HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ جناب جاوید احمد غامدی کے تلامذہ ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ یہاں ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔]


بارانی اور نہری زمین کی شرح زکوٰۃ میں فرق کی وجہ

سوال:بارانی زمین کی زکوٰۃ کی شرح دس فی صد اور نہری زمین کی پانچ فی صد کیوں ہے؟ جبکہ بارانی زمین پر فصل کم آتی ہے اور اگر کبھی بارش نہ ہو تو فصل آتی ہی نہیں اور نہری زمین پر سال میں تین تین فصلیں بھی آتی ہیں۔ نیز یہ بتائیے کہ حکومت کو جو مالیہ دینا پڑتا ہے کیا وہ زکوٰۃ میں سے منہا کیا جائے گا، یعنی کیا اتنی زکوٰۃ کم دینا ہو گی؟(اے کے فریدی )

جواب:بارانی زمین پر پانی وغیرہ کا کوئی خرچ نہیں ہوتا، چنانچہ اس پر زکوٰۃ کی شرح دس فی صد رکھی گئی ہے، کیونکہ اس کی فصل کم خرچ سے حاصل کی جاتی ہے۔ نہری زمین سے اگر فصلیں زیادہ حاصل ہوتی ہیں تو پانی وغیرہ کے اضافی اخراجات بھی بہت ہوتے ہیں، لہٰذا اس پر زکوٰۃ کی شرح پانچ فی صد رکھی گئی ہے۔ نہری زمین سے اگر تین فصلیں حاصل ہوتی ہیں تو زکوٰۃ ان تینوں فصلوں پر لگتی ہے۔

البتہ آج کل چونکہ بارانی اور نہری، دونوں نوعیت کی زمینوں کی زراعت پر باقاعدہ کئی قسموں کے اخراجات ہوتے ہیں، لہٰذا ہمارے نزدیک اب یہ یکساں نوعیت کی زمینیں شمار ہوں گی، چنانچہ اب زمین پر زکوٰۃ عشر نہیں نصف عشر ہی ہوگی۔

حکومت کو جو مالیہ وغیرہ دینا پڑتا ہے ، اتنی رقم زکوٰۃ میں سے منہا کر لی جائے گی۔

 

کیا تنخواہ پیداوار ہے؟

سوال:پیداوار کی زکوٰۃ ظاہر ہے کہ کسی پیداوار ہی پر لگتی ہے، جیسے کہ کھیت میں فصل پیداوار ہوتی ہے اور کارخانے میں کوئی مصنوعہ شے۔ لیکن تنخواہ جو محنت کا معاوضہ ہے، اسے پیداوار کیسے کہا جا سکتا ہے؟(اے کے فریدی)

جواب: معیشت کی دنیا میں محنت کرنے والے تنخواہ دار کو ’Services produce ‘کرنے والا قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جو سروسزاس کی پیداوار ہیں ان کے دس فی صد پر زکوٰۃ ہونی چاہیے۔

 

قابل زکوٰۃ تنخواہ

سوال:ماہانہ کتنی تنخواہ پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد ہو گی اور یہ زکوٰۃ بنیادی تنخواہ پر عائد ہو گی یا مجموعی تنخواہ پر ؟(اے کے فریدی)

جواب:زکوٰۃ مجموعی تنخواہ پر عائد ہو گی۔ رہا یہ معاملہ کہ کتنی تنخواہ ہو تو اس پر پیداوار کی زکوٰۃ کا اطلاق ہو گا تو اس سلسلے میں اصلاً حکومت ہی کو قانون سازی کرنا ہو گی، جب تک حکومت اس ضمن میں کوئی قانون سازی نہیں کرتی، ہمارے خیال میں اگر کسی کی آمدنی اس کی بنیادی ضروریات سے اتنی زیادہ ہے کہ وہ قرض لیے بغیر دس فی صد زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے تو اس پر یہ زکوٰۃ لگے گی۔

 

قدما میں تنخواہ پر زکوٰۃ کا تصور

سوال:کیا تنخواہ پر پیداوار کی زکوٰۃ کا تصور خلفاے راشدین کے دور میں پایا جاتاتھا اور کیا جمہور علما اس زکوٰۃ کے قائل ہیں؟(اے کے فریدی)

جواب:جمور علما تنخواہ پر اس زکوٰۃ کے قائل نہیں ہیں، کیونکہ انھوں نے ’Services produce‘کرنے کو پیداوار سے ملحق نہیں کیا، یعنی انھوں نے اس معاملے میں نئی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے تاحال کوئی اجتہاد نہیں کیا۔

خلفاے راشدین کے زمانے میں نہ تنخواہ دار طبقہ اتنی بڑی تعداد میں موجود تھا اور نہ اس وقت تنخواہوں کے حوالے سے ایسی قانون سازی کرنا کسی فقیہ کے لیے ممکن تھا۔

 

تنخواہ پر زکوٰۃ، ٹیکس اور مال پر زکوٰۃ

سوال:کیا ایک آدمی کو اپنے مال پر زکوٰۃ بھی دینا ہو گی اور حکومت کے ٹیکسز بھی دینا ہوں گے؟ نیز اگر تنخواہ پر پیداوار کی ماہانہ دس فی صد زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد سال کے آخر پر کچھ رقم جمع ہو جاتی ہے تو کیا اس پر مال کی زکوٰۃ بھی عائد ہو گی۔(اے کے فریدی)

جواب:ادا شدہ ٹیکس کی رقم زکوٰۃ میں سے منہا کر کے زکوٰۃ دی جائے گی۔ پیداوار کی زکوٰۃ الگ ہے اور مال کی زکوٰۃ الگ۔ اگر سال کے آخر پر جمع شدہ مال نصاب سے زیادہ ہو گا تو اس پر مال کی زکوٰۃ الگ سے عائد ہو گی۔

 

امیر اور غریب کے لیے یکساں شرح زکوٰۃ

سوال:شرح زکوٰۃ امیر اور غریب آدمی کے لیے یکساں کیوں ہے؟ غریب آدمی تو بہت مشکل سے اپنے گھر ہی کا خرچ چلاتا ہے، جب کہ دولت مند لوگوں کی آمدنی کروڑوں اور اربوں میں ہوتی ہے۔ چنانچہ حکومت جو ٹیکس لگاتی ہے اس کی شرح امیر اور غریب کے حوالے سے یکساں نہیں ہوتی، لیکن زکوٰۃ کی شرح کا معاملہ یہ نہیں ہے، کیوں؟(اے کے فریدی)

جواب:پہلی بات تو یہ ذہن میں رہے کہ زکوٰۃ کسی غریب آدمی سے ہرگز نہیں لی جاتی، بلکہ یہ اس کو دی جاتی ہے۔ اسلام کے نزدیک اصول یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب آدمی کو زکوٰۃ دینا ہوگی اور جو شخص بھی ان لوگوں کے دائرے میں آ جائے جن پر زکوٰۃ صرف کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ اپنی ضروریات کے لیے زکوٰۃ لے سکتا ہے۔ لہٰذا ایسا شخص جو صاحب نصاب ہے، لیکن اسے خود بھی زکوٰۃ کی ضرورت ہے تو ہمارے خیال میں وہ زکوٰۃ لے بھی سکتا ہے۔ جبکہ بعض فقہا کے نزدیک صاحب نصاب کے لیے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ زکوٰۃ اپنی حقیقت میں عبادت ہے، لہٰذا اسے ٹیکس کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ جو لوگ اس عبادت کے مکلف قرار پائیں گے یعنی صاحب نصاب ہوں گے ، ان کے لیے شرحوں کا فرق موزوں نہیں، بلکہ وہ یکساں ہی ہونی چاہیں۔ البتہ اگر ان کی آمدنی کروڑوں اور اربوں میں ہو گی تو زکوٰۃ بھی اسی حساب سے کروڑوں یا لاکھوں ہی میں ہو گی۔ لہٰذا، معاملہ عادلانہ ہی رہے گا۔ اور جو لوگ صاحب نصاب ہوتے ہوئے کسی وجہ سے زکوٰۃ کے مستحق ہو جائیں گے وہ زکوٰۃ دیتے ہوئے، زکوٰۃ لے بھی سکیں گے۔

 

پیداوار پر زکوٰۃ کی شرح کا اصول

سوال:مال اور پیداوار پر زکوٰۃ کی شرح کا اصول کیا ہے ؟ کرایوں سے ہونے والی آمدنی اور جائداد کے طور پر پڑی ہوئی زمین پر مال کی زکوٰۃ عائد ہو گی یا پیداوار کی،اس معاملے میں غامدی صاحب کا نقطۂ نظر کیا ہے؟(اے کے فریدی)

جواب: مال اگر حد نصاب سے زائد ہو تو اس پر ’کل مال کا ڈھائی فی صد‘ کے حساب سے زکوٰۃ عائد ہو گی۔ پیداوار اگر اصلاً محنت یا اصلاً سرمایے سے وجود میں آئے تو نصاب سے زیادہ پیداوار پر کل پیداوار کا ۱۰فی صد زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گا اور اگر محنت اورسرمایہ ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو پھر اس کا ۵ فی صد زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گا۔

بعض جدید ذرائع آمدن کے مال یا پیداوار سے الحاق کے بارے میں استاذ محترم غامدی صاحب کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ

’’جو کچھ صنعتیں اس زمانے میں وجود میں لاتیں اوراہل فن اپنے فن کے ذریعے سے پیدا کرتے اور جو کچھ کرایے، فیس اورمعاوضہ خدمات کی صورت میں حاصل ہوتا ہے ، وہ بھی اگر مناط حکم کی رعایت ملحوظ رہے تو پیداوار ہی ہے۔ اس وجہ سے اس کا الحاق اموال تجارت کے بجائے مزروعات سے ہونا چاہیے اوراس معاملے میں وہی ضابطہ اختیار کرنا چاہیے جوشریعت نے زمین کی پیداوار کے لیے متعین کیا ہے ۔
چنانچہ اس اصول کے مطابق کرایے کے مکان ، جائدادیں اوردوسری اشیا اگر کرایے پراٹھی ہوں تو مزروعات کی اوراگر نہ اٹھی ہوں توان پرمال کی زکوٰۃعائد کرنی چاہیے۔‘‘ (قانون معیشت۱۴۱)


پنشن پر زکوٰۃ

سوال:کیا پنشن پر بھی اسی طرح پیداوار کی زکوٰۃ عائد ہو گی جیسے تنخواہ پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے؟(اے کے فریدی)

جواب:پنشن پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد نہیں ہو گی، کیونکہ یہ رقم نہ اصلاً محنت سے حاصل ہوئی ہے،نہ اصلاً سرمایے سے اور نہ ان دونوں کے تعامل سے، بلکہ یہ سابقہ خدمات کے صلے میں دیا جانے والا ایک ’Benefit ‘ہے۔ البتہ اگر کسی کے ہاں سال گزرنے کے بعد یہی پنشن حد نصاب سے زیادہ سرمایے کی صورت اختیار کر جاتی ہے تو پھر اس پر ڈھائی فی صد کے حساب سے مال کی زکوٰۃ لگے گی۔

 

پیداوار کی زکوٰۃ زمین کی مقدار پر نہیں

سوال:کتنے ایکڑ زمین پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد ہو گی؟(اے کے فریدی)

جواب:پیداوار کی زکوٰۃ ایکڑوں کے حساب سے نہیں ہوا کرتی، بلکہ پیداوار کی مقدار اگر حد نصاب سے زیادہ ہو تو پھر اس پیداوار پر یہ زکوٰۃ لگتی ہے۔

_________________

B