رو۱ی أنہ قیل لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یا رسول اللّٰہ، من أکرم الناس؟ قال أکرمہم۲ عند اللّٰہ۳ أتقاہم للّٰہ. ۴ فقالوا: لیس عن ہذا نسألک. فقال: فأکرم الناس۵ یوسف نبی اللّٰہ بن نبی اللّٰہ بن نبی اللّٰہ بن خلیل اللّٰہ. قالوا: لیس ہذا نسألک. قال فعن معادن العرب تسألون.۶ الناس معادن فی الخیر والشر، کمعادن الفضۃ والذہب،۷ خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام۸ إذا فقہوا فی الدین.۹
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا: اے اللہ کے رسول، لوگوں میں سے سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والاہے۔۱ لوگوں نے کہا:ہم اس بارے میں نہیں پوچھ رہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: تو لوگوں میں سے سب سے زیادہ عزت والے یوسف علیہ السلام ہیں جو خود بھی اللہ کے نبی تھے اور اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے اور اللہ کے دوست کے پڑپوتے تھے۔۲ لوگوں نے کہاکہ ہم اس بارے میں بھی نہیں پوچھ رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھاتوتم عرب کی کانوں کے بارے میں پوچھ رہے ہو۔ لوگ اچھائی اور برائی کے معاملے میں سونے اور چاندی کی کانوں کی طرح ہیں۔ان میں سے جو دور جاہلیت میں بہترین تھے، وہ دور اسلام میں بھی بہترین ہوں گے، اگر وہ اپنے اندر دین کی سمجھ بوجھ پیداکرلیں۔۳
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ معزز کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھے کہ اس بارے میں پوچھا جارہاہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز کون ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ جواب دیا۔اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معززکون ہے، قرآن مجید میں یہ بات اس طرح بیان ہوئی ہے:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ.(الحجرات۴۹: ۱۳)
’’اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘
۲۔ جب لوگوں نے بتایاکہ ان کا سوال اصلاً وہ نہیں تھا جس کا جواب دیا گیاہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندانی مرتبے کے حوالے سے جواب دیاکہ یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ معزز ہیں، کیونکہ ان کے خاندان میں مسلسل چار نسلوں تک نبوت رہی ہے۔ یوسف علیہ السلام خود بھی نبی تھے، ان کے والد یعقوب علیہ السلام بھی نبی تھے، ان کے دادا اسحق علیہ السلام بھی نبی تھے اور ان کے پردادا ابراہیم علیہ السلام نہ صرف یہ کہ اللہ کے نبی تھے، بلکہ اللہ نے ان کو اپنا دوست بنایاتھا۔ ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کی دوستی کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح سے ہے:
وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلاً.(النساء ۴: ۱۲۵)
’’اوراللہ نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا۔‘‘
۳۔ پوچھنے والوں نے جب یہ وضاحت کی کہ ان کاسوال خاندانی مرتبے کے حوالے سے بھی نہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پھراس پہلو سے جواب دیاہے کہ اہل عرب میں سے صلاحیت کے اعتبارسے کون سب سے زیادہ معزز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلوسے جوجواب دیاہے، اس کامطلب یہ ہے کہ اخلاقی اعتبار سے لوگوں کی مثال سونے اور چاندی کی کانوں کی طرح ہے کہ جس طرح چاندی، خواہ کتنی ہی عمدہ کیوں نہ ہو،وہ سونے جیسی نہیں ہوسکتی ،اسی طرح لوگوں میں بھی کوئی سونے کی طرح ہے اور کوئی چاندی کی طرح اور سونے جیسی صلاحیتوں والا آدمی اسلام لانے کے بعد بھی سونا ہی رہے گااور چاندی جیسی صلاحیتوں والا آدمی اسلام لانے کے بعد بھی چاندی ہی رہے گا، تاہم دین کی سمجھ بوجھ وہ چیز ہے کہ جس سے لوگوں کی صلاحیتوں کے استعمال کارخ تبدیل ہوتاہے اورانھیں اس بات کی رہنمائی ملتی ہے کہ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو کس بہترمقصد کے لیے بروے کار لاناہے۔
۱۔ یہ روایت اپنی اصل کے اعتبار سے بخاری، رقم ۳۱۷۵ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پرنقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم۳۱۹۴، ۳۲۰۳، ۳۳۰۱، ۳۳۰۴، ۳۳۰۵، ۳۳۹۴، ۴۴۱۲؛ مسلم، رقم ۲۳۷۸، ۲۵۲۶، ۲۶۳۸؛ ابن حبان، رقم۹۲، ۶۴۸، ۵۷۵۷؛ سنن الکبریٰ، رقم۱۱۲۴۹؛ دارمی، رقم ۲۲۳؛احمدبن حنبل، رقم ۷۴۸۷، ۷۵۳۴، ۹۰۶۸، ۹۴۰۲، ۹۵۶۴، ۹۶۵۱، ۱۰۳۰۰، ۱۰۳۰۱، ۱۰۳۰۲، ۱۰۴۷۵، ۱۰۸۰۱، ۱۰۹۶۹، ۱۰۹۸۸، ۱۵۱۵۲؛ ابویعلیٰ، رقم ۶۰۷۰، ۶۴۷۱، ۶۵۶۲؛ حمیدی، رقم ۱۰۴۵؛ عبدالرزاق، رقم ۲۰۶۴۱؛ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۱۹۱۹۔
۲۔ ’أکرمہم‘(ان میں سے سب سے زیادہ معزز)کے الفاظ بخاری، رقم ۳۱۹۴میں روایت ہوئے ہیں۔
۳۔ ’عند اللّٰہ‘(اللہ کے نزدیک)کے الفاظ بخاری، رقم ۴۴۱۲میں روایت ہوئے ہیں۔
۴۔ لفظ ’للّٰہ‘(اللہ کے معاملے میں)بخاری، رقم ۳۲۰۳میں نقل ہواہے۔
۵۔ ’فأکرم الناس‘(تولوگوں میں سے سب سے زیادہ معزز)کے الفاظ بخاری، رقم ۳۱۹۴میں روایت ہوئے ہیں۔
۶۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم۳۱۹۴میں ’تسألون‘( تم پوچھ رہے ہو)کے بجائے ’تسألوننی‘(تم مجھ سے پوچھ رہے ہو)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم۳۱۹۴میں ’فعن معادن العرب تسألوننی‘(تو تم مجھ سے عرب کی کانوں کے بارے میں پوچھ رہے ہو)کے بعد ’قالوا: نعم‘(لوگوں نے کہا:ہاں )کے الفاظ کا اضافہ ہے۔
۷۔ ’الناس معادن، کمعادن الفضۃ والذہب‘(لوگ کانوں کی طرح ہیں۔سونے اور چاندی کی کانوں کی طرح)کے الفاظ مسلم، رقم۲۶۳۸میں روایت ہوئے ہیں۔
ابن حبان، رقم۹۲میں ’الناس معادن‘(لوگ کانوں کی طرح ہیں)کے بعد ’فی الخیر والشر‘(اچھائی اور برائی کے معاملے میں)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۸۔ بعض روایات مثلاً بخاری، رقم۳۲۰۳میں ’الناس معادن، خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام‘(لوگ کانوں کی طرح ہیں، ان میں سے جو دورجاہلیت میں بہترین ہوں گے، وہی دوراسلام میں بھی بہترین ہوں گے)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں، جبکہ بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۹۲میں ’الناس معادن فی الخیر والشر، خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام‘(لوگ اچھائی اوربرائی کے معاملے میں کانوں کی طرح ہیں، ان میں سے جو دورجاہلیت میں بہترین ہوں گے، وہی دوراسلام میں بھی بہترین ہوں گے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً سنن الکبریٰ، رقم۱۱۲۴۹میں ’خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام‘(ان میں سے جو دورجاہلیت میں بہترین ہوں گے، وہی دوراسلام میں بھی بہترین ہوں گے)کے بعد ’فإن‘(چنانچہ) کے لفظ کا اضافہ ہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم۳۱۹۴میں ’خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام‘(ان میں سے جو دورجاہلیت میں بہترین ہوں گے، وہی دوراسلام میں بھی بہترین ہوں گے)کے بجائے ’خیارکم فی الجاہلیۃ خیارکم فی الإسلام‘(تم میں سے جو دورجاہلیت میں بہترین ہوں گے، وہی دوراسلام میں بھی بہترین ہوں گے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم۶۴۸میں ’خیارکم خیارکم فی الإسلام‘(تم میں سے بہترین اسلام لانے کے بعد بھی بہترین رہیں گے)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۹۔’فی الدین‘(دین میں)کے الفاظ احمدبن حنبل، رقم ۹۰۶۸میں روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۲۵۲۶میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے گئے کسی سوال کاذکر نہیں ملتا، بلکہ روایت سادہ طور پر اس طرح نقل ہوئی ہے:
تجدون الناس معادن. فخیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام إذا فقہوا. تجدون من خیر الناس فی ہذا الأمر أکرہہم لہ قبل أن یقع فیہ وتجدون من شرار الناس ذا الوجہین الذی یأتی ہؤلاء بوجہ وہؤلاء بوجہ.
’’تم لوگوں کوکانوں کی طرح پاؤگے۔ چنانچہ ان میں سے جو دور جاہلیت میں بہترین تھے، وہی دوراسلام میں بھی بہترین ہوں گے، اگر وہ دین میں سمجھ بوجھ پیداکرلیں۔ تم(حکمرانی کے)اس معاملے میں سب سے بہتر آدمی اس کو پاؤ گے جواسے سب سے زیادہ ناپسند کرتا ہو،اس سے پہلے کہ وہ اس میں جاپڑے۔ اور لوگوں میں سے سب سے برے آدمی تم منافقوں کوپاؤ گے جوبعض لوگوں میں ایک چہرہ لے کر آئیں اور بعض میں دوسرا چہرہ لے کر۔‘‘
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۳۳۹۴ میں یہ محسوس ہوتاہے کہ راویوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف روایتوں کو غلطی سے ایک جگہ جمع کردیا ہے۔ یہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے:
لا تقوم الساعۃ حتی تقاتلوا قوما نعالہم الشعر وحتی تقاتلوا الترک صغار الأعین حمر الوجوہ ذلف الأنوف کأن وجوہہم المجان المطرقۃ. وتجدون من خیر الناس أشدہم کراہیۃ لہذا الأمر حتی یقع فیہ. والناس معادن: خیارہم فی الجاہلیۃ، خیارہم فی الإسلام ولیأتین علی أحدکم زمان لأن یرانی أحب إلیہ من أن یکون لہ مثل أہلہ ومالہ.
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ تم ایک ایسی قوم سے نہ لڑوجن کے جوتے اون کے ہوں گے اور جب تک تم ترکوں سے نہ لڑو جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی، چہرے سرخ ہوں گے اور ناک چپٹے گویا کہ ان کے چہرے ہموار ڈھالوں کی طرح ہوں گے۔ تم دیکھو گے کہ سب سے اچھا آدمی (حکمرانی کے )اس معاملے کو سب سے زیادہ ناپسند کرے گا،یہاں تک کہ وہ اس میں جا پڑے۔اور لوگ کانوں کی طرح ہیں۔ ان میں سے جو دور جاہلیت میں بہترین ہوں گے، وہی دوراسلام میں بھی بہترین ہوں گے۔ ایک ایسا وقت آئے گا جب تم میں سے کوئی یہ چاہے گا کہ وہ مجھے دیکھ لے بجائے اس کے کہ اس کاخاندان اوراس کا مال دوگنا ہو جائے۔‘‘
اسی طرح بعض دوسری روایات، مثلاً مسلم، رقم۲۶۳۸میں بھی یہ محسوس ہوتاہے کہ راویوں نے دومختلف روایتوں کو جمع کردیاہے۔یہ روایت اس طرح نقل ہوئی ہے:
الناس معادن کمعادن الفضۃ والذہب. خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام إذا فقہوا. والأرواح جنود مجندۃ، فما تعارف منہا ائتلف وما تناکر منہا اختلف.
’’لوگ چاندی اور سونے کی کانوں کی مانند ہیں۔ جو دور جاہلیت میں سب سے اچھے تھے، وہ دور اسلام میں بھی سب سے اچھے رہیں گے، اگر وہ سمجھ بوجھ پیدا کر لیں۔اور انسانی ارواح (اس دنیا میں آنے سے قبل) جمع شدہ لشکر(کی مانند)تھیں۔ جن کی (وہاں) ایک دوسرے سے انسیت ہوئی، وہ (یہاں بھی) آپس میں مانوس ہیں اور جو(وہاں) ایک دوسرے کے لیے نامانوس تھیں، ان کی شخصیتوں میں (یہاں بھی) اختلاف ہے۔‘‘
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
________________