(گذشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ، وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ، وَالْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ، وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓءِکَتِہٖ، وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ، وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا. (النساء۴: ۱۳۶)
’’ایمان والو، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے اور اُس کتاب پر بھی جو اُس نے پہلے نازل کی اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کے دن کے منکر ہوں گے، وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے۔‘‘
انسان کی ہدایت کے لیے جس طرح نبی بھیجے گئے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اپنی کتابیں بھی نازل کی ہیں۔ یہ کتابیں اس لیے نازل کی گئیں کہ خدا کی ہدایت لکھی ہوئی اور خود اس کے الفاظ میں لوگوں کے پاس موجود رہے تاکہ حق و باطل کے لیے یہ میزان قرار پائے، لوگ اس کے ذریعے سے اپنے اختلافات کا فیصلہ کر سکیں اور اس طرح دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ.(البقرہ۲: ۲۱۳)
’’اور اِن (نبیوں) کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔‘‘
وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ.(الحدید۵۷: ۲۵)
’’اور اِن (رسولوں) کے ساتھ ہم نے اپنی کتاب، یعنی (حق و باطل کے لیے) میزان نازل کی تاکہ (اِس کے ذریعے سے) لوگ (دین کے معاملے میں) ٹھیک انصاف پر قائم ہوں۔‘‘
اس وقت جو مجموعۂ صحائف بائیبل کے نام سے موجود ہے، اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتابیں کسی نہ کسی صورت میں تمام پیغمبروں کو دی گئیں۔ قرآن جس طرح تورات و انجیل کا ذکر کرتا ہے، اسی طرح صحف ابراہیم کا ذکر بھی کرتا ہے۔۷۹ اس کی تائید بقرہ و حدید کی ان آیتوں سے بھی ہوتی ہے جو اوپر نقل ہوئی ہیں۔ یہ سب کتابیں خدا کی کتابیں ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی تفریق کے قرآن بالاجمال ان پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان میں سے چار کتابیں، البتہ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں، تورات، زبور، انجیل اور قرآن۔ ان کا تعارف درج ذیل ہے:
یہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اسے بالعموم ان پانچ صحیفوں پر مشتمل سمجھا جاتا ہے جو بائیبل کی ابتدا میں درج ہیں اور جنھیں خمسۂ موسوی (Pentateuch) کہتے ہیں۔ یعنی پیدایش، خروج، احبار، گنتی اور تثنیہ۔ ان صحیفوں کا تدبر کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ پہلے چار صحیفوں میں یہ تاریخی بیانات کے ساتھ اپنے نزول کی ترتیب سے نقل ہوئی ہے اور تثنیہ میں اسے بالکل اسی طرح ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر دیا گیا ہے، جس طرح قرآن کو مرتب کیا گیا ہے۔ اپنی موجودہ صورت میں غالباً یہ پانچویں صدی قبل مسیح میں کسی وقت مرتب کی گئی۔ تاہم سیدنا مسیح علیہ السلام نے جس طرح اس کا ذکر کیا ہے، اس کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تصویب بھی اس کو کسی حد تک حاصل ہے۔ اس کا عبرانی متن جو اس وقت مخطوطات اور مطبوعات کی شکل میں موجود ہے، ماثوری متن (Massoretic Text) کہلاتا ہے۔ یہ بات عام طور پر مانی جاتی ہے کہ اس متن کے علاوہ قدیم زمانے میں اور بھی روایتیں تھیں اور ان میں بعض مقامات پر اہم اختلافات بھی تھے۔ سامری تورات اور بالخصوص یونانی سبعین (Septuagint) سے جو قدیم ترین روایت ہے، ان اختلافات کا ثبوت ملتا ہے۔
انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی جو ہدایت بنی آدم کو ملی ہے، اس کے دو حصے ہیں: ایک قانون، دوسرے حکمت۔ تورات میں زیادہ تر قانون بیان ہوا ہے اور اس کا نام بھی اسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ قرآن اسے ’ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ‘ ۸۰ (بنی اسرائیل کے لیے ہدایت) اور ’تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْءٍ‘ ۸۱ (ہر چیز کی تفصیل) کہتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس میں اللہ کا حکم ہے،۸۲ ہدایت اور روشنی ہے،۸۳ لوگوں کے لیے رحمت ہے۔۸۴ اس میں شبہ نہیں کہ وہ اس میں یہود کی تحریفات کا ذکر کرتا ہے،۸۵ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی جو روایت (version) زمانۂ رسالت کے یہود و نصاریٰ کے پاس تھی، قرآن فی الجملہ اس کی تصدیق کرتا ہے۔
یہ اس کتاب کا نام ہے جو داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ اپنے مضمون کے لحاظ سے یہ نغمات الٰہی کا مجموعہ ہے جنھیں مزامیر کہا جاتا ہے۔ بائیبل کے مجموعۂ صحائف میں زبور کے نام سے جو کتاب اس وقت شامل ہے، اس میں ۵ دیوان اور ۱۵۰ مزامیر ہیں۔ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی اگرچہ اس میں خلط ملط ہو گئے ہیں، مگر جن مزامیر پر صراحت کی گئی ہے کہ داؤد علیہ السلام کے ہیں، ان میں الہامی کلام کی شان ہر صاحب ذوق محسوس کر سکتا ہے۔ انجیل کی طرح یہ بھی ایک صحیفۂ حکمت ہے اور خدا کی نازل کردہ ایک کتاب کی حیثیت سے قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے۔
یہ مسیح علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ان کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد آخری نبوت کی بشارت تھی۔ انجیل کے معنی بشارت کے ہیں اور یہ نام اسی رعایت سے رکھا گیا ہے۔ الہامی کتابوں کے عام طریقے کے مطابق یہ بھی دعوت و انذار کی ضرورتوں کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی۔ اس سے پہلے کہ اسے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کر کے محفوظ کیا جاتا، سیدنا مسیح علیہ السلام کو ان کی قوم کی سرکشی کے باعث دنیا سے اٹھا لیا گیا۔ لہٰذا یہ کوئی مرتب کتاب نہیں، بلکہ منتشر خطبات تھے جو زبانی روایتوں اور تحریری یاد داشتوں کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچے۔ مسیح علیہ السلام کی سیرت پر ایک مدت کے بعد بعض لوگوں نے رسائل لکھنا شروع کیے تو ان میں یہ خطبات حسب موقع درج کر دیے گئے۔ یہی رسائل ہیں جنھیں اب انجیل کہا جاتا ہے۔ مسیحیت کے ابتدائی زمانے میں یہ اناجیل بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ۳۸۲ء میں پوپ دماسس (Damasus) کے ماتحت ایک مجلس میں کلیسا کے مذہبی پیشواؤں نے ان میں سے چار منتخب کر کے باقی ترک کر دیں اور انھیں غیر موثق (Apocryphal) قرار دے دیا۔ بائیبل کے مجموعۂ صحائف میں یہ متی، مرقس، لوقا اور یوحنا کی اناجیل کے نام سے شامل ہیں۔ یہ ابتدا ہی سے یونانی زبان میں لکھی گئی تھیں، جبکہ مسیح علیہ السلام کی زبان آرامی (Aramaic) تھی اور انھوں نے اپنے مواعظ اسی زبان میں ارشاد فرمائے تھے۔ ان کے لکھنے والے بھی مسیح علیہ السلام کے بعد ان کے مذہب میں داخل ہوئے، لہٰذا ان میں سے کوئی انجیل بھی ۷۰ء سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے، اور انجیل یوحنا تو مسیح علیہ السلام کے ایک صدی بعد غالباً ایشیاے کوچک کے شہر افسس میں کسی وقت لکھی گئی ہے۔ اس کے باوجود سیدنا مسیح کے جو خطبات، ارشادات اور تمثیلیں ان میں درج ہیں، ان کی الہامی شان ایسی نمایاں ہے کہ الہامی لٹریچر کے اسالیب سے واقف کوئی شخص ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن جس انجیل پر ایمان لانے کامطالبہ کرتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ سیرت کی ان کتابوں میں محفوظ ہے۔
یہ خدا کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ میزان اور فرقان ہے۸۶ اور پہلی کتابوں کے لیے اس کی حیثیت ایک ’مہیمن‘ کی ہے۔ یہ ’ھیمن فلان علی کذا‘ سے بنا ہوا اسم صفت ہے جو محافظ اور نگران کے معنی میں آتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ کتاب الہٰی کا اصل قابل اعتماد نسخہ قرآن ہی ہے، لہٰذا دین کے معاملے میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اب اسی کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ، مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْْنَ یَدَیْْہِ مِنَ الْکِتٰبِ، وَمُہَیْْمِناً عَلَیْْہِ، فَاحْکُمْ بَیْْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ، وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ. (المائدہ ۵: ۴۸)
’’اور (اے پیغمبر)، ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف حق کے ساتھ اتاری ہے، اس کتاب کی تصدیق میں جو اس سے پہلے موجود ہے اور اس کے لیے مہیمن بنا کر، اِس لیے تم ان کے درمیان اُس ہدایت کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کی ہے اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمھارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘
اس کی ۱۱۴ سورتیں ہیں جن میں سے زیادہ تر اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مراحل دعوت کی ترتیب سے انھیں سات ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کی زبان عربی ہے اور اسے جبریل امین نے اللہ کے حکم سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل کیا ہے۔ آپ نے اسے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا اور اس سے آگے یہ مسلمانوں کے اجماع اور قولی و تحریری تواتر سے منتقل ہوا ہے۔ چنانچہ دنیا کے الہامی لٹریچر میں اب تنہا یہی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ جس طرح دی گئی، بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے بالکل اسی طرح، اسی زبان میں اور اسی ترتیب کے ساتھ اس وقت ہمارے پاس موجود ہے۔ اس کا یہ تواتر خود ایک معجزہ ہے، اس لیے کہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کو اس وقت بھی ہزاروں مسلمان الحمد سے والناس تک محض حافظے کی مدد سے زبانی سنا سکتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے چودہ سو سال میں اس کی روایت کا یہ سلسلہ ایک دن کے لیے بھی منقطع نہیں ہوا۔ اس سے صاف واضح ہے کہ اس کی حفاظت کا یہ اہتمام خود پروردگار عالم کی طرف سے ہوا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ.(الحجر۱۵: ۹)
’’یہ یاد دہانی ہم نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
یہی حقیقت ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان ہوئی ہے:
وَاِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ.ّ لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْْنِ یَدَیْْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ.(حٰم السجدہ۴۱: ۴۱۔۴۲)
’’اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے۔ اس میں باطل نہ آگے سے داخل ہو سکتا ہے نہ اس کے پیچھے سے ۔ یہ ایک صاحب حکمت اور ستودہ صفات ہستی کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ اتاری گئی ہے۔‘‘
قرآن کی حفاظت کے جن پہلووں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہیں:
’’ایک یہ کہ قرآن کے زمانۂ نزول میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کا خاص اہتمام فرمایا کہ قرآن کی وحی میں شیاطین کوئی مداخلت نہ کر سکیں۔ یوں تو اس نظام کائنات میں یہ مستقل اہتمام ہے کہ شیاطین ملأ اعلیٰ کی باتیں نہ سن سکیں، لیکن ... نزول قرآن کے زمانے میں یہ اہتمام خاص طور پر تھا کہ شیاطین وحی الہٰی میں کوئی مداخلت نہ کر پائیں تاکہ ان کو قرآن میں اس کے آگے سے (مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ) کچھ گھسانے کا موقع نہ مل سکے۔
دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے اپنے جس فرشتے کو منتخب کیا، اس کی صفت قرآن میں ’ذِی قُوّۃٍ‘، مطاع، قوی، امین اور ’عِنْدَ ذِی العَرْشِ مَکِیْن‘ وارد ہوئی ہے۔ یعنی وہ فرشتہ ایسا زور آور ہے کہ ارواح خبیثہ اس کو مغلوب نہیں کر سکتیں، وہ تما م فرشتوں کا سردار ہے، وہ کوئی چیز بھول نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امانت اس کے حوالے کی جاتی ہے ، وہ اس کو بالکل ٹھیک ٹھیک ادا کرتا ہے۔ مجال نہیں ہے کہ اس میں زیر زبر کا بھی فرق واقع ہو سکے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقرب ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے برتر ہے ظاہر ہے کہ یہ اہتمام بھی اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ قرآن میں اس کے منبع کی طرف سے کسی باطل کے گھسنے کا امکان باقی نہ رہے۔
تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امانت کو اٹھانے کے لیے جس بشر کو منتخب فرمایا، اول تو وہ ہر پہلو سے خود خیر الخلائق تھا، ثانیاً قرآن کو یاد رکھنے اور اس کی حفاظت و ترتیب کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے تنہا اس کے اوپر نہیں ڈالی، بلکہ یہ ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ چنانچہ سورۂ قیامہ میں فرمایا ہے: ’لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ، فَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ‘ ۸۷ (اور تم اس قرآن کو حاصل کرنے کے لیے اپنی زبان کو تیز نہ چلاؤ، ہمارے اوپر ہے اس کے جمع کرنے اور اس کے سنانے کی ذمہ داری۔ تو جب ہم اس کو سنا چکیں تو اس سنانے کی پیروی کرو، پھر ہمارے ذمہ ہے اس کی وضاحت)۔ روایات سے ثابت ہے کہ جتنا قرآن نازل ہو چکا ہوتا، اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مقرب صحابہ یاد بھی رکھتے اور ہر رمضان میں حضرت جبریل کے ساتھ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مذاکرہ بھی فرماتے رہتے تاکہ کسی سہو و نسیان کا اندیشہ نہ رہے اور یہ مذاکرہ اس ترتیب کے مطابق ہوتا جس ترتیب پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کو مرتب کرنا پسند فرمایا۔ یہ بھی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارک کے آخری رمضان میں یہ مذاکرہ دو مرتبہ فرمایا۔ پھر اسی ترتیب اور اسی قرأت کے مطابق پورا قرآن ضبط تحریر میں لایا گیا اور بعد میں خلفاے راشدین نے اسی کی نقلیں مملکت کے دوسرے شہروں میں بھجوائیں۔ یہ اہتمام پچھلے صحیفوں میں سے کسی کو بھی حاصل نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ تورات کے متعلق تو یہ علم بھی کسی کو نہیں ہے کہ اس کے مختلف صحیفے کس زمانے میں اور کن لوگوں کے ہاتھوں مرتب ہوئے۔
چوتھا یہ کہ قرآن اپنی فصاحت الفاظ اور بلاغت معنی کے اعتبار سے معجزہ ہے جس کے سبب سے کسی غیر کا کلام اس کے ساتھ پیوند نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا کلام بھی، باوجودیکہ آپ اس قرآن کے لانے والے اور افصح العرب والعجم ہیں، اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کسی غیر کا کلام اس کے ساتھ مخلوط ہو سکے۔ چنانچہ جن مدعیوں نے قرآن کا جواب پیش کرنے کی جسارت کی، ان کی مز خرفات کے نمونے ادب اور تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ آپ ان کو قرآن کے مقابل میں رکھ کر موازنہ کر لیجیے، دونوں میں گہر اور پشیز کا فرق نظر آئے گا اس طرح گویا پیچھے سے بھی (وَمِنْ خَلْفِہٖ) قرآن میں دراندازی کی راہ مسدود کر دی گئی ۔
پانچواں یہ کہ قرآن کی حفاظت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی زبان کی حفاظت کا بھی قیامت تک کے لیے وعدہ فرما لیا۔ دوسرے آسمانی صحیفوں میں تو ان کی اصل زبانیں مٹ جانے کے سبب سے بے شمار تحریفیں ترجموں کی راہ سے داخل ہو گئیں جن کا سراغ اب ناممکن ہے، لیکن قرآن کی اصل زبان محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔ اس وجہ سے ترجموں اور تفسیروں کی راہ سے اس میں کسی باطل کے گھسنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اس میں کسی باطل کو گھسانے کی کوشش کی جائے گی تو اہل علم اصل پر پرکھ کر اس کو چھانٹ کر الگ کر سکتے ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۷/ ۱۱۳)
————
۷۹ الاعلیٰ۸۷: ۱۹۔
۸۰ بنی اسرائیل۱۷: ۲۔
۸۱ الانعام۶: ۱۵۴۔
۸۲ المائدہ۵: ۴۳۔
۸۳ المائدہ۵: ۴۴۔
۸۴ الاعراف۷: ۱۵۴۔
۸۵ المائدہ۵: ۱۳۔
۸۶ الشوریٰ۴۲: ۱۷۔ الفرقان۲۵: ۱۔
۸۷ القیامہ۷۵: ۱۶۔۱۹۔
————————————