بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ، بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ، وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ، فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰاتٌ، حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ، بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَالّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَہُنَّ، فَعِظُوْہُنَّ، وَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوْہُنَّ، فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَیْْہِنَّ سَبِیْلاً، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا{۳۴}
وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْْنِہِمَا، فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ، وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا، اِنْ یُرِیْدَآ اِصْلاَحًا، یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْْنَہُمَا، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا{۳۵}
(میاں اور بیوی کے تعلق میں بھی اسی اصول کے مطابق) مرد عورتوں کے سربراہ بنائے گئے ہیں۔ اِس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت بخشی ہے اور اِس لیے کہ اُنھوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔ ۸۲ پھر جو نیک عورتیں ہیں، وہ (اپنے شوہروں کی) فرماں بردار ہوتی ہیں، رازوں کی حفاظت کرتی ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے بھی رازوں کی حفاظت کی ہے۔ ۸۳ اور (اسی اصول پر تم کو حق دیا گیا ہے کہ) جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو، ۸۴ اُنھیں نصیحت کرو اور اُن کے بستروں پر اُنھیں تنہا چھوڑ دو اور (اِس پر بھی نہ مانیں تو) اُنھیں سزا دو۔ پھر اگر وہ اطاعت کا رویہ اختیار کریں تو اُن پر الزام کی راہ نہ ڈھونڈو۔ بے شک، اللہ بہت بلند ہے، وہ بہت بڑا ہے۔ ۸۵ ۳۴
اور اگر (اِس کے بعد بھی صورت حال بہتر نہ ہو اور) تم میاں اور بیوی کے درمیان افتراق کا اندیشہ محسوس کرو تو ایک حکم مرد کے لوگوں میں سے اور ایک عورت کے لوگوں میں سے مقرر کر دو۸۶۔ (اِس سے توقع ہے کہ) اگر (میاں اور بیوی)، دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ بے شک، اللہ علیم و خبیر ہے۔ ۸۷ ۳۵
۸۲؎ یہ خاندان کی تنظیم کے لیے اللہ نے اپنا قانون بیان فرمایا ہے۔ خاندان کا ادارہ بھی، اگر غور کیجیے تو ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ جس طرح ہر ریاست اپنے قیام و بقا کے لیے ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے، اسی طرح یہ ریاست بھی ایک سربراہ کا تقاضا کرتی ہے۔ سربراہی کا مقام اس ریاست میں مرد کو بھی دیا جا سکتا ہے اور عورت کو بھی۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ مرد کو دیا گیا ہے۔ آیت میں اس کے لیے ’قوا مون علی النسائ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ عربی زبان میں ’قام‘ کے بعد ’علٰی‘ آتا ہے تو اس میں حفاظت، نگرانی، تولیت اور کفالت کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے۔ سربراہی کی حقیقت یہی ہے اور اس میں یہ سب چیزیں لازم و ملزوم ہیں۔ اپنے اس فیصلے کے حق میں قرآن نے دو دلیلیں دی ہیں۔ استاذ امام ان کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے۔ مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے جن کی بنا پر وہی سزا وار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے۔ مثلاً محافظت و مدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پاؤں مارنے کی جو استعداد و ہمت اس کے اندر ہے، وہ عورت کے اندر نہیں ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے، بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں، لیکن ان کو قوامیت سے تعلق نہیں ہے۔ مثلاً عورت گھر در سنبھالنے اور بچوں کی پرورش و نگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے، وہ مرد نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے قرآن نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد اور عورت، دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے۔ لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے۔
دوسری یہ کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے۔ یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام اپنے سر اٹھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعاً نہیں اٹھائی ہے، بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے۔ وہی اس کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اس کاحق ادا کر سکتا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۹۱)
۸۳؎ میاں اور بیوی کے تعلق میں شوہر کو قوام قرار دینے کے بعد خاندان کے نظم کو صلاح و فلاح کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے یہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے دو چیزوں کا تقاضا کیا ہے:
ایک یہ کہ انھیں اپنے شوہروں کے ساتھ موافقت اور فرماں برداری کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
دوسری یہ کہ شوہر کے رازوں اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنی چاہیے۔
پہلی بات تو محتاج وضاحت نہیں، اس لیے کہ نظم خواہ ریاست کا ہو یا کسی ادارے کا، اطاعت اور موافقت کے بغیر ایک دن کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ نظم کی فطرت ہے۔ اسے نہ مانا جائے تو وہ نظم نہیں، بلکہ اختلال و انتشار ہو گا جس کے ساتھ کوئی ادارہ بھی وجود میں نہیں آتا۔
رہی دوسری بات تو اس کے لیے قرآن نے ’حٰفظٰت للغیب‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ عام طور پر اس کے معنی پیٹھ پیچھے کی حفاظت کے لیے جاتے ہیں۔ ہم نے اسے رازوں کی حفاظت کرنے والی کے معنی میں لیا ہے۔ اس کا یہی مفہوم ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کی وضاحت میں لکھا ہے:
’’۔۔۔ یہ معنی لینے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ’غیب‘ کا لفظ راز کے مفہوم کے لیے مشہور ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ترکیب کلام ایسی ہے کہ ’’پیٹھ پیچھے‘‘ کے معنی لینے کی گنجایش نہیں، تیسری یہ کہ عورت اور مرد کے درمیان رازوں کی امانت داری کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا مسئلہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے قدرتی امین ہیں۔ بالخصوص عورت کا مرتبہ تو یہ ہے کہ وہ مرد کے محاسن و معائب، اس کے گھر در، اس کے اموال و املاک اور اس کی عزت و ناموس ہر چیز کی ایسی رازدان ہے کہ اگر وہ اس کا پردہ چاک کرنے پہ آ جائے تو مرد بالکل ہی ننگا ہو کر رہ جائے۔ اس وجہ سے قرآن نے اس صفت کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ اس کے ساتھ ’بما حفظ اللّٰہ ‘کا جو اضافہ ہے، اس سے اس صفت کی عالی نسبی کا اظہار مقصود ہے کہ ان کی اس صفت پر خداکی صفت کا ایک پر تو ہے، اس لیے کہ خدا نے بھی اپنے بندوں اور بندیوں کے رازوں کی حفاظت فرمائی ہے، ورنہ وہ لوگوں کا پردہ چاک کرنے پر آ جاتا تو کون ہے جو کہیں منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۲۹۲)
قرآن نے فرمایا ہے کہ صالح بیویوں کا رویہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات آپ سے آپ نکلی کہ جو عورتیں سرکشی اور تمرد اختیار کریں یا گھر کے راز دوسروں پر افشا کرتی پھریں، وہ خدا کی نگاہ میں ہرگز صالحات نہیں ہیں۔
۸۴؎ اصل میں ’نشوز‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کے معنی سر اٹھانے کے ہیں، مگر اس کا زیادہ استعمال اس سرکشی اور شوریدہ سری کے لیے ہوتا ہے جو کسی عورت سے اس کے شوہر کے مقابل میں ظاہر ہو۔ یہ لفظ عورت کی ہر کوتاہی، غفلت یا بے پروائی یا اپنے ذوق او ررائے اور اپنی شخصیت کے اظہار کی فطری خواہش کے لیے نہیں بولا جاتا، بلکہ اس رویے کے لیے بولا جاتا ہے، جب وہ شوہر کی قوامیت کو چیلنج کر کے گھر کے نظام کو بالکل تلپٹ کر دینے پر آمادہ نظر آتی ہے۔
۸۵؎ یہ اس سوال کا جواب ہے کہ کوئی عورت اگر موافقت کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے سرکشی پر اتر آئے اور شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے اس کو شوہر ماننے سے انکار کر دے تو اس کی اصلاح کے لیے شوہر کیا اس کی تادیب کر سکتا ہے؟ فرمایا ہے کہ معاملہ یہاں تک پہنچ رہا ہو تو مرد تین صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔
پہلی یہ کہ عورت کو نصیحت کی جائے۔ آیت میں اس کے لیے ’وعظ‘ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی حد تک زجر و توبیخ بھی ہو سکتی ہے۔
دوسری یہ کہ اس سے بے تکلفانہ قسم کا خلا ملا ترک کر دیا جائے تاکہ اسے اندازہ ہو کہ اس نے اپنا رویہ نہ بدلا تو اس کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔
تیسری یہ کہ عورت کو جسمانی سزا دی جائے۔ یہ سزا، ظاہر ہے کہ اتنی ہی ہو سکتی ہے جتنی کوئی معلم اپنے زیر تربیت شاگردوں کو یا کوئی باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حد ’غیر مبرح‘* کے الفاظ سے متعین فرمائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایسی سزا نہ دی جائے جو کوئی پائدار اثر چھوڑے۔
آیت کے انداز بیان سے واضح ہے کہ ان تینوں میں ترتیب و تدریج ملحوظ ہے۔ یعنی پہلی کے بعد دوسری او ر دوسری کے بعد تیسری صورت اسی وقت اختیار کرنی چاہیے، جب آدمی مطمئن ہو جائے کہ بات نہیں بنی اور اگلا قدم اٹھانے کے سوا چارہ نہیں رہا۔ مرد کے تادیبی اختیارات کی یہ آخری حد ہے۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر اس سے اصلاح ہو جائے تو عورت کے خلاف انتقام کی راہیں نہیں ڈھونڈنی چاہییں۔ چنانچہ ’ان اللّٰہ کان علیاً کبیرًا‘ کے الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ سب سے بلند اور سب سے بڑا خدا ہے۔ وہ جب آسمان و زمین کا مالک ہو کر بندوں کی سرکشی سے درگزر فرماتا ہے اور توبہ و اصلاح کے بعد نافرمانیوں کو معاف کر دیتا ہے تو اس کے بندوں کو بھی دوسروں پر اختیار پا کر اپنے حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
۸۶؎ یعنی مرد وہ سارے جتن، جو اوپر بیان ہوئے ہیں، کرنے کے بعد بھی عورت کے نشوز پر قابو نہیں پا سکا تواس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اب اس رشتے کو قائم رکھنا آسان نہیں رہا۔ لیکن اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتاکہ وہ بیوی کو طلاق دے کر جان چھڑا لے۔ چنانچہ اصلاح احوال کے لیے یہ ایک دوسری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت فرمائی ہے اور میاں بیوی کے قبیلہ، برادری اور ان کے رشتہ داروں اور خیر خواہوںسے کہا ہے کہ وہ آ گے بڑھیں اور اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر معاملات کو سدھارنے کی کوشش کریں۔
۸۷؎ یہ نہایت بلیغ اسلوب میں میاں بیوی کو ترغیب دی ہے کہ انھیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ وہ اگر افتراق کے بجائے ساز گاری چاہیں گے تو ان کا پروردگار بڑا کریم ہے۔ اس کی توفیق ان کے شامل حال ہو جائے گی۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
* ابو داؤد، رقم۱۹۰۵۔