انھوں نے اپنے والد کی روایات میں ارسال کا طریقہ اختیار کر لیا تھا اور وہ روایات بھی ان کی نسبت سے نقل کرنے لگے تھے جو انھوں نے براہ راست اپنے والد سے نہیں سنی ہوتی تھیں۔ اس سے ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کتب حدیث میں ہشام کی جو مرویات ان کے عراقی تلامذہ سے منقول ہوں، انھیں یقینی طور پر متصل نہیں کہا جا سکتا۔
مولانا محترم نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے سابقہ مضمون میں اولاً تو ہشام کے کوفی اور بصری تلامذہ کی بنیاد پر اس اعتراض کو رفع کرنے کی کوشش کی اور یہ فرمایا کہ ہشام چونکہ کوفہ گئے تھے، اس لیے ان کے بارے میں یعقوب بن شیبہ کا مذکورہ اعتراض ان کے تمام عراقی شاگردوں سے نہیں، بلکہ صرف کوفی تلامذہ سے متعلق ہے اور چونکہ صحیحین کی زیر بحث روایت بعض بصری تلامذہ، حماد اور معمر نے بھی نقل کی ہے، اس لیے وہ مذکورہ اعتراض کے دائرے میں نہیں آتی۔ مولانا محترم نے دوسری بات یہ فرمائی کہ خود اہل کوفہ کی تمام مرویات میں بھی ارسال کا شبہ نہیں پایا جاتا، بلکہ یہ امکان صرف ان روایات میں مانا جا سکتا ہے جو انھوں نے ہشام کے دوسرے اور تیسرے سفر کوفہ میں روایت کیں۔ دونوں قسم کی مرویات میں فرق کے لیے مولانا محترم نے یہ استدلال پیش کیا کہ کتب رجال میں ہشام سے آخری دور میں وکیع، ابن نمیر اور محاضر کے سماع کی تصریح موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ائمۂ رجال ان تین کے علاوہ ہشام کے باقی شاگردوں کی نقل کردہ روایات کو ارسال پر محمول نہیں کرتے۔
اپنے جوابی مضمون میں ہم نے پہلے نکتے کے حوالے سے یہ گزارش کی کہ یعقوب بن شیبہ کے اعتراض کا تعلق ’’اہل کوفہ‘‘ کی روایات سے نہیں، بلکہ ’’کوفہ‘‘ میں ہشام کی بیان کردہ مرویات سے ہے، اس لیے حماد اور معمر کا تعلق کسی بھی شہر سے ہو، اگر انھوں نے ہشام سے کوفہ میں آنے کے بعد ہی سماع کیا ہے تو ا ن کی مرویات کا حکم اس دور کی دیگر مرویات سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ اپنے حالیہ مضمون میں مولانا محترم نے اس نکتے سے کوئی تعرض نہیں فرمایا اور اپنے استدلال کی بنیاد دوسرے نکتے ہی کو بنایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’’بجا فرمایا، مگر یہ کوفہ میں دوسری اور تیسری مرتبہ جانے کے بعد ہے۔ اس دور میں جن حضرات نے ان سے روایات لی ہیں، ان کی روایات میں بظاہر اس تصور کی گنجایش موجود ہے کہ ان میں ارسال ہو، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ... یہ کیا انصاف ہے کہ مطلق طور پر تمام اہل کوفہ کی ہشام سے روایات کو غیر متصل اور غیر صحیح قرار دے دیا جائے۔ بالخصوص جبکہ ہشام سے یہ روایت کرنے والے ابو اسامہ حماد بن اسامہ ہیں اور وہ محدثین کے ہاں ہشام سے روایت کرنے میں ثقہ اور ثبت ہیں اور اس کی روایت کو درست قرار دیتے ہیں ... اسی طرح یہ بھی عرض کیا تھا کہ التہذیب اور تاریخ بغداد [۱۴/ ۴۰] میں وضاحت ہے کہ آخری دور میں ہشام سے وکیع، ابن نمیر اور محاضر نے سنا ہے اور صحیحین میں یہ روایت ان تینوں کی بجائے ابو اسامہ سے ہے، لہٰذا تمام اہل کوفہ کی ہشام سے روایات کو ارسال پر محمول کرنا قطعاً درست نہیں۔‘‘ (الاعتصام ۵۹/ ۱۲/ ۲۲ ، ۲۳)
ہمارا خیال ہے کہ یہ استدلال غالباً مولانا محترم کی پوری توجہ حاصل نہیں کر سکا اور انھوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایا کہ ارسال کے امکان کو دوسرے اور تیسرے سفر کی حد تک تسلیم کرنے اور پھر وکیع، ابن نمیر اور محاضر کے علاوہ باقی تمام تلامذہ کی روایات کو متصل قرار دینے کی باتیں باہم متضاد ہیں۔ اگر وکیع وغیرہ کے سماع کی تصریح سے ائمۂ رجال کا مقصد باقی تلامذہ کی روایات کو ارسال کے امکان سے محفوظ قرار دینا ہے تو مولانا محترم کے پیش کردہ موقف کی روسے منطقی طور پر انھیں ہشام کے صرف آخری دور کے نہیں، بلکہ کوفہ کے دوسرے اور تیسرے ، دونوں اسفار میں سماع کرنے والے تلامذہ کی نشان دہی کرنی چاہیے۔ اگر ہشام کے ارسال کا تعلق صرف اس کے آخری دور سے نہیں، بلکہ کوفہ کے دوسرے سفر سے بھی ہے تو زیر بحث تناظر میں صرف آخری عمر میں اس سے سماع کرنے والوں کی نشان دہی بے معنی قرار پاتی ہے۔ ہماری ناچیز رائے میں تاریخ بغداد اور تہذیب میں وارد ہونے والی یہ وضاحت کہ آخری دور میں ہشام سے وکیع، ابن نمیر اور محاضر نے سماع کیا تھا، ہشام کے ارسال کے تناظر میں نہیں، بلکہ آخری دور میں اس کا حافظہ کمزور ہو جانے کے تناظر میں آئی ہے۔ محدثین کے ہاں ہشام کے ارسال کے علاوہ آخری عمر میں اس کے حافظے میں تغیر رونما ہو جانے کا نکتہ الگ سے زیر بحث آیا ہے۔ ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں ہے:
وقال ابو الحسن بن القطان تغیر قبل موتہ ولم نر لہ فی ذلک سلفا.( ۱۱ /۴۵)
’’ابو الحسن بن القطان نے کہا ہے کہ موت سے پہلے ہشام کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ ابن قطان سے پہلے ہمیں کسی کے ہاں اس بات کا ذکر نہیں ملا۔‘‘
مولانا محترم ’ولم نر لہ فی ذلک سلفا‘ (ہمیں ابن قطان سے پہلے کسی کے ہاں اس بات کا ذکر نہیں ملا) کا مفہوم یہ سمجھے ہیں کہ حافظ ابن حجر نے یہ کہہ کر ابن قطان کے قول کی تردید کی ہے۔ (الاعتصام ۵۹/۱۲/ ۲۵) حالانکہ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ کے مقدمے میں واضح طور پر اس رائے کی تائید کی ہے۔ لکھتے ہیں:
مجمع علی تثبتہ الا انہ فی کبرہ تغیر حفظہ فتغیر حدیث من سمع منہ فی قدمتہ الثالثۃ الی العراق.(۱/ ۱۹۹)
’’ہشام کے ثبت ہونے پر اتفاق ہے، البتہ بڑھاپے میں اس کا حافظہ متغیر ہو گیا تھا، اس لیے تیسری مرتبہ عراق آمد کے موقع پر اس سے سماع کرنے والوں کی روایات بھی حافظہ کی خرابی سے متاثر ہوئیں۔‘‘
اس تصریح کی روشنی میں ’ولم نر لہ فی ذلک سلفا‘ کا مفہوم یہ ہوگا کہ آخری عمر میں ہشام کے حافظے میں تغیر واقع ہونے کی نشان دہی سب سے پہلے ابن القطان الفاسی نے کی ہے۔ اس ضمن میں امام ذہبی نے اس بات سے تو اختلاف کیا ہے کہ ہشام کے حافظے میں تغیر ’اختلاط‘ کے درجے تک پہنچ گیا تھا، تاہم نفس تغیر کو انھوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ (میزان الاعتدال ۷ /۸۵، ۸۶) ہمارے ناقص فہم کے مطابق تاریخ بغداد اور تہذیب میں وکیع، ابن نمیر اور محاضر کی روایات کو اسی حوالے سے ممتاز کیا گیا ہے کہ انھوں نے تغیر حفظ کے اس دور میں ہشام سے سماع کیا تھا۔
یہ سامنے کی بات ہے کہ ہشام کی کوفہ میں بیان کردہ روایات کے حوالے سے مولانا محترم کا مذکورہ استدلال اسی وقت درست ہو سکتا ہے جب اہل کوفہ کی نقل کردہ روایات میں یہ واضح تقسیم موجود ہو کہ فلاں روایات انھوں نے ہشام کے پہلے سفر میں سنی ہیں اور فلاں مرویات دوسرے اور تیسرے سفر میں۔ ہمارے محدود مطالعے کی حد تک اس طرح کی کوئی واضح تقسیم قائم کرنے کا کوئی ذریعہ میسر نہیں اور نہ محدثین عملاً اس طرح کا کوئی فرق قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ امام ابن عبد البر، ہشام کے بعض تلامذہ مثلاً حماد بن سلمہ، ابو عوانہ اور وہیب وغیرہ کی نقل کردہ ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الروایۃ المخالفۃ فی حدیث ہشام بن عروۃ ہذا لروایۃ مالک فیہ انما حدث بہ عن ہشام اہل العراق وما حدث بہ ہشام بالمدینۃ قبل خروجہ الی العراق اصح عندہم ولقد حکی علی بن المدینی عن یحیی بن سعید القطان قال رایت مالک بن انس فی النوم فسالتہ عن ہشام بن عروۃ فقال اما ما حدث بہ عندنا یعنی بالمدینۃ قبل خروجہ فکانہ یصححہ واما ما حدث بہ بعد ما خرج عندنا فکانہ یوہنہ. (التمہید ۲۲/ ۱۱۹، ۱۲۰)
’’اس مسئلے میں امام مالک نے ہشام سے جو روایت نقل کی ہے، اس کی مخالف روایت کو ہشام سے اہل عراق نے نقل کیا ہے اور ہشام نے عراق جانے سے پہلے مدینہ میں جو روایات بیان کیں، وہ محدثین کے نزدیک زیادہ صحیح ہیں۔ علی بن المدینی نے یحییٰ بن سعید القطان سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا: میں نے مالک بن انس کو خواب میں دیکھا تو ان سے ہشام بن عروہ کے بارے میں دریافت کیا۔ انھوں نے کہا کہ جو روایات ا س نے یہاں سے جانے سے قبل ہمارے پاس یعنی مدینہ میں بیان کی ہیں، وہ تو صحیح ہیں، لیکن ہمارے پاس سے جانے کے بعد جو روایات بیان کی ہیں، وہ کمزور ہیں۔‘‘
یہاں ہشام کی مذکورہ روایت پر کی جانے والی تنقید سے اتفاق یا اختلاف زیر بحث نہیں۔ مقصود صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ابن عبد البر ہشام کے عراقی تلامذہ کی روایات کے حوالے سے محدثین کے تحفظات کو مولانا محترم کے بیان کردہ مخصوص شاگردوں تک محدود نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے علاوہ دیگر تلامذہ مثلاً حماد بن سلمہ اور ابو عوانہ وغیرہ کی روایات کو بھی اسی زمرے میں شمار کرتے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہشام کے عراقی تلامذہ کی روایات میں اس امر کی تنقیح کہ کون سی روایات پہلے سفر میں سنی گئیں اور کون سی دوسرے اور تیسرے سفر میں، حتمی طور پر ممکن نہیں۔
عراق جانے کے بعد ارسال کی قابل اعتراض روش اختیار کرنے کی بنا پر ہشام کی روایات پر وارد ہونے والے عدم اتصال کے اعتراض کے جواب میں مولانا محترم نے اپنے سابقہ مضمون میں فرمایا تھا کہ چونکہ محدثین کے ہاں صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات محمول علی السماع ہیں، اس لیے ہشام کی ان روایات کو غیر متصل قرار دینا درست نہیں۔ (الاعتصام ۵۸/ ۲۹/ ۱۴) اس پر ہم نے گزارش کی تھی کہ خود مولانا محترم ’’توضیح الکلام‘‘ میں یہ وضاحت فرما چکے ہیں کہ صحیحین کے بارے میں مذکورہ ضابطہ کے عمومی طور پر درست ہونے کے باوجود ’’جہاں دلائل قطعیہ سے انقطاع ثابت ہو، وہاں اس کا انکار محض مجادلہ ومکابرہ پر مبنی ہے۔‘‘
اپنے تازہ مضمون میں مولانا محترم نے اس کے جواب میں سرے سے ہشام کو مدلس تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مدلسین کے بارے میں مذکورہ اصول ہشام کی زیر بحث روایت پر قابل اطلاق نہیں، کیونکہ ہشام پر تدلیس کا الزام ہی درست نہیں۔ اگر مولانا محترم اسے گستاخی نہ سمجھیں تو ہم پلٹ کر ان سے پوچھنا چاہیں گے کہ اگر آپ کے نزدیک ہشام ’مدلس‘ نہیں ہے تو آپ نے اپنے پہلے مضمون میں اس کی معنعن روایات کو متصل قرار دینے کے لیے اس ’غیر متعلق‘ ضابطے کا حوالہ ہی کیوں دیا تھا کہ ’’صحیحین میں مدلسین کا عنعنہ محمول علی السماع ہے‘‘؟
بہرحال مولانا محترم کے تازہ موقف اور اس کے استدلال کا جائزہ لیجیے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہشام کے ہاں جو صورت پائی جاتی ہے، وہ اصطلاحی مفہوم میں ’تدلیس‘ یعنی مروی عنہ کے نام کو جان بوجھ کر چھپانے کے ذیل میں نہیں آتی، بلکہ درحقیقت ’ارسال واتصال‘ کی صورت ہے۔ اس کی وضاحت میں مولانا محترم نے مقدمۂ صحیح مسلم سے امام مسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ محدثین بسا اوقات ارسالاً روایت بیان کرتے ہیں اور جس سے حدیث سنی ہوتی ہے، اس کا نام نہیں لیتے اور کبھی نشاط میں پوری سند سے روایت کرتے ہیں، جیسا کہ اسے سنا ہوتا ہے۔ (الاعتصام ۵۹/ ۱۲/ ۲۴) مولانا محترم کا فرمانا ہے کہ امام مسلم اور امام دارقطنی وغیرہ نے اس بحث میں ہشام بن عروہ کی روایت بھی بطور مثال ذکر کی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ہشام بن عروہ کو اصطلاحی معنوں میں ’مدلس‘ نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی ایسی روایات کو اتصال وارسال ہی کی مذکورہ صورت پر محمول کرتے ہیں۔ مولانا محترم فرماتے ہیں:
’’امام مسلم، امام احمد، امام دارقطنی ان جیسی روایات کو طبیعت کے مختلف ہونے پر محمول کرتے ہیں۔ جب انبساط اور اطمینان کی صورت ہوتی تو ہشام اس کی پوری سند ذکر کرتے اور جب طبیعت غیر مطمئن ہوتی تو ارسال کرتے۔ اور یہ صرف ہشام ہی نہیں، دوسرے ثقات بھی ایسا کرتے ہیں، جیسا کہ امام مسلم نے مثالیں دے کر اسے واضح کیا ہے۔
اس لیے ایسی چند روایات کی بنا پر نہ ان کی معنعن روایات پر اعتراض درست ہے اور نہ انھیں متغیر ومدلس ہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘ (الاعتصام ۵۹ /۱۴/ ۱۹)
ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ تقریباً ایک سال سے جاری اس بحث میں ہمیں فن مناظرہ کے دیگر داؤ پیچ سیکھنے کا موقع ملا ہو یا نہیں، کم از کم خلط مبحث پیدا کرنے کا گر اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا ہے۔ یہاں بھی دیکھیے، امام مسلم اور دارقطنی وغیرہ نے راوی پر طاری ہونے والی وقتی مزاجی کیفیات سے پید اہونے والی وصل وارسال کی جس صورت کا ذکر کیا ہے، وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اور دیگر رواۃ کے علاوہ ہشام کے ہاں بھی اس کا پایا جانا عین ممکن ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے ہشام کے اس قابل اعتراض طرز عمل کی نفی کیسے لازم آتی ہے جس کی نشان دہی امام یعقوب بن شیبہ اور ابن حجر پوری صراحت اور وضاحت سے کر رہے ہیں؟ ’’تہذیب التہذیب‘‘ کی عبارت ملاحظہ کیجیے:
قال یعقوب بن شیبۃ ثقۃ ثبت لم ینکر علیہ شئ الا بعد ما صار الی العراق فانہ انبسط فی الروایۃ عن ابیہ فانکر ذلک علیہ اہل بلدہ والذی نری ان ہشاما تسہل لاہل العراق انہ کان لا یحدث عن ابیہ الا بما سمعہ منہ فکان تسہلہ انہ ارسل عن ابیہ مما کان یسمعہ من غیر ابیہ عن ابیہ.(۱۱/ ۴۵)
’’یعقوب بن شیبہ نے کہا ہے کہ ہشام ثقہ اور ثبت ہیں اور عراق منتقل ہونے سے پہلے ان کی کسی روایت میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی، تاہم عراق جانے کے بعد وہ اپنے والد سے روایات نقل کرنے میں غیر محتاط ہو گئے جس کی وجہ سے ان کے اپنے شہر کے لوگوں نے ان پر اعتراض کیا۔ ہماری رائے میں ہشام اہل عراق کو تاثریہ دیتے تھے کہ وہ اپنے والد سے صرف وہی روایات نقل کرتے ہیں جو انھوں نے ان سے سنی ہیں۔ اس میں ان کی بے احتیاطی یہ تھی کہ انھوں نے وہ روایات بھی اپنے والد کی نسبت سے نقل کر دیں جو انھوں نے ان سے براہ راست نہیں، بلکہ بالواسطہ سنی تھیں۔‘‘
یہ بیان اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ یعقوب بن شیبہ، ہشام کے نشاط یا عدم نشاط سے پیدا ہونے والی کسی اتفاقی صورت حال کا نہیں، بلکہ ہشام کی ایک غیر محتاط روش کا ذکر فرما رہے ہیں جو انھوں نے مستقل طور پر اختیار کر لی تھی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا محترم ایک طرف تو یعقوب بن شیبہ کے مذکورہ اعتراض کو ہشام کے دوسرے اور تیسرے سفر کوفہ کی حد تک درست تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف فرماتے ہیں کہ ہشام کے ہاں پائے جانے والی ارسال کی صورت صرف وہ ہے جس کا امام مسلم نے ذکر کیا ہے۔ کیا وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ پہلے سفر میں تو ہشام پوری طرح نشاط میں تھے اور مکمل سند سے روایت بیان کرتے تھے، لیکن دوسرے اور تیسرے سفر میں ان پر عدم نشاط کی کیفیت ایسی طاری ہوئی کہ وہ مستقل طور پر ارسال سے کام لینے لگے؟ حقیقت یہ ہے کہ امام مسلم اپنے مقدمے میں ہشام بن عروہ کی روایات میں ارسال کے حوالے سے کوئی اصولی اور عمومی بحث نہیں کر رہے، بلکہ ارسال کی ایک مخصوص صورت کو واضح کرنے کے لیے ہشام بن عروہ کی روایت کو محض بطور مثال پیش کر رہے ہیں، جبکہ یعقوب بن شیبہ نے ہشام کے جس غیر محتاط طرز عمل کا ذکر کیا ہے، وہ امام مسلم کی بیان کردہ صورت سے بالکل مختلف ہے اور اس کو کسی طرح اس پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرز عمل کو اگر ابن حجر کے قول ’ہذا ہو التدلیس‘کے مطابق تدلیس کہا جائے تو روایت کے انقطاع کے ساتھ ساتھ خود ہشام کی شخصیت بھی بطور ایک راوی کے عیب دار ہو جاتی ہے اور اگر حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اسے اصطلاحی تدلیس پر محمول نہ کیا جائے تو بھی عادتاً اور معمولاً ارسال کا طریقہ اپنا لینا اس سے بہرحال ثابت ہوتا ہے اور دونوں صورتوں میں روایت کے یقینی اتصال کے حوالے سے پیدا ہونے والا سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ ہم اسی بنیاد پر یہ گزارش کر رہے ہیں کہ ہشام نے عراق جانے کے بعد اپنے والد سے جو روایات نقل کی ہیں، ان کو یقینی طور پر متصل قرار نہیں دیا جا سکتا، الا یہ کہ کسی روایت کے بارے میں دلائل وشواہد سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ ہشام نے اپنے والد سے براہ راست سنی ہے۔ ابن حجر لکھتے ہیں:
واما دعوی الانقطاع فمدفوعۃ عمن اخرج لہم البخاری لما علم من شرطہ ومع ذلک فحکم من ذکر من رجالہ بتدلیس او ارسال ان تسبر احادیثہم الموجودۃ عندہ بالعنعنۃ فان وجد التصریح بالسماع فیہا اندفع الاعتراض والا فلا۔ (فتح الباری ۱/ ۱۷۲)
’’جن رواۃ کی روایات امام بخاری نے نقل کی ہیں، ان میں انقطاع کے دعوے کا جواب یہ ہے کہ (اتصال کو ثابت ماننے میں) امام بخاری کی کڑی شرط معروف ہے۔ اس کے باوجود بخاری کے راویوں میں سے جن کے بارے میں تدلیس یا ارسال کا ذکر ملتا ہو، ان (کی روایات کے متصل یا منقطع ہونے) کا فیصلہ یوں کیا جائے گا کہ ان کی جو روایات امام بخاری کے ہاں ’عن‘ سے روایت کی گئی ہیں، ان کے طرق کی چھان پھٹک کی جائے۔ پس اگر اس روایت میں سماع کی تصریح مل جائے تو (عدم اتصال کا) اعتراض دور ہو جائے گا، ورنہ نہیں۔‘‘
ہم یہاں اس بحث سے صرف نظر کر لیتے ہیں کہ اگر معنعن روایت کی کسی ایک آدھ سند میں تحدیث کی صراحت آجائے تو کیا اس میں راوی کے تصرف کا کوئی احتمال نہیں ہوتا اور کیا وہ اتصال کا حتمی قرینہ قرار پا جاتی ہے؟۲؎ اس معیار کو فرضاً درست مانتے ہوئے ہشام کی زیر بحث روایت کا جائزہ لیجیے تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ یہ روایت کتب حدیث میں ہشام کے سات شاگردوں سے مختلف مقامات پر نقل ہوئی ہے اور ان میں سے کسی مقام پر بھی ہشام کے اپنے والد سے سماع کی تصریح نہیں، بلکہ ہر جگہ ’عن ابیہ‘ یا ’عن عروۃ‘ کے الفاظ سے روایت نقل کی گئی ہے۔ یہ مقامات حسب ذیل ہیں:
o بخاری، رقم ۹۰۹، ۳۷۱۶۔
o مسلم، رقم ۸۹۲۔
o ابن حبان، رقم ۵۸۷۷۔
o ابن ماجہ، رقم ۱۸۹۸۔
o بیہقی، رقم ۲۰۸۰۱۔
o مسند احمد، رقم ۲۴۷۲۶، ۲۵۰۷۲۔
o مسند اسحاق بن راہویہ، رقم ۷۸۰۔
o المعجم الکبیر ۲۳/ ۱۸۰، ۱۸۱۔
o المسند الصحیح المخرج علیٰ صحیح مسلم لابی عوانہ الاسفرائینی، رقم ۲۱۳۸۔
ہمارا طالب علمانہ استقصا ناقص ہو سکتا ہے۔ مولانا محترم سے گزارش ہے کہ وہ علم حدیث میں اپنی وسعت نظر سے کام لیتے ہوئے زیر بحث روایت میں ہشام کے اپنے والد سے سماع کے دلائل وشواہد سے مطلع فرمائیں تاکہ کم ازکم اس روایت کے متصل یا منقطع ہونے کی بحث تو کسی نتیجے تک پہنچ سکے۔
گانے والیاں کون تھیں؟
ہمارے مضمون کے آخر میں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا تھا کہ ام المومنین کی زیر بحث روایت میں ’جاریتان‘کا لفظ چھوٹی بچیوں کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا لونڈیوں کے مفہوم میں۔ ہم نے گزارش کی تھی کہ ’ولیستا بمغنیتین‘ کا زیر بحث جملہ، خواہ اس کا قائل کسی کو بھی مان لیا جائے، بجائے خود اس امر کا قرینہ ہے کہ راوی ’جاریتان‘ کا مفہوم چھوٹی بچیاں نہیں، بلکہ لونڈیاں سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ اس جملے سے پیشہ ور مغنیہ ہونے کے جس احتمال کی نفی مقصود ہے، وہ لونڈیوں ہی کے بارے میں پیدا ہو سکتا ہے۔
مولانا محترم نے اس کے جواب میں فرمایا ہے:
’’ حافظ ابن حجر ’جاریتان‘ کے معنی لونڈیاں کرنے کے باوجود انھیں پیشہ ور مغنیہ نہیں سمجھتے تھے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس بات کی نفی حافظ ابن حجر نے بالصراحت کی ہے، جناب محترم عمار صاحب اس کا انتساب محض اپنی فکر کی بنیاد پر حافظ ابن حجر کی طرف کر رہے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’پیشے کے طور پر گانا گانے کا احتمال چھوٹی بچیوں کے بارے میں نہیں، بلکہ لونڈیوں ہی کے بارے میں پیدا ہو سکتا ہے اور حافظ ابن حجر نے غالباً انھی قرائن کی بنا پر جاریتان کو لونڈیوں کے معنی میں لیا ہے۔‘‘ الخ۔
انصاف شرط ہے! کیا حافظ ابن حجر نے ’جاریتان‘ کے معنی لونڈیاں کرنے کے باوجود انھیں پیشہ ور مغنیہ قرار دیا؟ قطعاً نہیں، تو پھر اس طول بیانی کا کیا فائدہ؟ پھر اگر تسلیم کیا جائے کہ وہ لونڈیاں تھیں تو اس کی کیا دلیل ہے کہ ان کا یہ عمل بلوغت کے بعد تھا؟ اور کیا لونڈیوں اور بچیوں کے مابین کوئی منافات ہے؟ لونڈیاں بچیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس میں استحالہ کیا ہے؟‘‘ (الاعتصام ۵۹/ ۱۴/ ۲۱)
واقعہ یہ ہے کہ ان لونڈیوں کو پیشہ ور مغنیہ قرار دینے کی بات ہم نے ہرگز ابن حجر کی طرف منسوب نہیں کی۔ ہمارے اقتباس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ راوی ’جاریتان‘ کے پیشہ ور مغنیہ ہونے کے احتمال کی نفی کر رہا ہے جو چھوٹی بچیوں کے بارے میں نہیں، بلکہ لونڈیوں ہی کے بارے میں پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے راوی کی یہ وضاحت اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ ’جاریتان‘ کا مفہوم لونڈیاں ہی سمجھ رہا ہے اور ابن حجر نے بھی غالباً اسی وجہ سے ’جاریتان‘ کو لونڈیوں کے مفہوم میں لیتے ہوئے ان کا مصداق متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری عبارت سے یہ نتیجہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ابن حجر ان لونڈیوں کو پیشہ ور مغنیہ قرار دے رہے ہیں۔ البتہ دو باتوں کی وضاحت یہاں مناسب معلوم ہوتی ہے:
ایک یہ کہ ابن حجر جس مفہوم میں ان لونڈیوں کے ’پیشہ ور‘ مغنیہ ہونے کی نفی کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کوئی عورت مغنیات کے معروف طریقے کے مطابق لے، سر اور آواز کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ اور بے ہودہ اشعار کے ذریعے سے ہیجان خیزی اور شوق انگیزی کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اس بات کی نفی نہیں کرتے کہ یہ دونوں لونڈیاں باقاعدہ اور معمولاً گانے والی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے ’’الاصابہ‘‘ میں حمامہ کا ذکر ’حمامۃ المغنیۃ‘ کے لقب سے کیا ہے، (الاصابہ ۴/۲۴۷۱) جبکہ دوسری گانے والی کے بارے میں لکھتے ہیں:
وعند المحاملی من حدیث ابن عباس ان امراۃ کانت تغنی بالمدینۃ اسمہا زینب فیمکن ان یفسر بہا الثانیۃ۔(فتح الباری ۱/ ۱۲۵)
’’محاملی نے ابن عباس کی روایت نقل کی ہے کہ مدینہ میں زینب نام کی ایک عورت تھی جو گانا گایا کرتی تھی۔ پس ممکن ہے کہ دوسری گانے والی یہی ہو۔‘‘
دوسری یہ کہ ان لونڈیوں کو چھوٹی بچیاں قرار دینے پر اصرار کی ہمیں کوئی معقول بنیاد دکھائی نہیں دیتی۔ ہم عرض کر چکے ہیں کہ ’ولیستا بمغنیتین‘ کے قائل کا منشا ان لونڈیوں کے پیشہ ور مغنیہ ہونے کے احتمال کی نفی ہے اور یہ احتمال چھوٹی بچیوں کے بارے میں پیدا نہیں ہوتا۔ پیشہ ور مغنیہ ہونے کا احتمال بالغ لڑکیوں ـ خواہ وہ آزاد ہوں یا لونڈیاں ــــــــــ کے بارے میں پیدا ہونا زیادہ قرین قیاس ہے اور راوی اسی کی نفی کر رہا ہے۔ اسی لیے ابن حجر کا رجحان بھی ان لونڈیوں کو چھوٹی بچیاں قرار دینے کی طرف نہیں ہے، چنانچہ ان میں سے ایک لونڈی کا امکانی مصداق ان کے نزدیک زینب نامی وہ خاتون ہے جو مدینہ منورہ میں گانا گایا کرتی تھی۔ اس صورت میں یہ کہنا، ظاہر ہے کہ درست نہیں ہو سکتا کہ ان کے نزدیک غناء جاریتین کی زیر بحث روایت میں گانا گانے والی لونڈیاں بالغ لڑکیاں نہیں، بلکہ چھوٹی بچیاں تھیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی ان لونڈیوں کو بالغ فرض کرتے ہوئے مذکورہ روایت کے تحت اس فقہی مسئلے کی وضاحت کی ہے کہ فتنے سے امن کی حالت میں اجنبی عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے۔ (فیض الباری ۲/ ۴۶۲)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ سابقہ مضامین میں ہم نے اس روایت کو ہشام سے نقل کرنے والے چھ شاگردوں کا ذکر کیا تھا۔ برادرم افتخار تبسم صاحب نے اس ضمن میں ہشام کے ایک اور شاگرد محاضر کی نشان دہی کی ہے جن کی روایت ابو عوانہ الاسفرائینی کی ’المسند الصحیح المخرج علیٰ صحیح مسلم‘ (۲/ ۱۲، رقم ۲۱۳۸) میں منقول ہے۔ محاضر کی اس روایت میں بھی زیر بحث زیادت کا کوئی ذکر نہیں۔
۲؎ اگر کسی راوی کے زیادہ تر شاگرد روایت کو ’عن‘ سے نقل کریں ،جبکہ کوئی ایک آدھ شاگرد سماع کی تصریح کرے تو بدیہی طور پر اس سے انقطاع کے امکان کی حتمی طور پر نفی نہیں ہو جاتی۔ مثال کے طور پر حضرت عمر پر قاتلانہ حملے کی روایت ’ہشام عن عروۃ عن المسور بن مخرمۃ‘ کی سند سے نقل کی گئی ہے۔ ہشام کے شاگردوں میں سے زائدہ، اسماعیل بن زکریا، علی بن مسہر، ابو ضمرہ، لیث بن سعد، مفضل بن فضالہ، ابو اسامہ، حماد بن سلمہ، ابو معاویہ اور عبدہ اسے ’عن المسور بن مخرمۃ‘ کے الفاظ سے نقل کرتے ہیں، جبکہ امام مالک نے اسے ’ان المسور بن مخرمۃ اخبرہ‘ کے الفاظ سے روایت کیا ہے۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں: ’وقول مالک عن ہشام عن ابیہ ان المسور بن مخرمۃ اخبرہ وہم منہ واللّٰہ اعلم لکثرۃ من خالفہ ممن قدمنا‘(العلل ۲/ ۲۱۰) یعنی امام مالک کا یہ قول کہ ’’مسور بن مخرمہ نے ہشام کو خبر دی‘‘، ان کا وہم ہے، کیونکہ ان کے برخلاف ’عن‘ سے روایت کرنے والے راویوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔