HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

صحیحین میں غنائے جاریتین کی روایت پر اہل اشراق کے اعتراضات کا جواب

ابوالبدر مولانا ارشاد الحق اثری

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


کتب احادیث میں صحیحین اور بالخصوص صحیح بخاری کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو شہرت دوام عطا فرمائی ہے وہ کسی اور کتاب کو حاصل نہیں۔ محدثین کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ صحیح بخاری کی تمام روایات صحیح اور تمام مسائل زندگی میں دلیل و حجت ہیں۔ اس کی احادیث کو قبول عام کا شرف حاصل ہے۔ البتہ معدودے چند روایات اس تلقی و قبول سے خارج ہیں جن پر بعض محدثین نے اعتراض کیا ہے۔ لیکن اس کے یہ معنی قطعاً نہیں کہ وہ احادیث ضعیف یا مردود ہیں۔ علامہ الوزیر الیمانی نے انھی روایات کے بارے میں صاف صاف فرمایا ہے:

اعلم ان المختلف فیہ من حدیثہما ہو الیسیر ولیس ذلک الیسیر ما ہو مردود بطریق قطعیۃ ولا اجماعیۃ بل غایۃ ما فیہ انہ لم ینعقد علیہ الاجماع.( الروض الباسم۱/ ۷۹)
’’خوب جان لو کہ بخاری و مسلم کی یہ تھوڑی سی مختلف فیہ احادیث نہ قطعی طور پر ضعیف ہیں اور نہ اجماعی طور پر، بلکہ زیادہ سے زیادہ ان کے بارے میں یہ بات ہے کہ ان کی صحت پر اجماع نہیں ہوا۔‘‘

یعنی وہ متکلم فیہ روایات بھی صحیح ہیں، البتہ ان کی صحت پر اتفاق نہیں اور وہ تلقی بالقبول (قبول عام) کے درجہ سے کم ہو گئی ہیں۔

بالخصوص وہ روایات جن سے شیخین نے استدلال کیا ہے اور ترجمۃ الباب میں ابتداءً انھیں ذکر کیا ہے۔ صحت کے اعتبار سے ان کا درجہ ان روایات سے فائق ہے جو متابعۃً اور شواہد میں مذکور ہیں۔ خود امام مسلم نے بھی مقدمۂ مسلم میں اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے اور دیگر ائمۂ فن نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔

صحیحین کی متفق علیہ روایات میں ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس میں عید کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ’جاریتین‘ (دو جاریہ) کے دف بجانے اور گانے کا ذکر ہے اور صحیحین ہی میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ’ولیستا بمغنیتین‘ وہ دونوں پیشہ ور مغنیہ نہ تھیں۔ قارئین الاعتصام کے علم میں یہ بات ہو گی کہ موسیقی کے جواز کا فتویٰ اور اس کی تائید و حمایت میں ارباب اشراق نے اولاً تو ان الفاظ کو ذکر ہی نہ کیا۔ ہم نے بفضل اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کی نشان دہی کی تو پھر ان کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ ہم نے اس حوالے سے ان کے خدشات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی، مگر اس سے ان کی تشفی نہیں ہوئی۔ چنانچہ ماہنامہ ’’اشراق‘‘ ستمبر ۲۰۰۶ کے شمارہ میں اپنے خطرات کو ایک نئے اسلوب میں پیش کیا گیا، جن کے بارے میں ہم اپنی معروضات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری سمجھی گئی کہ یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ہے اور ارباب اشراق سے پہلے کسی محدث یا کسی صاحب علم نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ موسیقی کے جواز کا فتویٰ ارباب اشراق کے علاوہ بعض اور حضرات نے بھی دیا، مگر انھیں بھی اس کی جسارت نہیں ہوئی کہ وہ اس متفق علیہ روایت کو ضعیف قرار دیں۔

ہشام بن عروہ کی روایات

پہلے فرمایا گیا تھا کہ ہشام کی اپنے باپ عروہ سے ایک کے علاوہ باقی تمام روایات امام زہری کے واسطے سے ہیں، مگر ہماری معروضات اور جناب افتخار تبسم صاحب کے توجہ دلانے کے نتیجہ میں اب اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہشام کا اپنے والد سے سماع نکتۂ اختلاف نہیں رہا۔( اشراق، ستمبر ۲۰۰۶، ۲۸) والحمد للّٰہ علٰی ذٰلک.

ہشام کے بارے میں دوسرا اعتراض یہ تھا کہ عراق جانے کے بعد ہشام اپنے والد عروہ سے روایات نقل کرنے میں غیر محتاط ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں ہم نے جو کچھ عرض کیا تھا، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:

۱۔ عراق سے مراد اقلیم عراق نہیں، کوفہ ہے اور ہشام سے حماد، معمر دونوں بصری شاگرد بھی روایت کرتے ہیں۔

۲۔ ہشام کے بارے میں یہ اعتراض کوفہ میں دوسری اور تیسری بار آمد سے متعلق ہے۔

۳۔ جس دور میں کہا گیا ہے کہ وہ غیر محتاط ہو گئے تھے، اس کے بارے میں یہ وضاحت بھی ہے کہ اس دور میں ان سے وکیع، ابن نمیر اور محاضر نے سنا ہے۔

۴۔ صحیحین میں شیخین کا تتبع معروف ہے، اس لیے ان میں ’مدلسین‘ یا ’مختلطین‘ کی روایات کا حکم وہ نہیں جو دوسری کتابوں میں ہے۔ ہماری ان معروضات کے جواب میں فرمایا گیا ہے:

’’ہشام یقیناً کوفہ ہی گئے تھے، اہل عراق کا حوالہ دینے سے مقصد ہشام کی جاے اقامت کا ذکر کرنا نہیں اور نہ یہ بتانا ہے کہ ان کے ہاں عدم احتیاط کا پہلو صرف اہل کوفہ کی نقل کردہ مرویات میں پایا جاتا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس دور میں ہشام نے ارسال کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ لہٰذا اس دور میں جن راویوں نے بھی ان سے روایت کی ان کی روایات کو یقینی طور پر متصل قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘ (اشراق، ۲۹)

بجا فرمایا، مگر یہ کوفہ میں دوسری اور تیسری مرتبہ جانے کے بعد ہے۔ اس دور میں جن حضرات نے ان سے روایات لی ہیں، ان کی روایات میں بظاہر اس تصور کی گنجایش موجود ہے کہ ان میں ارسال ہو، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ رہی ’’عراق ‘‘ کے حوالے سے بات تو یہ دراصل اس غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ ہشام کی تمام اقلیم عراق میں یہ پوزیشن نہیں، بلکہ شہر کوفہ کے متعلق ہے۔ اور ہشام سے روایت کرنے والے صرف ان کے کوفی شاگرد ہی نہیں، جیسا کہ پہلے اس کا تاثر دیا گیا تھا، بلکہ بصری شاگرد بھی ہیں۔ رہی یہ بات کہ ہشام کے بصری تلامذہ نے بھی ان کے کوفہ آنے کے بعد سماع کیا ہے، مدینہ طیبہ میں نہیں تو اس کی وضاحت آیندہ آ رہی ہے۔

ہم نے عرض کیا تھا کہ ہشام کی مرویات کے بارے میں یہ اعتراض ان کے کوفہ میں دوسری اور تیسری بار آمد سے متعلق ہے کہ

قدم الکوفۃ ثلاث مرات، قدمۃ کان یقول: حدثنی ابی قال: سمعت عائشۃ، وقدم الثانیۃ فکان یقول: اخبرنی ابی عن عائشۃ وقدم الثالثۃ فکان یقول: ابی عن عائشۃ. (التہذیب۱۱/ ۵۰، السیر۶ /۳۴ وغیر ہما)
’’ہشام کوفہ میں تین بار آئے۔ پہلی مرتبہ آئے تو کہتے تھے: ’حدثنی ابی قال: سمعت عائشۃ‘ یعنی ارسال نہیں کرتے تھے سماع کی صراحت کرتے تھے۔ دوسری بار آئے تو ’اخبرنی ابی عن عائشۃ‘ کہتے۔ یعنی تب بھی باپ سے روایت میں سماع کی صراحت کرتے، مگر باپ اور سیدہ عائشہ کے مابین سماع کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ اور تیسری بار آئے تو باپ سے اور باپ کا حضرت عائشہ سے سماع کا ذکر نہیں کرتے تھے۔‘‘

اب یہ کیا انصاف ہے کہ مطلق طور پر تمام اہل کوفہ کی ہشام سے روایات کو غیر متصل اور غیر صحیح قرار دے دیا جائے۔ بالخصوص جبکہ ہشام سے یہ روایت کرنے والے ابو اسامہ حماد بن اسامہ ہیں اور وہ محدثین کے ہاں ہشام سے روایت کرنے میں ثقہ اور ثبت ہیں اور اس کی روایت کو درست قرار دیتے ہیں، جیسا کہ آیندہ اس کی تفصیل آ رہی ہے۔ یہ بات ہم نے پہلے بھی عرض کی کہ ہشام پر یہ اعتراض ان کی تمام مرویات کے بارے میں نہیں، مگر اہل اشراق نے ہماری اس گزارش کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا۔

اسی طرح یہ بھی عرض کیا تھا کہ ’’التہذیب‘‘ اور ’’تاریخ بغداد‘‘ ( ۱۴/ ۴۰) میں وضاحت ہے کہ آخری دور میں ہشام سے وکیع، ابن نمیر اور محاضر نے سنا ہے اور صحیحین میں یہ روایت ان تینوں کی بجائے ابو اسامہ سے ہے، لہٰذا تمام اہل کوفہ کی ہشام سے روایات کو ارسال پر محمول کرنا قطعاً درست نہیں۔ مگر افسوس! اہل اشراق نے اس طرف بھی نظر التفات نہیں فرمائی اور اپنی ضد میں کہے جا رہے ہیں کہ کوفہ میں بیان کی ہوئی روایات کو یقینی طور پر متصل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی سے یہ عقدہ بھی کھل جاتا ہے کہ بصری تلامذہ نے مدینہ میں نہیں کوفہ ہی میں ہشام سے سماع کیا تھا۔ کیا ان تمام نے آخری بار سماع کیا تھا یا اس سے پہلے بھی؟ تمام کا سماع یکساں ہے تو آخر میں سماع کرنے والوں کی نشان دہی چہ معنی دارد؟

صحیحین میں مدلسین کی روایات

صحیحین میں مدلس یا مختلط روایات کے بارے میں جو کچھ ہم نے عرض کیا، اس کے بارے میں اہل اشراق کی سخن سازی دیکھیے، لکھتے ہیں:

’’مولانا (راقم) فرماتے ہیں:
’’ صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات جمہور کے ہاں سماع پر محمول ہیں، مگر جہاں دلائل قطعیہ سے انقطاع ثابت ہو، اس کا انکار محض مجادلہ و مکابرہ پر مبنی ہے۔ البتہ اس سلسلے میں متاخرین کی بجائے عموماً متقدمین، محدثین جن کی نگاہوں میں ذخیرۂ حدیث تھا، کا قول قابل قبول ہو گا۔ ہرکس و ناکس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا ئے گا۔‘‘ (توضیح الکلام۲/ ۳۰۲)
کیا مولانا محترم اس بات کی وضاحت فرمائیں گے کہ اگر مدلسین کی معنعن روایات کے حوالے سے شیخین کا تتبع ایسا ہی قطعی ہے تو بعض روایات میں ’’دلائل قطعیہ سے انقطاع ثابت‘‘ ہونے کی گنجایش کیسے پیدا ہو گئی؟ اور جب بعض مقامات پر انقطاع کا انکار ’’محض مجادلہ و مکابرہ پر مبنی‘‘ ہے تو پھر کیا دلیل ہے کہ باقی مقامات پر جو شخین پر اعتماد یا توجہ اور تنبیہ نہ ہونے کے باعث محدثین کے ہاں زیر بحث نہیں آ سکے، اتصال ہی کو حتمی سمجھنا خوش اعتقادی اور تقلید پر مبنی نہیں؟‘‘ (اشراق،۳۰۔ ۳۱)

اولاً، گزارش ہے کہ راقم نے شیخین کے تتبع اور صحیح احادیث کو منتخب کرنے میں ان کے اہتمام اور احتیاط کا ذکر تو کیا، لیکن اسے ’’قطعی‘‘ قرار نہیں دیا، جیسا کہ اہل اشراق نے لکھا ہے، جس پر ان کے اعتراض کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ توضیح کی عبارت پر غور فرمایے ہم نے تو جمہور کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات جمہور کے ہاں سماع پر محمول ہیں۔‘‘ بلکہ ’’توضیح‘‘ میں ہم نے اس موقف پر محدثین کے ’’اتفاق‘‘ کا دعویٰ کرنے والوں کی تردید کی ہے، جس کی پوری تفصیل ’’توضیح الکلام‘‘ (۲/۲۹۷ سے۳۰۲) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اور ’’الاعتصام‘‘ میں بھی ہم نے یہی عرض کیا کہ ’’محدثین کے ہاں یہ بات تقریباً طے شدہ ہے کہ صحیحین میں مدلسین کی معنعن روایات محمول علی السماع ہیں۔‘‘ ( ہفت روزہ الاعتصام ۵۸: ۲۹/ ۱۴)

یہاں بھی ’’تقریباً‘‘ کا لفظ اسی بات کا غماز ہے کہ یہ اصول مجمع علیہ نہیں، بلکہ اکثری اور جمہور کے نزدیک ہے۔

ثانیاً، زیر بحث روایت میں ہشام کی بنا پر اعتراض ہی درست نہیں۔ اس لیے کہ اولاً تو ہشام مدلس نہیں ہے۔ ہم عرض کر چکے ہیں ’’المعرفۃ‘‘ ( للحاکم۱۰۴) کے حوالے سے امام یحییٰ القطان کا جو قول نقل کیا گیا ہے، اس کی سند ہی صحیح نہیں۔ حافظ صلاح الدین کیکلدی العلائی نے یہی واقعہ نقل کر کے صاف طور پر لکھا ہے:

فی جعل ہشام بمجرد ہذا مدلسا نظر ولم ار من وصفہ بہ.(جامع التحصیل ۱۲۸)
’’صرف اس واقعہ کی بنا پر ہشام کو مدلس قرار دینا محل نظر ہے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے اس کو مدلس کہا ہے۔‘‘

حافظ الحلبی نے بھی ’التبیین لاسماء المدلسین‘ ( رقم ۹۰) میں حافظ العلائی سے یہی کچھ نقل کر کے گویا ان کی تائید کی ہے کہ ہشام کو کسی نے مدلس نہیں کہا۔ البتہ علامہ ابن العراقی نے امام یعقوب بن شیبہ کے قول کی بنا پر جسے ’’اشراق‘‘ اپریل ۲۰۰۶ میں تہذیب (۱۱/۴۵) کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ ’’ہشام عراق جانے کے بعد اپنے والد سے روایات نقل کرنے میں غیر محتاط ہو گئے جس کی وجہ سے ان کے شہر کے لوگوں نے ان پر اعتراض کیا۔ ہماری رائے میں ہشام اہل عراق کو تاثر یہ دیتے تھے کہ وہ اپنے والد سے صرف وہی روایات نقل کرتے ہیں جو انھوں نے ان سے سنی تھیں۔ اس میں ان کی بے احتیاطی یہ تھی کہ انھوں نے وہ روایات بھی اپنے والد کی نسبت نقل کر دیں جو انھوں نے براہ راست نہیں، بلکہ بواسطہ سنی تھیں۔‘‘ اسی بنا پر علامہ ابن العراقی نے ہشام کو مدلس قرار دیا اور حافظ ابن حجر نے بھی طبقات المدلسین کے پہلے طبقہ میں ہشام کو ذکر کیا۔

لیکن امام مسلم نے مقدمۂ صحیح مسلم، صفحہ ۲۲ میں اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ محدثین بسا اوقات ارسالاً روایت بیان کرتے ہیں اور جس سے حدیث سنی ہوتی ہے اس کا نام نہیں لیتے اور کبھی نشاط میں پوری سند سے روایت کرتے ہیں، جیسا کہ اسے سنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے جو مثالیں ذکر کی ہیں ان میں ہشام بن عروہ کی روایت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ایوب سختیانی، ابن مبارک، وکیع، ابن نمیر اور دیگر ایک جماعت ہشام عن ابیہ عن عائشہ کی سند سے یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے عمدہ خوشبو لگاتی تھی، احرام باندھتے وقت اور احرام کھولتے وقت۔ یہی روایت لیث بن سعد، داؤد العطار، حمید بن الاسود، وہیب بن خالد اور ابو اسامہ، ہشام سے بواسطہ عثمان بن عروہ عن عروہ عن عائشہ روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح ہشام عن ابیہ عن عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر میری طرف جھکا دیتے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک میں کنگھی کرتی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی۔ اس روایت کو امام مالک نے زہری سے روایت کیا ہے اور وہ اسے عروہ عن عمرۃ عن عائشہ سے روایت کرتے ہیں۔ اس نوعیت کی مثالوں سے امام مسلم نے ثابت کیا ہے کہ یہ صورت ارسال و اتصال کی ہے۔ خوشی اور اطمینان کی حالت میں محدث پوری متصل سند ذکر کرتا ہے اور کبھی اسے واسطہ کے حذف سے مرسلاً بیان کرتا ہے۔ یوں انھوں نے اشارہ کیا ہے کہ ہشام کی ایسی روایات تدلیس کی بنا پر نہیں ارسال واتصال کی صورت میں ہیں۔ ان روایات میں گو یہ بھی احتمال ہے کہ ہشام نے پہلے بواسطہ عثمان سنا ہو پھر خود براہ راست بھی عروہ سے سماع کیا ہو۔ یا عروہ نے یہ روایت بواسطہ عمرۃ سنی ہو، پھر براہ راست عروہ نے حضرت عائشہ سے اس کا سماع کیا ہو۔ لیکن امام مسلم فرماتے ہیں کہ یہاں صورت اتصال و ارسال کی ہے۔ دونوں اسانید نقل کرنے والے بڑے بڑے ائمۂ کبار ہیں ان کی تغلیط ممکن نہیں اور ایسا ’’ثقات محدثین‘‘ اور ’’ائمۂ اہل علم‘‘ کرتے ہیں، اس سے متن کے اعتبار سے کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔

امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ کا مرسل روایت کے ضمن میں اس بحث کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی ایسی روایات کی بنا پر ہشام کو مدلس قرار نہیں دیتے۔ امام دارقطنی نے بھی ہشام کی ایسی روایات کو نشاط و انبساط پر ہی محمول کیا ہے، تدلیس پر نہیں۔ ملاحظہ ہو ’’العلل‘‘ ( ۱۵ /۳۱۷) ان سے قبل یہی بات امام احمد نے فرمائی ہے۔ (شرح علل الترمذی لابن رجب۲/ ۶۷۹) علامہ عبدالرحمن المعلمی نے بھی ’’التنکیل‘‘ (۱/ ۵۱۷۔۵۱۸) میں کہا ہے کہ ہشام مدلس نہیں ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ہشام کی تدلیس کے بارے میں ابن خراش کے قول سے بھی استدلال کیا ہے۔ حالانکہ ابن خراش، جن کا نام عبدالرحمن بن یوسف بن خراش ہے۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان (۴ /۳۰۲) میں ابن قطان کے قول کی تردید کرتے ہوئے ’وکذا قول عبد الرحمن بن خراش‘ کہہ کر اس قول کی بھی تردید کر دی ہے۔ ائمۂ فن نے اس کی جرح پر اعتماد نہیں کیا، جیسا کہ ’’ہدی الساری‘‘ میں حافظ ابن حجر نے سلیمان بن داؤد العتکی، موسیٰ بن اسماعیل التبوذکی کے تراجم میں اور حافظ ذہبی نے ’’المیزان‘‘ میں احمد بن عبدہ، ابو سلمہ موسیٰ بن اسماعیل کے تراجم میں اشارہ کیا ہے۔ شیخ ابوغدہ نے ’’الرفع والتکمیل‘‘ (۲۶۸۔۲۶۹) کے حواشی میں بھی اس حقیقت کی وضاحت کی ہے۔ اس لیے اس قول کی بنا پر ہشام کو مدلس قرار دینا بھی صحیح نہیں۔ اگر اسے معتبر قرار دیا جائے تو بھی اس سے صحیح بخاری اور مسلم کی زیر بحث غناء جاریتین کی روایت پر کلام خود ابن خراش کے موقف کے خلاف ہے، کیونکہ اس میں انھوں نے کہا ہے کہ کوفہ میں ان آخری ایام میں ہشام سے وکیع، ابن نمیر اور محاضر نے سماع کیا ہے، مگر یہ روایت ان تینوں میں سے کسی ایک سے مروی نہیں، اس لیے ابن خراش کے قول سے اس پر نقد محض طفل تسلی اور اصول سے بے خبری پر مبنی ہے۔

حافظ ابن حجر نے ہشام بن عروہ کو بلاشبہ ’’طبقات المدلسین‘‘ میں ذکر کیا ہے اور ’’تقریب التہذیب‘‘ (۵۳۳) میں بھی کہا ہے کہ ’ربما دلس‘، مگر ان کی یہ بات محل نظر ہے، بلکہ ’’طبقات المدلسین‘‘ میں جو انھوں نے فرمایا ہے:

ذکر بذلک ابو الحسن بن القطان و أنکرہ الذہبی، وابن القطان معذور فإن الحکایۃ المشہورۃ عنہ أنہ قدم العراق ثلاث مرات۔الخ‘ کہ ’’اسے تدلیس کے ساتھ ابن قطان نے ذکر کیا ہے، مگر علامہ ذہبی نے اس کا انکار کیا ہے۔ اور ابن قطان معذور ہیں، کیونکہ ہشام سے حکایت مشہور ہے کہ وہ تین بار عراق گئے۔‘‘

یہی صحیح نہیں ہے، علامہ ابن قطان نے قطعاً ہشام کو مدلس نہیں کہا اور نہ اس حوالے سے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید ہی کی ہے۔ بلکہ علامہ ابن قطان نے ہشام کو مختلط قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’بیان الوہم والایہام‘‘ ( ۵/۵۰۴، رقم ۲۷۲۶) میں ہے۔ علامہ ذہبی نے اسی کی تردید، بلکہ سخت تردید کی ہے۔ ملاحظہ ہو ’’نقد الامام الذہبی لبیان الوہم والایہام‘‘( ۱۲۶، رقم ۸۵، میزان الاعتدال۴/ ۳۰۱۔ ۳۰۲سیر اعلام النبلاء۶/ ۳۵۔ ۳۶) امام احمد نے بھی فرمایا ہے کہ مجھے ہشام کے تغیر کے بارے میں کوئی بات نہیں پہنچی۔ (شرح العلل، لابن رجب ۱/ ۶۷۹) بلکہ خود حافظ ابن حجر نے بھی علامہ ابن قطان سے اختلاط کا قول ہی نقل کیا ہے اور اس کی تردید کی ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں:

قال ابو الحسن بن قطان تغیر قبل موتہ ولم نر لہ ذلک سلفا.‘(التہذیب۱/ ۵۱)کہ’’ابو الحسن ابن قطان نے کہا ہے ہشام وفات سے پہلے متغیر ہو گئے تھے، لیکن اس میں ہم ان کا کوئی سلف نہیں دیکھتے کہ متقدمین میں سے کسی نے بھی ہشام کو مختلط و متغیر کہا ہو۔‘‘

ابن قطان سے تدلیس کا قول تو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہیں نقل نہیں کیا۔ اس لیے ابن قطان کے حوالے سے ہشام کو مدلس قرار دینا اور اس کی تردید علامہ ذہبی سے نقل کرنا درست نہیں۔

البتہ امام یعقوب بن شیبہ اور ابن خراش کے قول کی بنا پر انھوں نے فرمایا ہے کہ ’ہذا ہو التدلیس‘ یہی تدلیس ہے، مگر ہم ان دونوں کے قول کی وضاحت پہلے کر چکے ہیں۔ امام مسلم نے اسی صورت کو ارسال و اتصال پر محمول کیا ہے، تدلیس پر نہیں، کیونکہ ہشام مدلس نہیں ہے۔ معنعن روایت پر بحث کے ضمن میں ہشام کی ایسی مرویات کی طرف اشارہ کر کے انھوں نے ثابت کیا ہے کہ ثقہ راویوں سے یہ بات منقول ہے کہ وہ اپنے شیوخ سے وہ روایتیں بھی بیان کرتے ہیں جنھیں انھوں نے براہ راست سنا نہیں ہوتا، مگر اس کے باوجود محدثین ان کے عنعنہ کو قبول کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ مدلس ہوں تو ان کا عنعنہ کیوں کر قبول کیا جا سکتا ہے، اس لیے امام یعقوب اور ابن خراش کے قول کی بنا پر ہشام کو مدلس قرار دینا صحیح نہیں۔

علاوہ ازیں اگر حافظ ابن حجر نے ’’طبقات المدلسین‘‘ میں ہشام کو ذکر کیا ہے تو انھی کے بیان کر دہ طبقات کے مطابق ہشام کو پہلے طبقہ میں ذکر کیا ہے، جس کے بارے میں وہ فرماتے ہیں:

’الأولی من لم یوصف بذلک الا نادراً.‘کہ پہلا طبقہ وہ ہے جن کی طرف نادر طور پر تدلیس کی نسبت کی گئی ہے۔ بلکہ انھوں نے ’’النکت علی کتاب ابن الصلاح‘‘ میں بھی ہشام کو پہلے طبقہ ہی میں شمار کیا ہے، جن کے بارے میں خود انھوں نے یہ وضاحت کی ہے:

الأولی: من لم یوصف بذلک الا نادرا، وغالب روایاتہم مصرحۃ بالسماع، والغالب ان إطلاق من أطلق ذلک علیہم فیہ تجوز من الإرسال الی التدلیس، ومنہم من یطلق ذلک بناء علی الظن، ویکون التحقیق بخلافہ. الخ۔( النکت۲/ ۶۳۶۔ ۶۳۷)
’’پہلا درجہ وہ ہے جسے شاذ و نادر طور پر مدلس کہا گیا ہے او راکثر ان کی روایات میں صراحت سماع پائی جاتی ہے۔ اور اکثر جنھوں نے انھیں مدلس کہا ہے، انھوں نے ارسال سے تجوز کرتے ہوئے مدلس کہہ دیا ہے۔ اور ان میں وہ بھی ہیں جنھیں محض ظن کی بنا پرمدلس کہا گیا ہے اور تحقیق و حقیقت اس کے خلاف ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر کے اس بیان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ہشام اصطلاحی مدلس نہیں، نہ ہی اس کے عنعنہ پر محدثین سابقین نے اعتراض کیا ہے۔ اس لیے ہشام کی معنعن روایت کی بنا پر ’’اشراق‘‘ کا اعتراض درست نہیں، بلکہ ان کی یہ لن ترانی تو اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا مصداق ہے کہ ’’باقی مقامات پر جو شیخین پر اعتماد یا توجہ اور تنبہ نہ ہونے کے باعث محدثین کے ہاں زیر بحث نہیں آ سکے، ا تصال ہی کو حتمی سمجھنا محض خوش اعتقادی اور تقلید پر مبنی ہے۔‘‘ ( اشراق ۳۱، ستمبر ۲۰۰۶)

گویا تقریباً گیارہ سو سال تک شیخین پر اعتماد کے نتیجہ میں تو یہ روایت محدثین کے زیر بحث نہیں آئی۔ یہ ’’شرف و فضل‘‘ ’’اشراق‘‘ سے وابستہ ’’محققین‘‘ کے حصہ میں آیا ہے اور اب یہ راز ان پر کھلا ہے کہ یہ روایت تو ہشام کی تدلیس کی بنا پر نا قابل اعتبار ہے۔ سبحان اللہ

سلف امت کی یوں تغلیط ’’اشراق‘‘ کے حلقۂ ارادت کا ’’طرۂ امتیاز‘‘ ہے۔ حتیٰ کہ اس حلقہ کے ماخذ شریعت بھی سلف امت کے برعکس ہے۔ صحابۂ کرام نے قرآن مجید سے جو مسئلہ سمجھا اور اس پر عمل کیا وہ بھی ان حضرات کے نزدیک درست نہیں۔ صحابۂ کرام نے قرآن پاک سے موسیقی اور آلات موسیقی کو حرام سمجھا، مگر ان حضرات کے نزدیک ’’قرآن مجید اس کے بارے میں خاموش ہے۔‘‘ (اشراق)

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم ’فہل انتم منتھون‘ کا فرمان سن کر پکار اٹھے ’انتھینا انتھینا‘ مگر ہمارے ’’دانش وروں‘‘ اور اہل اشراق کو قرآن میں یہ حرمت نظر نہیں آتی۔ چنانچہ اسی حلقہ کے ایک دانش ور جناب عبدالباسط صاحب شراب سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:

’’اپنے پچھلے جواب میں ہم نے (شراب کے لیے) نا پسندیدہ کا لفظ حرمت کے مقابلے میں اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ شراب پینا شرعی حرمتوں میں سے نہیں، بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ بنیادی یعنی فطری حرمتوں میں سے ہے... آپ (سائل) نے فرمایا کہ ہماری رائے نصوص شرعیہ کے خلاف ہے۔ اگر قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کر دیں جس میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو واضح لفظوں میں حرام قرار دیا ہے تو ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ہرگز کوئی تامل نہیں ہو گا۔‘‘(بحوالہ الشریعہ، فروری ۲۰۰۷، ۳۷)

اس نوعیت کے کتنے مسائل ہیں جن میں ان حضرات نے سلف امت سے جدا راستہ اختیار کیا۔ لہٰذا اگر صحیح بخاری و مسلم کی حدیث، جسے گیارہ سو سال سے امت نے صحیح تسلیم کیا اور اس سے استدلال کیا، پر یہ حضرات حرف گیری کرتے ہیں تو اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے؟

حالانکہ امام یعقوب بن شیبہ وغیرہ نے جو کچھ فرمایا ہے، آپ پڑھ آئے ہیں کہ امام مسلم نے وہی بات اپنے اسلوب میں کہہ کر ہشام کی معنعن روایتوں پر اعتراض کو رد کر دیا ہے، کیونکہ وہ اصطلاحی مدلس نہیں ہیں۔ پھر یہ بات بھی نہیں کہ اس کا اب انکشاف اہل اشراق پر ہوا ہے، بلکہ تاریخ و تراجم کی کتابوں میں حافظ بغدادی سے لے کر حافظ ابن حجر تک لکھتے چلے آئے ہیں، لیکن اس کے باوجود کسی نے بھی ہشام کی صحیحین میں روایات کو مورد طعن نہیں بنایا۔

اس لیے اہل اشراق کا یہ کہنا کہ یہ روایت ’’توجہ اور تنبہ نہ ہونے کے باعث محدثین کے ہاں زیر بحث نہیں آ سکی‘‘ اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے مترادف ہے۔ جب ہشام کا یہ اسلوب محدثین کے ہاں زیر بحث رہا ہے تو اس کے بعد اس پر عدم ’’توجہ و تنبہ‘‘ چہ معنی دارد؟

بلکہ ہم نے عرض کیا کہ اگر ہشام کے بارے میں اس کہانی کو تسلیم کیا جائے تو خود اسی میں وضاحت ہے کہ اس دور میں ہشام سے سماع کرنے والے ’’وکیع، ابن نمیر او رمحاضر‘‘ ہیں، لیکن بخاری اور مسلم کی اس روایت کو ہشام کے ان تلامذہ نے بیان ہی نہیں کیا۔ اس لیے اس پر نقد و اعتراض بے اصولی پر مبنی ہے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش۔

روایت میں راوی کا تصرف

دوسرا اشکال ارباب اشراق کا یہ تھا کہ روایت میں ’قالت و لیستا بمغنیتین‘ یعنی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ یہ دونوں پیشہ ور گانے والی نہیں تھیں، اس جملہ کے بارے میں اہل اشراق کا نقطۂ نظر یہ ہے: ’’یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول ہی نہیں، یہ بعد کے راویوں کا اپنا قیاس ہے جسے انھوں نے متن میں شامل کر دیا ہے۔‘‘ (اشراق ۳۰، مارچ ۲۰۰۶)

ان کی اس فکر کی کجی ہم بحمدللہ ’’الاعتصام‘‘ میں واضح کر چکے ہیں۔ اب تازہ ارشاد جو انھوں نے فرمایا، طول بیانی اور سخن سازی جس میں ہم ان کی مہارت کے معترف ہیں، سے قطع نظر، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’ذخیرۂ حدیث میں اس کی ان گنت مثالیں پائی جاتی ہیں کہ ایک راوی کوئی روایت بیان کرتا ہے اور اس کے متن میں کوئی ایسی بات بھی شامل کر دیتا ہے جس کو وہ بربنائے وہم اصل روایت کا حصہ سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس صورت میں وہ اگر کسی موقع پر اپنے شامل کردہ ٹکڑے کو ’قال‘ یا ’قالت‘ کہہ کر اوپر کے راوی کی طرف منسوب کر دیتا ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔‘‘ ( اشراق۳۲، ستمبر ۲۰۰۶)

ہمیں تسلیم ہے کہ ذخیرۂ حدیث میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ محدثین نے اس نوعیت کی روایات کو ’’مدرج‘‘ کی اصطلاح سے متعارف کروایا ہے۔ اور ادراج کے ثبوت کے لیے اصول و ضوابط مقرر کیے ہیں اور اس نوعیت کی روایات کو مستقل کتابوں میں جمع کر کے ایسی روایات کی نشان دہی کی ہے۔ افسوس ہے کہ ان ضوابط سے منحرف ہو کر بلا دلیل محض اپنی فکر کی ہم نوائی میں کسی جملہ کو مدرج قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ محترم جناب عمار خان صاحب ناصر جو اس بحث میں ’’اشراق‘‘ کے ممد و معاون بنے ہیں اور ماشاء اللہ ’’علمی نکات‘‘ سے اسے سہارا دے رہے ہیں۔ انھی کے جد محترم حضرت مولانا محمد سر فراز صفدر صاحب رقم طراز ہیں:

’’محدثین کرام کا ضابطہ ہے کہ جو جملہ حدیث کے ساتھ ہو تو وہ متصل ہی مانا جائے گا اور محض احتمال سے ادراج ثابت نہیں ہو سکتا۔ اور ادراج کے اثبات کے لیے محدثین نے جو قواعد بیان کیے ہیں، وہ یہ ہیں کہ مدرج حصہ کسی دوسری روایت میں الگ آیا ہو، یا راوی صراحت سے بیان کرے کہ یہ مدرج ہے، یا اطلاع پانے والے اماموں میں سے کوئی اس کی تصریح کرے یا اس قول کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا محال ہو۔‘‘(تسکین الصدور۱۸۰)

مولانا صفدر صاحب نے جو کچھ فرمایا، اصول حدیث کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ اس اصول کی روشنی میں کیا یہ حصہ کسی دوسری روایت میں الگ طور پر آیا ہے؟ قطعاً نہیں۔ کسی راوی یا محدث نے تصریح کی ہے کہ یہ فلاں راوی کی غلطی سے حدیث میں درج ہو گیا ہے؟ بالکل نہیں۔ بلکہ گیارہ سو سال سے تمام محدثین اور اہل علم اسے صحیح تسلیم کر کے اس سے استدلال کرتے رہے، مگر اب اہل اشراق پر یہ راز فاش ہوا ہے کہ یہ تو راوی کی غلطی سے حدیث میں درج ہو گیا ہے۔

اسی ضمن میں محترم عمار صاحب نے اپنی بات میں رنگ بھرتے ہوئے راقم کی ایک عبارت کو اپنی موافقت میں نقل کیا کہ ’’توضیح الکلام‘‘ میں ایک روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے(توضیح الکلام۱/ ۱۲۴) سے راقم نے لکھا ہے:

’’بعض اہل علم نے ان الفاظ کو صرف اس بنا پر صحیح باور کر لیا ہے کہ یہ صحیح بخاری میں ہیں۔ مگر یہ صحیح نہیں، جب کہ صحیح بخاری و مسلم میں شیخین ایسی حدیث کو بھی لے آتے ہیں جو مقصود کے اعتبار سے توصحیح ہوتی ہے (یعنی من حیث المجموع) اگر چہ کوئی ٹکڑا اس کا ان کے معیار صحت کے مطابق نہیں ہوتا، بلکہ اس میں بعض رواۃ کا وہم ہوتا ہے۔ صحیحین کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے والے حضرات کے لیے یہ بات نئی نہیں۔‘‘

اس عبارت سے ان کا مقصد یہ ہے کہ جب راقم نے صحیحین میں بعض راویوں کے وہم کو تسلیم کیا ہے تو زیر بحث روایت میں راوی کے وہم سے انکار کیوں ہے؟

مگر ہمیں افسوس ہے کہ محترم عمار صاحب نے ہمارے موقف کی صحیح ترجمانی نہیں کی، صحیح بخاری میں جس وہم کا راقم نے ذکر کیا، کیا وہ راقم کا بتلایا ہوا فہم ہے یا اس وہم کا اشارہ خود امام بخاری، امام بیہقی، علامہ ابن قیم اور علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہم نے کیا ہے؟ اس طرح صحیحین میں بعض راویوں کا وہم ذکر کرنا بھی ہیچ مد ان کی جسارت نہیں اس کی نشان دہی بھی محدثین سابقین رحمۃ اللہ علیہم نے کی ہے؟

سخن شناس نئی دلبرا خطا ایں جا است

اپنی بات، بلکہ اپنے فیصلے کو مستحکم کرنے کے لیے یہ بھی فرمایا گیا کہ

’’کسی حدیث کی صحت و ضعف کو طے کرنے کا معیار نقد روایت کے اصول ہیں یا ائمۂ فن کے اقوال؟ آخر ائمۂ فن کس بنیاد پر کسی روایت کی صحت و ضعف کا فیصلہ فرماتے ہیں؟ اگر ان کے فیصلوں کی بنیاد وحی و الہام کے بجائے دلائل و شواہد پر ہوتی ہے تو دلائل کی روشنی میں ان کی رائے سے اختلاف کیو ں نہیں کیا جا سکتا؟... علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
’’ابن الصباغ نے کہا ہے کہ اگر راوی اضافہ بیان کرے، جبکہ اس کے بغیر روایت کرنے والے راوی ایک ایسی جماعت ہوں جس کا وہم میں مبتلا ہو جانا بعید از قیاس ہو یا ان جیسے راویوں کا اس جیسی بات کو نقل کرنے سے غافل رہ جانا عادتاً ممکن نہ ہو تو زیادت ناقابل اعتبار قرار پائے گی۔ ابن السمعانی نے بھی یہی بات کہی ہے اور اس پر اتنا اضافہ کیا ہے کہ وہ بات ایسی ہو کہ اس کو نقل کرنے کے محرکات اور دواعی بھی کافی پائے جاتے ہوں۔‘‘
ہم نے اسی اصول پر ہشام کی روایت میں ابو اسامہ کے اضافہ کردہ جملے ’قالت و لیستا بمغنیتین‘ کو ابو اسامہ کا وہم قرار دیا ہے۔‘‘ (اشراق۳۴، ستمبر ۲۰۰۶)

بلاشبہ کسی روایت کو پرکھنے اورا س پر صحت و ضعف کا حکم لگانے کے اصول ہیں اور انھی اصولوں کی بنا پر محدثین رحمۃ اللہ علیہم نے کسی حدیث پر صحت و ضعف کا حکم لگایا ہے۔ اور یہ حکم لگانے والوں میں بعض وہ ہیں جن کا حزم و احتیاط اور ان کا تتبع سب کے ہاں مسلم ہے۔ پھر تنہا ان کے حکم پر ہی کیا موقوف، متاخرین نے بھی انھی اصولوں کے تحت ان روایات کا مزید جائزہ لیا اور ان کی موافقت کی۔ متقدمین کی نگاہوں میں ذخیرۂ احادیث تھا۔ ایک ایک روایت کی متعدد اسانید انھیں از بر تھیں اور یوں لاکھوں احادیث کے وہ حافظ تھے۔ جیسا کہ تاریخ و تراجم کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

اس کے برعکس چند مطبوعہ کتابوں کی ورق گردانی سے ان سابقین محدثین کے فیصلہ کے خلاف فیصلہ دینا خود سری ہے اور بقول شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ’’سبیل المومنین‘‘ سے انحراف ہے۔ علامہ انور شاہ صاحب کشمیری فرماتے ہیں:

ولیعلم أن تحسین المتاخرین وتصحیحہم لا یوازی تحسین المتقدمین فانہم کانوا اعرف بحال الرواۃ لقرب عہدھم بہم، فکانوا یحکمون ما یحکمون بہ بعد تثبت تام و معرفۃ جزئیۃ، أما المتاخرون فلیس عندہم من أمرہم غیر الأثر بعد العین، فلا یحکمون الا بعد مطالعۃ احوالہم فی الاوراق، وانت تعلم انہ کم من فرق بین المجرب والحکیم، وما یغنی السواد الذی فی البیاض عند المتاخرین عما عند المتقدمین من العلم علی أحوالہم کالعیان، فانہم ادرکوا الرواۃ بأنفسہم فاستغنوا عن التسأول والأخذ عن اخواہ الناس، فہؤلاء أعرف الناس فبہم العبرۃ.(فیض الباری۴ /۴۱۴)
’’یہ بات خوب جان لیں کہ متاخرین کی تحسین اور تصحیح متقدمین کی تحسین کے برابر نہیں، کیونکہ متقدمین قرب عہد کی بنا پر راویوں کے احوال زیادہ جانتے تھے، وہ جو بھی فیصلہ فرماتے پورے احتیاط اور اس کی جزئیات کو معلوم کرنے کے بعد فیصلہ فرماتے تھے۔ (متاخرین کی طرح) وہ اوراق میں لکھے ہوئے راویوں کے احوال دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ اور تمھیں معلوم ہے ایک تجربہ کار اور حکیم کے مابین کیا فرق ہے۔ متقدمین کے پاس راویوں کو براہ راست پرکھنے کا جو علم تھا اس کے مقابلے میں متاخرین کے نزدیک کتابوں میں لکھا ہوا علم فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ متقدمین کو براہ راست راویوں سے سابقہ پڑا ہے وہ کسی اور سے پوچھنے اور سوال کرنے سے مستغنی تھے۔ وہی راویوں کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے، لہٰذا انھی کی بات قابل اعتبار ہے۔‘‘

مگر ہم نے تو عرض کیا کہ روایت زیر بحث کو متقدمین کیا متاخرین، سوائے اہل اشراق کے، سب صحیح تسلیم کرتے رہے ہیں اور جس اصول کی بنا پر آج عمل جراحی شروع ہوا ہے وہ آخر ان کے پیش نظر بھی تھا یا نہیں؟

پھر جہاں تک اس اصول کا ذکر ہے جسے ’’تدریب الراوی‘‘ (۱/ ۲۴۶) کے حوالے سے علامہ ابن صباغ سے نقل کیا گیا ہے تو اس بارے میں بھی اہل اشراق نے بڑا گھپلا کیا ہے۔ اور اس کی محترم عمار صاحب سے قطعاً توقع نہ تھی۔ پہلے تو یہی دیکھیے کہ علامہ ابو نصر ابن الصباغ جن کا نام عبدالسید بن محمد بن عبدالواحد ہے، وہ ۴۷۷ھ میں فوت ہوئے۔ پانچویں صدی ہجری کے وہ معروف شافعی فقیہ ہیں۔ ابن السمعانی ان سے بھی متاخر ہیں۔ محترم عمار صاحب کو آخر پانچویں صدی ہجری میں بیان کیا ہوا اصول ہی کیوں نظر آیا؟ کیا اسی ’’تدریب الراوی‘‘ میں کوئی اور اصول بیان نہیں ہوا کہ انھوں نے اسی کو نقل کرنے کی زحمت فرمائی ہے۔

جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ اسی ’’تدریب الراوی‘‘ میں سب سے پہلے یہ بیان ہوا ہے کہ جمہور فقہاء اور محدثین مطلقاً ثقہ کی زیادت کو قبول کرتے ہیں، بلکہ ابن طاہر نے تو اس پر اتفاق کا دعویٰ کر دیا ہے۔ کاش محترم عمار صاحب نے اس حوالے سے اپنے دادا جان حضرت مولانا محمد سرفراز صفدر صاحب سے ہی دریافت کر لیا ہوتا کہ یہ مسئلہ کیا ہے۔ ان جیسے بحاث اور ناقد سے یہ توقع تو نہیں کہ وہ اپنے دادا جان کے فیصلے سے بے خبر ہوں گے۔ تاہم عرض ہے کہ انھوں نے دو اڑھائی صفحات میں متعدد حوالے نقل کر کے، جن میں ’’تدریب الراوی‘‘ کا بھی حوالہ ہے، فرمایا ہے: ’’محدثین کرام فقہائے عظام اور ارباب اصول کا یہ اتفاقی، اجماعی اور طے شدہ قاعدہ ہے کہ جب راوی ثقہ اور حافظ ہو اور وہ زیادت کرے تو مطلقاً اس کی روایت مقبول ہے۔‘‘( احسن الکلام۱/ ۱۹۶، ط: دوم)

ہماری طرح ممکن ہے جناب محترم عمار صاحب کو دادا جان کے اس دعویٰ ’’اتفاق و اجماع‘‘ سے اختلاف ہو، لیکن اس سے یہ بات تو ظاہر ہو گئی کہ علامہ ابن صباغ اور ابن السمعانی کے برعکس رائے رکھنے والے کون اور کتنے ہیں۔

مزید یہ کہ ’’تدریب الراوی‘‘ کی اس بحث میں علامہ سیوطی نے مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد بالآخر شیخ الاسلام حافظ ابن حجر سے نقل کیا ہے:

والمنقول عن ائمۃ الحدیث المتقدمین کابن مہدی ویحیی القطان و احمد وابن معین وابن المدینی والبخاری وابی زرعۃ وابی حاتم والنسائی والدار قطنی وغیرہم اعتبارالترجیح فیما یتعلق بالزیادۃ المنافیۃ بحیث یلزم من قبولہا رد الروایۃ الأخری.(تدریب الراوی۱/ ۲۴۶)
’’کہ متقدمین ائمۂ حدیث جیسا کہ امام عبدالرحمن بن مہدی، امام یحییٰ بن سعید قطان، امام احمد، امام یحییٰ بن معین، امام علی بن مدینی، امام بخاری، امام ابوزرعہ، امام ابو حاتم، امام نسائی، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ سے منقول ہے کہ جو زیادت (دوسری روایات کے) منافی ہے اس میں ترجیح کا اعتبار ہے، بایں طور کہ اس کے قبول کرنے سے دوسری روایت کی تردید لازم آتی ہو۔‘‘

یعنی اگر وہ زیادت دوسری روایات کے منافی ہے تو مقبول نہیں، اگر منافی نہیں تو وہ مقبول ہے۔ یہ ہے متقدمین محدثین رحمۃ اللہ علیہم کا فیصلہ، جماعت کے مقابلے میں ایک کی روایت میں خطا کا بلاشبہ احتمال ہے، مگر یہ تب ہے جب وہ احفظ اور ثبت نہ ہو اور اس کی زیادتی دوسری روایت کے منافی ہو۔ اسی اصول کے مطابق محدثین نے ابو اسامہ کی روایت کو قبول کیا اور اسے صحیح قرار دیا۔ انھوں نے کوئی بے اصولی نہیں کی، یہ بھی بایں طور کہ ابو اسامہ مطبوعہ کتابوں میں ہمیں تنہا نظر آتا ہے۔ احادیث تو محفوظ ہیں، مگر ان کے تمام طرق محفوظ نہیں۔ پھر ابو اسامہ حماد بن اسامہ تو وہ ہیں، جن کے بارے میں امام احمد فرماتے ہیں:

ابو اسامۃ ثقۃ ما کان رواہ عن ہشام.
’’ابو اسامہ ثقہ ہیں، اور ہشام سے باکثرت روایات بیان کرتے ہیں۔‘‘

انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ابو اسامہ سے بڑھ کر ہشام سے روایت کرنے اور اس سے بہتر روایات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ (شرح العلل لابن رجب۲/ ۶۸۰)

ہشام سے روایت کرنے میں ان کے اختصاص کا یہ عالم تھا کہ وہ ان سے چھ سو احادیث بیان کرتے تھے۔ ستر کے قریب وہ روایات ہیں جو بخاری اور مسلم میں ہیں۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ ہی فرماتے ہیں:

کان ثبتاً ما کان اثبتہ لا یکاد یخطئ.
’’ابو اسامہ ثبت تھے۔ وہ اس قدر ثبت تھے کہ خطا نہیں کرتے تھے۔‘‘

امام احمد ہی سے ان کے اور امام ابو عاصم الضحاک بن مخلد جیسے ثقہ و ثبت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:

’’ابو اسامہ تو ابو عاصم جیسے سو ہوں ان سے بھی ثبت ہیں۔ابو اسامہ ضابط تھے، صحیح الکتاب تھے۔‘‘

گویا امام ابو اسامہ احادیث لکھتے تھے۔ وہ خود بھی ثبت اور ان کی کتاب بھی صحیح تھی، وہ خود فرماتے ہیں: میں نے اپنی ان انگلیوں سے ایک لاکھ احادیث لکھی ہیں۔ ملاحظہ ہو: (التہذیب۳/ ۲،۳۔ السیر۹/ ۲۷۸۔ التذکرہ۱/ ۳۲۱) وغیرہ۔ لہٰذا جب وہ ثقہ اور اور ثبت، ہشام سے روایت کرنے میں پیش پیش اور صحیح الکتاب تھے۔ ان کی روایت میں یہ جملہ کسی بھی روایت کے معارض و مخالف نہیں۔ انھی وجوہ کی بنا پر محدثین کرام نے ان کی بیان کردہ اس روایت پر اعتماد کیا، لیکن چونکہ ارباب اشراق کے لیے یہ جملہ سوہان روح ہے، اسی لیے وہ اسے صحیح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں، بلکہ محدثین کے فیصلے کو اصول سے انحراف تصور کرتے ہیں، حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ محدثین نے اسے صحیح کہنے میں اپنے کسی اصول سے انحراف نہیں کیا۔ پانچویں صدی میں علامہ ابن الصباغ کے قول کو محدثین کا فیصلہ اور اصول قرار دینا بجائے خود درست نہیں۔

ایک اور گھپلا

یہی نہیں اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ محترم عمار صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے بیان کیے ہوئے اصول ہی کے تحت ام المومنین کی زیر بحث روایت میں ایک دوسرے راوی کے بیان کردہ اضافے پر ہماری تنقید سے راقم نے اتفاق کیا ہے۔ اسحاق بن راشد نے ابن شہاب زہری سے روایت میں دوسرے تلامذہ کے خلاف یہ اضافہ کیا ہے کہ ابوبکر نے دونوں لونڈیوں کو برا بھلا کہا اور ان کے دف پھاڑ دیے۔ اس حوالے سے راقم نے عرض کیا تھا کہ ’’اسحاق بن راشد گو ثقہ ہیں، تاہم امام زہری سے روایت کرنے میں ان کے کچھ اوہام ہیں۔ اور یہ روایت بھی اسحٰق بن راشد نے امام زہری سے ہی بیان کی ہے۔‘‘

اسی عبارت کو محترم عمار صاحب نے اپنی موافقت میں پیش کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا کسی ثقہ راوی کے ہاں کچھ اوہام کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ اس کی نقل کردہ روایات اور زیادات بالکل قابل اعتبار نہ رہیں؟ خود مولانا محترم (راقم) نے ہشام بن عروہ کے عراقی تلامذہ کی روایات میں بعض اوہام کے پائے جانے کا اعتراف کرنے کے باوجود ان کا دفاع کیا ہے... الخ۔‘‘ (اشراق ۳۵۔ ۳۶ ستمبر ۲۰۰۶)

یہاں پہلے تو یہ دیکھیے کہ اسحٰق بن راشد ثقہ و صدوق ہیں، مگر امام زہری کی روایات میں ان کے کچھ اوہام ہیں، حتیٰ کہ امام یحییٰ بن معین نے تو فرمایا ہے: ’لیس ہو فی الزہری بذاک‘۔

امام محمد بن یحییٰ الذہلی، جن کا امام زہری کی روایات میں اختصاص محدثین کے ہاں معروف ہے، فرماتے ہیں:

’ہو مضطرب الحدیث فی حدیث الزہری.‘

اسی طرح امام نسائی نے فرمایا ہے کہ اسحاق کی زہری سے روایات قوی نہیں، ’لیس بذاک القوی‘۔ (التہذیب ۱/ ۲۳۰، مقدمۂ فتح الباری ۳۸۹، تحفۃ الاشراف۱۲/ ۲۸)

امام زہری سے اسحاق کی روایات میں کلام کے باعث ہی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تنہا ’’اسحٰق عن الزہری‘‘ کی سند سے کوئی روایت نہیں لی۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ ابن حجر نے بھی لکھا ہے:

غالب ما أخرج لہ البخاری ما شارکہ فیہ غیرہ عن الزہری وہی مواضع یسیرۃ.(ہدی الساری ۳۸۹)
’’امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے زہری سے اس کی اکثر وہ روایات بیان کی ہیں جن میں دوسرے اس کے شریک ہیں اور وہ چندمقامات ہیں۔‘‘

اس سے امام بخاری کے تتبع اور احتیاط کی تائید ہوتی ہے۔ اسی بنا پر راقم نے عرض کیا تھا اسحاق کی روایت میں ’فسبہما وخرق دفیہما‘ کے الفاظ محل نظر ہیں، کیونکہ اسحاق بن راشد کے علاوہ امام زہری کے باقی تلامذہ میں سے کسی نے بھی یہ الفاظ یا اس نوعیت کی بات منقول نہیں جس میں دف پھاڑنے کا ذکر ہو۔ کسی ثقہ راوی کے ہاں کچھ اوہام پائے جانے سے بلاشبہ اس کی تمام روایات نا قابل اعتبار نہیں ہوتیں، لیکن ثقہ راوی جب ایسے راوی سے روایت کرے، جس سے روایت کرنے میں محدثین نے اس پر کلام کیا ہو اور وہ اس سے روایت کرنے میں یا کوئی زیادت ذکر کرنے میں منفرد ہو تو اس کا تفرد قابل قبول نہیں ہو گا۔

امام زہری سے اسحاق بن راشد کی روایت پر ہمارے اس کلام کے تناظر میں، ابو اسامہ حماد بن اسامہ کی ہشام سے زیر بحث روایت میں ابو اسامہ کے تفرد پر کلام کرنا قطعاً درست نہیں۔ اس لیے کہ ابو اسامہ گو کوفی راوی ہیں، مگر ہم بالدلیل واضح کر آئے ہیں کہ ہشام کے عراق جانے کے بعد اس کی تمام روایات میں وہم کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ انھی روایات میں کلام ہے جو انھوں نے دوسری یا تیسری بار جانے پر بیان کی تھیں، جبکہ امام مسلم، امام احمد، امام دارقطنی ان جیسی روایات کو طبیعت کے مختلف ہونے پر محمول کرتے ہیں۔ جب انبساط اور اطمینان کی صورت ہوتی تو ہشام اس کی پوری سند ذکر کرتے اور جب طبیعت غیر مطمئن ہوتی تو ارسال کرتے۔ اور یہ صرف ہشام ہی نہیں دوسرے ثقات بھی ایسا کرتے ہیں، جیسا کہ امام مسلم نے مثالیں دے کر اسے واضح کیا ہے۔

اس لیے ایسی چند روایات کی بنا پر نہ ان کی معنعن روایات پر اعتراض درست ہے اور نہ انھیں متغیر و مدلس ہی کہا جا سکتا ہے۔

ابو اسامہ کو ہشام کے ساتھ جو اختصاص حاصل تھا اور امام احمد نے اس حوالے سے جو کچھ فرمایا ہے، قارئین کرام اسے پڑھ آئے ہیں کہ ابو اسامہ سے بڑھ کر ہشام سے اچھی روایات بیان کرنے والا اور کوئی نہیں۔ ان کی ہشام سے بیان کی ہوئی حدیث ’’افک‘‘ کی امام احمد نے تحسین فرمائی اور فرمایا: ’جَوَّدَہٗ وَجَوَّدَہٗ‘ یعنی اسے اسامہ نے بہت خوب صورتی، بہت خوب صورتی سے بیان کیا۔ اسی طرح ہشام سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے ترکہ کی روایت کے بارے میں فرمایا کہ کس اچھے طریقہ اور مکمل طور پر ابو اسامہ نے اسے بیان کیا ہے۔(شرح العلل لابن رجب ۲/ ۶۸۰)

ہشام سے ابو اسامہ کی روایات کے بارے میں امام احمد کی ان وضاحتوں کے بعد کوئی عقل مند کہہ سکتا ہے کہ ابو اسامہ عراقی ہیں، ہشام کی عراق میں بیان کردہ روایات مخدوش ہیں اور ان میں وہم پایا جاتا ہے، لہٰذا ابو اسامہ کی یہ روایت بھی ان کے وہم کا نتیجہ ہے۔

مزید براں ہشام کی ایسی روایات کے بارے میں بیان کرنے والے یہ بھی بتلاتے ہیں کہ ہشام کے اس آخری دور میں ان سے روایت کرنے والے وکیع، ابن نمیر اور محاضر ہیں اور یہ روایت تو ہشام سے ابو اسامہ بیان کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے بھی ہشام کی اس روایت میں کلام سراسر بے اصولی پر مبنی ہے۔ لہٰذا جب ابو اسامہ کی ہشام سے روایات معتبر اور صحیح ہیں تو ابو اسامہ کے تفرد کو ’اسحاق بن راشد عن الزہری‘ میں اسحاق کے تفرد پر قیاس کرنا علم و فن کی کوئی خدمت نہیں، کیونکہ یہاں تو محدثین کرام نے سرے سے اس کی امام زہری سے روایات کو کمزور اور ان میں اس کا وہم بتلایا ہے۔ اس لیے زہری سے دوسرے ثقات کے مقابلہ میں اس کا تفرد قابل قبول کیوں کر ہو سکتا ہے۔ امام بخاری کا اسلوب بجائے خود اس کا موید ہے کہ انھوں نے ’اسحاق عن الزہری‘ کی وہی روایات لی ہیں جن میں اس کی متابعت پائی جاتی ہے اور وہ بھی چند ایک۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ شیخ صالح بن حامد الرفاعی حفظہ اللہ نے ایک مستقل کتاب ’الثقات الذین ضعفوا فی بعض شیوخہم‘ کے عنوان سے لکھی ہے جس میں انھوں نے ان راویوں کا ذکر کیا ہے جو ثقہ ہیں، مگر وہ اپنے بعض شیوخ سے روایت کرنے میں ضعیف قرار دیے گئے ہیں۔ اس میں انھوں نے اسحق بن راشد کا بھی ذکر کیا ہے اور خلاصۂ کلام جو ذکر کیا وہ یہ ہے:

ان اسحاق بن راشد ثقۃ وقد ثبت سماعہ من الزہری، لکن فی حدیثہ عن الزہری بعض الوہم کما قال ابن حجر، لذلک لا یقبل من حدیثہ عن الزہری الا ما وافقہ علیہ غیرہ.(الثقات ۲۰۰)
’’اسحاق بن راشد ثقہ ہیں اور ان کا زہری سے سماع ثابت ہے، لیکن اس کی زہری سے حدیث میں کچھ وہم ہے جیسا کہ ابن حجر نے کہا ہے، اس لیے زہری سے ان کی انھی روایات کو قبول کیا جائے گا جس میں دوسرے راوی نے اس کی موافقت کی ہو۔‘‘

مگر کیا ابو اسامہ حماد بن اسامہ کے بارے میں بھی کسی نے کہا ہے کہ اس کی ہشام سے روایات میں وہم پایا جاتا ہے، بلکہ اس کی ہشام سے روایات کو تو احسن واجود کہا گیا ہے، مگر افسوس ہے محترم عمار صاحب دونوں کو ایک ہی ترازو میں رکھ کر فرماتے ہیں کہ اسحاق کا تفرد قبول نہیں تو ابو اسامہ کا قبول کیوں ہے؟ فوا اسفا

ہماری ان گزارشات سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو گئی ہے کہ صحیح بخاری و مسلم میں ابو اسامہ عن ہشام کی یہ روایت صحیح اور بے غبار ہے۔ یہ حکم کسی خوش فہمی یا تقلید کی بنا پر نہیں، بلکہ دلائل و براہین پر مبنی ہے۔

گانے والیاں کون تھیں

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اسی حدیث میں ’وَعِنْدِیْ جَارِیْتَانِ‘ کے الفاظ ہیں کہ میرے پاس دو جاریہ تھیں۔ ’’جاریہ‘‘ کے یہاں معنی حافظ ابن تیمیہ، حافظ ابن جوزی، علامہ نووی، حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ کی رائے میں چھوٹی بچیاں ہیں۔ گویا گانے کا شغل دو بچیوں کا تھا۔ مگر اہل اشراق فرماتے ہیں کہ وہ لونڈیاں تھیں۔ اور اسی کی بے ہنگم تائید میں ہمارے مہربان جناب عمار ناصر صاحب بھی یہی فرماتے ہیں، ان کے ارشادات کا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا مفہوم لونڈیاں مراد لیا ہے۔ روایت میں ’لیستا بمغنیتین‘ کا جملہ بھی اس کا قرینہ ہے، کیونکہ اگر وہ چھوٹی بچیاں تھیں تو ان کے بارے میں یہ گمان پیدا ہونا ہی بعید ہے کہ گانا گانا ان کا پیشہ ہو گا، پیشے کے طور پر گانا گانے کا احتمال چھوٹی بچیوں کے بارے میں نہیں، بلکہ لونڈی ہی کے بارے میں پیدا ہو سکتا ہے۔ ’قینتان‘ کا لفظ بھی آیا ہے جو لونڈیوں کے مفہوم میں بالکل صریح ہے اور حافظ ابن حجر نے غالباً انھی قرائن کی بنا پر ’’جاریتان‘‘ کو لونڈیوں کے معنی میں لیا ہے۔ (اشراق ۳۶)

گزارش ہے کہ ’قینتان‘ کا لفظ لونڈیوں کے بارے میں کس حد تک ’’بالکل صریح‘‘ ہے۔ یہ بات پہلے مقالات میں ہم عرض کر چکے ہیں۔ بلکہ اس حوالے سے اس فقیر کا جو مذاق دانش مندان اشراق نے اڑایا، اس کا جائزہ بھی پیش کر چکے، جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ حافظ ابن حجر نے ان قرائن کی بنا پر قطعاً ’’جاریتان‘‘ کو لونڈیوں کے معنی میں نہیں لیا، بلکہ طبرانی وغیرہ کی ضعیف اور ناقابل اعتبار روایات کی بنا پر انھوں نے یہ مفہوم لیا ہے جس کی وضاحت بھی ہم پہلے کر آئے ہیں۔ اپنے چبائے ہوئے نوالوں کو حافظ ابن حجر کے منہ میں دینا کوئی دانش مندی نہیں۔ حافظ ابن حجر نے ’’جاریتان‘‘ کو لونڈیوں کے معنی میں لے کر بھی یہی فرمایا ہے کہ وہ پیشہ ور مغنیہ نہیں تھیں۔ اسی حدیث سے اہل اشراق کے پیش رو صوفیوں کی ایک جماعت نے بھی غنا کے جواز پر ستدلال کیا ہے جس کے جواب میں حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے:

ویکفی فی رد ذلک تصریح عائشۃ فی الحدیث الذی فی الباب بعدہ بقولہا ’ولیستا بمغنیتین‘ فنفت عنہما من طریق المعنی ما أثبتہ لہما باللفظ، لأن الغناء یطلق علی رفع الصوت وعلی الترنم الذی تسمیہ العرب النصب بفتح النون وسکون المہملۃ وعلی الحداء ولا یسمی فاعلہ مغنیاً۔ الخ (فتح الباری۲/ ۴۴۲)
 ’’صوفیوں کی تردید میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی تصریح، جو بعد کے باب میں ہے، سے ہوتی ہے، جس میں انھوں نے فرمایا ہے کہ وہ دونوں گانے والیاں نہ تھیں، حضرت عائشہ نے ان دونوں سے معنوی طور پر اس چیز کی نفی کر دی جس کا ثبوت ان کی طرف لفظ غنا سے ہوتا تھا، کیونکہ غنا کا اطلاق بلند آواز اور ترنم سے شعر پڑھنے پر ہوتا ہے جسے عرب نصب اور حدی خوانی کہتے ہیں ا ور یہ کام کرنے والوں کو وہ مغنی یعنی پیشہ ور گانا گانے والا، گوّیا نہیں کہتے تھے۔‘‘

بلکہ اس کے بعد انھوں نے علامہ قرطبی سے بھی نقل کیا ہے کہ ’لیستا بمغنیتین‘ کے معنی یہ ہیں کہ ’’وہ دونوں اس طرح گانا نہیں جانتی تھیں جس طرح معروف گانا گانے والے گاتے ہیں۔‘‘ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حافظ ابن حجر ’’جاریتان‘‘ کے معنی لونڈیاں کرنے کے باوجود انھیں پیشہ ور مغنیہ نہیں سمجھتے تھے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس بات کی نفی حافظ ابن حجر نے بالصراحت کی ہے، جناب محترم عمار صاحب اس کا انتساب محض اپنی فکر کی بنیاد پر حافظ ابن حجر کی طرف کر رہے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’پیشے کے طور پر گانا گانے کا احتمال چھوٹی بچیوں کے بارے میں نہیں، بلکہ لونڈیوں ہی کے بارے میں پیدا ہو سکتا ہے اور حافظ ابن حجر نے غالباً انھی قرائن کی بنا پر جاریتان کو لونڈیوں کے معنی میں لیا ہے۔‘‘ الخ

انصاف شرط ہے! کیا حافظ ابن حجر نے ’’جاریتان‘‘ کے معنی لونڈیاں کرنے کے باوجود انھیں پیشہ ور مغنیہ قرار دیا؟ قطعاً نہیں، تو پھر اس طول بیانی کا کیا فائدہ؟ پھر اگر تسلیم کیا جائے کہ وہ لونڈیاں تھیں تو اس کی کیا دلیل ہے کہ ان کا یہ عمل بلوغت کے بعد تھا؟ اور کیا لونڈیوں اور بچیوں کے مابین کوئی منافات ہے؟ لونڈیاں بچیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس میں استحالہ کیا ہے؟

محترم عمار صاحب نے اسی میں یہ بات بھی فرمائی ہے کہ حافظ ابن حجر نے ’’جاریتان‘‘ کی تعیین میں طبرانی وغیرہ سے جو روایات نقل کی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ لونڈیاں تھیں، راقم نے انھیں ضعیف قرار دیا ہے۔ مگر ’’توضیح الکلام‘‘(۲/۲۷۷) میں اپنے استاد محترم مولانا حافظ محمد گوندلوی کے ایک ضعیف روایت سے استدلال کا دفاع کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ صحیح حدیث کے محتملات کی تعیین کے لیے ضعیف روایت سے استدلال خلاف اصول نہیں، لیکن ابن حجر کی تین ضعیف روایتوں سے استدلال کو قبول نہ کرنے کے لیے یقینا ان کے پاس معقول وجوہ ہوں گے۔ اگر وہ ان پر روشنی ڈال سکیں تو ان کی توضیحات ہمارے لیے استفادہ کا ذریعہ ہوں گی۔ (اشراق ۳۶، ۳۷)

پیشہ ورانہ موسیقی کے جواز کا فتویٰ دینے والے حضرات کا یہ بھی ایک نا کام سہارا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ حضرت الاستاد محدث گوندلوی نے ضعیف حدیث سے استدلال کیا او رکسی ناقد کی، اس کے ضعیف ہونے کی نشان دہی پر راقم نے اس کا جواب دیا اور یہ بھی کہ کیا اس پر ان کا استدلال موقوف ہے؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ضعیف روایت سے ’احد المحتملات‘ کی تعیین ہو سکتی ہے۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ زیر بحث روایت میں ’’جاریتان‘‘ کے لفظ کی تعیین میں جو حافظ ابن حجر نے ضعیف روایات کے پیش نظر فرمایا کہ یہ لونڈیاں تھیں۔ کیا اس سے ان کے بچیاں ہونے کی نفی لازم آتی ہے؟ ’’جاریتان‘‘ میں اسی ابہام کی بنا پر ہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت فرما دی کہ وہ معروف مغنیہ نہیں بچیاں تھیں، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے فرمایا ہے۔ بالفرض اگر تسلیم کیا جائے کہ وہ لونڈیاں تھیں تو کیا اس سے یہ بات بھی لازم آتی ہے کہ وہ پیشے کے طور پر گانا گایا کرتی تھیں؟ عید اور شادی کے موقعے پر بعض گھرانوں میں آج بھی گانے کا رواج ہے اور وہ بھی چند لڑکیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یوں نہیں کہ قبیلہ اور برادری میں سب عورتیں یہ کام کرتی ہیں۔ اس کے باوجود نہ وہ پیشے کے طور پر یہ شغل اختیار کرتی ہیں اور نہ انھیں معروف مغنیہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ لڑکوں میں بھی نعت و غزل پڑھنے والے معروف ہوتے ہیں، مگر کوئی بھی نہ خود کو گویا سمجھتا ہے نہ پیشے کے طور پر وہ معروف ہی ہوتا ہے۔

اسی لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’جاریتان‘‘ سے لونڈیاں سمجھ کر بھی یہی سمجھا کہ وہ مغنیہ نہیں تھیں، جیسا کہ سیدہ عائشہ نے فرمایا ہے، مگر ہم نے عرض کیا کہ بنیادی طور پر ’’جاریتان‘‘ کے لونڈیاں ہونے اور ان کے بچیاں ہونے میں کوئی منافات نہیں۔ اور یوں یہ دونوں قول باہم متناقض بھی نہیں۔ دونوں صورتوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ پیشہ ور مغنیہ نہیں تھیں، مگر ارباب اشراق اس سے متفق نہیں۔ محض اس لیے کہ اس سے موسیقی کے جواز کی عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے اور اس کے جواز کے سارے حیلے تار عنکبوت کی طرح تار تار ہو جاتے ہیں۔

آپ پڑھ آئے ہیں کہ تمام محدثین اس حدیث کی بتمامہ صحت پر متفق ہیں اور اس پر بھی ان کا اتفاق ہے کہ ’’جاریتان‘‘ پیشہ ور مغنیہ نہیں تھیں۔ ارباب اشراق نے اپنی دانش مندی اور روشن ضمیری میں متفق علیہ مسائل سے انحراف کی جو راہ اختیار کی ہے اور ’’سبیل المومنین‘‘ سے گریز کر کے جو راستہ اپنایا ہے، یہ بہر نوع قابل مذمت ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ ایک خانوادۂ علم و عمل کا چشم و چراغ بھی اس فکر کا ہمنوا ہے اور گھسے پٹے دلائل سے اس کی آبیاری میں مصروف ہے۔

فوا اسفا

اللّٰہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B